حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں صحابیات کی مدح سرائی

صائمہ حسنین، لیکچرر منہاج کالج برائے خواتین

نعت گوئی ایک عظیم شیوہ ہے اور قربت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موثر ذریعہ ہے۔ ذکر عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نعت کا لغوی مفہوم درج ذیل ہے:

1۔ لسان العرب:

’’لسان العرب میں ابن منظور افریقی نے نعت کا معنی کسی ذات کا اپنی جنس کی دیگر انواع سے افضل ہونا لکھا ہے۔‘‘

(ابن منظور افریقی، ص 3956)

2۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ:

’’اردو اور فارسی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و توصیف کے بارے میں اشعار کو نعت کہا جاتا ہے جو عربی میں مستعمل نہیں عربی میں ایسے کلام کو مدح کہا جاتا ہے‘‘

3۔ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام:

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے مسلمانوں کو جو محبت و عقیدت اور شیفتگی رہی ہے انہوں نے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوانح، حالات، ارشادات، فرمودات، حلیہ و شمائل، اخلاق، عبادات اور معجزات کو محفوظ کردیا وہ تاریخ عالم کا حیرت انگیز واقعہ ہے فارسی اور اردو میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف اور توصیف کو نعت کہا جاتا ہے‘‘۔

(قاسم محمود، ص: 1525)

نعت کیا ہے؟ نعت عربی لفظ ہے۔ نعت اور حمد دونوں کے لغوی معنی قریب قریب ایک ہی جیسے ہیں یعنی تعریف و توصیف لیکن ان لفظوں کا استعمال عموماً صرف دو ہستیوں کے ساتھ ہی خاص کیا جاتا ہے یعنی حمد کا لفظ مخصوص ہے ذات باری تعالیٰ کی توصیف و ثنا سے اور نعت کا لفظ حضور سرور کائنات احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس اور آپ کی صفات عالیہ کے بیان کے لیے۔

(قمر عینی، ص: 7)

اسی طرح راغب مراد آبادی نعت کی تعریف بڑے حسین انداز میں اس طرح بیان کرتے ہیں:

نعت کیا ہے؟ سرور عالم کی سیرت کا بیان، نعت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لطف و محبت کا بیان، نعت کیا ہے؟ مصلح انسان کے اوصاف جمیل، نعت کیا ہے؟ مومنانہ فکر کی روشن دلیل، نعت کیا ہے؟ کیف حب سرور دنیا و دیں، نعت کیا ہے؟ لازوال اک دولت حسن یقین، نعت کیا ہے؟ مرسِل و مرسل میں فرق و امتیاز، نعت کیا ہے؟ جادہ و منزل میں فرق و امتیاز، نعت کیا ہے؟ ذکر و کردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، نعت کیا ہے؟ حسن گفتار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، نعت کیا ہے؟ گلشن افکار ختم المرسلین، نعت کیا ہے؟ راہ ہستی میں سراج السالکین، نعت کیا ہے؟ شمع سبحان الذی اسری کی ہے، نعت کیا ہے؟ چاندنی اس ناقہ اقصیٰ کی ہے، نعت کیا ہے؟ داستان فاتح بدرو حنین، نعت کیا ہے؟ نگہت زلف امام القبلتین نعت کیا ہے؟ اتباع حضرت حسان ہے، نعت کیا ہے؟ موج کیف سورۃ رحمن ہے۔

جو اصول شرع کا پابند رہ سکتا نہیں
وہ محمد مصطفی کی نعت کہہ سکتا نہیں

(راغب مراد آبادی، 1993ء، ص: 134)

غرض نعت محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بڑھانے اور رسالت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقرار کا اہم پل ہے ایسا پل جو انسانیت کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے جذبات کو بڑھاتا ہے اور خدمت دین پر اکساتا ہے۔ نعت گوئی اور نعت خوانی محبت الہٰی کے حصول کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ نعت لکھنا اور پڑھنا دونوں حسنات میں سے ہے کیونکہ نعت خوانی سنت ایزدی باری تعالیٰ ہے۔ نعت سب سے پہلے خدائے لم یزل نے کہی۔ خود رب کائنات نے، خالق ارض و سما اور مالک بحرو بر نے مصحف عظیم میں رحمۃ للعالمین کی مدح سرائی کی ہے جس کا ثبوت قرآن مجید کی متعدد آیات فراہم کرتی ہیں۔

آیات:

1۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان رحمۃ للعالمینی کو درج ذیل آیت میں بیان فرمایا:

وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ.

’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر‘‘

(الانبیاء، 21: 107)

2۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بطریق نعت یوں بیان فرمائی:

یٰسٓ. وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ. اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ.

’’یا سین (حقیقی معنی اللہ اور رسول a ہی بہتر جانتے ہیں)۔ حکمت سے معمور قرآن کی قَسم۔ بے شک آپ ضرور رسولوں میں سے ہیں۔‘‘

(یٰسین، 36: 1، 3)

3۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلق عظیم کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا:

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ.

’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘

(القلم، 68: 4)

یہ ذکر عظمت مصطفی دیکھ کر یوں لگتا ہے بلکہ یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ سارا دین ہی نعت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ جب ام المومنین سیدہ عائشہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلق عظیم کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

کان خلقه القرآن.

کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلق عظیم قرآن ہے۔

رب کائنات کی اسی سنت کے پیش نظر اور قرآن فہمی کے اس وصف کی بدولت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں نعتیہ اشعار قلمبند فرمائے اور ابتدائے اسلام سے ہی یہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ صحابیات نے بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے شانہ بشانہ مل کر اسلام کی سربلندی کے لیے اپنے تن من دھن کی قربانیاں فراہم کیں۔ عہد رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جہاد میں بھی صحابہ کے ساتھ ساتھ زخمیوں کا خیال رکھا۔ انہیں مرہم پٹی لگائی، پیاسوں کے لیے پانی بھر بھرکرلاتی رہیں تعلیم و تدریس کے میدان میں دیکھا جائے تو احادیث روایت کرنے میں صحابہ کے ساتھ ساتھ صحابیات بھی احادیث نبویہ روایت کرتے دکھائی دیتی ہیں۔ اس طرح صحابیات نے بصد اصرار جمعرات کا دن عورتوں کی تعلیم کے لیے مختص کروایا تاکہ براہ راست فیض یاب ہوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی میں جہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام ملتے ہیں وہاں یہ امر بھی کافی دلچسپ ہے کہ صحابیات بھی اس سلسلہ میں پیچھے نہ رہیں بلکہ وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ذیل میں ان کے نعتیہ اشعار پیش کئے جاتے ہیں۔

  1. حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب
  2. حضرت عاتکہ بنت عبدالمطلب
  3. مدینہ کی بچیوں کا خیر مقدمی گیت

1۔ حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔ آپ نے بارگاہ رسالت میں چند اشعار کہے ہیں واضح ہو کہ حضرت عبدالمطلب کی آٹھ بیٹیاں تھیں اور سب کی سب برجستہ شعر کہنے والی تھیں۔ حضرت صفیہ کے اس قصیدے میں اس زمانے کی سادگی اظہار غم اور زبان ترکیب میںیک رنگی ملتی ہے۔

اِلَّا یَارَسُولَ اللّهِ کُنْتَ رَجَاءَ نَا
وَکُنْتَ بِنَا بِرًا وَلَمْ تَکُ جَافِیَا

وَکَنْتَ بِنَا رُؤوفًا رَحِیْمًا نَبِینَا
لیبک عَلَیْکَ الْیَوْمَ مَنْ کان بَاکِیَا

یارسول اللہ آپ ہماری امیدوں کا آسرا ہیں۔ آپ ہمارے لیے رہنما ہیں اور ہم آپ سے بے وفائی کرنے والے نہیں ہیں۔ آپ ہمارے لیے ہم پر بہت زیادہ مہربانی کرنے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں آج روتے ہوئے حاضر ہوں۔

2۔ حضرت عاتکہ بنت عبدالمطلب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری پھوپھی ہیں۔ آپ نے بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں مرثیہ کے چند اشعار کہے ہیں۔ برجستہ کہے گئے اشعار میں عقیدت کی روانی اور جذبات کا بہائو دیکھئے ان اشعار میں اس زمانے کی سادگی اور اظہار کا پہلو بہت نمایاں ہیں۔

اعینی جوادا بالد موع السواجم
علی المصطفٰی بالنور من آل هاشمی

علی المصطفٰی بالحق والنور والهدی
والرشد بعد المندیات العظائم

(شہزاد احمد، 2016ء، ص: 4)

کیا میری آنکھ سخی بنی ہوئی ہے۔ اس سخی کے پیچھے اور آنسو بہارہی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کہ آل ہاشم کے نور ہیں اور وہ مصطفی جس کو اللہ تعالیٰ نے حق نور اور ہدایت کے ساتھ بھیجا اور رشد و ہدایت کے لیے بھیجا تاریکی کو مٹانے والا۔

3۔ ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق نے مدینہ کی بچیوں کے خیر مقدمی گیت کو اولیت کا درجہ دیا ہے وہ کہتے ہیں:

عربی نعت میں ہم سب سے پہلے مدینہ کی بچیوں کا وہ گیت پیش کرتے ہیں جونہایت معصوم انداز میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ میں استقبال کے موقع پر گایا گیا۔

طلع البدر علینا من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا مادعی لله داع
ایها المبعوث فینا جئت بالامر المطاع

’’چاند ہم پر طلوع ہوا ودع کی پہاڑیوں سے ہم پر شکر کرنا لازم ہوا جب تک اللہ کی طرف بلانے والے بلائے آپ تشریف لائے ہمارے درمیان(اللہ کے حکم سے آپ آئے کہ آپ کو حکم دیا گیا‘‘۔

ان اشعار میں بیان کی گئی سادگی کے ساتھ خلوص اور محبت کی فراوانی پائی جاتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بدر سے تشبیہہ دی گئی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر کا اظہار ہے کہ اس نے انہیں ہدایت سے نوازا اور ساتھ ہی اطاعت رسول کے عزم کا بیان بھی سادہ اور پرعظمت ہے۔

4۔ حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ کی گلیوں سے گزرے تو چند لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور گاکر کہہ رہی تھیں۔

نحن جوار من بنی النجار
یا حبندا محمد من جار

ہم بنو نجار کی بچیاں کتنی خوش نصیب ہیں کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (جیسی ہستی) ہماری پڑوسی ہے۔تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ان کی نعت سن کر) فرمایا (اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بھی تم سے بے حد محبت رکھتا ہوں۔

(رواه ابو نعیم و ابو یعلیٰ والنسائی) (سنن، ماجه، کتاب النکاح، باب الغناء والدق، 1899ء، 1/ 612)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اشعار:

متی بیدو فی الدجی البهیم جبینه
یلح مثل مصباح الدجی المتوقد

اندھیری رات میں ان کی پیشانی نظر آتی ہے تو اس طرح چمکتی ہے جیسے روشن چراغ۔

فمن کان اومن قد یکون کاحمد
نظام لحق او نکال لملحد

احمد مجتبیٰ کے جیسا کون تھا اور کون ہوگا حق کا نظام قائم کرنے والا ملحدوں کو سراپا عزت بنادیتا ہے۔

حضرت فاطمۃ الزہراء علیہا السلام کے اشعار:

ماذا علی من شم تریة احمد
الایشم مدی الزمان عنوالیا

جس نے ایک مرتبہ بھی خاک پائے احمد مجتبیٰ سونگھ لیا تعجب کیا ہے اگر وہ ساری عمر کوئی اور خوشبو نہ سونگھے۔ بلاشبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی مومنین کی روح کی غذا ہے اور بہت خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کی ثناء خوانی کے لیے چن لیتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں بھی اپنے محبوب کی مدح سرائی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، جنوری 2018

تبصرہ