مجدد عصر اور مجالس العلم (قسط دوم)

مسز فریدہ سجاد

شیخ الاسلام نے باطنی ذرائع کواحادیث مبارکہ سے ثابت کرنے کے لیے ایک طویل حدیث کو اس لیکچر میں بیان کیا۔جس کوحضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔

ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں ایک شخص اٹھا۔ جس کا نام عبداللہ بن حذافہ تھا۔ اس نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا:

مَنْ اَبِي يَا رَسُولَ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم؟

’’یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم میرا باپ کون ہے؟‘‘

کیونکہ اُس کے بارے میں لوگ باتیں کرتے تھے کہ وہ اپنے باپ کا بیٹا نہیں ہے، اس کا نسب غلط ہے یہ کسی اور کا بیٹا ہے، اُس نے سوچا میں اپنا مسئلہ ہی حل کرا لوں۔

قَالَ: اَبُوکَ حُذَافَهُ

فرمایا: تمہارا اصل صحیح باپ حذافہ ہے۔

اب یہ بھی ایک پردئہ غیب کی بات ہے۔ یعنی وہ معلوم کرنا چاہتاہے کہ میں حلالی ہوں یا نہیں۔ فرمایا: ہاں تم حلالی ہو، تمہارا باپ حذافہ ہی ہے۔ اب یہ علم نہ قرآنی آیت کے ذریعے آیا ہے، نہ حواس کے ذریعے آیا ہے، نہ عقل نے اس کو ترتیب دیا ہے۔ بلکہ حواس اور عقل کے اور وحی کے درمیان کئی منابع، کئی چشمے اور ہیں اُن میں سے یہ سب سے بڑا (major) چشمہ کشف اور الہام ہے جن کے ذریعے علم آیا ہے۔

حواس خمسہ ظاہری اور عقل کے بعد اور وحی قرآنی سے پہلے اللہ تعالیٰ نے درمیان میں باطنی و روحانی نوعیت اور الہام و کشف کی نوعیت کے ایسے ذرائع ودیعت کیے ہیں جو ہر ایک کی صلاحیت کے مطابق جدا ہیں یہ وہ دائرہ ہے جو ابدال کو بھی حاصل ہے، صالحین اولیاء ، نجباء ، نقباء ، اوتاد، اقطاب اور اغواث کو بھی حاصل ہے۔ پھر یہ متقدمین، تابعین ، اتباع التابعین میں بھی تھے، صحابہ کرام میں بھی تھے اور یہ چشمہ انبیاء کو بھی حاصل ہے۔ ہر ایک کو اُس کے رتبے ، اُس کی ریاضت ،اُس کے مقام و مرتبہ کے مطابق،اُس کے انشراح کے مطابق جتنا کشف ہوا، جتنے پردے اٹھے اتنی ہی چیز اُس کی آنکھوں کے سامنے آشکار ہو گئی۔ یہ درمیان میںSourecs ہیں۔ قرآن اور حدیث پر ایمان اور اعتقاد رکھنے والا ان کا انکار نہیں کر سکتا۔ اِن کا انکار کرنا احادیثِ صحیحہ کا انکارہے۔

حصولِ علم اور قلب

شیخ الاسلام نے اس لیکچر میں بہت خوبصورت انداز میں حصول علم کے باطنی ذرائع میں سے قلب پر گفتگو فرمائی ہے۔

عرف عام میں جب لفظ قلب بولا جاتا ہے توعام استعمال میںقلب یعنی دل سے مراد گوشت کا لوتھڑا ہوتاہے۔ جو دھڑکتا ہے۔ اِس کے نچلے ایک ventricle کی دھڑکن سے ہی نبض کی دھڑکن کا پتہ چلتا ہے لیکن علم کے باب میں جس قلب کی اور جس دل کی بات شیخ الاسلام نے کی وہ دل یہ نہیں ہے۔ وہ قلب القلب ہے۔ وہ قلب ایک روحانی جوہر ہے۔ یہ جو دل ہے یہ صرف اُس کی جگہ ہے۔ اِس لیے اُس قلب کا تعلق علم کے ساتھ ہو جاتاہے۔ اُس قلب کا تعلق انوارِ الٰہیہ کے ساتھ ہو جاتاہے۔ اُس قلب کا تعلق ایمان میں تصدیق کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ اُس قلب کا تعلق تکذیب کے ساتھ ہو جاتا ہے۔اگر قلب Involve نہ ہوتا توایمان میںاقرار باللسان وتصدیق بالقلب نہ ہوتی، پھر تصدیق بالعقل ہوتی۔ قرآن مجید نے ایمان کے لیے تصدیق ذہنی نہیں مانی بلکہ تصدیق قلبی کہا۔

اقرار باللسان وتصديق بالقلب

یعنی زبان سے جس ذات پر، جس ہستی پر، صفات پر، عالم آخرت پر اور جو اللہ کے رسول نبی لے کے آئے ہیں، اِس چیز کومانو۔ توجس پر آپ ایمان لا رہے ہیں اُس کے لیے فرما دیا کہ زبان سے اقرار کرو اور دل سے تصدیق کرو اور شرط کیا ہے؟

الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ

’’وہ بن دیکھے ایمان لائے ہیں‘‘

اب بن دیکھے ایمان لانا یہ چونکہ شرط ہے اور یہ بھی طے ہے کہ اگر دیکھا نہ ہو توعقل اُس کو Receive ہی نہیں کر سکتی، عقل کاسارا انحصار دیکھنے ، سننے ، چکھنے ، سونگھنے اورچھونے پر ہے۔ حواس نے جو کچھ فراہم کیا تو عقل نے اُس کو مانا اور تصدیق تک پہنچایا اور یہاں جو ایمان لانے کی بات ہو رہی ہے وہ تو حواس خمسہ کے دائرے میں ہی نہیں آتا اور جب حواس کے دائرے میں نہیں آتا تو اِس کا مطلب ہے وہ عقل کے دائرے میں بھی نہیں آئے گا۔ عقل کے دائرے میں صرف وہی کچھ آئے گا جو حواس نے اسے convey کیا تھا اور عقل نے اُنھیں مرتب کر کے علم بنا دیا تھا۔عقل تو بن دیکھے جانتی ہی نہیں ہے وہ کسی چیز کی تصدیق کہاں سے کرے؟ یہاں شیخ الاسلام نے مدلل انداز میں اس حقیقت کی وضاحت کی کہ عقل کے حواس خمسہ کے علاوہ کوئی باطنی ذریعہ علم بھی ہے جو تصدیق کرتا ہے یا تکذیب کرتا ہے۔ تصدیق کر دے تو مومن ہو جاتا ہے اور تکذیب کر دے توکافر ہو جاتا ہے۔ اب یہ تصدیق و تکذیب کرنے والادل وہ نہیں ہے جو گوشت کا لوتھڑا ہے۔ جس کو medical point of view سے heart کہتے ہیں، اُس کا تو کام تصدیق کرنا اور تکذیب کرنا نہیں ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ قلب کے اندر کوئی اور قلب ہے۔ جس کا معنیٰ ہے ہر وقت تبدیل ہونے والا۔ قلب کا Process ہے تقلیب۔ اِس کامعنیٰ ہی تبدیلی ہے۔ جو ایک حال میں رہے وہ قلب نہیں ہے وہ تو پتھر ہے۔ قلب اِس کو کہتے ہیں جس کا حال ہر وقت بدلتا رہتا ہے۔ جس کی کیفیات بدلتی رہتی ہیں، اِس کے ہر وقت بدلتے رہنے کی وجہ سے اس کا عربی میں نام قلب رکھا گیاہے کہ یہ ایک حالت پہ نہیں رہتا۔

اب وہ چیزیں جن کو قرآن، وحی اور ایمان address کر رہا ہے یہ وہ حقائق ہیں جو حواس اور عقل کے دائرے میں نہیں آتے، اس کے بعد کی جس چیز کو addressکیا جا رہا ہے اور وہ address اِس گوشت والے عضو heart کو تونہیں کیا کیونکہ اِس کا تو یہ function نہیں ہے۔  بلکہ وہ قلب ہے جس کو قلب القلب کہتے ہیں۔ اِس لیے قرآن مجید نے فرمایا: اِس نصیحت کا فائدہ اُسی کو پہنچے گا جس کے پاس قلب ہے اور یہ دل تو ہر ایک کے پاس ہے۔ اِس میں تو امتیاز ہی نہیں۔ عقل بھی ہر ایک کے پاس ہے اور یہ گوشت والا جو عضو ہے یہ دل بھی ہر ایک کے پاس ہے تو کیا ضرورت تھی قرآن میں رب العزت کے اس فرمان کی:

لِمَنْ کَانَ لَهُ قَلْبٌ

’’اس شخص کے لیے جو صاحبِ دل ہے‘‘

(ق، 50: 37)

یعنی اُسی کو نصیحت کام دے گی۔ تو اس سے پتہ چلا کہ یہ کوئی اور چیز ہے اور یہ جو قوت ہے دراصل یہ وہ ہے جہاں عقل جواب دے جاتی ہے۔ عقل کا دائرہ جہاں ختم ہو جاتا ہے تو اس سے آگے قلب شروع ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام نے فرمایا کہ قلب ایک ایسا جوہر ہے جس کی حالت ہر وقت متغیر رہتی ہے۔ کبھی حضرتِ الٰہیہ کے قریب جاتا ہے کبھی اس سے بعید جاتا ہے، کبھی اس میں روشنی آتی ہے، کبھی اس میں اندھیرا آتا ہے۔ کبھی اس میں قبض آتی ہے یعنی بند ہوتا ہے، کبھی بسط آتی ہے یعنی کھلتا ہے۔ کبھی انشراح آتا ہے، کبھی اس میں انبساط آتا ہے۔ کبھی انقباض آتا ہے۔ کبھی مختلف خواطر اور حوادث اس کے اوپر آتے ہیں، کبھی تجلیاتِ ربّانی آتی ہیں۔

جس طرح عقل حواس سے معلومات لے کر علم کو ترتیب دیتی تھی اسی طرح قلب بھی بعض ذرائع سے معلومات لیتا ہے اور اس کو ترتیب دیتا ہے اور اس کو علم و فہم میں بدلتا ہے۔ جیسے عقل فکر سے لیتی ہے، فکر حواس کے ادراک سے تشکیل پاتا ہے۔ اس طرح قلب کی بھی کچھ جگہیں ہیں، کچھ محلات ہیں، کچھ عالم ہیں، کچھ مقامات ہیں، کچھ منابع (چشمے) ہیں جہاں سے قلب بھی لیتا ہے۔ اور قلب لینے کے بعد اس درجے پر پہنچتا ہے وہ چیز بنتا ہے جس کو قرآن نے کہا کہ اس (قرآن) کی نصیحت اسی کو فائدہ دے گی جس کے پاس دل ہو گا۔

حصولِ علم اور صدق و تقویٰ

سلسلہ مجالس العلم کی یہ نشست حصول علم کی فضیلت میں صدق و اخلاص اور تقویٰ کی تفصیلی گفتگو پر مشتمل ہے۔ شیخ الاسلام نے مجلس ختم الصلوۃ علی النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر اس موضوع پر گفتگو فرمائی کہ اگر ایک ہی عمل کے اندر کئی نیتیں جمع کر لی جائیں تو اللہ تعالیٰ اس عمل کے ذریعے ساری کی ہوئی نیتوں کااجر و ثواب اور برکت و فیض جمع فرما دیتا ہے۔ آپ نے اس کی خوبصورت مثال مجلس ختم الصلوۃ علی النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دی کہ یہ درود و سلام کی مجلس ہے اور درود و سلام کی مجلس میں شامل ہونے کے لئے شیخ الاسلام نے فرمایا کہ تین نیتیں کرلیں:

  1. درود و سلام کی مجلس میں حاضری کی نیت۔
  2. مجلس علم میں علم حاصل کرنے اور تربیت کے حصول کی نیت۔
  3. ذکرالٰہی میں رات کی چند ساعتیں بسر کرنے کی نیت۔

پھر آپ نے احادیث مبارکہ کی روشنی میں اس نکتہ کو establish کیا کہ نیت ہر نیکی کے عمل کے درجات کو بلند کرتی چلی جاتی ہے۔ جیسا کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

نيت المومن خير من عمله

’’مومن کی نیت اُس کے عمل سے بہت زیادہ بہتر ہوتی ہے‘‘

لہٰذانیت عمل کو آسمان پر بھی پہنچا دیتی ہے، نیت عمل کو عرش اور ورائے عرش بھی پہنچا دیتی ہے اور نیت اُسی عمل کو اللہ کی بارگاہ میں بھی پہنچا دیتی ہے۔ کسی کی نیت اُس کے عمل کو چودہویں رات کی طرح روشن کر دیتی ہے، کسی کی نیکی کی نیت اُس کو سورج کی طرح کر دیتی ہے، کسی کی نیکی عرش کے ساتھ ملا دیتی ہے یعنی نیت کا خالص ہونا اس کے ثواب کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔

شیخ الاسلام نے تین نیتوںکے بیان کے ساتھ ساتھ حصول علم کی فضیلت و اہمیت پر احادیث مبارکہ کی روشنی میںمدلل گفتگو فرمائی کہ اگر کوئی شخص حصول علم اور دین کا فہم حاصل کرنے کی نیت سے اور فہم دین کو اخذ کرنے کے لیے نکل پڑتا ہے۔ خواہ کوئی ایک رات بیٹھے، خواہ چند لمحے، ایک ساعت بیٹھے، ایک گھنٹہ بیٹھے کہ دین کی سمجھ میںاضافہ ہو اور اُس سے اللہ کا خوف اور خشیت پیدا ہو، اللہ کی قربت نصیب ہو، اس پر عمل کرے تاکہ تقویٰ بڑھ سکے وغیرہ الغرض نیتوں کا ایک سلسلہ ہے اگراِس نیت سے کوئی شخص نکل پڑا اور اِسی حصول علم کی نیت کے سفر میں اُس کو موت آ جائے تو حدیث مبارکہ میں آتا ہے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

مَنْ جَائَهُ أَجَلُهُ وَهُوَ يَطْلُبُ الْعِلْمَ لَقِيَ اﷲَ وَلَمْ يَکُنْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّبِيِّيْنَ إِلَّا دَرَجَهُ النُّبُوَّةِ.

’’اگر کوئی شخص اِس نیت سے نکل پڑا کہ اُس کو موت آ جائے (اِسی حصول علم کی نیت کے سفر میں) تو اللہ تعالیٰ اُس کو قیامت کے دن جنت میںانبیاء کی منزلوں کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا‘‘

(طبرانی، المعجم الاوسط، 9: 174، رقم: 9454)

آپ نے مزید احادیث سے استدلال کرتے ہوئے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ نیک نیّات کے صلے میں اس بندے کے اور انبیاء کے درمیان جنت میں صرف ایک منزل کا فرق رہ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اُسے جنت کی اُن منزلوں میں ٹھہرائے گا جن کے اوپر سے اوپر کی منزل پر انبیاء رہ رہے ہوں گے۔

گفتگو کو اختتام کی طرف لاتے ہوئے آپ نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کا ذکر کیا اور فرمایا کہ کسی ایک نعمت کا نام لے کر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھ سے اِس میں اور اضافہ طلب کیجئے صرف علم کے لیے فرمایا:

وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِی عِلْمًاo

’’اور آپ (رب کے حضور یہ) عرض کیا کریں کہ اے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دے‘‘

(طه، 20: 114)

اس آیت مبارکہ کی روشنی میں شیخ الاسلام نے اس نکتہ کی وضاحت فرمائی کہ جب اللہ تعالیٰ نے خود حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ دعا سکھائی کہ آپ مجھ سے اپنی شان، مرتبہ اور عظمت کے مطابق علم میںہمہ وقت اضافہ طلب کرتے رہیے تو پھر امت کا حال کیا ہو گا۔

حصول علم اور مراتب نفس

مجالس العلم کی گیارھویں نشست حصول علم اور مراتب نفس کے موضوع پرقائم ہے۔جس میں شیخ الاسلام نے الہام کا ذکر فرمایا کہ الہام کا مورد نفس ہے۔جب کہ مختلف ائمہ کے نزدیک الہام کا مورد قلب کو کہا گیاہے۔ امام الشریف الجرجانی کے مطابق:

الإلهام ما وقع فی القلب

’’الہام وہ ہے جو دل میں واقع ہوتا ہے‘‘۔

اس طرح اور بھی کئی علماء اور محققین لکھتے ہیں۔ ایسا لکھنا غلط نہیں ہے۔ جبکہ الہام قرآن مجید کی نص سورہ الشمس کی آیت کریمہ 7۔8 سے ثابت ہے کہ الہام تو اصلاً نفس میں ہی ہوتا ہے۔ پھر سوال پیدا ہوا کہ قلب میں کیوں لکھا گیا ہے کہ الہام وہ ہے جو قلب میں واقع ہو۔ یہ ایک بڑی لطیف بات ہے۔ اس کو شیخ الاسلام نے تفصیلاً بیان فرمایا کہ نفس تزکیہ کے مرحلے طے کرتا کرتا ترقی کر کے قلب کی جگہ لے لیتا ہے۔ قلب کی مانند ہو جاتا ہے۔  نفس ایک جوہر ہے۔ہے وہ نفس ہی۔لیکن تزکیہ کے ساتھ ساتھ اُس کے خصائل بدلتے جاتے ہیں۔ا س طرح نفس ترقی کرتے کرتے جب نفس امّارہ سے نکل کر لوّامہ، لوّامہ سے نکل کر ملہمہ، ملہمہ سے نکل کر مطمئنہ جب چوتھے درجے مطمئنہ کے مقام پہ پہنچتا ہے تو وہ قلب کی جگہ لے لیتا ہے۔

شیخ الاسلام نے اپنی ایک کتاب ’سلوک و تصوف کا عملی دستور‘ کا حوالہ دیا۔جو نفس کی اقسام پر بحث کرتی ہے۔آپ نے بطورِ خاص سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ اور شیخ اکبر کی کتب اور دیگر ائمہ و اولیاء سے نفوس کی بحث کو بیان کیا۔شیخ الاسلام نے اس مجلس علم میںنفس امارہ،نفس لوامہ، نفس ملہمہ اور نفس مطمئنہ کی علامات اور انسانی طبیعت پر ان کے روحانی اثرات کو شرح و بسط کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔اور موسم کی خوبصورت تمثیل بیان کرتے ہوئے چاروں نفوس کی تاثیرات کو بیان کیا۔آپ نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے جس طرح چار موسم بنائے ہیں اور ہر موسم کی اپنی تاثیر ہے۔ اسی طرح ہر نفس کی اپنی تاثیر ہے۔ ہر نفس کا ایک موسم ہے۔ان کی اپنی اپنی تاثیرات ،کیفیات اور احوال ہیں۔ نفسِ امّارہ انسان کے من میں گرمیوں کا موسم ہے۔ نفسِ لوّامہ انسان کے من میں خزاں کا موسم۔ نفسِ ملهِمہ انسان کے من کی زندگی میں سردیوں کا موسم اور نفسِ مطمئنہ انسان کے من کی زندگی میں بہار کا موسم ہے۔ جب نفس مطمئنہ قلب کا مقام سنبھالتا ہے۔ اس حالت میں انسان کے باطن کو روشنی نصیب ہوتی ہے۔ اس پر اسرار و معارف کے دروازے کھلتے ہیں۔ پھر اسے علم کے باطنی ذرائع نصیب ہوتے ہیں۔ جنہیں لطائف باطنیہ کا نام دیا جاتا ہے۔ ان لطائف کے نام درج ذیل ہیں:

  1. لطیفہ نفسیّہ (لطیفہء نفس)
  2. لطیفہ قلبیّہ (لطیفہء قلب)
  3. لطیفہ روحیّہ (لطیفہء روح)
  4. لطیفہ سرّیّہ (لطیفہء سِر)
  5. لطیفہ خفیّہ (لطیفہء خفی)
  6. لطیفہ حقیّہ (لطیفہ اخفا)
  7. لطیفہ عقلیّہ (لطیفہء عقلی)

الہام اور اس کے مقامات

نفس ایک ایسا محل ہے، جہاں الہام اترتا ہے، نیک الہام بھی ہوتا ہے اور برا الہام بھی ہوتا ہے۔۔ نیک الہامات ملائکہ کی طرف سے ہوتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ملائکہ کو اچھے، نیک الہامات کے لیے مقرر کیا۔ اور برے الہامات، برے خیالات کا القائ، گمراہی کی چیزوں کا القا، یہ شیاطین کرتے ہیں۔یہ دو قوتیں ہیں جو غیر مرئی ہیں۔ آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتیں۔ مگر یہ exist کرتی ہیں۔ سورۃ حم السجدہ کی آیت نمبر 30 اور 31 کے مطابق ایمان اور استقامت کے نتیجے میںصاحبانِ استقامت مومنین پر فرشتے اترتے ہیں۔

اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اﷲُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰئِکَةُ

’’بے شک جِن لوگوں نے کہا ہمارا رب اﷲ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے، تو اُن پر فرشتے اترتے ہیں‘‘

(حم السجده، 41: 30)

اس سے آپ نے یہ بات بیا ن کی کہ فرشتے صرف نبی پر نہیں اترتے غیرِ نبی پر بھی اترتے ہیں۔بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ملائکہ صرف نبی پر اترتے ہیں۔ یہ کم علمی ہے، جہالت ہے کہ لوگ اپنے ذہن کے خیال کو علم تصور کر لیتے ہیں۔ لیلۃ القدر میں بھی عام مومن کے لیے کہا گیا ہے۔یہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے لیے ہے کہ ملائکہ اترتے ہیں۔سورۃ الزخرف کی آیت نمبر 36 میںشیاطین کا ذکر کیا جو دلوں میں القا کرتے ہیں۔

وہ غلط تصورات، خیالات، عقائد، اور افکار القاء کرتے ہیں۔ پھر شیاطین بندے کو جب غلط علم،فکر اور غلط تصور دیتے ہیں تو بندہ سمجھتا ہے کہ وہ ہدایت یافتہ ہے۔ یہ بھی شیطان کا حیلہ اور اس کی کاریگری ہے کہ جس کو گمراہ کیا اگراسے یہ معلوم ہو جائے کہ میں گمراہ ہوں تووہ فوری اپنی اصلاح کر لے گا۔ وہ گمراہی سے تائب ہو جائے گایہی تو اس کی مہارت ہے کہ وہ گمراہ کرتا ہے اور گمراہ شخص سمجھتا ہے کہ میں ہدایت پر ہوں، میں سیدھی راہ پر ہوں مراد یہ کہ اس طرح یہ لوگ شیطان سے گمراہ ہوتے ہیں۔پھر قرآن مجید کی سورۃ الشعرائ، آیت نمبر 221 اور 222 پھر آگے 227 میں مزید یہ مضمون بیان کیا ہے کہ کیا میںتمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیں؟۔وہ ہر جھوٹے (بہتان طراز) گناہگار پراترا کرتے ہیں۔

قرآن مجید کی نص نے establish کر دیا کہ شیطان ہر جھوٹے، بہتان طراز ہر گنہگار اور نافرمان پراترتے ہیں

شیخ الاسلام ابو اسماعیل عبداللہ الانصاری تصوف کے بہت بڑے امام ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب منازل السائرین میں علم کی دو اقسام بیان کی ہیں:

  1. علمِ جلی جو حواس خمسہ، عقل اور معائنہ کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ یہ حواس اور عقل کے ذریعے بھی gether ہوتا ہے۔ اور استفادہ صحیحہ کے ذریعے بھی gether ہوتا ہے۔
  2. علم خفی دوسرا ذریعہ علم ہے۔ علم باطن، یہ آقا علیہ السلام نے بھی فرمایا حدیث پاک میں آتا ہے۔ یہ اسناد صحیح کے ساتھ بھی اوراسناد حسن کے ساتھ بھی ہے مقبول ہے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

العلم علمان: فعلم ثابت فی القلب، فذالک العلم النافع.

’’علم کی دو قسمیں ہیں: ایک علم وہ ہے جو دل کی زمین سے اگتا ہے، یہی علم اصل میں انسان کو نفع دیتا ہے‘‘۔

یعنی یہ دل کی زمین سے جنم لیتا ہے حواس اور عقل سے جنم نہیں لیتا اور اس کا محل قلب ہے۔ اسے علم باطن بھی کہتے ہیں، علم بالقلب بھی کہتے ہیں۔ اور دوسرا فرمایا:

وعلم فی اللسان. فذاک حجة اﷲ علی عباده علی ابن آدم.

دوسرا زبان سے جنم لیتا ہے۔مگر یہ علم جو زبان سے بیان ہوتا ہے یہ بنی آدم (انسان) پر حجت ہے۔

جس کا چشمہ دل سے پھوٹتا ہے نہ کتاب سے، نہ قلم سے نہ زبان سے۔ فرمایا: حقیقت میں وہ علم نافع ہے جس کا چشمہ دل سے پھوٹتا ہے۔انسان کو ہدایت تب ہی ملتی ہے جب علم قلب اور علم لسان دونوں جمع ہوجائیں۔علمِ خفی کے دو مراتب ہیں مرتبہ تنزل اور مرتبہ عالیہ۔ مرتبہ تنزل میں حواس خمسہ اور عقل کو اتنی روحانی برکت مل جاتی ہے اور انسان کے فہم کو اللہ تعالیٰ اتنی صلاحیت دے دیتا ہے کہ عام عقل و دماغ میں جو چیز نہیں آتی وہ صاحب قلب سلیم کو نصیب ہو جاتی ہے۔یہ مرتبہ الہام کی ایک شکل ہے۔ یہ مرتبہ تنزل (نچلا مرتبہ) ہے۔ جب کہ مرتبہ عالیہ میں قلب پر نورانی تجلیات کا ورودہوتا ہے۔

شیخ الاسلام نے الہام کے راستے میں آنے والے حجابات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیااگر یہ حجابات پڑے رہیں تو انسان روحانی سفر نہیں طے کرپاتا۔ الہام کے راستے میں یہ حجابات اگر gradually اٹھتے چلے جائیں تو اس سے علم خفی کا درجہ بلند ہوتا ہے اور کشف بہتر سے بہتر ہوتا ہے۔ اس طرح بندہ اس مقام پہ پہنچتا ہے کہ اس کا قلب سننے لگتا ہے۔

مزید آپ نے علوم باطنیہ کے مختلف مراتب مثلاّّ مرتبہ افہام، مرتبہ بیان، مرتبہ تحدیث کو دلائل کے ساتھ بیان فرمایا کہ بندہ جب رفع حجابات کے ذریعے مختلف مراتب طے کرتے ہوئے مرتبہ تحدیث پر پہنچتا ہے تو پھر فرشتے اس سے ہم کلام ہوتے ہیںاور بندے کی زبان سے فرشتے بولتے ہیں۔

کشف اور علم لدنی

قرآن حکیم [العنکبوت، 29: 69] کے مطابق ریاضات ومجاہدات کے ذریعے رفعِ حُجب ہوتا ہے اور تمام حجابات اٹھ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیںاپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں۔

جب پردے اٹھتے ہیں تو تب ہی راستے کھلتے ہیں۔ یہ کشف ہے، مکاشفہ ہے۔ شیخ الاسلام نے اِس کو قرآن مجید کی سورۃ ق کی آیت نمبر 22 سے اخذ کیا جس میں کشف اور غفلت کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

لَقَدْ کُنْتَ فِيْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآئَکَ فَبَصَرُکَ الْيَوْمَ حَدِيْدٌo

’’حقیقت میں تُو اِس (دن) سے غفلت میں پڑارہا سو ہم نے تیرا پردهِ (غفلت) ہٹا دیاپس آج تیری نگاہ تیز ہے‘‘

(ق: 22)

غفلت دراصل پردے ڈالتی ہے اور کشف اُس پردے کو اٹھا دیتا ہے۔ دونوں چیزوں کا ورود اِس آیت کریمہ میں ہوا ہے۔ تعریفات کی کتاب میں الجرجانی نے کشف کی جو تعریف کی ہے وہ رفع الحجاب ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

’’کشف نام ہی ہے پردے کے اٹھ جانے کا ہے‘‘

(جرجانی، التعريفات، 1: 237)

کشف کیسے ہوتا ہے؟ جب پردے اٹھتے ہیں، دل کو صفا نصیب ہوتی ہے تو شرح صدر ہوتا ہے اور اُس سے اللہ کا نور نصیب ہوتا ہے۔ اللہ کے نور سے ہر شے روشن ہو جاتی ہے۔

  • یا کشف اکثر و بیشتر عالمِ مثال کے انداز میں ہوتا ہے۔ خواب میں جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ عالم مثال ہوتا ہے۔ وہ تمام حقائق کی مثالی صورت ہوتی ہے۔ اِس لیے خواب میں جو چیز دیکھی اور سنی جاتی ہے اُس سے مراد من و عن وہ شے نہیں ہوتی اُس کی تعبیر ہوتی ہے۔ خواب قلب و روح کا کشف ہے مگر وہ مثالی کشف ہے۔ یعنی عالم مثال کا کشف ہے۔
  • اس کے بعد پھر اگلا درجہ ہے مشاہدہ اس میں حجابات اٹھتے ہیں۔ مشاہدہ تعبیر طلب نہیں رہتا۔ روحانی مقام اتنا بلند ہوتا چلا جاتاہے کہ اس میں مغالطہ کا امکان نہیں رہتا۔ اصحابِ مشاہدہ بغیر خطا کے چیز کو دیکھتے ہیں۔
  • مشاہدہ کے بعد اگلا درجہ معائنہ کا ہے اس میں کوئی مغالطہ نہیں رہتا۔ یہ بالکل حق الیقین کی طرح ہو جاتاہے، مشاہدہ عین الیقین کی طرح ہو جاتا ہے اور مکاشفہ علم الیقین کی طرح کا فائدہ دیتا ہے۔

مندرجہ بالا ان تینوں نکات کو آپ نے قرآن مجید سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ کس طرح کشف ہوتاہے۔علاوہ ازیں کشف کے بے شمار مظاہر کو شیخ الاسلام نے احادیث مبارکہ کے ذریعے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ سے ثابت کیا مزید اسی مجلس علم میں آپ نے بڑے خوبصورت مدلل انداز میں کشف اور معجزہ کے فرق کو بھی بیان کیا تاکہ اس مجلس علم سے مستفید ہونے والے کے ذہن میں کوئی ابہام نہ رہے۔

قارئین کی سہولت کے پیش نظر مجالس العلم کے موضوعات اور ان کے CD's نمبر درج ذیل ہیں:

  • 2251

مجالس علم کی فضیلت و اہمیت (پہلی مجلس)

  • 2252

فضیلت و اہمیت علم (دوسری مجلس)

  • 2253

علم، حصول ہدایت اوربلندی درجات کا ذریعہ ہے (تیسری مجلس)

  • 2254

علم نافع ایمان کو ترقی دیتا ہے (چوتھی مجلس)

  • 2255

حصول علم کے ذرائع (پانچویں مجلس)

  • 2256

جہاں تک حواس کی رسائی ہے، بس وہاں تک عقل کی شناسائی ہے (چھٹی مجلس)

  • 2257

حصول علم کے باطنی ذرائع (ساتویں مجلس)

  • 2258

حصول علم اور قلب (آٹھویں مجلس)

  • 2259

حصول علم اور الہام (نویں مجلس)

  • 2260

حصول علم اور صدق و تقوی (دسویں مجلس)

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، مارچ 2016

تبصرہ