ڈاکٹر ابوالحسن الازہری
اب ہم دلوں کی قساوت اور دلوں کی غفلت کے بعد بندوں کے دلوں میں آنے والی نافرمانی اور معصیت کو اجمال کے ساتھ ذکر کرتے ہیں:
دل اور رغبت گناہ
کچھ دل ایسے ہوتے ہیں جو ہمیشہ گناہ کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ وہ دل گناہ کو سوچتے ہیں اور گناہ میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ گناہوں سے اس قدر آلودہ ہوتے ہیں کہ قلب اثم بن جاتے ہیں۔ قرآن اس کا ذکر سورہ بقرہ میں کرتا ہے:
فَاِنَّـهُ اٰثِمٌ قَلْبُهُ.
’’تو یقینا اس کا دل گنہگار ہے‘‘۔
(البقرة، 2: 283)
اور کچھ وہ دل ہیں جن کا کام غفلت میں پڑنا ہے، وہ غفلت شعار ہوتے ہیں۔ وہ فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں، وہ اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑاتے ہیں، وہ سست روی کو اختیار کرتے ہیں، ایسے دل اطاعت شناس نہیں ہوتے، ایسے دل عبادت سے دور ہوتے ہیں، ان دلوں پر غفلت کا غلبہ ہوتا ہے اور وہ دل نفس پرست اور خواہش پرست ہوتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهُ.
’’اور تو اس شخص کی اطاعت بھی نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے‘‘۔
(الکهف، 18: 28)
جب دل غافل ہوتا ہے تو یہ بندے کو مولا سے دور کرتا ہے اور بندہ رب کی یاد سے محروم ہوجاتا ہے اور اس کی عبادت سے لاتعلق ہوجاتا ہے۔ غفلت ایک پردہ اور حجاب ہے۔ جب غفلت کے پردے انسان پر دراز ہوتے ہیں تو انسان اس ذات کو بھلا دیتا ہے جس کے احسانات اس کی زندگی کے ایک ایک پل میں بے حساب ہیں، وہ ذات جس نے انسان خلق کیا ہے اور وہ جس نے انسان کو بہترین خلق دیا ہے اور جس نے انسان کو احسن تقویم کی صورت عطا کی ہے اور ’’ولقد کرمنا بنی آدم‘‘ کا اعزاز بخشا ہے اور وہ ذات جو انسان کے وجود میں ہر نعمت کا حوالہ ہے بلکہ انسان کے وجود میں ہر نعمت اس کی رحمت کا پرتو ہے اور وہ رب جو انسان کے لئے، ’’اقرب الیہ من حبل الورید‘‘ کی قربت اور تعلق والا ہے، جسے بھولایا نہیں جاسکتا ہے، جس سے لاتعلق نہیں ہوا جاسکتا، جس سے انسان کا ربط ٹوٹ نہیں سکتا، جو انسان کی زندگی کے ہر دم میں دم بدم ہے، جو انسان کے ہر قول صدق میں، ’’ومن احسن من اللہ قیلا‘‘ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اب ایسی ذات کو، انسان بھلانا بھی چاہے تو نہیں بھلا سکتا، لیکن سوال یہ ہے کہ انسان پھر بھی تو اپنے رب کو بھول رہا ہے، اپنے رب کی عبادت سے دور ہے۔ اس کے حضور سجدہ ریزی سے محروم ہے، اس کا جسم ہر جگہ ناچتا، کودتا ہے مگر رب کی بارگاہ میں جھکتا نہیں، وہ ہر دنیوی مجلس میں جاتا ہے مگر مجلس الہٰی میں آتا نہیں۔ وہ اپنے تعلق کے ہر رشتے کو یاد کرتا ہے مگر جس سے اس کا تعلق سب سے زیادہ ہے اسی ذات کو یاد نہیں کرتا، اسے ہر کسی دوست کا فراق محسوس ہوتا ہے مگر اسے اپنے رب کا ہجر و فراق محسوس نہیں ہوتا، تو یاد رکھ لیجئے اس کی وجہ صرف اور صرف غفلت ہے۔ غفلت انسان کو رب سے اسی طرح دور کرتی ہے جس طرح کسی چیز کا تعصب انسان کو ہر طرح کی مسلمہ حقیقت اور حق و سچ سے دور کردیتا ہے۔ تعصب سچ اور حق کا انکار کرتا ہے۔ اسی طرح غفلت بندے کو حق تعالیٰ سے دور کرتی ہے۔ غفلت ایک مرض کی طرح بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جب انسان رب کی یاد و عبادت سے ایک بار غافل ہوتا ہے اور پھر اس کی اصلاح نہ کرے تو یہ غفلت بڑھتی چلی جاتی ہے حتی کہ رفتہ رفتہ انسان کو بالکل اپنے رب سے غافل کردیتی ہے۔
دل کی غفلت گناہ کا سبب ہے
اس لئے قرآن سورہ الانبیاء میں اس حقیقت کو بیان کرتا ہے:
لَاهِيَةً قُلُوْبُهُمْ ط وَاَسَرُّواالنَّجْوَی الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا.
’’ان کے دل غافل ہو چکے ہیں، اور (یہ) ظالم لوگ (آپ کے خلاف) آہستہ آہستہ سرگوشیاں کرتے ہیں ‘‘۔
(الانبياء، 21: 3)
دل کی غفلت کیا ہے، دل غیر مکلف ہونے لگتا ہے اور دل غیر مطیع ہونے لگتا ہے، دل غیر مذکور ہونے لگتا ہے، دل اپنے دل کے مکین سے غیر متعلق ہوجاتا ہے۔ دل غیر اللہ کی طرف اپنا رحجان بڑھا دیتا ہے۔ عام الفاظ میں دل کی غفلت غیر ذمہ داری کا نام ہے، بندہ اپنے فرائض سے لاتعلق ہوتا ہے، اپنی بندگی سے بے خبر ہوتا ہے، اپنے وجو دمیں اطاعت نہیں لاتا بلکہ معصیت لاتا ہے، فرمانبرداری کی راہ پر نہیں چلتا بلکہ نافرمانی کی روش پر چلتا ہے، بندہ متقی نہیں بنتا بلکہ بندہ عاصی بنتا ہے۔
یہ آیت کریمہ واضح کررہی ہے کہ جب انسان غفلت کی راہ پر چلتا ہے تو توحید سے بھی دور ہوتا ہے اور رسالت سے بے خبر ہونے لگتا ہے، معرفت توحید سے بھی محروم ہوتا ہے اور مقام رسالت سے بھی لاتعلق ہونے لگتا ہے، حتی کہ آہستہ آہستہ غفلت کے حجابات میں پھنستا چلا جاتا ہے اور غفلت اپنے شکنجوں میں اسے کستی چلی جاتی ہے اتنا غافل ہوتاہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف زبان درازی کرنے لگتا ہے۔ غافل سے ظالم بن جاتا ہے۔ غفلت اس کے باطن میں ظلمت پیدا کرتی ہے۔ اندر کی ظلمت ظاہر میں اسے ظالم بنادیتی ہے۔ اب وہ ظلم کے ماحول میں پلتا اور بڑھتا ہے۔ وہ مخلوق کے لئے بھی ظالم ہوتا ہے اور رب کی بارگاہ میں بھی ظالم ہوتا ہے وہ حدود الہٰیہ کا پاس کرنے والا نہیں بلکہ حدود الہٰیہ سے تجاوز کرنے والا ہوتا ہے۔
سورہ المومنون میں اسی مضمون کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
بَلْ قُلُوْبُهُمْ فِیْ غَمْرَةٍ مِّنْ هٰذَا وَلَهُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِکَ هُمْ لَهَا عٰمِلُوْنَ
’’بلکہ ان کے دل اس (قرآن کے پیغام) سے غفلت میں (پڑے) ہیں اور اس کے سوا (بھی) ان کے کئی اور (برے) اعمال ہیں جن پر وہ عمل پیرا ہیں‘‘۔
(المومنون، 23: 63)
غافل دل کے اثرات
دل کی غفلت کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ یہ انسان کے حق میں بہت بڑی نعمت کش ہے۔ یہ انسان کے وجود سے عبدیت کو چھینتی ہے، اطاعت کو ختم کرتی ہے، قربت کو بعد میں بدلتی ہے۔ رضا کو ناراضگی میں تبدیل کرتی ہے۔ محبوبیت کو مغضوبیت میں متشکل کرتی ہے۔ چاہت کو بوجھ بناتی ہے، محبت کو نفرت کی صورت دیتی ہے وفا کو بے وفائی میں بدلتی ہے۔ ایثار کو خودغرضی کی صورت دیتی ہے، نیکی کو زوال دیتی ہے اور بدی کو فروغ دیتی ہے، ہر نعمت سے انسان کو محروم کرتی ہے، غفلت حق اور حقیقت سے دور کرتی ہے اور قرآن حکیم کے پیغام کو سمجھنے سے محروم کرتی ہے۔ غفلت برائی کو انسانی جسم میں پالتی ہے اور نیکی کا انسداد کرتی ہے۔ اس لئے باری تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَکَانَ اَمْرُهُ فُرُطًا.
’’اور تو اس شخص کی اطاعت (بھی) نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اس کا حال حد سے گزر گیا ہے‘‘۔
(الکهف، 18: 28)
یہ آیت واضح کررہی ہے کہ جب انسان اللہ سے غافل ہوتا ہے تو وہ اپنے رب کی پیروی کو چھوڑ کر اپنے نفس کی پیروی شروع کردیتا ہے، پہلے نفس تابع ہوتا ہے اور غفلت کی صورت میں نفس حاکم بن جاتا ہے۔ پہلے نفس کو حکم دیا جاتا ہے اور نفس اس کو بجا لاتا ہے۔ اب دوسری صورت میں اب خود نفس حاکم بن جاتا ہے اپنی خواہش کی پرستش شروع کردیتا ہے۔ اپنی ہوائے نفس واتبع ھواہ کو معبود بنالیتا ہے۔ پہلے نفس کا معبود رب ہوتا ہے اور اب نفس کا معبود اس کی ہوائے نفس، خواہش ہوتی ہے۔ رب کو معبود ماننے کی صورت میں، نفس کو اطاعت کرنا پڑتی ہے اور تکلیف شرعی و طبعی سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور اپنے رب کے حضور جھکنا پڑتا ہے۔
اب دوسری صورت میں نفس جھکتا نہیں بلکہ اپنی ساری صلاحیتوں اور قابلیتوں کو ھوائے نفس میں جھکا دیتا ہے۔ غفلت انسان کو معبود حقیقی سے، معبود باطل تک لے جاتی ہے۔ غفلت انسان کو اللہ کی بندگی کی بجائے، نفس پرستی کی طرف لے جاتی ہے اور ہوائے نفس خود کو ہر حکم سے ماوراء سمجھتی ہے بلکہ وہ خود ہی بڑی حاکم ہوتی ہے۔ اب بندہ اللہ کے حکم کو اپنے نفس پر چلا سکتا ہے یا اپنی ہوائے نفس کو اپنے نفس پر قدرت دے سکتا ہے۔ غفلت میں پڑا نفس ہوائے نفس کو اپنی معراج سمجھتا ہے، ہوائے نفس اور نفس پرستی زوال بندگی ہے اور کمال بندگی اللہ کے حکم پر نفس کا اطاعت کرنا ہے، نفس کا کمال اللہ کی بندگی میں ہے اور نفس کا زوال اپنی ہی خواہش کی پیروی ہے۔
نفس پرستی بندگی کا زوال ہے
نفس پرستی تو خود بندگی کی توہین ہے۔ اس لئے قرآن نے کہا:
وَکَانَ اَمْرُهُ فُرُطًا
’’اپنے نفس کی پیروی کرنے والے کا حال حد سے گزر گیا ہے‘‘۔
(الکهف، 18: 28)
جو لوگ کافر ہوئے، مشرک ہوئے، نافرمان ہوئے، معصیت کار ہوئے، قاتل ہوئے، فاجر ہوئے، گنہگار ہوئے، چور ہوئے، ڈاکو ہوئے سود خور ہوئے، زانی ہوئے، شرابی ہوئے، مجرم ہوئے، کرپٹ ہوئے، حرام خور ہوئے بددیانت ہوئے، خائن ہوئے، ظالم ہوئے، درندے ہوئے، لٹیرے و کرپٹ ہوئے، غنڈے ہوئے اور بدقماش ہوئے دھوکہ باز ہوئے، ملاوٹ کار ہوئے، متعصب ہوئے اور دجال ہوئے غرضیکہ ہر ہر وہ برائی رکھنے والے ہوئے، جسے معاشرہ برائی کہتا ہے اور جسے معاشرہ گناہ کہتا ہے اور جسے معاشرہ ظلم کہتا ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف یہی واتبع ھواہ ہے۔ ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر، اپنے نفس کو اپنا معبود بنالیا ہے۔ یہ اللہ کے حکم کی پیروی نہیں کرتے بلکہ اپنے نفس کی خواہش کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ اپنے اپنے وجود میں حاکم ہیں اور اپنے رب کو نہیں مانتے۔ انہوں نے اپنی ہوائے نفس کو اپنا حاکم بنالیا ہے۔ یہ اللہ کے حکم کو قانون نہیں مانتے۔ یہ اپنے نفس کی خواہش کو قانون جانتے ہیں۔ ان کا مقصود مولا کی رضا نہیں ہے بلکہ اپنے نفس کی خواہش کی تکمیل ہے۔ یہ رب کی پوجا نہیں کرتے، یہ اپنے نفس کی پوجا کرتے ہیں۔ ان کے نفس نے ان کو برائی میں جکڑ رکھا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ان النفس لامارة بالسوء.
’’بلا شبہ نفس برائی پر اکساتا ہے‘‘۔
جب انہوں نے نفس کی پیروی کا راستہ چنا ہے تو ان کے نفس نے ان کو مولا کی راہ پر نہیں لگایا بلکہ اپنی خواہش کی تکمیل پر لگادیا ہے، نفس کی ھوا اور خواہش کیا ہے۔ قرآن نے اس حقیقت کو بھی واضح کردیا ہے کہ وہ لامارۃ بالسوء ہے، نفس کی پیروی میں انسان کی ذلت ہے اور رب کی پیروی میں انسان کی عزت ہے۔ نفس طمع دیتا ہے اور رب کی پیروی انسان کو بے نیاز کرتی ہے۔ نفس کی پیروی حریص بناتی ہے، رب کی پیروی ایثار دیتی ہے۔ نفس کی پیروی رسواکرتی ہے اور رب کی پیروی باعظمت کرتی ہے۔ نفس کی پیروی انسان کو مجرم بناتی ہے اور رب کی پیروی انسان گناہ سے محفوظ اور معصوم بناتی ہے۔
دل میں خیر و شر کی طمع ہونا
قرآن مزید بیان کرتا ہے:
فَيَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهِ مَرَضٌ.
’’جس کے دل میں نفاق کی بیماری ہے کہیں وہ لالچ کرنے لگے‘‘۔
(الاحزاب، 33: 32)
دلوں میں بھی طمع ہوتی ہے۔ دل بھی حریص ہوتے ہیں، دل بھی لالچی ہوتے ہیں۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ اپنے دل میں کس چیز کی طمع پیدا کرتا ہے اور اپنے دل کو کس چیز کا حریص بناتا ہے۔ وہ طمع انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے اگر انسان اس طمع کا رخ اللہ کی طرف موڑ دے تو یہ دل خدا کا طالب ہوتا ہے اور یہ دل رب کی معرفت میں بڑھتا رہتا ہے اور یہ دل رب کی قربت کی راہیں تلاش کرتا رہتا ہے اور یہ دل رب کی عبادت میں سکون پاتا ہے اور یہ دل رب کی یاد میں حلاوت پاتا ہے۔ انسان اگر اس دل کو اپنے نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعلق کی طرف موڑ دے تو انسان کے دل میں نسبت رسالت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پختہ ہوجاتی ہے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق خاطر مضبوط ہوجاتا ہے۔ معرفت و قربت میں استحکام آتا ہے۔ محبت واطاعت رسول میں انسان کو دوام ملتا ہے۔
اگر اس دل کو دین کی طرف پھیر دیا جائے تو دین کے فہم اور دین میں بصیرت کی طمع پیدا ہوجائے گی تو اس میں پھر یہ دل باکمال ہوجاتا ہے غرضیکہ اس دل کو جو دنیوی طمع دی جائے یا جو دینی طمع دی جائے اس میں یہ دل مسلسل بڑھتا رہتا ہے، دل کے قبلے کا رخ انسان نے متعین کرنا ہے، دل کے قبلے کی جہت انسان نے منتخب کرنی ہے۔ دل کی راہیں انسان نے چننی ہیں، جن راہوں پر، جن راستوں پر، جن سمتوں پر، جن خواہشوں پر اس دل کو لگایا جائے گا یہ لگ جائے گا، جیسا راستہ ہوگا ویسی منزل ہوگی، جیسا ہدف ہوگا ویسا مقصود ہوگا۔ جو نیت ہوگی وہی اس کا مراد ہوگا۔ جو سوچ ہوگی ویسا اس کا نتیجہ ہوگا۔ جو عمل ہوگا ویسا اس کا اجر ہوگا۔ اگر دل میں طمع خیر ہے نتیجہ خیر ہوگا اگر دل طمع نفع بخشی کی ہے تو لوگ منفعت پائیں گے۔ اگر دل میں ظلم نہیں تو لوگ ظلم سے محفوظ ہوں گے۔ اگر دل میں گناہ نہیں تو زمین پر گناہ نہ ہوگا۔ اگر دل میں محبت ہے تو لوگ زمین پر محبت کے آثار دیکھیں گے۔ اگر دل میں طمع انسانیت کی ہے تو لوگ معاشرے میں انسانی اقدار کا فروغ دیکھیں گے۔ غرضیکہ انسان وہی کرتاہے جس کی دل میں طمع رکھتا ہے۔ طمع خیر ہے تو نتیجہ خیر ہے اور طمع شر ہے تو نتیجہ شر ہے۔
برا عمل دل کو مجرم بناتا ہے
اسی طرح قرآن اس حقیقت کا بھی ذکر کرتا ہے کہ دل بھی مجرم بنتے ہیں، دل بھی جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، انسانی اعضاء اور جوارح سے کوئی عمل صادر ہوتا ہے وہ دلوں کو مجرم بنادیتا ہے۔ جرم کا ارتکاب تو انسان کے دوسرے اعضا و جوارح کرتے ہیں مگر اس کا اثر دلوں پر مرتب ہوتا ہے جس کی وجہ سے دل گنہگار ہوتے ہیں اور دل مجرم ہوتے ہیں۔ قرآن اس حقیقت کا ذکر سورۃ الحجر میں کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَمَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا کَانُوْا بِهِ يَسْتَهْزِئُوْنَo کَذٰلِکَ نَسْلُکُهُ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِيْنَo
’’اور ان کے پاس کوئی رسول نہیں آتا تھا مگر یہ کہ وہ اس کے ساتھ مذاق کیا کرتے تھے۔ اسی طرح ہم اس (تمسخر اور استہزاء) کو مجرموں کے دلوں میں داخل کر دیتے ہیں‘‘۔
(الحجر، 16: 11-12)
انسان کا استہزاء ساری انسانیت کا استہزاء اور تمسخر ہے۔ انبیاء علیہم السلام جو مرقع صفات ہیں، جو محاسن کا منبع ہیں اور جو خوبیوں کا سرچشمہ ہیں۔ جو احسن عمل کا نمونہ ہیں، جو انسانیت کا افتخار ہیں، جن کے وجود کمال بندگی کا ظہور ہیں، ان کا تمسخر اڑانا اور ان کا استہزاء کرنا ان کی شان میں تنقیص کرنا ان کے مراتب کو کم کرنا، ان کے درجات کو گھٹانا، ان میں نقائص کو ڈھونڈنا، ان کی صفات میں تحقیر لانا، ان کے مقامات کو ہلکا کرنا، ان کو کمتر جاننا۔ یہ عمل دلوں کو مجرم بناتا ہے، اس عمل کے باعث دلوں میں قساوت آتی ہے اور چہروں میں خشونت آتی ہے۔ دلوں کی مجرمیت کی وجہ سے چہروں کی نورانیت ختم ہوتی ہے۔ دل و زبان کی نری سختی میں ڈھلتی ہے۔ اس لئے تمسخر و استہزاء کے عمل سے بچو۔ یہ عمل زیادتی پکڑ جائے تو دلوں کو مجرم بنادیتا ہے۔ پھر ایسے وجود جرائم کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔ ایسے وجود سے پھر شر پیدا ہوتا ہے اور خیر کا خاتمہ ہوتا ہے۔ پھر اندر کی حالت قلوب المجرمین کی ہوتی ہے اور باہر کی حالت وجوہ المجرمین میں ڈھل جاتی ہے۔ اس لئے اس عمل استہزاء اور تمسخر سے اعراض ضروری ہے تاکہ قلب کو اس حالت تک نہ پہنچنے دیا جائے۔
دل کا بینائی سے محروم ہونا
قرآن ا س حقیقت کو بھی ذکر کرتا ہے کہ اس دنیوی زندگی میں آنکھوں کی بصارت سے زیادہ دل کی بصارت موثر ہوتی ہے۔ بسا اوقات آنکھیں حقیقت دیکھتی ہیں مگر دل اس حقیقت کو کسی تعصب، کسی خواہش، کسی مفاد، کسی غرض، کسی خطرے، کسی خدشہ، کسی محرومی، کسی دشمنی، کسی ناچاکی و نااتفاقی، کسی انا پرستی اور کسی تفضیل نفسی کی بناء پر اس کو قبول نہیں کرتا۔ دل کے اس حقیقت کو قبول نہ کرنے سے، حقیقت نہیں بدلتی بلکہ دل بدل جاتا ہے۔ دل اپنی بصارت کو کھوکھر، اعمیت (اندھا پن) کو اختیار کرلیتا ہے۔ دل اپنی صحت کو کھودیتا ہے اور مرض کا شکار ہوجاتا ہے۔ دل اپنی سلیم الفطرت کیفیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اب وہ دل اخلاص سے نہیں مانتا بلکہ مفاد سے مانتا ہے۔ جہاں اس دل کا مفاد ہوتا ہے اس حقیقت کو مان لیتا ہے اور جہاں اس کے دل کا مفاد نہیں ہوتا وہاں حقیقت اظہر من الشمس ہونے کے باوجود دل اس کا انکار کردیتا ہے۔ اس لئے قرآن بیان کرتا ہے:
فَاِنَّهَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰـکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ.
’’حقیقت یہ ہے کہ (ایسوں کی) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں‘‘۔
(الحج، 22: 46)
ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، اگست 2016
تبصرہ