ام حبیبہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا اور تمام مخلوقات میں اُسے احسن تقویم بنایا پھر اس کی رشد و ہدایت کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء معبوث فرمائے اور انہیں جو تعلیمات دیں ان میں ہر فرد چاہے وہ عورت ہو یا مرد اس کے حقوق متعین کیے اور انہیں حقوق میں سے ایک حق آزادی کا دیا۔جہاں مردوں کو آزادی کا حق دیا وہاں یہ حق عورتوں کو بھی دیا مگر اس حق کی کچھ حدود و قیود بھی رکھیں تاکہ حقوق میں توازن پیدا ہو سکے۔ آزادی ہر جاندار کا فطری حق ہے یعنی کوئی ذی روح اپنے ارادوں کو جس طرح چاہے پورا کرے اس پر کوئی دباؤ یا پابندی نہ ہو لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا ناممکنات میں ہے۔ اگرچہ انسان کو آزادی کا حق حاصل ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کی آزادی پر دست درازی نہ کرے کیونکہ آزادی صرف اْسی صورت برقرار رہ سکتی ہے جب دوسروں کی آزادی کو مجروح نہ کیا جائے۔ مغربی مفکرین کے نزدیک آزادی یہی ہے کہ ایک قوم اپنے ملک اور نسل کے زعما کے بنائے ہوئے قوانین کا اتباع کرے۔ سابقہ تاریخ کے تجربات سے واضح ہے کہ انسان اپنا واضح قانون بنانے سے قاصر ہے اس لیے اللہ کو حاکمِ اعلیٰ سمجھنے سے انسان اللہ کے بنائے ہوئے قوانین پر چلتا ہے جن کا حکم دیا گیا یہی انسان کی آزادی ہے۔ فطری آزادی کے ساتھ ساتھ آزادی کا ایک مفہوم غیروں سے آزاد ہونا اور ایک قوم کی حیثیت سے خود اپنے ملک میں آزاد ہونا بھی ہے۔آج آزادی نسواں کا نعرہ زبان زد عام ہے ہزاروں کی تعداد میں این جی اوز مساوات مردو زن کا نعرہ لے کر عورت کو حقوق دلانے کے لئے مصروف عمل ہیں اگر ہم پاکستانی معاشرہ کو بھی دیکھیں تو جو تصویر مغربی میڈیا دکھاتا ہے اْسے دیکھ کر لگتا ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والا ملک شاید عورت کو تحفظ اور مساویانہ حقوق دینے میں ناکام ہے اس سوچ کو بڑھاوا پھر ہمارے ملک میں رہنے والے اْن لوگوں نے دیا جو اس ملک میں رہتے ہوئے بیرونی طاقتوں کے آلہ کا ر ہیں۔اب چاہے وہ میڈیا پر بیٹھ کر اس سوچ کو ہوا دے رہے ہوں یا عورت کی آزادی کے نام پر بننے والی نام نہاد تنظیمیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے عورت کے حقوق کا جو تصور دیا اسکی نظیرآج عورت کے حقوق کے علمبردار مغرب کی تاریخ میں دور دور تک نہیں ملتی۔آزادی نسواں کا نعرہ کیسے بلند ہوا اور اس نے کیسے ارتقائی منازل طے کیں یہ جاننے کے لیے تاریخ پر نظر دوڑانا ہو گی۔
آزادی نسواں کی اصطلاح کاباقاعدہ استعمال:
اس اصطلاح کا باقاعدہ استعمال اٹھارویں صدی عیسوی میں ہوا جب یورپ کے فلاسفرز اور اہل علم نے فرد کے حقوق کیلئے معاشرہ کے خلاف آوازبلند کی اور شخصی آزادی کا نعرہ لگایا اور ان کے معماروں نے ظلم و استحصال پر مبنی نظام کو توڑ کر ایک نیا نظام بنانے کیلئے جدید نظریات پیش کئے جس کے نتیجے میں انقلاب فرانس رونما ہواور فرد کو آزادی حاصل ہوئی اور مرد کے ساتھ ساتھ عورت کو بھی معاشرتی حقوق دیئے گئے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اْس وقت یہ نعرہ خواتین کی طرف سے نہیں بلکہ مردوں کی طرف سے لگایا گیا جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اْس وقت مرد بھی بنیادی انسانی حقوق سے مستفید نہیں ہو رہے تھے بہرحال انقلاب فرانس کے بعد عورت کو مکمل تو نہیں مگر جزوی حقوق حاصل ہو گئے پھر جب اْسی کارخانوں میں مرد مزدوروں کی کمی کے باعث ملازمت کے لئے باہر نکلنا پڑا تو اب وہ ایک نئی دنیا سے متعارف ہوئی جس نے اْسے باقاعدہ اپنے حقوق کی جنگ کے لئے آمادہ کیا یہاں سے حقوق نسواں کی تحریک کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
ایسے میں سب سے پہلے جس خاتون نے اپنی کتاب میں عورتوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کی اْسکا نام میری وولسٹن کرافٹ تھا جسکا ذکر انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا میں یوں کیا گیا ہے:
The first Feminist manifesto was Mary Wollenstonecraft’s vindication of the rights of women.
(Encyclopedia of Britannica, (1768) V:30,Page, 912)
مگر یہ کتاب اپنے ہم عصر لوگوں کو متاثر نہ کر سکی اس کے بعد جو کتاب انگلینڈ میں آزادی نسواں کا سرکاری نصاب بنی وہ جان سٹورٹ مل کی کتاب تھی انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکاکے مطابق :۔
The book that became as it were the official text of the feminist movement in England was John Stuart Mill’s subjection of Women, Published two generations later in 1869.
مِل اپنی کتاب میں لکھتا ہے:۔ میرے لیے کسی ایسے شخص کو جو کہتے ہیں عورت کی مساوات کے سوال پر مجھ سے اتفاق کرتا ہے یقین دلانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی مجھے یقین ہے کہ باقی معاملات میں عورت کی معذوری اس لیے قائم ہے تاکہ گھریلو زندگی میں اس کی محکومی قائم رہے مرد عام طور پر سے کسی برابر کے شخص کے ساتھ زندگی گزارنا برداشت نہیں کر سکتے اگر یہ بات نہ ہو تو تقریباً ہر شخص سیاست ، معیشت کی موجودہ صورتحال کا لحاظ کرتے ہوئے یہ بات تسلیم کرے گا کہ انسانیت کے آدھے کو تمام ا ونچے معاشرتی فرائض سے خارج کرنا بے انصافی ہے صرف پیدائش کی بنا پر یہ حکم لگا دینا کہ وہ ایسے کاموں کیلئے نااہل ہیں یا اہل نہیں ہو سکتیں، جو قانوناً بیوقوف اور گھٹیا مردوں کیلئے کھلے ہیں، یا اگر وہ اہل بھی ہیں تب بھی ان کے خلاف ممانعت صرف اس لیے ہوتا کہ یہ سب مردوں کیلئے فائدے کیلئے مخصوص رہیں، کہاں کا انصاف ہے۔ پچھلی دو صدیوں میں عورتوں پر پابندیوں کے جواز میں ان کا عورت ہونا ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔
(مِل، شیروانی 1991ء، ص: 39)
اس منشور سے عورتوں کو اپنی تحریک کے لئے مزید تحرک ملا اور یہ تحریک ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے ہوئے عورتوں کے حقوق کی دوڑ سے آگے نکل گئی۔ پہلے نعرہ مساوات مردوزن اور بعدازاں ارتقائی منازل طے کرتی دور حاضر کے آزادی نسواں کے تصور تک جا پہنچی اس تحریک نے درج ذیل ارتقائی منازل طے کیں:
تحریک حقوق نسواں کے ادوار:
- پہلا دوروہ ہے جسے حقوق نسواں کی تحریک کا ابتدائی دور Early Women rights movement کہا جاتا ہے۔جو انقلاب فرانس کے بعد شروع ہوا۔
- دوسرا دور وہ ہے جسے خواتین کی سفریجی تحریک کا نام دیا جاتا ہے یہ 1890ء تا 1925ء کا دور ہے۔
- تیسرا دور جدید دور ’’تحریک نسواں کا دور جدید‘‘ کہلاتا ہے یہ دوربیسویں صدی کے آخر میں شروع ہوا اور تاحال جاری ہے۔
پہلے دو ادوار خواتین کے بنیادی حقوق کی جدوجہد سے متعلق تھے مگر تیسر ے دور میں جو کہ عصر حاضر تک آ پہنچتا ہے اس میں حقوق نسواں کی اس تحریک کو آزادی نسواں کی تحریک میں بدل دیا گیا۔اسکا منشور مردوں کے برابر حقوق کی بجائے مردوں سے اظہار نفرت تک جا پہنچا اس کا اندازہ اْن عالمی کانفرنسز کے ایجنڈاسے لگایا جا سکتا ہے جو خواتین کے حقوق کی جدوجہد کے نام پر منعقد کی گئیں۔چند اہم کانفرنسز درج ذیل ہیں :
خواتین کی عالمی کانفرنسز کا انعقاد:
1) میکسیکو کانفرنس:
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1975ء کے سال کو عالمی خواتین کا سال قرار دیا اور 1975ء میں میکسیکو شہر میں خواتین کی عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اس کانفرنس میں 133ممالک کے وفود نے شرکت کی جن میں 113 وفود کی سربراہان خواتین تھیں اس کانفرنس کے قیام کا مقصد عورتوں کی ترقی اورحقوق کی بحالی کی طرف عالمی دنیا کی توجہ مبذول کروانا تھا اس کانفرنس میں خواتین کے حقوق مثلاً تعلیم، طبی سہولیات کی فراہمی، سیاست میں عورتوں کی شرکت جیسے مطالبات پیش کیے گئے۔
2) کوپن ہیگن کانفرنس:
یہ کانفرنس کوپن ہیگن میں1980ء میں منعقد ہوئی یہ بنیادی طور پر میکسیکو کانفرنس میں تیار کردہ عالمی لائحہ عمل کے جائزہ کیلئے منعقد کی گئی۔ جس میں تقریباً 145ممالک کے وفود نے شرکت کی۔
3) نیروبی کانفرنس:
یہ کانفرنس خواتین کے حقوق کیلئے منعقد کی جانے والی تیسری بڑی کانفرنس تھی جو کہ 1985ء میں نیروبی میں منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس میں مختلف نمبر سرکاری تنظیموں سے تعلق رکھنے والے تقریباً 15000 افراد نے شرکت کی جسکا مقصد ان تنظیموں کے ذریعے خواتین کے حقوق کے فروغ کے لئے سیمینار، لیکچرز، ورکشاپس کا انعقاد کرنا تھا۔
4) بیجنگ کانفرنس:
یہ کانفرنس 15ستمبر1995ء کو بیجنگ میں منعقد کی گئی اس کانفرنس میں تقریباً 30000خواتین نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں بنیادی تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی کہ عورتوں کے مسائل سے توجہ ہٹا کر عورتوں اور مردوں میں مساوات کے نظریے پر توجہ مرکوز کی گئی نیز یہ بھی تسلیم کیا کہ معاشرے کے پورے ڈھانچے اور اس میں عورتوں اور مردوں کے تعلقات کا دوبارہ جائزہ لیا جائے کیونکہ تشکیل نو کے ذریعے ہی عورت کو مکمل اختیارات مل سکتے ہیں۔
5) بیجنگ پلس فائیو کانفرنس:
اقوام متحدہ کے زیر اہتمام چین کے شہربیجنگ میں خواتین کی چوتھی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی تھی اب تقریباً 5سال بعد نیویارک میں بیجنگ +5کانفرنس ہو رہی ہے جو کہ 5تا9جون 2000ء میں منعقد کی گئی۔
اس کانفرنس کو درج ذیل عنوان دیا گیا۔
Women 2000: Gender Equality, Development and Peace in the Twenty First Century.
اس کانفرنس نے عورت کے حقوق کی جنگ کو مادرپدر آزادی میں بدلنے میں اہم کردار ادا کیا اس کانفرنس کی درج ذیل سفارشات منظر عام پر آئیں:
- خاتون خانہ کو گھریلو ذمہ داریوں اور تولیدی خدمات پر باقاعدہ معاوضہ دیا جائے۔
- ازدواجی عصمت دری پر قانون سازی اور فیملی کورٹس کے ذریعے مردوں کو سزا دلوائی جائے۔
- ممبر ممالک میں جنسی تعلیم پر زور دیا جائے۔
- اسقاط حمل کو عورت کا حق قرار دیا جائے۔
(www.un.org/women watch/dpi/2035/may2000/-)
اس میں کوئی شک نہیں کہ قدیم مغربی معاشرہ میں عورت کے ساتھ جو ناروا سلوک روا رکھا گیا اْس تناظر میں اْسکی حقوق کی جنگ نہ صرف جائز بلکہ اْسکا بنیادی حق تھا کہ اْسے معاشرتی ،معاشی ،سماجی ،سیاسی حقوق حاصل ہوتے مگر درج بالا سفارشات میں عورت کو عائلی نظام سے ہی نکالنے کی کوشش کی گئی پھر مسلمان عورت جو پہلے ہی مغربی عورت کے مقابلے میں اسلام کے دئیے گئے حقوق سے فیضیاب ہو رہی تھی وہ بھی آزادی نسواں کے اس منشور کا حصہ بن گئی مذکورہ بالا کانفرنس میں مسلما ن خواتین نے بھی شرکت کی حالانکہ مسلمان خاتون کی جنگ اسلام کے دئیے گئے تمام حقوق کو نافذ العمل بنانے کی ہونی چاہئے تھی کہ بد قسمتی سے اسلام نے عورت کو جو حقوق دیئے مسلم ممالک کی حکومتیں اْن حقوق سے مستفید ہونے کے لئے موثرپالیسیز نہ بناسکے یہی وجہ ہے کہ مسلمان عورت بھی جزوی طور پر مغربی تصور آزادی نسواں کی ہم خیال بن گئی۔
آج اگر ہم پاکستانی معاشرہ کو دیکھیں تو تصور مساوات مردو زن سے متعلق دو طبقات چھائے ہوئے نظر آتے ہیں ایک طبقہ عورت کو اُن بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کی تائید تو کرتا ہے جو اسلام نے اسے دیئے مگر وہ عورت کے مرد کے شانہ بشانہ کام کرنے کی مخالفت کرتا ہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ معاشرے میں ظلم و ستم کا شکار عورت کو مادر پدر آزاد کردینا چاہتا ہے یہ افراط و تفریط معاشرے کے بگاڑ کا باعث بن رہا تھا ایسے میں ضرورت اس امر کی تھی کہ خواتین کی نمائندہ کوئی ایسی تنظیم وجود میں آئے جو عورت کے استحکام کو متوازن اندازمیں لے کر چلے جو مظلوم ومحکوم عورت کو بیرونی فنڈنگ پر چلنے والی تنظیموں کا آلہ کار بننے سے بچاسکے اس ضرورت کے پیش نظر تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست اعلیٰ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 1988ء میں منہاج القرآن کی بنیاد رکھی۔ امسال منہاج القرآن ویمن لیگ اپنا 29 واں یوم تاسیس منارہی ہے یہ 29 سالہ تاریخ ساز دور صحیح معنوں میں اسلام کے عورت کے حوالے سے متوازن رویہ کا امین نظر آتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جس دور میں ویمن لیگ کی بنیاد رکھی اس وقت پاکستانی معاشرے میں عورت کے مرد کے برابر کام کرنے کا تصور نہ تھا جس پر انہیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ آج Women empowerment کا چرچا ہر طرف سننے کو ملتا ہے اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی معاشرے میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 29 سال قبل ہی Women Empowerment کی بنیاد منہاج القرآن ویمن لیگ کے قیام کے ساتھ رکھ دی تو بے جا نہ ہوگا۔ آج منہاج القرآن ویمن لیگ کا ذیلی شعبہ WOICE بھی وجود میں آچکا ہے جو معاشرے میں خواتین کے مقام کو اسلام کی حقیقی روح کے مطابق مستحکم بنانے میں مصروف عمل ہے۔
Woice معاشرے میں ظلم و ستم کا شکار خواتین کی مناسب داد رسی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی نفسیاتی مسائل کے حل کے لیے مختلف سیشنز کا انعقاد بھی کرتی ہے۔ اس وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ عورت اسلام کی تعلیمات سے روشناس ہوکر پھر اپنے حقوق کی جنگ لڑے تاکہ کوئی فرد اسے حقوق کے نام پر بھٹکا نہ سکے۔
ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، جنوری 2018
تبصرہ