مرتبہ: صائمہ نور
عصر حاضر میں ذہنی،فکری اور سائنسی و فلسفیانہ حملے کے بعد جذباتی سطح پر باطل کی طرف جمیع امت مسلمہ پر بالعموم اور نوجان نسل پر بالخصوص جو حملے کیے جارہے ہیں ان سے دفاع اور حفاظت کے لیے درجہ ذیل نکات پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔
یہ مسلمہ امر ہے کہ جذباتیت کی سطح پر کیے جانے والے حملے پہلے حملوں سے شدید تر اور اپنے اثرات کے اعتبار سے زیادہ گہرے اور دور رس ہیں۔ یوں تو ہر شخص کے اندر جذبات کا ایک جہاں پنہاں ہوتا ہے۔ جذبات اندھے ہوتے ہیں جو اپنی تسکین کے لیے سامان چاہتے ہیں۔ ہر شخص کو ان امور میں امتیاز کا شعور نہیں ہوتا وہ تو بس جذبات کا اسیر ہوتا ہے اور اس کا مطمع نظر ہر حال میں جذبات کی تسکین ہوتا ہے جبکہ یہ امتیاز شعور کی سطح پر حاصل ہوتا ہے۔
برائیوں سے کیونکر بچا جائے؟
سوال یہ ہے کہ ان غلط میلانات و ترغیبات کی دلدل سے نوجوان نسل کو کیونکر روکا جاسکتا ہے؟ شعور جو انسان کو ان دلدلی رستوں کی طرف جانے سے باز رکھ سکتا تھا۔ اس پر جذبات کی حکمرانی نے اس کی صلاحیت کے اس جوہر کو ضائع کرکے بیکار کردیا ہے اور جیسا کہ ارشاد ربانی:
اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌ م بِالسُّوْٓئِ.
(یوسف، 12: 53)
’’(کیونکہ) نفس تو (انسان کو) برائی ہی سکھاتا ہے۔‘‘
یہ نفس تو اسے کشاں کشاں برائیوں کی طرف لے جاتا ہے اور اگر اسے اس کی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو وہ بدی کے لیے انسان کے دل میں زبردست داعیہ اور کشش کا سامان پید اکردیتا ہے۔ نفس کی اس حالت پر بڑی محنت و ریاضت مجاہدے اور مشقت کے بعد قابو پایا جاسکتا ہے۔
نفس کے لیے مجاہدہ و مشقت انتہائی تکلیف دہ امر ہے۔ خارجی سازگار ماحول اسے بدی کی طرف کھینچتا ہے تو باطنی شعور اسے صراط مستقیم سے بھٹکا کر دین سے دور لے جاتا ہے۔سماجی ڈھانچہ بھی اسے برائی کی طرف مائل کرتا ہے۔ ایسی صورت میں نوجوان کو دین سے کیونکر قریب کیا جائے۔
نسل نو کی دین سے بےرغبتی کا سبب:
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ محبوب حقیقی سے لو لگانے والے اب خال خال رہ گئے ہیں۔ یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور نئی نسل کے دین سے تنافر اور بے رغبتی کے کیا اسباب ہیں؟ کیا ایسا تو نہیں کہ ہماری دکان میں وہ مال ہی نہیں جس کی طلب کے لیے خریدار دور دور سے کشاں کشاں آیا کرتے تھے۔
گو کہ نماز پنجگانہ بھی ادا کی جاتی ہے، تلاوت بھی ہوتی ہے محفل ذکر میں اللہ کی گونج بھی سنائی دیتی ہے مگر وہ ذوق و شوق اور لذت نصیب نہیں۔
قرآن حکیم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
اَ لَا بِذِکْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ.
(الرعد، 13: 28)
’’سن لو اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔‘‘
یہ فرمان خداوندی سب کو خبردار کرکے آگاہ کررہا ہے کہ ذکر الہٰی سے ہی دلوں کو سکون کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ قرآن کا وعدہ سچا ہے مگر سکون دل کہاں ملتا ہے؟ اس کی تلاش میں کوئی مسجد کی طرف لپکتا ہے کہ اس کی مضطرب روح سکون آشنا ہوجائے مگر وہاں تکفیر کے کارخانے میں ایک دوسرے کو کافر بنانے کی فکر کی جارہی ہوتی ہے۔
یہاں یہ سوال مسلسل قلب و ذہن کو پریشان کرتا ہے نئی نسل کی بڑھتی ہوئی بے چینی اور اضطراب کا کیا علاج کیا جائے۔
اگر سکون اور اطمینان مفقود ہوں اور روح میں اضطراب اور بے چینی ہو تو نماز، روزہ اور اللہ کی یاد میں دل نہیں لگتا اور کوئی مسجد کے اندر قدم رکھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عصر حاضر کے مسلمان کے ایمان و اسلام کو جذباتی سطح کے حملے سے بچانے کے لیے ہٹ دھرمی اور انانیت کو چھوڑ کر تمام توانائیاں یکجا کی جائیں تاکہ اس طوفان کے آگے بند باندھا جاسکے جو ہماری پوری نسل کو لپیٹ میں لینے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔
یاد رہے کہ جب جذباتی سطح پر بگاڑ واقع ہوجائے تو اس کا علاج کتابیں پڑھنے سے نہیں ہوگا۔ کتابیں تو شعور پر دستک دیتی ہیں لیکن جب ذہن میں انتشار و پراگندگی ہو تو کتب و تصانیف میں لکھی ہوئی باتیں دل میں نہیں اترتیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں نوجوانوں کے دلِ مضطرب کو کیسے تشنہ طلب کیا جاسکتا ہے۔ اس کا جواب ہم قرآن سے تلاش کرتے ہیں۔
قرآن مجید نے مخاصمہ کے علم کے ذریعے دلیل سے عیسائیت اور یہودیت کے گمراہ عقائد کا رد کیا۔ قرآن نے ایک سے زیادہ خدا ہونے کے دعوے کو دلیل سے یوں رد کیا:
لَوْ کَانَ فِیْهِمَآ اٰلِهَةٌ اِلاَّ اللهُ لَفَسَدَتَا.
(الانبیاء، 21: 22)
’’اگر ان دونوں (زمین و آسمان) میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتے تو دونوں درہم برہم ہوچکے ہوتے۔‘‘
یہ کتنی مضبوط دلیل ہے کہ اگر ایک سے زیادہ خدا ہوتے تو زمین و آسمان کا یہ سارا نظام درہم برہم ہوچکا ہوتا اور اس کائنات کا وجود صفحہ ہستی سے ناپید ہوجاتا۔
قرآن حکیم ہر بات دلیل سے کرتا ہے۔ کہیں من و سلویٰ کے ذکر سے ذہنوں کو ان نعمتوں کی طرف متوجہ کیا ہے جو خدا نے اپنے پیارے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت پر نازل کیں۔ ان تذکار سے مقصود یہ ہے کہ گنہگار اور نافرمان رشد و ہدایت سے بہرہ ور ہوجائیں۔ قرآن کا اسلوب بیان یہ ہے کہ جنت کے باغات اور انعام و اکرام کا ذکر کرکے ان لوگوں کو جو دنیا میں ان نعمتوں سے محروم ہیں ان کی طرف متوجہ کیا جائے تاکہ وہ اخروی زندگی میں ان کے حصول کے لیے اعمال صالحہ کی طرف راغب ہوسکیں۔
قرآن اپنے بندوں کے طبائع کی مناسبت کے لحاظ سے بات کرتا ہے۔ قرون اولیٰ کے اولیاء کرام میں ایک کامل ولی اللہ کا قصہ مذکور ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنی شان کے حسب حال اپنے اس مقبول بندے سے پوچھا کہ کیوں روتا ہے۔ کیا جنت کی طلب ہے؟ یہ بات ہے تو جا میں نے تجھے اپنی جنت دے دی۔ وہ بندہ ا ٓنکھ اٹھا کر عرض کرتا ہے مولا! جنت کی طلب نہیں۔ بارگاہ ایزدی سے پھر پوچھا جاتا ہے کہ کیا دوزخ کا خوف رونے کا سبب ہے؟ اگر ایسا ہے تو جا تجھے دوزخ سے آزاد کردیا۔ وہ بندہ پھر عرض پیرا ہے کہ نہیں مولا! میرے رونے کا سبب دوزخ کا خوف بھی نہیں۔ بار حریم ناز سے پھر سوال ہوتا ہے کہ اے میرے بندے تیرے رونے کا سبب کیا ہے؟ وہ خدا کا لاڈلا بندہ عرض کرتا ہے میرے آقا و مولا! تو خوب جانتا ہے کہ تجھ سے میرے تعلقات کی بنیاد جنت اور دوزخ کا کوئی تصور نہیں تھا اور میں ساری عمر تیری رضا حاصل کرنے کے لیے مصروف عبادت رہا۔ مجھے تو صرف اس بات کا غم رہا کہ کیا پتہ مجھے تیرا دیدار فرحت آثار نصیب ہوگا یا نہیں۔
کیا دین میں جذباتیت مفقود ہوگئی ہے:
قوم اپنے دینی قائدین سے دین کا وہ تصور چاہتی ہے جس سے کافر بھی بے اختیار مسلمان بننے پر آمادہ ہوجائیں۔ افسوس صد افسوس کہ یہاں سوائے نفرتوں اور کدورتوں کے کچھ ہاتھ نہیں آتا جبکہ مذہبی قیادت کے پاس الا ماشاء اللہ سوائے نفرت، عدم رواداری اور انتہا پسندی کے اور کچھ نہیں۔
یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ لوگ مذہبی قیادت سے مایوس کیوں ہوتے جارہے ہیں۔ کیا بات ہے کہ مذہب کا نام لینے والے کسی کا دل نہیں موہتے؟ کیا دین کی باتوں میں کشش اور جاذبیت باقی نہیں رہی؟ نہیں ایسی بات نہیں۔ اگر معروضی سطح پر اس صورت حال کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ خود مذہب اور دین کا پرچار کرنے والے اپنی کشش اور جاذبیت کھو بیٹھے ہیں۔
جبکہ قرآن مختلف مقامات پر موقع کی مناسبت سے مخاطب کی نفسیات کو سامنے رکھ کر خطاب کرتا ہے۔اگر کوئی ڈر کر سیدھے راستے پر جانے کا اہل ہے تو اسے دوزخ اور ہاویہ کے عذاب الیم کی بات سناتا ہے۔ اگر کوئی نعمتوں کا گرویدہ ہے تو اس سے جنت کے باغات اور حورو قصور کا ذکر کرتا ہے۔
طریقِ تربیت نبوی ﷺ کی ضرورت:
یہ بات مسلمہ اور طے شدہ ہے کہ ہماری نئی نسل نے دین کو نہیں بلکہ دین کے ان نام نہاد علم برداروں کو مسترد کیا۔ ان شاء اللہ وطن عزیز تا قیام قیامت دین اور مذہب کو کبھی مسترد نہیں کیا جائے گا۔ نوجوانوںکے سیرت و کردار سے پاکیزگی اور عفت و طہارت چھن گئی ہے اور اس کی جگہ عیش کوشی نے لے لی ہے۔ اس میں قصور ان نوجوانوں کا نہیں بلکہ ہمارا ہے جو ان کے مرض کا صحیح طریقے سے علاج نہیں کرتے۔
آنحضور ﷺ نے مثالی تربیت اور حکمت و تدبر سے سر سے پائوں تک گمراہ اور بھٹکے ہوئے انسان کی رغبت، چاہت اور دگر گوں احوال کی سمت کو اس طرح بدل دیا کہ اس کے قلب و ذہن اور زاویہ نگاہ میں ہمہ جہت انقلاب برپا ہوگیا۔ اس نبوی طریق کار کی پیروی ہر دور میں اولیائے کرام،صوفیائے عظام اور اہل اللہ نے کی اور لکھوکھہا انسانوں کی زندگیوں کو انقلاب آشنا کردیا۔ آج بھی اسی طریق تربیت کی ضرورت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰـٓاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّـآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا.
(الاحزاب، 33: 45)
’’اے نبِیّ (مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
معاشرے میں انقلاب کیونکر ممکن ہے؟:
اگر آج ہم اپنے بگڑے ہوئے معاشرے میں انقلاب لانا چاہتے ہیں تو ایسا صرف مصطفوی طریق تربیت کو اپنا کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ لوگوںکو رشد و ہدایت کے مراکز کی طرف لانے کے لیے لازمی ہے کہ وہ دنیا و ماسواکو بھول کر یاد محبوب میں محو ہوجائیں اور ہر چیز سے بیگانہ ہوکر اسی کی لذت و حلاوت میں ڈوب جائیں۔ آج روح کے مضراب کے تاروں کو ہلانے کی ضرورت ہے۔ جب تک ان تاروں کو چھیڑ کر الوہی ذکر کے نغمے نہیں الاپے جائیں گے اور اللہ کی ضربیں دل پر پیہم نہ لگائی جائیں گی اس زنگ کا دور ہونا ممکن نہیں۔
حضور ﷺ کی نعتوں کے سُر سے سُر ملائے جائیں، شب بیداریوں کا اہتمام کیا جائے، حضور اکرم ﷺ کی مدحت سرائی کی محفلیں منعقد کی جائیں اور لحن دائودی کی سرمدی لے میں ذکرِ محبوب کو بلند سے بلند تر کیا جائے۔ سینوں میں عشق کی ایسی آگ بھڑکادی جائے جو اس حد تک سوز پیدا کردے کہ اس کے بغیر یوں کیفیت ہوجائے جس طرح پانی کے بغیر مچھلی کی ہوتی ہے۔
اب اگر کوئی ہر مریض کا علاج مرض کی نوعیت سے قطع نظر ایک ہی دوائی سے کرنا شروع کردے تو اس سے مریض کو بجائے فائدے کے نقصان پہنچنے کا حتمال ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات غلط دوائی کے استعمال سے جان بھی جاسکتی ہے۔
اگر کسی مریض کو عمل کا عارضہ لاحق ہو تو اس کے لیے نسخہ عمل تجویز کیا جائے گا تاکہ ان کوتاہیوں اور کمزوریوں پر قابو پایا جاسکے۔ لیکن اگر کوئی مریض عشق ہے تو اس کا علاج عارض و گیسو اور حسن و سراپائے مصطفی ﷺ کا ذکر جمیل چھیڑ کر کیا جائے گا اور اس کے جذبہ عشق کی تسکین کے لیے حضور ﷺ کے دیدار فرحت آثار کی باتیں کی جائیں گی۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ باطل کے حملوں سے دفاع کے لیے عشق الہٰی اور عشق مصطفی ﷺ کے سوز و ساز سے ایمانی جذبے کو استحکام و دوام عطا کیا جائے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، ستمبر 2021ء
تبصرہ