شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب
ترتیب و تدوین: صاحبزادہ محمد حسین آزاد الازہری
معاونت: نازیہ عبدالستار
28 رمضان المبارک 2005ء کو جامع مسجد المنہاج بغداد ٹائون کے شہر اعتکاف میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’اجتماعیت کی برکتیں اور رجوع الی القرآن‘‘ کے موضوع پر خصوصی خطاب فرمایا۔ اب آمدِ ماہ رمضان کی مناسبت سے جو نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔ اس خطاب کو ایڈیٹ کرکے بالاقساط شائع کیا جارہا ہے۔ جو قارئین مکمل خطاب سننا چاہیں وہ وی سی ڈی نمبر 493 سماعت کریں۔ شکریہ (منجانب: ادارہ دختران اسلام)
اس مضمون کی پہلی قسط میں رجوع الی القرآن کے موضوع کو قرآنی آیات کی روشنی میں بیان کیا گیا تھا۔اس قسط میں ان شاء اللہ ہم اس موضوع کو احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں سمجھنے کی کاوش کریں گے۔
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
خَيْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ.
(بخاری،الصحيح، 4: 1919، رقم 4739)
تم میں سے سب سے افضل اور برگزیدہ شخص وہ ہے جو قرآن مجید سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔
گویا جو شخص قرآن پڑھے اور دوسروں کو پڑھائے، خود سمجھے اوردوسروں کو سمجھائے ایسے شخص کو آقا علیہ السلام نے امت میں سب سے اعلیٰ اور اونچے درجے کا برگزیدہ قرار دیا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ روایت کرتی ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
الْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْکِرَامِ الْبَرَرَةِ وَالَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيهِ وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ لَهُ أَجْرَانِ.
(مسلم،الصحيح، 1: 549، رقم: 798)
جو شخص قرآن مجید میں ماہر ہو وہ ان فرشتوں کے ساتھ رہتا ہے جو معزز اور بزرگ ہیں۔ یعنی قرآن کے ماہرکو فرشتوں کی مجلس اور ہم نشینی ملے گی اوراُس کا مسکن ان کے ساتھ ہوگا۔ اور جس شخص کو قرآن مجید پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے اور اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اور اس دشواری کے باوجود وہ قرآن کی تلاوت جاری رکھتا ہے اُس کے لیے دوگنا اجر ہے۔
وہ لوگ جو عمر کے ایسے حصے میں ہیں جہاں وہ قرآن نہ پڑھ سکتے ہوں وہ قرآن مجید کھول کر صرف اس کی زیارت کر لیں وہ بھی اجر سے محروم نہیں ہوں گے کیونکہ قرآن کسی کو محرومِ اجر نہیں رہنے دیتا۔ شرط صرف یہ ہے کہ اس سے تعلق جوڑیں اور اس کی طرف رجوع کریں۔
قیامت والے دن قرآن اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرے گا
آپ نے کبھی غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن قرآن پڑھنے والوں کے ساتھ کیا کرنے والا ہے۔حضرت ابو عمامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: حضورA نے فرمایا:
اقْرَؤُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ.
(مسلم، صحيح، 1: 553، رقم: 804)
’’لوگو! قرآن مجید پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کرے گا‘۔
جن جن کو اذن شفاعت ہے اُن میں سے ہر کوئی اپنوں کی شفاعت کررہا ہوگا ، قرآن کو بھی اللہ تعالی نے اذنِ شفاعت سے نوازا ہے لہذا وہ بھی اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کرے گا۔ اسی طرح ماهِ رمضان کے روزوں کو بھی اذنِ شفاعت دیا گیا ہے۔گویا ایک طرف قرآن کھڑا ہوگا دوسری طرف رمضان کے روزے ہوں گے۔ جب روزوں کی باری آئے گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا بولو! روزہ داروں کے ساتھ کیا کرنا ہے؟ عرض کریں باری تعالیٰ! ان ساروں کو بخش دے چونکہ جب رمضان آیا تو انہوں نے ہماری قدر کی تھی۔ پھر قرآن بولے گا باری تعالیٰ ان کو ہمارے ساتھ جنت میں بھیج دے کیونکہ یہ ذوق و شوق سے مجھے پڑھا کرتے تھے۔
پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ کِتَابِ اﷲِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا لَا أَقُولُ الم حَرْفٌ وَلَکِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ.
(ترمذی، السنن، 6: 175، رقم: 2910)
’’ جس نے اللہ کی کتاب سے ایک حرف پڑھا اس کے لئے ایک نیکی ہے اور یہ نیکی دس گناہ ہوتی ہے میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے‘‘۔ لہذا ہر ہر حرف پر دس نیکیاں ہیں، صرف الم کہا تو 30 نیکیاں عطا ہوئیں۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا:
إِنَّ الَّذِي لَيْسَ فِي جَوْفِهِ شَيْئٌ مِنْ الْقُرْاٰنِ کَالْبَيْتِ الْخَرِبِ.
(ترمذی، السنن، 5: 177، رقم: 2913)
’’ قرآن سے خالی سینہ ویران گھر کی مثل ہے‘‘
یعنی جس شخص نے چھوٹی بڑی چند سورتیں بھی یاد نہیں کیں اور قرآن کو پڑھتا ہی نہیں ہے۔ فرمایا اس کی حالت وہی ہے جو ویران اور تباہ شدہ گھر کی ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:
يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْاٰنِ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ کَمَا کُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا فَإِنَّ مَنْزِلَتَکَ عِنْدَ اٰخِرِ اٰيَةٍ تَقْرَأُ بِهَا.
(سنن ترمذی، ج5، ص: 177، حديث: 2914)
’’(قیامت کے دن) قرآن پڑھنے والے سے کہا جائے گا پڑھتا جا اور ترقی کی منازل طے کرتا جا اور اس طرح ٹھہر کر پڑھ جس طرح دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا تیری منزل اُس آخری آیت کے پاس ہے جو تو پڑھے گا ‘‘۔
یعنی کہا جائے گا کہ ایسے ذوق شوق سے پڑھ جیسے دنیا میں پڑھا کرتا تھا۔ جہاں آخری آیت کی تلاوت ختم کرے گا وہ جنت میں تیرا مقام ہوگا۔ گویا فرمایا جا رہا ہے تیرے لئے مقام مقرر ہی نہیں، جتنا قرآن پڑھ کر اوپر جاسکتا ہے منزل بمنزل ترقی کرتا جا۔ جہاں تلاوت ختم کرے گا وہ تیرا درجہ ہو گا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں آقا علیہ السلام نے فرمایا:
قَالَ يَجِيئُ الْقُرْاٰنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ يَا رَبِّ حَلِّهِ فَيُلْبَسُ تَاجَ الْکَرَامَةِ ثُمَّ يَقُولُ يَا رَبِّ زِدْهُ فَيُلْبَسُ حُلَّۃَ الْکَرَامَةِ ثُمَّ يَقُولُ يَا رَبِّ ارْضَ عَنْهُ فَيَرْضَی عَنْهُ فَيُقَالُ لَهُ اقْرَأْ وَارْقَ وَتُزَادُ بِکُلِّ اٰيَةٍ حَسَنَة.
(ترمذی،السنن، 5: 178، رقم: 2915)
’’روز قیامت صاحب قرآن (قرآن پڑھنے اور عمل کرنے والا) آئے گا تو قرآن کہے گا: اے رب! اسے زیور پہنا، تو صاحب قرآن کو عزت کا تاج پہنایا جائے گا۔ قرآن پھر کہے گا: اے میرے رب! اسے اور بھی پہنا تو اسے عزت و بزرگی کا لباس پہنادیا جائے گا پھر کہے گا: اے میرے مولا! اس سے راضی ہوجا (اس کی تمام خطائیں معاف کردے) تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجائے گا اور اس سے کہا جائے گا: قرآن پڑھتا جا اور (جنت کے زینے) چڑھتا جا اور اللہ تعالیٰ ہر آیت کے بدلے میں اس کی نیکی بڑھاتا جائے گا‘‘۔
حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یہ بھی ہے کہ قیامت کے دن قرآن پڑھنے والے کے والدین کو بھی بلایا جائے گا اور فرمایا جائے گا: ان کو لباس کرامت پہنائو تو اُن کو بھی تاج کرامت اور لباس کرامت پہنایا جائے گا اور اس میں سے نور کی شعاعیں نکل رہی ہوں گی۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھیں گے۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھیں گے۔ آپ بتائیں ہم نے کوئی ایسا نیک عمل کیا ہی نہیں پھر یہ تاج کرامت ہمیں کس لئے پہنادیا گیا ہے۔ وہ کہیں گے کہ سمجھ نہیں آرہی ہم تو کورے تھے پلّے کچھ نہیں تھا۔ اتنا کرامت کا لباس اور تاج کیسے پہنادیا ہے؟۔ تب اللہ کی بارگاہ سے فرشتوں کو حکم ہوگا کہ جواب دو۔ انہیں بتایا جائے گا کہ یہ تاج تمہیں تمہارے کسی عمل کی وجہ سے نہیں پہنایا گیا بلکہ صرف اس لئے کہ تم نے اپنے بچے کو قرآن پڑھایا تھا۔ تمہارا بچہ قرآن پڑھتا تھا اس کے قرآن پڑھنے کے صلے میں اس کی عزت تمہیں بھی عطا کی گئی ہے کہ تم قرآن پڑھنے والے کے ماں باپ ہو۔
اس سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ اگر کسی کے اپنے اعمال میں کمی رہ جائے تو اس کی تلافی کے لئے اولاد کو قرآن کی ترغیب دے،لہذا خود بھی قرآن کی طرف رجوع کرو اور اولاد کو بھی اس طرف راغب کرو۔ثواب اُن کو بھی ملے گا اور اُن کے سبب سے آپ کو بھی ملے گا۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ مَأْدُبَةُ اﷲِ فَمَنْ دَخَلَ فِيهِ فَهُوَ آمِنٌ..
(الدارمی، السنن، 2: 525، رقم: 3322)
’’بے شک یہ قرآن اللہ تعالیٰ کا دستر خوان ہے۔ پس جو اس دستر خوان میں شامل ہوگیا اسے امن نصیب ہوگیا‘‘۔
کھانا ایک ڈش ہوتی ہے جبکہ دستر خوان میں طرح طرح کے کھانے چن دیئے جاتے ہیں۔ اللہ کے دستر خوان میں کیا ہوگا۔ کون سے کھانے اور ڈشیز ہوں گی؟ کوئی قربت کی ڈش ہے، کوئی محبت کی ڈش ہے، کوئی معرفت کی ڈش ہے۔ یعنی یہ کھائو گے تو اس کے ذریعے قربت ملے گی، یہ کھائو گے تو معرفت ملے گی، یہ کھائو گے تو بخشش ملے گی، یہ کھائو گے تو رضا ملے گی، یہ کھائو گے تو دیدار ملے گا۔ پتہ نہیں اس میں کیا کیا ڈشیں ہیں۔ آپ نے اس باندی کا حال سنا ہو گا جو بسم اللہ پڑھ کر بے ہوش ہوگئی تھی۔ یہ تو نام کا حال ہے جب نظارہ ہوگا تو اس کا عالم کیا ہوگا؟
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جولائی 2017
تبصرہ