بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنائے جانے کے فیصلہ پر عالم اسلام، مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا میں اس پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ سلامتی کونسل میںامریکی فیصلہ کے بارے میں مخالفت میں 14 ووٹ آئے اور امریکہ کو اپنے ایک ووٹ سے اسے ویٹو کرنا پڑا، جنرل اسمبلی میں ایران، پاکستان، ترکی، یمن، مصر نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنائے جانے کے فیصلے کے خلاف قرارداد پیش کی، قرارداد کے حق میں 128 اور مخالفت میں صرف 7 ووٹ آئے جبکہ 35 ممالک غیر حاضر تھے، اکثریتی رائے سے یہ قرارداد منظور ہوئی۔ عالمی رائے عامہ سامنے آ چکی، اب امریکہ کو جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے اس کا احترام کرنا چاہیے اور اقوام عالم کو کسی نئی آزمائش سے دو چار ہونے سے بچانا چاہیے، اگر اس موقع پر جمہوری اقدار کو نظر انداز کیا گیا تو پھر عملاً جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظام قائم ہو گا اور اس سے عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہونگے۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بھی اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر القدس کو اسرائیل کے دارالحکومت بنائے جانے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں، امت مسلمہ کو اس فیصلے سے سخت مایوسی ہوئی ہے۔اس سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوششوں کو دھچکا لگے گا۔ امت مسلمہ امریکہ سے ثالثی کے کردار کی توقع رکھتی تھی مگر یہ فیصلہ ان توقعات کے برعکس ہے۔ صرف عالم اسلام ہی نہیں دیگر اقوام نے بھی فیصلہ پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے یہ فیصلہ قیام امن کی کوششوں کے منافی ہے، اس پر نظر ثانی ناگزیر ہے۔13دسمبر 2017 ء کو او آئی سی کا ہنگامی اجلاس ترکی میں ہوا تھا جس میں تمام مسلم ممالک کے سربراہان و نمائندگان نے شرکت کی۔ اجلاس کے شرکاء نے اپنے متفقہ اعلامیہ میں اس فیصلے کو امت مسلمہ کے جذبات کے ساتھ مذاق قرار دیتے ہوئے اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا اور فیصلہ واپس لینے پر زور دیا یعنی عالم اسلام کیساتھ ساتھ دنیا کے اہم ممالک اس فیصلے میں امریکہ کے ساتھ نہیں ہیں۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد نے اب اس پر مہر بھی لگا دی۔ امریکی حکومت ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں لچک پیدا کرے اوردنیا کو کسی نئی محاذ آرائی سے بچائے۔ یہی وہ اقدامات اور رویے ہیں کہ جن کی آڑ لے کر امن کے دشمن اپنی پرتشدد کارروائیاں شروع کر دیتے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کو مذموم ایجنڈے اور مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں، عالمی طاقتوں بالخصوص اقوام متحدہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جنرل اسمبلی کی قرارداد کی روشنی میں بین الاقوامی قوانین اور فیصلوں کی پاسداری کرتے ہوئے اس پر عمل کروائے۔ امتیازی فیصلوں اور رویوں کی وجہ سے پہلے ہی دنیا جنگ کے دہانے پر بیٹھی ہوئی ہے۔
بیت المقدس کی تاریخ دیکھیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بیت المقدس یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں تینوں الہامی ادیان کے پیروکاروں کے لیے مقدس مقام کی اہمیت رکھتا ہے۔ بیت المقدس کا پرانا نام یروشلم ہے یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی خدائی حکومت کے ہیں اس علاقہ کو حضرت داؤد علیہ السلام نے 1012 ق م میں فتح کرکے یہاں ہیکل کی تعمیر کی بنیاد رکھی۔ بعد ازاں حضرت سلیمان علیہ السلام نے حکومت سنبھالتے ہی اس معبد کی تکمیل کی جو ہیکل سلیمانی کہلایا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کے زوال کے ساتھ ہی بنی اسرائیل دو حصوں میں منقسم ہوگئے یوں ہیکل سلیمانی کی عزت میں بھی کمی آگئی ویسے تو ہیکل سلیمانی پر کئی حملے ہوئے مگر ایران کے بادشاہ بخت نصر نے 586 ق م میں فلسطین پر حملہ کرکے ہیکل سلیمانی کو مکمل طور پرمسمار کردیا اور بڑے پیمانے پر یہودیوں کا قتل عام کیا۔ تورات جلادی، اس وقت یہودی غلاموں کو دریائے فرات کے کنارے آباد کیا گیا انہوں نے اس بستی کا نام تل ابیب رکھا جو اسرائیل کا موجودہ دارالحکومت بھی ہے۔ بعد ازاں تقریباً 539 ق م میں ایران کے پہلے کسریٰ خسرو نے یہودیوں کو واپس فلسطین جانے کی اجازت دے دی تب وہ جنوبی فلسطین میں آکر آباد ہوئے اور ہیکل سلیمانی کی از سر نو تعمیر کی مگر یہ تعمیر بھی زیادہ عرصہ نہ قائم رہ سکی اور 70ء میں روم کے بادشاہ طیطس نے ایک مرتبہ پھر ہیکل سلیمانی مسمار کروادیا اور یہود کو فلسطین کے جنوبی حصہ سے نکال دیا یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فلسطین کے شمالی حصہ میں پہلے ہی عربی النسل قبائل آباد ہوچکے تھے اب جنوبی حصہ سے یہود کے انخلاء کے بعد وہاں بھی دیگر قبائل آکر آباد ہوگئے یوں فلسطین مکمل طور پر یہود سے خالی ہوگیا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب فلسطین فتح کیا گیا اس وقت وہاں عربی النسل قبائل آباد تھے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یروشلم میں داخل ہوکر مقام الصخرہ (جہاں سے حضور اکرم براق پر سوار ہوکر معراج کی شب آسمانوں پر تشریف لے گئے تھے) دریافت کیا یہی وہ جگہ ہے جہاں آج مسجد اقصیٰ قائم ہے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس میں کئی دن قیام کیا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے اذان دلوائی اس کے بعد کئی سو سال تک بیت المقدس مسلمانوں کے قبضہ میں رہا۔ بعد ازاں تقریباً گیارہویں صدی عیسوی میں بیت المقدس عیسائیوں کے قبضہ میں چلا گیا جسے سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں دوبارہ فتح کرکے صلیبوں کو اتار پھینکا یوں بیت المقدس دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا اور پہلی جنگ عظیم تک ترک عثمانیہ خلافت کے زیر انصرام رہا۔
تاریخ گواہ ہے کہ اس سارے عرصہ کے دوران یہود بیت المقدس کے حصول کے لیے مسلسل کوششیں کرتے رہے انہوں نے فلسطین میں اپنے کاروبار مستحکم کیے حتی کہ یہود اور مسیحی جن کی آپس میں رنجش رہی ہے جس کی وجہ سے ہولوکاسٹ کا واقعہ بھی پیش آیا جس میں بڑے پیمانے پر یہود کا قتل عام مسیحیوں کے ہاتھوں سے ہوا وہ بیت المقدس کے حصول کے لیے مسلمانوں کے خلاف یکجا ہوگئے اور بظاہر برطانیہ کے ذریعے یہود نے فلسطین میں اپنا اثرو رسوخ حاصل کرلیا۔ 1917ء میں پہلی جنگ عظیم کے دوران بیت المقدس ایک بار پھر عیسائیوں کے قبضہ میں چلا گیا۔ اس دوران یہود 1897ء سے تحریک صیہونیت کا آغاز کرچکے تھے جس کا مقصد بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور یہود کے لیے اسرائیلی ریاست کا قیام تھا یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ یہود کی جس دربدری کا آغاز بخت نصر نے 586 ق م میں کیا وہ آج تک قائم ہے اب تک سوائے فلسطین پر زبردستی قبضہ کرکے نام نہاد اسرائیلی ریاست کے قیام کے علاوہ پوری دنیا میں ایک بھی ملک یہود کا نہیں جہاں یہودی ریاست قائم ہو۔
نومبر 1917ء میں برطانوی حکومت کی طرف سے فلسطین میں یہود کی آباد کاری کے لیے گرین سگنل ملتے ہی یہود نے فلسطین میں تیزی سے آباد کاری کا آغاز کردیا اس کے بعد ایسے حالات پیدا کردیئے گئے کہ 1948ء میں فلسطینیوں کی رائے کے خلاف اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کردیا گیا یوں فلسطینی تب سے اس فیصلے کے خلاف برسرپیکار ہیں اور لاکھوں فلسطینی آج اسرائیل کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں۔ ابھی دسمبر 2017ء میں امریکی صدر کا بیت المقدس میں سفارتخانے کو منتقل کرنے کا اعلان صرف ایک اعلان نہیں بلکہ فلسطین میں یہودی آباد کاری کے 100 ویں سال پر فلسطین کو یہود کا ملک تسلیم کرنے کا اعلان ہے۔ کیونکہ یہود اس وقت فلسطین کے 70 فیصد حصہ پر قابض ہوچکے ہیں۔ بیت المقدس کے رہائشی مسلمانوں سے ان کی شہریت چھین لی گئی ہے بلکہ لاکھوں فلسطینیوں کو ملک بدر کردیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہود کی بیت المقدس کے حصول کے لیے جنگ کی وجوہات کیا ہیں؟ پہلی وجہ یہ ہے کہ یہود کی شریعت پر مبنی کتاب تالمود کی تعلیمات کے مطابق ان کا عقیدہ یہ ہے کہ فلسطین پر آباد ہونے کا حق صرف یہود کو ہے اور وہ اس مقصد کے لیے جسے چاہیں قتل کرسکتے ہیں۔ دوسری وجہ ان کے عقیدہ کے مطابق فلسطین ارض موعود ہے یعنی وہ زمین جس کا وعدہ اللہ نے ان کے ساتھ کیا ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کو از سر نو تعمیر کرکے وہ دنیا پر حکمرانی کرسکتے ہیں۔ غرض یہود ان عقائد میں اتنے پختہ ہیں کہ وہ ان کے حصول کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ اب امریکی صدر کے بیان پر مسلمان ممالک کے ساتھ یورپی ممالک بھی مخالفت کررہے ہیں مگر نوبت یہاں تک پہنچانے کے ذمہ دار بھی یہی یورپی ممالک ہیں جو اسرائیل کے سامنے کچھ کہنے کی سکت نہیں رکھتے کیونکہ اس وقت دنیا کی معیشت پر سب زیادہ قبضہ اسرائیل کا ہے۔ تعداد میں اسرائیلی اگرچہ بہت زیادہ نہیں مگر اپنی شاطرانہ ذہنیت سے اس وقت دنیا پر چھائے ہوئے ہیں ایسے میں اس اعلان کے خلاف احتجاج کون سنے گا؟ ہاں مسلمان ممالک اگر چاہیں تو یک زبان ہو کر اس اعلان کے خلاف ٹھوس اقدامات کرسکتے ہیں مگر اس کے لیے جرات مند قیادت کی ضرورت ہے جس سے بدقسمتی سے ہم محروم ہیں۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جنوری 2018
تبصرہ