صائمہ رشید، اسسٹنٹ پروفیسر سائیکالوجی، سمن آباد کالج لاہور
قارئین کرام! اس تحریر کو توجہ اور اس یقین کے ساتھ پڑھیں کہ علم نفسیات کوئی نیا انوکھا عجوبہ نہیں اور نہ ہی یہ مغرب کی پیداوار ہے بلکہ تخلیق آدم اور نفس انسانی کا ہمیشہ تذکرہ رہا ہے۔ نفس امارہ، نفس لوامہ، نفس مطمئنہ ہر مسلمان ان اصطلاحات سے بخوبی واقف ہے بلکہ وہ قارئین جن کا خیال ہے کہ علم نفسیات سے تعلق رکھنے والا خود پاگل ہے خدارا اس عقیدے کی اصلاح کرلیں کیونکہ قرآن پاک انسانی نفسیات بیان کرتا ہے دین اسلام قرآن کی رو سے ہمیں ضابطہ حیات، حقوق و فرائض جسمانی و روحانی امراض ان کا علاج اور احتیاطی تدابیر کی وضاحت کرتا ہے۔
آج کے اس مشینی دور میں جہاں ایجادات سہولیات کی بھرمار ہے وہاں انسان خصوصاً خواتین کے نفسیاتی مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ نفسیاتی مسائل کے حوالے سے خاص بات یہ ہے کہ پیدائش سے موت تک عمر کے ہر درجے میں خواتین کے مختلف قسم کے نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں جو ذہنی الجھنوں اور عدم اعتماد کا باعث بنتے ہیں لیکن اس تحریر کے مطالعہ کے بعد آپ میں سے ہر بہن اپنے تمام مسائل کا خود بہترین حل دریافت کرکے خود اپنی نفسیاتی معالج بن سکتی ہے کچھ دیر کے لیے اپنی ذات کے بارے میں سوچیں تھوڑی سی محنت کریں آپ اپنے وجود کی خوبیوں اور خامیوں کی لسٹ بنالیں ناکامیوں کے اسباب سامنے رکھیں آپ کو جواب مل جائے گا۔ اگر آپ راسخ العقیدہ مسلمان ہیں تو آپ جانتی ہیں کہ آپ کی زندگی کا مسئلہ یا محرومی فطری ہے تو پھر جب آپ کا اختیار نہیں تو پریشانی کس بات کی؟ اور اگر مسئلہ کا حل موجود ہے تو اسے حل کرنے کا صحیح راستہ اختیار کریں پھر پریشانی کس بات کی ہے؟بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ ہماری تقدیر اور انسانی اختیارات و وسائل کی اپنی اپنی الگ حیثیت ہے۔
خواتین کے مسائل:
یقینا تمام بہنیں میری رائے سے اتفاق کریں گی کہ خواتین کے مسائل کم و بیش یہ مسائل ہیں جو ان کی زندگی کی رعنائیوں کو ختم کردیتے ہیں پھر خواتین خود کو بوجھ سمجھنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ ذیل میں چند مسائل بیان کئے جارہے ہیں:
- بیٹی کی ولادت پر امتیاز برتا جاتا ہے جس سے بچی عدم اعتماد کا شکار ہوکر کھوکھلی شخصیت کی مالک بنتی ہے۔
- معاشرتی طبقے لڑکیوں کی تعلیم اور دیگر معاملات میں پابندیاں لگاتے ہیں۔
- خوبصورت اور پرکشش نظر آنا ہر خاتون کی پہلی ترجیح ہے۔ یہ بات بھی بعض اوقات اسے ڈپریشن کا شکار کردیتی ہے۔
- ذہنی تشویش ڈپریشن اعصابی تنائو جسمانی امراض کی بھرمار
- گھریلو ذمہ داریاں، ہر رشتے کی توقعات کو پورا کرنے کی فکر
- احساس تنہائی اور اپنی ذات کے متعلق منفی سوچ ہونا بطور سزا خودکشی کرنا
- صنف نازک خود فریبی میں اپنی صلاحیتوں کو منوانے کی خاطر کون سے حربے استعمال کرے۔
- عدم تحفظ کا شکار عورت شوہر اور خصوصاً بیٹے کے زیر کفالت ہونے کے باوجود پریشان
- ولادت کے مراحل اور اولاد کی پرورش میں پریشانیاں
- دوسروں کی نقطہ چینی پر ذاتی خواہشات دفن کردینا۔
- معاشی عدم تحفظ کا شکار زندگی سے اکتاہٹ محسوس کرنا فلاحی کاموں سے دور
- دوسروں سے انتقامی کاروائی مکمل نہ ہونے تک دکھی رہنا۔
- اپنی ذات کے لیے فرصت کے لمحے اور خوشیوں کا انتظار کرنا۔
پریشانی کا خاتمہ:
ذرا سی ہمت اور سوچ میں مثبت تبدیلی پلک جھپکنے میں خواتین کی زندگی کو رنگوں اور خوشیوں سے بھرسکتی ہے اگر باہمت بہنیں ارادہ کرلیں اور اپنے نقطہ نظر کی اصلاح کے ساتھ اپنے Belief system یعنی اعتقادات میں کچھ تبدیلی قبول کرکے اپنے دماغ کو وہ پیغام دیں جس سے ان کی زندگی میں انقلاب آجائے کیونکہ صحت کے لیے عضویاتی عوامل کے ساتھ نفسیاتی عوامل کا بھی دخل ہے مثلاً خواتین کا خیال ہے کہ ڈاکٹر، حکیم یا پیر صاحب کے پاس جاکر اس کا دکھ دور ہوسکتا ہے۔ معالج سے ملنے والا یہ Placebo effect اثر بہلاوا ایسے طریقے سے پیش کیا جاتا ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں مثلاً اگر حکیم یہ کہہ دے کہ اس دوائی سے دو دن میں مرض کا یقینی خاتمہ ہوگا تو وہ خاتون اپنی سوچ اور اعتقاد کی وجہ سے دو دن میں ضرور صحت یاب ہوگی کیونکہ صحت یاب ہونے میں نفسیاتی عوامل حوصلہ دینا، خوش اخلاقی سے پیش آنا، توجہ دینا، اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اسی طرح حسین نظر آنے کے لیے Fitness کو برقرار رکھنے کے لیے جو تگ و دو کی جاتی ہے بھوکے رہنا، جِم جانا اور طرح طرح کے لاکھ جتن مگر یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی کوئی کریم رنگ گورا نہیں کرتی جبکہ ہاضمہ ٹھیک کام نہ کرے صحت بخش خوارک معدے میں داخل ہو اور دوسری بڑی حقیقت کہ دنیا کا کوئی شیمپو بال لمبے نہیں کرتا جب تک اچھی خوراک آپ کے جسم کا حصہ نہ بنے پھر حلال رزق کو خود پر حرام کرکے ڈائٹنگ کا نام دے کر خود کو سزا نہ دیں اعتدال سے سب نعمتیں استعمال کریں۔ اوٹ پٹانگ فیشن بے پردگی کبھی معاشرے میں آپ کو مقام نہیں دیں گے آپ کی شناخت آپ کا کردار، سیرت، آپ کی صلاحیتیں آپ کو بلند مقام پر لے جائیں گی۔
بدقسمتی سے مذہبی اخلاقی تعلیم کو نظر انداز کرنے پر ہم میں حسد، تکبر، بہتان تراشی، دوسروں کی ٹوہ، شک، وہم، جھوت، انا کا مسئلہ، دوسروں سے انتقام، کردار کشی، جیسی اخلاقی معاشرتی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ قرآن کی تعلیمات کو نظر انداز کیا تو حسد دل کے امراض اور شوگر پیدا کرنے لگا۔ تکبر سے مایا لگے اکڑے کپڑے اونچی ہیل اعصابی تنائو اور کمر درد کا باعث بننے لگی دوسروں سے خوشیاں چھین کر کوئی بہن خوش نہیں رہ سکتی اپنی سوچ بدل لیں دوسروں کو آسانیاں اور خوشیاں بانٹیں آپ کی زندگی گل و گلزار بن جائے گی آپ مستقل روحانی خوشی محسوس کریں گی۔
خالق نے تخلیق کے بعد عورت کو صنف نازک کہا مگر یہ کیا ہوا عورتیں برابری کے چکر میں خود ہی اپنے آپ پر بوجھ لادنے لگیں۔ بہنو! گھر کی ملکہ بن کر بچوں کی تربیت کرنا، گھر کے انتظامی امور، صفائی، برتن، کپڑے، مہمان نوازی، تیمار داری، یہاں کسی کے شوہر نے برابر ساتھ نہیں دیا تو پھر بلاوجہ ملازمت اور گھریلو ذمہ داریاں جمع کرکے اپنی پریشانیوں میں اضافہ کرنے کا کیا فائدہ۔
عزیز بہنو! اس حقیقت کو تسلیم کرلو کہ فطرت نے ہر انسان کو اس کے الگ پرچے کے ساتھ اس دنیا کے فرائض سونپے ہیں۔ آپ اپنی زندگی کی بجائے دوسروں کی زندگی کو اچھا سمجھ کر ویسا بننے کے چکر میں تباہی سے بچیں مثلاً اگر ثنا کے پاس دولت اور خوبصورت شوہر ہے تو وہ بے اولاد بھی ہے۔ اگر حنا کے پاس شوہر اور بیٹے ہیں تو مالی تنگی بھی ہے۔ اگر ہما کے پاس شوہر اولاد اور دولت ہے مگر وہ کینسر کی مریضہ ہے صحت نہیں ہے۔ خوشحال وہی رہے گی جو ہر ہر حال میں مطمئن اور اللہ کی شکر گزار رہے گی دوسرے کے پرچے کی نقل کرنے سے نہ کامیابی ملتی ہے نہ ہی خوشی۔
تقدیر پر ایمان ایک بہت بڑی نعمت ہے دلی آسودگی یہاں سے ملتی ہے جو آپ کا نصیب ہے وہ آپ کو مل کر رہے گا دنیا کی کوئی طاقت آپ سے وہ چھین نہیں سکتی مثلاً صحت زندگی اور جو محرومی ہے وہ پوری دنیا بھی زور لگالے وہ آپ کو دے نہیں سکتی مثلاً بینائی، گردے ناکارہ ہونا کسی عضو کا کٹ جانا اسی طرح اسلام نے زندگی کی ہر الجھن کا حل بھی بیان کیا ہے بیٹی بیوی ماں کی حیثیت سے جائیداد کی وراثت متعین کردی ہے اب اگر شوہر ماں بہن پر بھی خرچ کرتا ہے تو جھگڑا کس بات کا بیوی کا 1/8 حصہ شوہر کی کمائی سے اس کو تو مل رہا ہے وہ باقی حصے ہضم کرنے کے چکر میں اپنے حصے کو بھی انجوائے نہیں کرپاتی۔ ہر عورت یہ کیوں چاہتی ہے کہ اس کا شوہر اس سے محبت کرے دلجوئی کرے ہر فرمائش پوری کرے مگر اسی عورت کا بھائی اپنی بیوی پر نہ خرچ کرے نہ اسے وقت دے۔ ایک مرد ایک وقت میں دونوں رول کیسے ادا کرے نتیجہ نہ بیوی خوش نہ بہن نہ ماں ورنہ ہمارے معاشرتی نظام میں ایک مرد کفالت کرتا ہے ایک خاندان کی جہاں بیٹی، بیوی، بہن، ماں اور اولاد کے ساتھ دیگر رشتوں کو نبھانے اور احترام کرنے کا نظام رائج ہے پھر مرد کی بھی اپنی ذات دوست وغیرہ ہیں۔
مثبت طرز فکر:
صرف ایک سوچ کی تبدیلی سے ایک حصہ منتخب کرکے زندگی گذار سکتی ہیں:
(منفی سوچ) U can be strongly mental
(مثبت سوچ) U can be mentaly strong
(منفی سوچ) U can break your self
(مثبت سوچ) U can make your self
(منفی سوچ) U can have hopless end
(مثبت سوچ) U can have endless hope
یہ سلسلہ آپ کے مسائل حل کے ساتھ جاری رہے گا۔ خوشیاں ایک قدم دور آپ کی منتظر ہیں۔ صرف نئی سوچ کے ساتھ پہلا قدم مشکل ہے حقائق کو خندہ پیشانی سے قبول کرلیں۔ تمام قسم کے مسائل کا حل ہمارے خوبصورت دین اسلام میں ہے۔ مذہب سے دوری ذہنی جسمانی صحت کے بگاڑ کا باعث ہے۔ اگر آج کے مشینی دور میں غور کریں ہر مشین کے ساتھ ایک انجینئر اور کتابچہ ملتا ہے جو اس مشین کا صحیح استعمال اور استفادے کا بہترین طریقہ بتاتا ہے بدقسمتی سے ہم مسلمان فراموش کر بیٹھے کہ انسانوں کے خالق نے ہمیں نہ صرف پیدا کیا بلکہ ہمارے لیے نبی اور قرآن بطور انجینئر اور کتابچہ بھیجا۔ ہم نبی اور قرآن کے احکام کے مطابق الٹ چل رہے ہیں تو ہماراجسم اور ذہن بیمار رہنے لگا ہے۔
جو غم ماضی کا حصہ ہے وہ اب دوبارہ نہیں ہونے والا اس لیے اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرکے نئی زندگی کا آغاز کریں۔ آج کے دن کی ناکامی محرومی کو آج ہی دفن کرکے اگلی صبح نئے جذبے نئی سوچ قوت ارادی سے مشن پر ڈٹ کر کامیاب زندگی کا آغاز کریں۔ آپ کی اکتاہٹ اس لیے ہے کہ آپ رفاہی کاموں میں دلچسپی نہیں لیتے۔ اپنے عزیزوں کی فہرست بناکر ان کے مسائل کی لسٹ بنائیں آپ کی ہمدردی کے چند بول ان کی زندگی میں رنگ بھردیں گے۔ اسی طرح آپ کے ذہن میں روشن خیال آئیں گے۔
خواتین اپنے نفسیاتی مسائل تحریر کریں تاکہ ان کے مسائل کے حل میں دوسروں کو بھی راہنمائی ملے۔
ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، جنوری 2018
تبصرہ