ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

محمد احمد طاہر

اخلاق خلق سے ہے جس کا معنی پختہ عادت ہے۔ اصطلاحاً خلق سے مراد وہ اوصاف ہیں جو کسی کی فطرت و طبیعت کا اس طرح لازمی جزو بن جائیں کہ زیادہ غوروفکر کے بغیر روزمرہ کی زندگی میں ان کا ظہور ہوتا ہو۔ اسی طرح اخلاق سے مراد ملنساری، خوش مزاجی، عادت، خصلت اور مروت بھی ہے۔

اخلاقیات میں ایک بڑی صفت نرمی ہے۔ یہ ایک ایسی صفت ہے جس کے ذریعے انسان بلند مقام حاصل کرلیتا ہے۔ یہ وہ صفت ہے کہ محبت کی گوند سے لوگوں کو انسان کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے اگر یہ نہ ہو تو لوگ تِتر بِتر ہوجائیں۔ گویا یہ اخلاقی صفت لوگوں کے دلوں کو جوڑ کر خوشگوار ماحول بناتی ہے۔ دین اسلام میں بھی نرمی کو بطور اخلاق حسنہ بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔

حکم خداوندی

نرمی اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کیونکہ یہ صفت نیک مقاصد کے حصول کے لئے بہت ضروری ہے۔ اس لئے اللہ جل شانہ نے حضرت سیدنا موسیٰ اور حضرت سیدنا ہارون علی نبینا وعلیہما السلام کو جب فرعون سرکش کی طرف بھیجا کہ جائو اسے دعوت حق دو تو اس موقع پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دعوت کا اسلوب بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا:

فَقُوْلَا لَـهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَکَّرُ اَوْ يَخْشٰی.

’’سو تم دونوں اس سے نرم (انداز میں) گفتگو کرنا شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا (میرے غضب سے) ڈرنے لگے‘‘۔

(طه، 20: 44)

نرمی صفتِ انبیاء ہے

نرمی ایک ایسی صفت ہے جس سے تمام انبیاء و رسل عظام علیہم السلام متصف تھے۔ ہر نبی اور رسول نے اس صفت کو اختیار کیا۔ اس سے اس کی اہمیت بخوبی واضح ہوتی ہے چونکہ دعوت و تبلیغ کا مشکل کام صرف اور صرف نرمی کی ہی بدولت ممکن ہے۔ اس لئے اللہ عزوجل نے حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی شان میں فرمایا:

اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاةٌ حَلِيْمٌ.

’’بے شک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے دردمند (گریہ و زاری کرنے والے اور) نہایت بردبار تھے‘‘۔

(التوبة، 9: 114)

اسی مضمون کو ایک اور مقام پر یوں بیان فرمایا:

اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَحَلِيْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِيْبٌ.

’’بے شک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے متحمل مزاج، آہ و زاری کرنے والے، ہر حال میں ہماری طرف رجوع کر نے والے تھے‘‘۔

(هود، 11: 75)

نرمی کی صفت دلوں کو جوڑتی ہے

نرمی کی صفت عملی زندگی میں بہت نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ اس کے اثرات حیران کن ہوتے ہیں۔ اس کی بدولت افراد آپس میں جڑے رہتے ہیں اور نرمی سے متصف شخص کے ساتھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ اگر یہ صفت نہ ہو تو لوگ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا:

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اﷲِ لِنْتَ لَهُمْ ج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ.

’’(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے‘‘۔

(آل عمران، 3: 159)

اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے

حضرت سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ان الله رفيق يحب الرفق فی الامر کله.

’’اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور ہر معالے میں نرمی کو پسند فرماتا ہے‘‘۔

(متفق عليه)

نرمی سے محروم شخص ہر بھلائی سے محروم ہے

حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

من يحرم الرفق يحرم الخير کله.

’’جو شخص نرمی سے محروم ہے وہ ہر بھلائی سے محروم ہے‘‘۔

(صحيح مسلم)

نرمی کرنے والے پر دوزخ کی آگ حرام ہے

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الا اخبرکم بمن يحرم علی النار اوبمن تحرم عليه النار تحرم علی کل قريب هين لين سهل.

’’کیا میں تمہیں اس شخص کے متعلق نہ بتائوں جو آگ پر حرام ہے یا فرمایا کہ جس پر آگ حرام ہے۔ آگ ہر اس شخص پر حرام ہے جو لوگوں کے قریب ہے، ان سے نرمی اور آسانی کا سلوک کرے‘‘۔

(جامع ترمذی)

لوگوں کو خوش رکھو

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

يسروا ولا تعسروا وبشروا ولا تنفروا.

’’آسانی پیدا کرو اور تنگی پیدا نہ کرو۔لوگوں کو خوش رکھو اور (انہیں) متنفر نہ کرو‘‘۔

(متفق عليه)

نرمی کی خصلت چیزوں کو خوبصورت بناتی ہے

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ان الرفق لايکون فی شئی الا زانه ولا ينزع من شئی الا شانه.

’’بے شک نرمی (کی خصلت) جس چیز کے اندر بھی ہو۔ اس کو خوبصورت بنادیتی ہے اور نرمی کو جس چیز سے چھین لیا جائے وہ چیز معیوب ہوجاتی ہے‘‘۔

(صحيح مسلم)

نرمی کا اجر

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں سرور کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ان الله رفيق يحب الرفق، ويعطی علی الرفق مالا يعطی علی العنف وما لايعطی علی ماسواه.

’’اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نرمی پر وہ اجر عطا کرتا ہے جو سختی پر عطا نہیں فرماتا بلکہ اس کے سوا کسی چیز پر بھی عطا نہیں فرماتا‘‘۔

(صحيح مسلم)

غصہ نہ کیا کر

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: مجھے نصیحت فرمایئے: آپ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:

لا تغضب... فرددمرارا. قال: لاتغضب.

’’غصہ نہ کیا کر۔ اس شخص نے کئی بار سوال دہرایا۔ آپ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر بار فرمایا: غصہ نہ کیا کرو‘‘۔

(صحيح بخاری)

لوگوں کیلئے آسانی پیدا کرو

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرمایا: ایک اعرابی نے مسجد میں پیشاب کردیا۔ لوگ کھڑے ہوگئے تاکہ اس سے باز پرس کریں تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

دعوه واريقوا علی بوله سجلا من الماء اوذنوبا من ماء، فانما بعثتم ميسرين ولم تبعثوا معسرين.

’’اسے چھوڑ دو اور پیشاب پر پانی کا ڈول بہادو (یا سجل کی جگہ ذنوب کا لفظ فرمایا) کیونکہ تم لوگوں کے لئے آسانی پیدا کرنے کے واسطے بھیجے گئے ہو اور تمہیں تنگی پیدا کرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا‘‘۔

(صحيح بخاری)

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی ذاتی انتقام نہ لی

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فرمایا: حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب بھی دو چیزوں میں اختیار دیا گیا۔ آپ نے آسان چیز کو اپنایا اگر وہ گناہ نہ ہوتا، اگر وہ گناہ ہوتا تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ اس سے دور ہوتے اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات کے لئے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ کی حدود کو پامال کیا جاتا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے لئے انتقام لیتے تھے۔

(بخاری و مسلم)

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جنوری 2016

تبصرہ