مضمون نگار: نواز رومانی
بعثت سے دو سال پہلے حارث بن ابی ضرار کے ہاں ایک بیٹی نے جنم لیا، باپ نے اس کا نام برہ رکھا۔ بچی چندے آفتاب و چندے ماہتاب تھی جو ایک بار دیکھ لیتا پھر چہرہ سے نظر نہ ہٹاتا لہذا اس کی پرورش بڑے نازو نعم میں ہونے لگی۔ بنی مصطلق کے سردار کی یہ بیٹی جوں جوں بڑی ہورہی تھی اس کے حسن و خوب صورتی میں اور نکھار آتا جارہا تھا، باپ بھی اس کی ہر خواہش کو مقدم رکھتا تھا اور جو کہتی تھی، اسے پورا کرتا تھا۔
وقت بڑی تیزی سے برہ کو بلوغت کی سرحدوں کے قریب لے جارہا تھا اور پھر ایک دن بلوغت کی سرحد پر پہنچ کر اس کو عبور کرگئی تو اس کے بیاہ کی فکر دامن گیر ہوگئی۔
برہ اب اس قابل ہے کہ اس کی شادی کردی جائے۔ بیوی نے ایک دن بات چھیڑی۔ مجھے احساس ہے۔ میاں بیوی بیٹھے یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اسی اثناء میں صفوان آگیا جو ان کے اپنے قبیلے کا ہی مشہور شخص تھا۔ کیا باتیں ہورہی تھیں؟ اس نے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ برہ کی شادی کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ حارث بن ابی ضرار نے کہا۔ اس میں سوچنے کی کیا بات ہے، میں اپنے لڑکے مسافع کے لئے آیا ہوں۔
صفوان نے کہا تو دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرائے جیسے انہوں نے صفوان کی اس تجویز کو پسند کیا ہو اور پھر رشتہ طے ہوگیا اور جلد ہی مسافع اور برہ کی آپس میں شادی ہوگئی۔
مسافع اور برہ بڑی خوش گوار زندگی بسر کررہے تھے ایک دن برہ اپنی خواب گاہ میں آرام کررہی تھیں، چاند آسمان کی پہنائیوں میں محو خرام تھا، ہر سو خاموشی محیط تھی، عالم خواب میں کیا دیکھتی ہیں کہ یثرب کی طرف سے چاند چلتا آرہا ہے یہاں تک کہ وہ میری آغوش میں اتر آیا ہے۔ خواب دیکھنے کے بعد فوراً آنکھ کھل گئی اور اس پر غور کرنے لگیں۔ اس کی کیا تعبیر ہوسکتی ہے؟
آپ سوچنے لگیں اور پھر ان کے کانوںمیں قبیلے کے کئی لوگوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔ محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین روز افزوں پھیلتا جارہا ہے جو ایک بار حلقہ اسلام میں داخل ہوجاتا ہے پھر اس پر مرمٹتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں اور عاشقوں کی مثل دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔
اور پھر انہوں نے خود ہی خواب کی تعبیر لی اور مسکرا دیں۔ صبح جب وہ اٹھیں تو انہوں نے رات کے خواب کا کسی سے ذکر نہیں کیا، چہرے پر عجیب طرح کی بشاشت تھی جو اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ مسافع نے اس غیر معمولی بشاشت کی وجہ بھی دریافت کی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔
حارث بن ابی ضرار اور مسافع اسلام کے سخت مخالف تھے، ان کو اسلام کا پھیلنا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ لہذا حارث بن ابی ضرار نے مدینہ پر یلغار کی نیت سے تیاریاں شروع کردیں۔
2 شعبان 5 ہجری کو اسلامی لشکر بنی مصطلق کی طرف سے روانہ ہوا جو مدینہ منورہ سے نو منزل پر ہے اس لشکر میں ایک ہزار مجاہدین تھے، مہاجرین کا جھنڈا حضرت صدیق اکبر اور انصار کا علم حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا۔ اس غزوہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ امہات المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا و حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ ادھر حارث بن ابی ضرار کو بھی اطلاع مل گئی تھی کہ اسلامی لشکر چل پڑا ہے اور یہ بھی پتہ چل گیا تھا کہ اس کا جاسوس قتل کردیا گیا تھا جسے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر لانے کے لئے بھیجا تھا۔
وہ لوگ جو اسلام دشمنی سے مغلوب ہوکر حارث بن ابی ضرار کے پاس جمع ہوئے تھے انہوں نے جب دیکھا کہ مسلمان ان کے سر پر پہنچ گئے ہیں تو انہوں نے راہ فرار اختیار کی۔ حارث نے بھی اسی میں عافیت سمجھی کہ بھاگ جائے لیکن باقی اہل قبیلہ نے صف بندی کرلی اور مسلمانوں پر تیر برسانے شروع کردیئے۔ تھوڑی ہی دیر میں مشرکین کے کس بل نکل گئے، ان کے دس لوگ جنگ میں مارے گئے جن میں مسافع بن صفوان، برہ کا خاوند بھی شامل تھا، مسلمانوں میں سے صرف ایک صبابہ حضرت ہشام بن صباحہ رضی اللہ عنہ شہادت پر فائز ہوئے تھے۔
اس غزوہ میں جو تاریخ میں غزوہ بنی مصطلق یا مریسیع مشہور ہے، دو ہزار اونٹ، پانچ ہزار بکریاں مال غنیمت میں ملیں اور دو سو گھروں کے چھ سو مرد، عورتیں اور بچے اسیر ہوئے جن میں رئیس قبیلہ کی بیٹی برہ بھی شامل تھیں۔ مال غنیمت کو مجاہدین میں بانٹ دیا گیا اور قیدیوں کو لوگوں میں تقسیم کردیا گیا۔ برہ بنت حارث (رضی اللہ عنہا)، حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ اور ان کے چچا زاد بھائی کے حصہ میں آئیں۔
میں آپ کی مکاتبہ بننے کے لئے تیار ہوں۔ برہ بنت حارث نے حضرت ثابت بن قیس انصاری رضی اللہ عنہ سے کہا۔ ٹھیک ہے آپ مجھے نو اوقیہ سونا دے دیں میں آپ کو آزاد کردوں گا۔ وہ سوچنے لگیں: مجھے لوگوں سے مکاتب کی رقم مانگ کر ادا کردینی چاہئے۔ مجھے سب سے پہلے رحمت مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در اقدس پر دستک دینا چاہئے جہاں سے کبھی کوئی نامراد نہیں لوٹا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت کہاں ملیں گے۔ برہ بنت حارث نے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا۔
حارث بن ابی ضرار جو غزوہ بنی مصطلق کے وقت بھاگ گیا تھا اسے جب پتہ چلا کہ اس کی بیٹی کو کنیز بناکر لے گئے ہیں تو اپنی بیٹی کے فدیہ میں چند اونٹ لے کر مدینے کی طرف چل پڑا جب وہ اونٹ لے کر چلا تھا، ان میں سے دو اونٹ اسے بہت پسند تھے لہذا وہ اس نے وادی عقیق کی گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں چھپادیئے اور باقی اونٹ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچا۔
جب وہ مدینہ منورہ پہنچا تو اس سے پہلے ان کی بیٹی رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد کی درخواست کرچکی تھیں۔ آپ باہر تشریف لائے تو حارث بن ابی ضرار نے عرض کی:
میری بیٹی کنیز نہیں بن سکتی، میری شان اس سے بالا تر ہے، میں اپنے قبیلے کا سردار اور رئیس عرب ہوں، آپ اس کو آزاد کردیں اور زر فدیہ لے لیں۔ وہ دو اونٹ کہاں ہیں جو تم راستے میں چھپا آئے ہو؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا اور اس گھاٹی کا نام بھی بتادیا جہاں انہیں چھپایا تھا۔ آپ کو کس نے اطلاع دی؟ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں۔ حارث بن ضرار نے کہا اور مسلمان ہوگیا۔
برہ بنت حارث جب آزاد ہوگئیں تو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت عالیہ میں ہی رہنے کو فوقیت دی اور والد کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حارث بن ابی ضرار رضی اللہ عنہ کو برہ سے نکاح کا پیغام بھیجا جو انہوں نے بصد خوشی قبول کرلیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت برہ رضی اللہ عنہ کے قبیلے کے چالیس غلام بھی آزاد کردیئے۔ آپ نے برہ کا نام بدل کر جویریہ رکھ دیا اور اس طرح حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا وہ خواب سچا ثابت ہوا جو انہوں نے کئی سال پہلے دیکھا تھا کہ یثرب سے چلتا ہوا چاند ان کی آغوش میں آگیا ہے اور جو تعبیر انہوں نے اس وقت نکالی تھی، وہی نکلی۔
برہ کا مطلب نیکی و احسان ہے لیکن اس لفظ کے استعمال سے منفی معنی بھی نکلتے ہیں۔ بقول حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نام کو مکروہ جانتے تھے اور اسی بناء پر برہ کا نام بدل کر جویریہ رضی اللہ عنہا رکھ دیا تھا۔
جب لوگوں کو علم ہوا کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے شادی کرلی ہے تو لوگ بولے: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سسرال والے غلام بنائے جائیں، ہرگز نہیں یہ محبت کے منافی ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں، میں نے کسی عورت کو جویریہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر اپنی قوم کے حق میں مبارک نہیں دیکھا، ان کے سبب بنو مصطلق کے تمام گھرانے آزاد کردیئے گئے۔
ام المومنین حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے تمام بہن بھائی اور والد دولت اسلام سے مالا مال ہوگئے تھے۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے لئے مسجد نبوی کے قریب ہی امہات المومنین کے دوسرے حجرات سے متصل ایک حجرہ تعمیر کرادیا گیا تھا۔ بقول ابن سعد اس کی دیواریں کچی اینٹوں کی اور چھت کھجوروں کی شاخوں سے بنائی گئی تھی جسے گارے سے لیپ دیا گیا تھا، دروازے پر اونی ٹاٹ کا پردہ تھا جس کا طول تین ہاتھ اور عرض ایک ہاتھ تھا۔ ایک دن رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں موجود تھے تو حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی:
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کی دوسری عورتیں مجھ پر فخر کرتی ہیں۔ کیا؟ جب انہوں نے بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا میں نے تمہارے مہر میں بڑی رقم ادا نہیں کی؟ کیا میں نے تمہاری قوم کے چالیس غلام آزاد نہیں کئے؟
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جویریہ رضی اللہ عنہا بڑی شیریں، موزوں اندام، ملیح اور صاحب حسن و جمال عورت تھیں جو کوئی دیکھتا فریفۃ ہوجاتا تھا، ظاہری حسن و جمال کے علاوہ آپ باطنی حسن سے بھی مالا مال تھیں، بڑی زاہدہ، متقیہ، راست باز، عبادت گزار، قناعت پسند، مجسمہ صبرو رضا، برد بار و حلیم جودو سخا، عجز و انکساری، ایثار و اخلاص اور ذکر و تلاوت میں یکتا تھیں۔ یہ سب خوبیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بدولت اور تعلق سے نکھر کر ابھری تھیں۔
اہل سیر بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز فجر کے بعد سیدھے حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے پاس سے باہر تشریف لائے تو اس وقت وہ اپنے مصلے پر بیٹھی مشغول عبادت تھیں، نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاشت کے وقت ان کے پاس تشریف لائے تو ان کو مصلے پر بیٹھے پایا تو فرمایا:
جب سے باہر گیا ہوں اس وقت سے تم اسی جگہ یونہی بیٹھی ہو؟ عرض کی: جی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! زوجہ محترمہ کی بات سنی تو ارشاد فرمایا: جس وقت سے میں تمہارے پاس سے گیا ہوں اب تک چار کلمے میں نے پڑھے ہیں اگر ان کو ان کے ساتھ موازنہ کیا جائے جو تم نے اب تک پڑھے ہیں تو یقینا وہ چار کلمے وزنی ہوں گے۔
میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان، وہ کون سے کلمات ہیں؟ اے اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا نے عرض کیا اور ہمہ تن گوش ہوگئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ کلمات یہ ہیں:
سبحان الله عدد ما خلقه سبحان الله رضا نفسه
سبحان الله زنته عرشه سبحان الله مداد کلماته
بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اپنے ذکر میں ان کلمات کو بھی شامل کرلیں جو بظاہر کم ہیں لیکن مدلول زیادہ ہے۔ ام المومنین سیدہ حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا روحانی بالیدگی اور تزکیہ نفس کی خاطر نفلی روزے کا خاص اہتمام فرماتی تھیں، خاص طور پر جمعۃ المبارک کو روزہ رکھتی تھیں۔ ایک مرتبہ جمعۃ المبارک کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے گئے اس دن ان کا روزہ تھا، پوچھا:
گذشتہ کل روزہ رکھا تھا؟ نہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! انہوں نے جواب دیا۔ کیا آنے والے کل کو روزہ رکھنے کا ارادہ ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت کیا۔ جی ارادہ تو نہیں ہے۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا، سنا تو فرمایا: افطار کردو۔ حکم کی دیر تھی کہ انہوں نے روزہ افطار کرلیا۔
اس سے امت کی تعلیم مقصود تھی کہ کسی خاص دن کو نفلی روزے کے لئے مخصوص نہیں کرلینا چاہئے تاکہ یہود و نصاریٰ کے ساتھ مشابہت کا موجب نہ ہوجائے کیونکہ وہ معین دن کی تعظیم کرتے ہیں، یہ معین دن ہفتہ اور اتوار ہیں۔ نیز روز جمعہ روز عید ہے جیسا کہ حدیث پاک میں وار دہوا ہے لہذا اس دن روزہ رکھنا مناسب نہ ہوگا۔
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور پوچھا: کچھ کھانے کو ہے؟ میری کنیز نے صدقہ کا گوشت دیا تھا، وہی رکھا ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ انہوں نے عرض کیا تو فرمایا: اسے اٹھا لاؤ کیونکہ صدقہ جس کو دیا گیا تھا اس کو پہنچ چکا۔
ام المومنین سیدہ جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجیت کے نورو نکہت سے بھرپور فضاؤں میں بے مثل زندگی گزار رہی تھیں، وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ یہ حسین و خوش گوار زندگی صرف چھ سالوں پر محیط ہے اور اس کے بعد وہ بیوگی و جدائی کا داغ دے کر اپنے رفیق اعلیٰ کے پاس تشریف لے جائیں گے جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال فرمایا تو دنیا اندھیر ہوگئی۔ یقین نہیں آتا تھا کہ آنکھیں جو دیکھ رہی ہیں، وہ حقیقت ہے، دل میں ہول اٹھتا تھا، آنکھوں سے اشک رواں تھے لیکن لبوں پہ یہ الفاظ تھے: اے باری تعالیٰ! تو جس حال میں مجھے رکھے، میں ویسے ہی راضی ہوں، مجھے حوصلہ عطا فرما۔
اس وقت ان کی عمر مبارک چھبیس سال کی تھی، زندگی کی طویل راہیں سامنے پھیلی ہوئی تھیں، تھوڑے ہی فاصلے پر حجرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا میں محبت کرنے والا شوہر، اللہ کا محبوب، رحمۃ للعالمین اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابدی آرام فرمارہے تھے جب فراق و جدائی کی کسک بہت بے تاب کردیتی اور ملاقات کو دل چاہتا تو ام المومنین سیدہ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا اپنے حجرے سے نکل کر حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں تشریف لے جاتیں۔ سلام عرض کرتیں، قدموں میں بیٹھ جاتیں، بے اختیار آنکھوں میں آنسوؤں کے ستارے جھلملانے لگتے، دل میں باتیں کرنے لگتیں۔ یوں احساس ہوتا جیسے محبوب رب ودود صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریب بیٹھے باتیں سن رہے ہوں، دل تو نہیں چاہتا تھا کہ وہاں سے اٹھیں لیکن بادل نخواستہ اٹھنا پڑتا اور پھر اپنے حجرے میں تشریف لے جاتیں اور یاد الہٰی میں مصروف ہوجاتیں۔
حالات کچھ بھی تھے لیکن امہات المومنین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو موجود تھیں، ان کی بدرجہ اولیٰ عزت و تکریم کی گئی، ان کی ضروریات کا دھیان رکھا گیا، ان سے رہنمائی حاصل کی گئی اور ہر خلیفہ کی یہ کوشش رہی کہ ان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تو امہات المومنین رضی اللہ عنہ کی خدمت باعث افتخار و سعادت سمجھتے تھے۔ انہوں نے حضرت سیدنا جویریہ رضی اللہ عنہا کا سالانہ وظیفہ بارہ ہزار مقرر کررکھا تھا اس کے علاوہ بھی تحائف ارسال کرتے رہتے تھے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیدہ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کو جدا ہوئے پینتالیس سال ہوگئے اس وقت ان کی عمر 71 سال تھی، یہ ر بیع الاول 56 ہجری کا واقعہ ہے۔ سوچ رہی تھیں کہ اسی مہینے میں، میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا ہوئی تھی یہاں پہنچ کر ان کی سوچیں گہری ہوگئیں۔ محبت اور اتباع کی یہ بھی تو صورت ہے کہ اسی مہینے بلاوا آجائے۔اور پھر بلاوا آگیا، طویل جدائی کے بعد اب وصل کا وقت آگیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے سے تیار تھیں اور پھر روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔
ان دنوں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینہ منورہ میں مروان بن الحکم حاکم تھا، انہوں نے ام المومنین سیدہ حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں آسودہ خراب ہوگئیں۔
کتب معتبرہ میں ان سے سات احادیث مروی ہیں جن میں سے دو بخاری شریف میں، دو مسلم شریف میں اور تین دیگر کتب میں ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کے بہن بھائی بھی مسلمان ہوگئے تھے، ان کے بھائی حضرت عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث پاک مروی ہے، کہتے ہیں:
اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال کے وقت نہ دینار چھوڑا نہ درہم، نہ غلام نہ لونڈی نہ اور کوئی چیز صرف ایک سفید خچر تھا یا ہتھیار تھے یا کچھ زمین تھی جسے آپ نے صدقہ فرمادیا۔ حضرت عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ کی بہن سے بھی درج ذیل حدیث مروی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا بظاہر بڑی شاداب اور شیریں معلوم ہوتی ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اکتوبر، 2016
تبصرہ