حضو ر شیخ الاسلام کا حسن صوت

زاہدہ اظہر

آج سے مدّتوں پہلے عا لمِ بالا پہ ایک نوُرانی محفل سجی۔ عالمِ ارواح کے با سی ایک عرصے سے اِس لمحے کے مُنتظر تھے کہ کب جلوہ آرائی نصیب ہو اور اِذنِ تکّلم ملے۔ بالآخر انتظار ختم ہوا اور ’’حُسنِ ازل‘‘ نے نقاب کُشائی فر مائی۔ ہر طرف ایک بھو نچال سا آگیا۔ مستی و بیخودی نے وجدانی کیفّیت پیدا کر دی۔ (مگر ادب لازم تھا لہذا جلد ہی سب سنبھل کر ہمہ تن گوش ہو گئے) چند لمحات کے بعد مالکِ خلق و امر، قسّامِ ازل، اور مختارِ کُن فیکُون کی مدُھ بھری آ وازنے ہر سا مع کی سما عت کو شرفِ لمس بخشا۔

اَلَستُ ِبرَبِّکُم.

سب نے جواب دیا بَلیٰ (تُو ہی ہما را ربّ ہے)۔

(الاعراف: 172)

محبوبِ حقیقی کی مدھ بھری آ واز کی چا شنی، شیرینی اور تاثیر کو ہر باسی نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے اندر جذب کر لیا۔ (محفل بر خا ست ہو گئی) پھر عالمِ ناسُوت میںسلسلہء آد میّت کاورود شُروع ہوا۔ ہر خاص و عام اپنے اپنے وقت پر آیا، دُنیا کی اس سیج پر اپنا کردار ادا کیا، اور دوبارہ واصل با لحق ہوا۔ مگر ایک بات مسّلم ہوئی کہ وعدہء الست میں جو جتنا اچھا سا مع تھا اور اُس نے دُنیا میں اُس کلامِ اوّل کی چاشنی کو جتنا زیادہ جذب کیااُسے اُتنی ہی زیادہ ’’خُوش نَوائی، ، کی نعمت نصیب ہوئی۔ زمانہ خرامِ ناز کرتا کرتا دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل ہوا۔ جزیرۃُالعرب اور گرد و نواح کے خوش قسمت ترین باشندوں کو ’’حُسنِ مُجسّمـ‘‘ ’’شاہِ خُوباں، ، جلوہء ذاتِ جمیل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حُسنِ صَوت نے اپنا گرویدہ بنا لیا حُسنِ اتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحوں میں اُتر جانے والی دِلنشیں آواز پر یقیناً بہت کُچھ لکّھا اور بیان کیا جا چُکا ہے اور قیامت تک کیا جا تا رہے گا۔ ان شاءاللہ

مالکِ احسن الصوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دِیگر فیوضات کی طرح آواز کی خُوبصُورتی کا فیض بھی اُمت کے حصے میں آیا۔آئمہء اطہار، صحابہ و صحابیات، اولیائے عظّام، عُلمائے حق، مُرشدین، کاملین اور مُجدّدین خصوصاً اس فیض کے امین ہوئے۔ تاکہ خدمتِ دینِ مبین کی کا وشوں میں اِس وصف سے بھی فائدہ اُ ٹھا یا جا سکے۔

زمانہ کروٹیں بدلتا بیسویں صدی کے نصف آخرپر آن پہنچا۔ہُو ہُو کی سَرمست ضربوں سے گُونجنے والی بستئ باہو کے قُر ب و جوار میں ایک معزّز ماہنی سیال گھرانہ آبادتھا۔ جذب و عشق سے سَرشاررہنے والے اِس گھرانے کے مالِک صُو فیء باصفا، فریدِمِلّت حضرت ڈاکٹر فریدالدین قا دری اور ما لِکہ، صُو فیہ، کنیزِ زہرا، حضرت خورشید بیگم کو اللہ ربُّ العّزت نے 19 فروری 1951ء کو لباسِ بشریّت میں ایک سعید رُوح عطا فرمائی۔یہ خاص ’’عطائے مُحمّدی، صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی۔ نومولود کا نام ’’طاہر‘‘ بارگہِ قریبِ انفاس المؤ منین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے ہی عطا ہو چکا تھا۔ حضرت فرید الدین رحمۃ اللہ علیہ سراپا شُکر بن کر زیادہ تا خیر کیے بغیر آگے بڑھے تا کہ نغمہء لاہوتی پڑھا جائے۔(مبادا نو مولود عالمِ بالا سے عالمِ نا سُوت میں آمد پر گھبرا نہ جائے)۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر کی رسیلی صدا سُن کر مُحمدطاہر کے چہرے پر دل آویز مُسکراہٹ پھیل گئی اور اُس نے تا ئیداً آنکھیں بھینچ لیں۔

وقت گزرتا گیا معصوم طا ہر کے چہرے پر سعادت مندی کے سا تھ ساتھ عبقر یّت کے آثار بھی نمودار ہو نے لگے۔ البّتہ اکثر و پیشتر ایک عجیب سی اُداسی چہرے پر ہُویدا ہوتی۔ آشنائے راز حضرت فرید سمجھ جاتے۔ آپ طاہر کو گود میں اُٹھاکر اپنی سوزو گُداز میں ڈوبی آوازمیں مولی صل و سلم دائماً ابداًً علی حبیبک خیر الخقِِ کلھم کا ورد سُنانے لگتے۔ اس سے اُس کی طبیعت میں سکون آجاتا۔ دن گزرتے گئے محمّد طاہر ابھی لڑکپن میںہی تھے کہ اپنی تعلیمی و تربیتی مصروفیات کے ساتھ روحانی تشنگی کا بھی سامان کرنے لگے۔ اکثر َمیلوں دُور بَن، بِیلوںمیں تنہا نکل جاتے۔ وہیں پر آپ نے ایک بَن با سی نِیم مجذوب جو اپنی عمر کی آخری منزلیں طے کر رہے تھے کو شّدت سے اپنا مُنتظر پایا۔ وہ آپ کو کمال محبّت سے اپنی آغوشِ عاطفت میں لے لیتے رازو نیاز کی کئی باتیں ہوتیں۔ یہ وہی بزرگ تھے جو مُصحفِ پاک کی تلاوت کرتے تو دریا کا مُتمّوج پانی سکوت میں آجاتا، طیّور بلندی سے اُتر کر اُنکے گرد حلقہ باندھ لیتے (حوالہ، حج کی سعا دت حا صل کرنے والوںکے اعزازمیں محفل مرکز منہاج القرآن 2005)۔ یہ بے پناہ محبت لوٹانے والے بزرگ آنکھوں ہی آنکھوں میں فرماتے: ’’اے پیارے طاہر! میری پُر تاثیر آواز اگر متمّوج دریا کو سکوت بخشتی ہے تو تیری درد و سوز کی حامل آواز پُرسکوت دریا کو تمّوج بخشے گی، تیری تلاوتِ بیتاب دلوں اور روحوں کی بیتابی کو دوبالا کر دے گی تیری آواز ہی آخرش اُنکے سوز کا مرہم بنے گی، تشنگی کو سیرابی میں بدل دے گی۔ کیو نکہ تیرے پاس لحنِ داؤدیؑ کے ساتھ ساتھ لحنِ محّمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی بے پناہ فیض موجود ہے۔ خوش رہ پیا رے طاہر! خوش رہ۔‘‘ الست بربکم والی شیریں آواز من ہی من میں بے چینی کو بڑھا دیتی تو پُکار پُکار کر اثبات کرنے کو جی چاہتا لہذا محمد طاہر نے اسکا ایک اور حل نکالا۔ آپ گھر سے دُور دریائے چناب کے کنارے چلے جاتے محبوبِ ازلی کے ہجرو فراق کا سارا درد آواز میں دَر آتا۔ یُوں آپ کے نا لہ و فریاد کو سُن کر پُر سکون دریا میں طغیانی آجا تی، آپ کی پُرسوز آواز سے آبی حیات بھی متاثّر ہوئے بغیر نہ رہتی۔ کافی عرصے تک یہ شُغل جاری رہا۔ آپ کے رہبر والدِ گرامی بڑی لگن کے ساتھ آپ کی تربّیت فرما رہے تھے، اُن کی نظرِ کیمیا ہمیشہ آپ کو منزل تک پہنچانے میں مددگار ہوتی۔ دینی و دنیوی تعلیم بڑے زور و شور سے جاری تھی کہ یادِ محبوب ِحقیقی کی تڑپ نے بڑی شّدت سے بے چین کرنا شُروع کردیا، لمحہ بہ لمحہ بیقراری بڑھتی گئی، آنسوؤں کے سَیلِ رواں نے مجبور کر دیاکہ والدِ بزرگوار سے مُدّعا بیان کریں گویا ہوئے ’’مہربانی فرما کر مجھے معاف فرما دیں، مجھے عُزلت نشینی کا اِذن چاہیے جہاں میں ہُوں اور میرا شیوہء غم‘‘

دِل ڈھو نڈتا ہے پھر وہی فُرصت کے رات دِن
بیٹھیں رہیں تصورِ جاناں کیے ھوئے

حضرت فرید نے بڑی ملاحت سے فرمایا:

’’طاہر صاحب ! گوشہ نشیں ہو کر فقط ذاتی تسکیں کا سا مان کرنا بہت آسان ہے مگر یہ شیوہء مردانِ وفا نہیں، اپنے قلب و روح کی کیفّیات کے گرد ضبط کا مضبوط بند باندھ کر صحرائے حیات کی تَلخیوں سے نبَرد آزما ہونا اور خلقِ خُدا کو بھی آشنائے راز کرنا ہی اصل مردانگی ہے۔ آپ کی ’’تجدّدِ دیں‘‘ کی ذمہ داری جو آپ کو عطا کر دی گئی ہے اِسکی تکمیل کے لیے عرق ریزی، جانفشانی اور جُہدِ مسلسل میں ہی وصل ہے، یہی منشائے محبوب ہے، یہی آپ کی منزل ہے۔‘‘

( ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زندگی کا سفر، خطاب: 2001)

باپ، بیٹے نے مل کر بارگاہِ ا یزدی سے کا مِل ضبط کی دُعائیں مانگنا شروع کردیں۔ تاکہ یکسُوئی کی دولت سے خدمتِ اُمتِ مُحمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فریضہ سَر انجام دِیا جاسکے۔ د ھیرے دھیرے دُ عائیں رنگ لائیں اور محمد طاہر صاحب کی طبیعت میں ٹھہراؤ آنا شروع ہوگیا۔ ضبط تو کامل ہوا مگر بے کلی ایک کسک کارُوپ دھار کر مَن میں ضرور موجود رہی۔ جِس کا اظہار آپ کی تقا ریر و تحا ریر میں بڑی شّدت سے ہونے لگا۔ اِس ضبط نے آواز کی تاثیر میں بھی بے پناہ اِضافہ کردیا۔ تاہم ما ہ و سال کی آمد و رفت جاری رہی محمد طاہر بڑی تَندہی سے اپنے مشن پر ڈٹ گئے۔ تاآنکہ آپ مفکّرِ اسلام، قائدِ انقلاب، مقّررِ شعلہ بیان، نابغہء عصر، دانشِ عصرِ حاضر، عالمی سفیرِ امن، شیخ الاسلام اور مجدّدِ رواں صدی جیسے پُر عظمت القابات سے ملقب ہوئے۔

مؤقر قارئین! جب دردوغم، ہجر و فراق، اور سوز ونیاز مَن ہی مَن میں پکتا رہتا ہے تواِسکا مثبت اثرانسان کی آواز ضرور بہ ضرور قبول کرتی ہے۔ اِس سے آواز کی نزاکت و ملا ئمت، دھیمے پَن، سوزو گداز اور سُر و ساز میں حد درجہ نیر نگی آجاتی ہے۔ اِسی طرح آسودگئ نفس بھی آواز میں چہک پیدا کرتی ہے۔ سُننے والا اِس کا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے۔ یقیناً آوازیں وَہبی طور پر بھی ترّنم و تغّنم کی حامل ہوتی ہیں مگر کَسبی طور پر ھّم، غم اور خوشی بھی اپنی کار فر ما ئی ضرور کرتی ہے۔

ہما رے ممدوح شیخ الاسلام کو اللہ ربّ العزت نے وہبی اور کسبی دونوں طریق سے ’’حُسنِ صوت‘‘ کا تحفہ خُوب خُوب عطا فرمایا ہے۔ کیونکہ یہ قانونِ قدرت ہے اور تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ جس جس کو بھی امت کی قیادت کاشرف حاصل ہونا تھا اُسے اُس دور کے تقاضوں کے مطا بق تما م ظا ہری و باطنی محا سن سے آراستہ کیا گیا اور اِن مقبولانِ بارگاہ نے ان محاسن کی خوب حفاظت بھی فرما ئی۔ شیخ الاسلام جب نغمہء لاہوتی کلامِ مجید کی تلاوت فرماتے ہیں تو لگتا ہے ایک عاشقِ سوختہ جاں اپنے محبوب کے ہجر کے نغمے الاپ رہا ہے۔ مگر یہ عاشقِ زار تلاوت کی روانی میں بڑھ کر کبھی لاڈ بھرے انداز میں محبوب سے شرفِ ہم کلامی بھی کرلیتا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ اپنے سامعین کوبھی قُربِ محبوب کی لذّت سے آشنا کر دیتا ہے۔ آپ کی خوش الحانی سامعین کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔ لہجے گلو گیر ہو جاتے ہیں۔ مَن کا لاوا خود بخود اشکوں کی برسات بنکر بہنے لگتا ہے۔ خاص طور پر آپ کی سورۃ مریم کی تلاوت دلوں پرگہر ا اثر چھوڑتی ہے۔ حُسنِ قرأت کی آڑ میں رِندانِ میخانہء حق جامِ معرفت پی لیتے ہیں۔ کیونکہ آپ کا باطنی حُسن سمٹ کر حُسنِ قرأت میں آجاتا ہے۔ کئی سال 27 رمضان المُبارک ( لیلۃ القدر) کو صلوۃ التسبیح کی جماعت میں خواص و عام اِس خُوب صورت، پُرکیف تجربے سے ضرور گُزرتے ھیں۔ آپ کے مُتّبعین اکثر و پیشتر آپ کی طرزِ تلاوت کو اپناتے سُنائی دیتے ہیں مگر باطن کی سوختگی کی باز گشت جو پروفیسر کی صدا میں سُنائی دیتی ہے وہ ہر کسی کے نصیب میں کہاں؟ آپ کا اندازِ تلاوت بہت ہی انوکھا جُداگانہ، اور منفرد ہے۔ جِس سے کوئی بھی متاثّر ہوئے بغیر نہیں رہ نہیں سکتا۔

2005 میں جب آپ نے موذنِ رسول حضرتِ بلال رضی اللہ عنہ کی قبرِ انور پر اذان کہی تو منظر دیدنی تھا۔ آپ کی پُر سوز آواز جونہی بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ایک سلسلہء آہ و بکا شروع ہوا جوآخری کلمات کی ادائیگی تک بڑھتا ہی گیا۔ہر کوئی محسوس کر رہا تھا کہ ادائیگی کی تاثیرسے اُس کے باطن کی ظلمت چھَٹ رہی ہے، اُس کے مطلعِ وجود پر ایسی سحر پیدا ہو رہی ہے جس کی سپیدی ہر سُو پھیل گئی ہے۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے سچ فرمایا تھا:

وہ سحر جِس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندہء مو من کی اذاں سے پیدا

قارئین سے درخواست ہے کہ سو شل میڈیا پر ایک بار ضرور اِس ترانہء محبوب کو دِل کے کا نوں سے سُنیں یوں لگتا ہے انسان ماضی کے جھرونکوں سے اذانِ بلالی کی رقّت انگیزی کو محسوس کر رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے چاہنے والے اکثر اپنے نوزائیدہ بچوں کو یہی اذان سُنواتے ہیں تا کہ عشق کی تپش کلما ت کی صورت اِن کے اندر منتقل ہو جائے۔

جب آپ اپنے مخصوص انداز میں طلع البدر علینا مِن ثنیاۃِ الوداع پڑھتے تو لگتا ہے مُشک و عنبر میں دُھلی ہوئی آواز بڑی مسرور ہو کر، تہنیّات کی خیرات لیکر، صدیوں کا سفر طے کرتی ہوئی دیارِ مدینہ میں حبیبِ لبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِستقبال کررہی ہو۔ اور اِختتام پَر آہستگی سے اُس نے روئے نیاز قد مینِ مُصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ رکھ دیا ہو۔ ما ضی قریب میں بہت سے اہلِ دِل مثنوی مو لانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو بڑے ذوق و شوق سے پڑھا اور سُنا کرتے تھے۔ مگرآہستہ آہستہ یہ ذوق ناپید ہوتا گیا۔ تاہم ابھی بھی خال خال یہ رِیت موجود ہے۔ شیخ الاسلام کو اپنے والدِ گرامی سے یہ ذوق بڑا وافر ملا۔ آپ نے 1990ء کی دہائی میں ’’دروسِ مثنوی‘‘ کے نام سے ایک سلسلہ شروع کیا۔ علاوہ ازیں گاہے بگاہے بھی تر بّیتی خطابات میں مثنوی شریف کے حوالے کو ترنُم سے ہی پیش فرما تے ہیں۔ خصوصاً سالانہ عالمی روحانی اعتکاف میں حاضرین و سامعین کو یہ پُر تاثیر کلام سننے کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ قطع نظر عقیدت کے موجودہ دور میں جہاں جہاں سے بھی مثنوی شریف سُننے کو ملے ڈاکٹر صاحب سب پہ فائق نظر آتے ہیں۔ کسی بھی کلام کوجب تک فَن کے ساتھ ساتھ اُسکی ظاہری و باطنی تمام تَر کیفیّات میں ڈوب کر نہ پڑھا جائے اُسکا حق ادا نہیں ہوتا۔ آپ اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہیںمُستزاد یہ کہ آپ قُدرتی طور پر موسیقی کے اسرار و رموز سے بھی گہری واقفیّت رکھتے ہیں۔ اکثر مجا لس میں اہلِ فَن آپ کی اس خُوبی کو سراہے بغیر نہیں رہتے۔ جب آپ مثنوی شریف شروع کرتے ہیں خاص طور پر یہ بَیت:

سینہ خواہم شرحِ شرحِ از فراق
تا بگویم شرحِ دردِ اشتیاق

تو لگتا ہے سننے والے کا اپنا سینہ اس درد بھری آہ کو سُن کر پھٹ پڑے گا کیونکہ سینے میں چھپی ہوئی عشق کی چنگاری دو آتشا ہوجاتی ہے۔ مثنوی شریف پڑھتے ہوئے آپ کی مخصوص لَے دردو سوز سے جس قدر لبریز ہوتی ہے سُننے والے کو مختلف محسوسات دیتی ہے۔ کبھی آپ کی آواز میں ربّنا ظلمنا انفسنا کا اعترافِ عبو دیت مو جود ہو تا ہے۔ کبھی انیّ کنتُ من الظلمین کا عنصر غا لِب ہوتا ہے۔ کبھی اِس میں ربّ ارنی کی مِنّت موجود ہوتی ہے۔ کبھی صدا میں عبداً شکورًا کا عجز جھلکتا ہے۔ بِلاشبہ آپ کی آہ میں حضرت سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا کی آہ کا رنگ جھلکتا ہے تو کبھی سیّدہ سکینہ سلام اللہ علیہا کی ہُوک کا رنگ۔ محسوسات کے ساتھ ساتھ آپ کی نَوا کُچھ تصوّرات کی حامل بھی لگتی ہے۔ یوں کبھی وہ کوہِ طور کی بلندیوں سے صحرائے عرب میں پھرتی محسوس ہوتی ہے جہاں بالآخر وصلِ محبوب میں دیارِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سَرِنیاز خم کر دیتی ہے۔ کبھی سیّدہ فاطمۃالزّہرا سلام اللہ علیہا کے بیت الحُزن کا طواف کرتی اور کبھی شبستانِ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی چوکھٹ پہ کھڑی اذنِ باریابی کی منتظر نظر آتی ہے۔ کبھی ریگزارِ کربلا سے سَنگریزے چُنتی محسوس ہو تی ہے۔ توکبھی بغداد کی گلیوں سے مریدی لاتخف کا مژدہء جانفزا اُٹھاتی جھومتی جھومتی دِکھتی ہے اور، کبھی دُور روہی کے بیابانوں میں ماہی، سانول، ڈھولے، اور یار کو ڈھونڈتی پھِرتی ہے۔ غرض آپ کی آواز کا اُتار چڑھاؤ، گہرائی و گیرائی، گُونج، ترفع و نزول، طوالت و اختصا ر، زیر و بَم، اور سکوُت و پھیلاؤ کسی نہ کسی باطنی کیفیّت کا آئینہ دار لگتا ہے۔ جب آپ مُناجاتِ سیّدنا زین العابدین رضی اللہ عنہ کا ورد کرتے ہیں تو لگتا ہے کئی مترنّم جھرنے اپنے محبوب کا سراغ لگانے میں سَرگرداں ہیں۔ اللہ ربّ العزت نے مظاہرِ فطرت کے سوز و سا ز کا سارا حُسن سمٹا کر احسنِ تقویم حضرتِ انسان کی آواز میں رکھ دِیا ہے۔ شیخ الا سلام کی آواز میں بِلاشبہ یہ وصف بدر جہ اتم موجود ہے۔ چنانچہ پہاڑوں کی اُونچائی، اشجار کی لمبائی، وادیوں کی گہرائی، دریاؤں کی طغیانی، موجوں کی روانی، سمندر کا سکوت، بادِ صرصر کی سَر سراہٹ، چاہ کی گوُنج، رات کا سنّاٹا اور بیابانوں کی وسعت بآسانی پہچانی جاسکتی ہے۔ یہ سارے حُسن آواز میں سرایت کرکے اور باطن کی کیفییّات سے ہم آہنگ ہو کر سُننے والوں کو روحانی کیف و سرور سے سَرشار کر دیتے ہیں۔ آپ کے زمزمہء عشق کی تاثیر سامع کو معشوق سے ہم کلامی کا ڈھنگ سکھاتی ہے۔ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ آپکی دینی و تبلیغی کامیابیوں میں جہاں آپ کے علم و عمل، محنتِ شاقہ اور سیر ت و کردار کا ہاتھ ہے۔ وہیں آپکے حسنِ صوت نے بھی بہت کمال کیا ہے۔ لہذا لوگ آپ کے حُسنِ گُفتار کے بھی قا ئل ہیں اور حُسنِ صدا کے بھی شیدائی۔ آپ نے موجودہ دَور میں جِس طرح اپنے حُسنِ خُلق سے ٹوُٹے ہوئے دِلوں کی درماندگی کو آسودگی میں بدلا ہے۔ اِسی طرح دِلوں اور روحوں کے رشتے جو ٹُوٹ چُکے تھے یا کمزور پڑ چُکے تھے انہیں دوبارہ محبوبِ حقیقی سے جوڑنے میں آپ کی پُر تاثیر خوُش نو ائی نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے:

تیری تاثیرِ آہ نے بخشی
مُردہ دِلوں کو حیات طاہر

چُوم کے رکھی سماعتوں نے
تیری ایک ایک بات طاہر

اپنے پڑھنے والوں کو بھر پور دعوت ہے کہ ایک بار ضرور حضرت شیخ الاسلام کی تلاوت، درسِ مثنوی، صوفیانہ کلام اور مناجات کو سماعت فرمائیں تاکہ اِس مضمون کی حقّانیت آشکار ہوسکے۔ یقینا آپ ماضی کے دریچوں میں داخل ہوکر تصوّراتی طور پر بہت ساری دنیاؤں میں کھو جائیں گے۔ جب کبھی آپکی رُوح بِلا وجہ بیقرار ہونے لگے تو اِسکے درد کا درماں اسی آواز سے کیجیے اِن شااللہ! اشکوں کے چند نذرانوں کے بعد بیقراری، راحت و سکون میں بدل جائے گی۔ زمانہ چلتے چلتے 2019 میں پہنچ چُکا ہے اور 19 فروری قریب ہے شیخ الاسلام سے پیار کرنے والے یَک روح، یَک دِل، اور یَک زباں ہوکر یہی پُکار رہے ہیں:

اَے جانِ جاں اِس طرف بھی ایک نگاہِ ناز ہو
حُسن کرے ترقیّاں، عُمر تیری دراز ہو

آمین بِجاہِ سیّد المُرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، فروری 2019ء

تبصرہ