فروغ امن اور انسدادِ دہشت گردی کا اسلامی نصاب (قسط سوم)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

تنگ نظری سے انتہا پسندی اورانتہا پسندی سے دہشتگردی جنم لیتی ہے

بعض دینی اداروں اور مدارس میں طلباء کو دیگر مسالک کے خلاف نفرت، عدم رواداری اور انتہاء پسندی پر مبنی تعلیم دی جاتی ہے جس سے ایک دوسرے کو غیر مسلم اور گمراہ سمجھتے ہیں معصوم ذہنوں میں نفرتوں کی آبیاری کرتے ہیں۔ نتیجتاً یہ لوگ تنگ نظری اور فکری مغالطوں کاشکار ہو کر اپنے علاوہ سب کو کافر مشرک اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے لگتے ہیں۔

بلکہ بعض انتہا پسند اتنے متشدد ہو جاتے ہیں کہ مخالفین کا خون بہانا نہ صرف جائز بلکہ واجب سمجھتے ہیں یہیں سے شدت پسندی اور دہشت گردی پنپنے لگتی ہے۔ جسے ایک دینی فریضہ (جہاد) سمجھ کر اختیار کیا جاتا ہے۔

لَا اِکْرَاهَ فِی الدِّيْنِ

’’دین میں کوئی زبردستی نہیں‘‘۔

(البقرة، 2: 256)

دہشت گردی۔۔ سوالوں کے مختصر جوابات

دہشت گردی کے موجودہ خون آشام واقعات کو دیکھ کر ذہنوں میں چند سوالات اُٹھتے ہیں اور دنیا بھر کے عوام و خواص اِسلام سے متعلق اِن سوالات کی روشنی میں تسلی بخش وضاحت مانگتے ہیں۔ اِس تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ اِن تمام سوالات کا تفصیلی، مدلّل اور دو ٹوک جواب دیا جائے۔ ذیل میں ترتیب وار پہلے اِن سوالات کے ساتھ مختصر جوابات دیے جارہے ہیں۔

  1. کیا کسی جماعت کا خود کو حق پر سمجھتے ہوئے اپنے عقائد و نظریات کے فروغ و تسلط اور دوسروں کے عقائد کی اِصلاح کے نام پر طاقت اِستعمال کرنا جائز ہے؟ کیا نظریاتی اِختلاف رکھنے والوں کو قتل کرنے، اُن کے مال لوٹنے اور اُن کی مساجد، مذہبی مقامات اور شعائر کو تباہ کرنے کی اِسلام میں گنجائش ہے؟ اگر نہیں، تو اِس جرم کا اِرتکاب کرنے والوں کے لیے اِسلام نے کیا سزا مقرر کی ہے؟
  2. اِس ضمن میں دوسرا سوال یہ اُٹھتا ہے کہ مسلم ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے کیا حقوق ہیں؟
  3. تیسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اِسلام میں اِنسانی جان کی حرمت پر واضح اَحکامات موجود ہیں؟ کیا غیر مسلم عالمی طاقتوں کی ناانصافیوں اور مظالم کے ردِ عمل کے طور پر انتقاماً بے قصور اور پُراَمن غیر مسلم شہریوں اور سفارت کاروں کو اِغواء کرنا اور قتل کرنا جائز ہے؟
  4. چوتھا اور اَہم سوال یہ ہے کہ کیا مسلم حکمرانوں کی غیر اِسلامی پالیسیوں اور فاسقانہ طرزِ عمل کے باعث اُنہیں حکومت سے ہٹانے، اپنے مطالبات منوانے یا اُنہیں راہِ راست پر لانے کے لیے مسلح جد و جہد کی جاسکتی ہے؟ کیا آئینی طور پر قائم کی گئی مسلم حکومت کے نظم اور عمل داری (writ) سے بغاوت جائز ہے؟ نیز حکمرانوں کی اِصلاح اور تبدیلی کا جائز طریقہ کار کیا ہونا چاہیے؟
  5. دہشت گردی کی تاریخ میں خوارج کا عنصر ناقابلِ فراموش ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خوارج کون تھے، ان کا شرعی حکم کیا ہے اور کیا موجودہ دور کے دہشت گرد خوارج ہی کا تسلسل ہیں؟
  6. ایک سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ فتنہ انگیزی، دہشت گردی اور مسلح بغاوت کے خاتمے کے لیے حکومت اور مقتدر طبقات کو کیا اقدامات اٹھانے چاہییں؟
  7. اِس ضمن میں ایک اور اَہم سوال جو ایک مغالطے کی صورت میں خواص و عوام کے درمیان گردش کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا دہشت گردی پر مبنی مندرجہ بالا ظالمانہ کارروائیاں اِعلائے کلمہ حق اور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی جد و جہد کے اِرادے سے سندِ جواز حاصل کرسکتی ہیں؟
  8. کیا نیت نیک ہونے سے بدی کا عمل، نیکی میں بدل سکتاہے؟
  9. اِس حقیقت کو بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ قربِ اِلٰہی کے حصول کی نیت سے کی جانے والی بت پرستی کو قرآن حکیم نے ردّ کر دیا ہے۔ وضاحت کے لیے چند مثالیں بھی پیش ہیں۔

دہشت گردوں کی معاونت بھی جرم ہے

دہشت گردوں اور قاتلوں کو معاشرے میں سے افرادی، مالی اور اخلاقی قوت کے حصول سے محروم کرنے اور انہیں isolate کرنے کے لیے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی ہر قسم کی مدد و اعانت سے کلیتاً منع فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ص سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مومن کے قتل میں معاونت کرے گا وہ رحمت الٰہی سے محروم ہو جائے گا۔

مسلم ریاست اور نظمِ اجتماعی کے خلاف مسلح بغاوت کی ممانعت

بغاوت کی لغوی تعریف

  1. ابنِ فارس کے مطابق:

بَغْیٌ: اَلْبَاءُ وَالْغَيْنُ وَالْيَاءُ، اَصْلَانِ: اَحَدُهُمَا طَلَبُ الشَّيئِ، وَالثَّانِي: جِنْسٌ مِنَ الْفَسَادِ … وَالْاَصْلُ الثَّانِي: قَوْلُهُمْ بَغَي الْجَرْحُ، إِذَا تَرَامَی إِلَی فَسَادٍ … ثُمَّ يُشْتَقُّ مِنْ هَذَا مَا بَعْدَهُ، فَالْبَغْيُ الْفَاجِرَةُ … وَمِنْهُ اَنْ يَبْغِيَ الْإِنْسَانُ عَلَی الْآخَرِ … وَإِذَا کَانَ ذَا بَغْیٍ فَـلَا بُدَّ اَنْ يَقَعَ مِنْهُ فَسَادٌ … وَالْبَغْيُ: اَلظُّلْمُ

’بغی‘ کا مادہ ب، غ اور ي ہے اور اس کی اصل دو چیزیں ہیں۔ پہلا معنی کسی چیز کا طلب کرنا ہے جبکہ دوسرے معنی کے مطابق یہ فساد کی ایک قسم ہے۔ دوسرے معنی کی مثال دیتے ہوئے اہلِ زبان کا کہنا ہے: بغی الجرح، ’’زخم فساد کی حد تک بڑھ گیا‘‘ یعنی بہت زیادہ خراب ہو گیا۔ اسی سے اس نوعیت کے دیگر الفاظ مشتق ہوتے ہیں مثلا بَغيٌ بُری عورت کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ شرم و حیا کی حدیں پھلانگ کر بدکاری کی مرتکب ہوتی ہے۔ اور اسی مادے سے بَغيٌ کا معنی ایک انسان کی طرف سے دوسرے پر ظلم و زیادتی ہے۔ جب بغاوت کسی شخص کی عادت بن جائے تو اس سے فساد خود بخود جنم لیتا ہے؛ اور (اِسی لیے) بَغيٌ ظلم کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔

  1. ابن فارس، معجم مقاييس اللغة (ماده ’بغی‘): 144
  2. ابن منظور، لسان العرب (ماده ’بغی‘)، 14: 75-78
  1. علامہ ابنِ نجیم حنفی (م 970ھ) بغاوت کی تعریف میں لکھتے ہیں:

البغاة جمع باغ، من بغی علی الناس ظلم واعتدی، وبغی سعی بالفساد، ومنه الفرقة الباغية لانها عدلت عن القصد.… وفئة باغية خارجةٌ عن طاعة الإمام العادل.

البغاۃ باغی کی جمع ہے۔ ’بغی علی الناس‘ کا معنی ہے: اس نے لوگوں پر ظلم اور زیادتی کی ہے۔ بغی کا معنی یہ بھی ہے کہ اس نے فساد پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ اور اسی سے فرقہ باغیہ ہے اس لیے کہ وہ راہِ راست سے ہٹ گیا ہے۔ اور ’فئۃ باغیۃ‘ کا معنی مسلم ریاست کی اتھارٹی تسلیم نہ کرنے والا گروہ ہے۔

(ابن نجيم، البحر الرائق، 5: 150)

  1. علامہ حصکفی (م 1088ھ) در المختار میں بغاوت کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

البغی لغة الطلب، ومنه: {ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِ} [الکهف، 18: 64]. وعرفا: طلب ما لا يحل من جورٍ وظلمٍ

لغت کی رُو سے بغی کا معنی ہے: ’طلب کرنا‘ مثلاً {ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِ} میں یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے اور عرف میں اس سے مراد ناجائز ظلم و ستم کرنا ہے۔

(حصکفی، الدر المختار، 4: 261)

یہی معنوی تفصیلات تہذیب اللغۃ، الصحاح اور لسان العرب میں بھی مذکور ہیں۔

ان لغوی تعریفات سے یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ بغاوت کے لفظ میں ہی ظلم اور زیادتی کا معنی پایا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اِس میں شرعی قیود اور قانونی و آئینی حدود کو توڑ کر معاشرے میں بد امنی، زیادتی اور ظلم کا مرتکب ہوا جاتا ہے۔

بغاوت کی اصطلاحی تعریف کیا ہے؟

فقہاے اَحناف کے ہاں بغاوت کی تعریف

فقہائے احناف میں سے ایک نمایاں نام علامہ ابن ہمام (م 861ھ) کا ہے۔ انہوں نے فتح القدیر میں بغاوت کی سب سے جامع تعریف کی ہے اور باغیوں کی مختلف اقسام بیان کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

والباغی فی عرف الفقهاء: الخارج عن طاعة إمام الحق. والخارجون عن طاعته اربعة اصناف:

احدها: الخارجون بلا تاويل بمنعة وبلا منعة، ياخذون اموال الناس ويقتلونهم ويخيفون الطريق، وهم قطاع الطريق

والثاني: قوم کذلک إلا انهم لا منعة لهم لکن لهم تاويل. فحکمهم حکم قطّاع الطريق. إن قتلوا قتلوا وصلبوا. وإن اخذوا مال المسلمين قطعت ايديهم وارجلهم علی ما عرف

والثالث: قوم لهم منعة وحمية خرجوا عليه بتاويل يرون انه علی باطل کفر او معصية. يوجب قتاله بتاويلهم. وهؤلاء يسمون بالخوارج يستحلون دماء المسلمين واموالهم ويسبون نساء هم ويکفرون اصحاب رسول اﷲ صلیٰ الله عليه وآله وسلم. وحکمهم عند جمهور الفقهاء وجمهور اهل الحديث حکم البغاة

والرابع: قوم مسلمون خرجوا علی إمام ولم يستبيحوا ما استباحه الخوارج، من دماء المسلمين وسبی ذراريهم وهم البغاة

(ابن همام، فتح القدير، 5: 334)

فقہاء کے ہاں عرفِ عام میں آئین و قانون کے مطابق قائم ہونے والی حکومت کے نظم اور اتھارٹی کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والے کو باغی (دہشت گرد) کہا جاتا ہے۔ حکومتِ وقت کے نظم کے خلاف بغاوت کرنے والوں کی چار قسمیں ہیں:

  1. پہلی قسم ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو طاقت کے بل بوتے یا طاقت کے بغیر بلاتاویل حکومت کی اتھارٹی اور نظم سے خروج کرنے والے ہیں اور لوگوں کا مال لوٹتے ہیں، انہیں قتل کرتے ہیں اور مسافروں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں، یہ لوگ راہزن ہیں۔
  2. دوسری قسم ایسے لوگوں کی ہے جن کے پاس غلبہ پانے والی طاقت و قوت تو نہ ہو لیکن مسلح بغاوت کی غلط تاویل ہو، پس ان کا حکم بھی راہزنوں کی طرح ہے۔ اگر یہ قتل کریں تو بدلہ میں انہیں قتل کیا جائے اور پھانسی چڑھایا جائے اور اگر مسلمانوں کا مال لوٹیں تو ان پر شرعی حد جاری کی جائے۔
  3. تیسری قسم کے باغی وہ لوگ ہیں جن کے پاس طاقت و قوت اور جمعیت بھی ہو اور وہ کسی من مانی تاویل کی بناء پر حکومت کی اتھارٹی اور نظم کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں اور ان کا یہ خیال ہو کہ حکومت باطل ہے اور کفر و معصیت کی مرتکب ہو رہی ہے۔ ان کی اس تاویل کے باوجود حکومت کا ان کے ساتھ جنگ کرنا واجب ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں پر خوارج کا اطلاق ہوتا ہے جو مسلمانوں کے قتل کو جائز اور ان کے اموال کو حلال قرار دیتے تھے اور مسلمانوں کی عورتوں کو قیدی بناتے اور اصحاب رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکفیر کرتے تھے۔ جمہور فقہاء اور ائمہ حدیث کے ہاں ان کا حکم بھی خوارج اور باغیوں کی طرح ہی ہے۔
  4. چوتھی قسم ان لوگوں کی ہے جنہوں نے حکومت ِوقت کے خلاف مسلح بغاوت تو کی لیکن ان چیزوں کو مباح نہ جانا جنہیں خوارج نے مباح قرار دیا تھا جیسے مسلمان کو قتل کرنا اور ان کی اولادوں کو قیدی بنانا وغیرہ۔ یہی لوگ باغی ہیں۔

فقہائے مالکیہ کے ہاں بغاوت کی تعریف

مالکی فقہاء میں سے امام محمد بن احمد بن جزی الکلبی الغرناطی (م741ھ) نے ’القوانین الفقھیۃ‘ میں لکھا ہے:

البغاة: هم الذي يقاتلون علی التأويل، والذين يخرجون علی الإمام، أو يمتنعون من الدخول في طاعته، أو يمنعون حقاً وجب عليهم کالزکاة وشبهها

(ابن جزي الکلبي، القوانين الفقهية: 364)

باغی وہ لوگ ہیں جو مسلم ریاست کے خلاف خود ساختہ تاویلات کی بناء پر مسلح بغاوت کرتے ہیں یا اس کی اتھارٹی کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں اور وہ حق ادا نہیں کرتے جس کی ادائیگی (بطور پُراَمن شہری) ان کے ذمہ لازم تھی جیسا کہ زکوٰۃ کی ادائیگی یا اس طرح کے دیگر واجبات۔

فقہائے شافعیہ کے ہاں بغاوت کی تعریف

فقہائے شافعیہ میں سے امام نووی (م 676ھ) نے اپنی کتاب ’روضۃ الطالبین‘ میں ایک مستقل باب ’قتال البغاۃ‘ کے عنوان سے قائم کیا ہے جس میں دیگر تفصیلات کا تذکرہ کرنے سے قبل باغی کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:

الباغی فی إصطلاح العلماء هو المخالف لإمام العدل، الخارج عن طاعته بامتناعه من اداء واجب عليه او غيره بشرط

علماء کی اصطلاح میں باغی مسلم حکومت کے اس مخالف کو کہتے ہیں جو اس کی اتھارٹی تسلیم نہ کرے اس طرح کہ جو اس پر یا دوسروں پر واجب ہے وہ مشروط طور پر روک لے۔

(نووی، روضة الطالبين، 10: 50)

فقہائے حنابلہ کے ہاں بغاوت کی تعریف

فقہاے حنابلہ میں ابن ہبیرہ الحنبلی (م587ھ) نے باغیوں کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:

واتفقوا علی انه إذا خرج علی إمام المسلمين طائفة ذات شوکة بتاويل مشتبه، فإنه يباح قتالهم حتی يفيئوا.

تمام ائمہ کرام اس بات پر متفق ہیں کہ جب طاقت اور مضبوط ٹھکانوں والا کوئی گروہ کسی مشتبہ تاویل کی بناء پر مسلم حکومت کے نظم (writ) سے نکل جائے تو اس کے ساتھ جنگ کرنا مباح ہے یہاں تک کہ وہ واپس (حکومت کے نظم کی اطاعت) لوٹ آئے۔

(ابن هبيرة، الإفصاح: 402)

امام ابن قدامہ (م 620ھ)نے بغاوت کی تعریف میں لکھا ہے:

قوم من اهل الحق خرجوا علی الإمام بتاويل سائغ، وراموا خلعه، ولهم منعة وشوکة

مسلمانوں کا ایک گروہ جس نے حکومتِ وقت کے خلاف بہ ظاہر پُرکشش تاویل کی بناء پر بغاوت کی اور حکومت کو ختم کرنے کا ارادہ کیا، اور ان کے پاس محفوظ ٹھکانے اور اسلحہ و طاقت تھی (اسے باغی کہا جاتا ہے)۔

( إبن قدامة، الکافی، 4: 147)

فقہائے جعفریہ کے ہاں بغاوت کی تعریف

فقہ جعفریہ کے فقیہ ابو جعفر محمد بن حسین طوسی (م 460ھ) نے اپنی تصنیف ’الاقتصاد الهادی الی طريق الرشاد‘ میں الگ فصل قائم کر کے باغیوں کے احکام بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

الباغي: هو کل من خرج علی امام عادل وشق عصاه، فان علی الامام ان يقاتلهم. ويجب علی کل من يستنهضه الامام ان ينهض معه و يعاونه علی قتالهم، ولا يجوز لغير الامام قتالهم بغير اذنه. فاذا قوتلوا لا يرجع عنهم الا ان يفيئوا الی الحق او يقتلوا، ولا يقبل منهم عوض ولا جزية.

والبغاة علی ضربين: احدهما: من له رئيس يرجعون اليه. فهؤلاء يجوز ان يجتاز علی جراحاتهم ويتبع مدبرهم ويقتل اسيرهم. والآخر: لا يکون لهم فيه رئيس، فهولاء لا يجاز علی جريحهم ولا يقتل اسيرهم.

باغی سے مراد ہر وہ شخص ہے جو مسلم ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کرے اور اسے غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرے۔ پس حکومت وقت پر لازم ہے کہ ان کے خلاف جنگ کرے۔ اور ہر اس شخص پر لازم ہے جسے حکومت ان کے خلاف اٹھنے کا حکم دے کہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر ان کا مقابلہ کرے۔ اور حکومت وقت کے علاوہ اس کی اِجازت کے بغیر کسی کے لیے ان دہشت گرد باغیوں کے ساتھ جنگ کرنا جائز نہیں۔ جب ان کے ساتھ جنگ شروع کردی جائے تو اُس وقت تک حکومت اس سے پیچھے نہ ہٹے جب تک وہ حق کی طرف لوٹ نہ آئیں یا قتل نہ کردیئے جائیں۔ اور ان سے کسی قسم کا معاوضہ اور ٹیکس بھی قبول نہ کیا جائے۔

باغیوں کی دو قسمیں ہیں: ایک قسم یہ ہے کہ ان کا کوئی سربراہ و سرغنہ ہو جس سے وہ ہدایات لیتے ہوں۔ ان سب کا حکم یہ ہے کہ ان کے زخمیوں کو ان کی حالت پر رہنے دیا جائے گا، ان کے بھاگنے والوں کا تعاقب کیا جائے گا اور ان کے قیدیوں کو قتل کیا جائے گا۔ دوسری قسم وہ ہے کہ جس میں ان کا کوئی سربراہ اور سرغنہ نہ ہو۔ پس اس صورت میں ان کے زخمیوں کی مرہم پٹی کی جائے گی اور ان کے قیدیوں کو قتل نہیں کیا جائے گا۔

(طوسی، الإقتصاد، فصل فی حکام البغی: 315)

معاصر علماء کے ہاں بغاوت اور دہشت گردی کی تعریف

رابطہ عالم اسلامی کا سولہواں سیشن مکہ مکرمہ میں خادم الحرمین الشریفین ملک فہد بن عبدالعزیز آلِ سعود کی نگرانی میں (21 تا 26 شوال 1422ھ بمطابق 5 تا 10 جنوری 2002ء) اسلامی فقہی اکیڈمی میں منعقد ہوا۔ اس سیشن کے بعد دہشت گردی کے حوالے سے بیانِ مکہ (Makka Declaration) کے نام سے جو اعلامیہ صادر ہوا اس میں دہشت گردی کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:

الإرهاب: هو العدوان الذی يمارسه افراد او جماعات او دول بغيًا علی الإنسان: دينه، ودمه، وعقله، ماله، وعرضه. ويشمل صنوف التخويف والاذی والتهديد والقتل بغير حق وما يتصل بصور الحرابة وإخافة السبيل وقطع الطريق، وکل فعل من افعال العنف او التهديد، يقع تنفيذًا لمشروع إجرامی فردی او جماعی، ويهدف إلی إلقاء الرعب بين الناس، او ترويعهم بإيذائهم، او تعريض حياتهم او حريتهم او امنهم او احوالهم للخطر، ومن صنوفه إلحاق الضرر بالبيئة او باحد المرافق والاملاک العامة او الخاصة، او تعريض احد الموارد الوطنية، او الطبيعية للخطر، فکل هذا من صور الفساد فی الارض التی نهی اﷲ سبحانه وتعالی المسلمين عنها: {وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ ط اِنَّ اﷲَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَo} [القصص، 28:77].

وقد شرع اﷲ الجزاء الرادع للإرهاب والعدوان والفساد، وعده محاربة اﷲ ورسوله صلیٰ الله عليه وآله وسلم: {اِنَّمَا جَزٰوُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ وَيَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُقَتَّلُوْا اَوْيُصَلَّبُوْا اَوْتُقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْامِنَ الاَرْضِ ط ذٰلِکَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌo} [المائدة، 5:33].

ولا توجد فی ای قانون بشری عقوبة بهذه الشدة نظرًا لخطورة هذا الاعتداء ، الذی يعد فی الشريعة الإسلامية حربًا ضد حدود اﷲ، وضد خلقه. ويؤکد المجمع ان من انواع الإرهاب:إرهاب الدولة، ومن اوضح صوره واشدها شناعة الإرهاب الذی يمارسه اليهود فی فلسطين، وما مارسه الصرب فی کل من البوسنة والهرسک وکوسوفا، ورای المجمع ان هذا النوع من الإرهاب من اشد انواعه خطرًا علی الامن والسلام فی العالم، وعد مواجهته من قبيل الدفاع عن النفس، والجهاد فی سبيل اﷲ. (بيان مکة: 4 (2002ء)

دہشت گردی سے مراد وہ سرکشی ہے جس کا ارتکاب مخصوص افراد، جماعتیں یا ملک دوسرے انسانوں کے دین، خون، عقل، مال اور عزت کی پامالی کے ذریعے کرتے ہیں۔ اس ظلم اور حقوق کی پامالی میں ایذاء رسانی، خوف و ہراس پیدا کرنا اور ناحق قتل کرنا شامل ہے۔ اسی طرح گروہوں کی شکل میں لوٹ مار، خون خرابہ اور شاہراہوں پر قبضہ کر کے لوگوں کو ہراساں کرنا بھی اسی نوعیت کے جرائم ہیں۔ دشمنی یا زیادتی خواہ کسی فرد کی طرف سے ہو یا جماعت کی طرف سے اس کا مقصد لوگوں کے دلوں میں رعب ڈالنا ہو یا انہیں ایذاء رسانی کے ذریعے ڈرانا دھمکانا یا ان کی زندگی، آزادی، امن یا اَحوال کو خطرات میں جھونکنا ہو۔ دہشت گردی کی جملہ اقسام میں سے ایک یہ بھی ہے کہ معاشرہ یا فرد کو نقصان پہنچایا جائے، املاک اور ضرورت کی اشیاء تلف کی جائیں یا ملکی وسائل میں سے کسی چیز کو خطرات میں جھونکا جائے۔ یہ ساری فساد فی الارض کی صورتیں ہیں جس سے اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے اس ارشادِ گرامی {اور ملک میں فساد انگیزی (کی راہیں) تلاش نہ کرو، بے شک اﷲ فساد بپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتاo} کے ذریعے منع فرمایا ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے دہشت گردی، عداوت اور فساد کے لیے سخت سزا مقرر فرمائی ہے اور اِسے اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دشمنی گردانا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے: {بے شک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز راہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا پھانسی دیے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہےo}۔

اس سرکشی پر - جس کو بہت بڑا خطرہ ہونے کے پیشِ نظر شریعتِ اسلامیہ میں اﷲ تعالیٰ کی حدود اور اس کی مخلوق کے خلاف جنگ شمار کیا جاتا ہے - جو سخت سزا رکھی گئی ہے، اس طرح کی سخت سزا کسی انسانی قانون میں نہیں پائی جاتی۔ ہمارے ادارے نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بلاشبہ دہشت گردی کی اقسام میں سے بڑی قسم ملکی دہشت گردی ہے لیکن سب سے واضح اور بد ترین دہشت گردی وہ ہے جو یہودی فلسطین میں مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ جو سرب باشندے بوسنیا اور کوسووا میں کر رہے ہیں۔ اس سربراہی کانفرنس کی رائے میں اس قسم کی دہشت گردی دنیا کے امن اور سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، اور اس کا سامنا کرنے کو ہمارے ادارے نے جان کے دفاع اور جہاد فی سبیل اﷲ کے قبیل سے شمار کیا ہے۔

(جاری ہے)

حوالہ: ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، اکتوبر 2015

تبصرہ