مسنون اعتکاف و شب قدر کی شرعی حیثیت

1۔ مسنون اعتکاف کی شرعی حیثیت، شرائط، آداب اور تقاضے

اعتکاف کا معنی و مفہوم: شریعت میں اعتکاف کا مطلب بطور عبادت مسجد میں ٹھہرنا ہے۔ مسجد میں ٹھہر کر عبادت کرنے والے کو عاکف اور معتکف کہا جاتا ہے۔

اعتکاف کی حقیقت: اعتکاف کی حقیقت خلوت نشینی اور شبِ قدر کو پانا ہے۔

اعتکاف کی اقسام:

اعتکاف کی تین اقسام ہیں:

  1. واجب: وہ اعتکاف جس کی نذر مانی جائے۔
  2. سنت موکدہ: رمضان المبارک میں آخری عشرہ کا اعتکاف کرن
  3. مستحب: مذکورہ دو صورتوں کے علاوہ نفلی اعتکاف کرنا مثلاً ہر نماز میں مسجد میں داخل ہوتے وقت اعتکاف کی نیت کرنے سے نفلی اعتکاف کا ثواب ملتا ہے۔

اعتکاف کی شرعی حیثیت

قرآن حکیم سے ثبوت

قرآن حکیم میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو کعبہ معظمہ کی تعمیر کے بعد اسے پاکیزگی و طہارت کا مرکز بنانے کی ہدایت کے ساتھ اس کا مقصد طواف کرنے والوں، اعتکاف بیٹھنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک و صاف کرنا قرار دیا گیا۔

وَعَهِدْنَآ اِلٰی اِبْرٰهيمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَهِرَا بَيْتِیَ لِلطَّآئِفِيْنَ وَالْعٰکِفِيْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ.

(البقره،2:125)

’’اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں او راعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک (صاف) کر دو‘‘۔

اسی طرح سورۃ البقرہ ہی میں ارشاد فرمایا گیا:

وَلَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ.

(البقره،2:187)

’’اور عورتوں سے اس دوران شب باشی نہ کیا کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو‘‘۔

حدیث پاک سے ثبوت

بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے:

ان النبی صلی الله عليه واله وسلم کان يعتکف العشر الاواخر من رمضان حتی توفاه الله ثم اعتکف ازواجه من بعده.

(متفق عليه)

’’رسولِ اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم رمضان المبارک میں آخری عشرہ اعتکاف بیٹھتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ظاہری طور پر پردہ فرمانے کے بعد آپ کی ازواج مطہرات (پاکیزہ بیویاں) نے اعتکاف کیا‘‘۔

بخاری شریف میں اس حوالے سے مزید روایت کے الفاظ یہ ہیں:

وکان يعتکف کل عام عشرا فاعتکف عشرين فی العام الذی قبض.

’’حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہر سال دس دن کا اعتکاف فرماتے مگر وفات کے سال بیس دن کا اعتکاف فرمایا‘‘۔

اعتکاف کی شرائط

  1. مسلمان ہونا
  2. نیت کرن
  3. عاقل ہونا (مجنوں، دیوانے اور پاگل کا اعتکاف معتبر نہیں)
  4. مرد کا جنابت سے بالکل پاک ہونا
  5. عورت کا حیض و نفاس سے پاک و صاف ہون
  6. ایسی مسجد میں اعتکاف کرنا جہاں باجماعت نماز کا اہتمام ہو
  7. معتکف کا روزہ دار ہونا
  8. عورت کا خاوند موجود ہو تو اس کی اجازت سے گھر میں اعتکاف بیٹھن

نوٹ: صحت اعتکاف کے لئے بالغ ہونا شرط نہیں۔ سمجھدار اور عاقل بچے کا اعتکاف بھی درست ہے۔

مسنون اعتکاف کے مستحبات و آداب

  1. مسجد میں اعتکاف بیٹھنا
  2. قرآن و حدیث کا مطالعہ کرن
  3. علم سیکھنا اور سکھانا
  4. سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور دیگر انبیاء کے حالات کا مطالعہ کرنا
  5. فضول باتیں نہ کرنا
  6. بالکل خاموش نہ رہنا
  7. غیر شرعی امور سے کلیۃً اجتناب کرنا
  8. مسجد اور اعتکاف گاہ کی صفائی کا خاص خیال رکھنا
  9. ہر وقت باوضو رہنا
  10. شرعی ضرورت کے تحت باہر نکلنا

اعتکاف کو فاسد (توڑنے) والے امور

  1. جان بوجھ کر کھانا پینا (روزے کے ساتھ اعتکاف کا بھی ٹوٹنا)
  2. اپنی بیوی سے جماع یا اس کی طرف مائل کرنے والے اسباب جیسے بوس و کنار وغیرہ کرنا
  3. مرد کا بغیر کسی شرعی عذر کے مسجد سے باہر نکلنا
  4. عورت کا بغیر کسی شرعی عذر کے اپنے گھر کی اعتکاف گاہ سے گھر کے دوسرے حصوں میں جان
  5. بیمار کی عیادت کے لئے مسجد سے باہر نکلنا
  6. نمازجنازہ کے لئے مسجد سے باہر نکلنا

جن چیزوں سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا

  1. بلا قصد و ارادہ بھول کر کھانا پینا (روزے کی طرح اعتکاف کا برقرار رہنا)
  2. لباس بدلنا
  3. خوشبو لگانا
  4. تیل لگانا، کنگھی کرنا
  5. احتلام ہونا
  6. انسانی حاجات کے لئے مثلاً باتھ روم مسجد کے ساتھ نہ ہونیکی صورت میں باہر جانا
  7. مسجد میں جمعہ کا اہتمام نہ ہونیکی صورت میں جمعہ کی ادائیگی کیلئے جامع مسجد جانا
  8. عذر شرعی کی بناء پر مسجد سے باہر نکلنے کی صورت میں گزرتے ہوئے بلاتوقف بیمار کی خیریت دریافت کرنا

اجتماعی اعتکاف کے تقاضے

  1. معتکف بلا ضرورت غسل نہ کرے۔
  2. جسم کی زیب و زینت کی طرف زیادہ توجہ نہ دے۔
  3. وقت ضائع کرنے اور فارغ بیٹھنے کی بجائے ذکر الہٰی، استغفار اور صلوۃ و سلام کی کثرت کی جائے۔
  4. پنجگانہ نمازوں کے علاوہ نفلی نمازوں مثلاً اشراق، چاشت اور اوابین کی پابندی کی جائے۔
  5. قرآن حکیم کی قرات کے علاوہ ترجمہ اور تفسیر سے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
  6. دروس قرآن و حدیث اور اخلاقیات و عبادات پر مشتمل قائدین اور مقررین کے لیکچرز کو سنا جائے اور عمل کیا جائے۔
  7. شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے روح پرور خطابات کو حرز جاں بنایا جائے اور ان خطابات کے نوٹس تیار کرنے کی کوشش کی جائے۔

شبِ قدر کی فضیلت و اہمیت

دین اسلام میں تمام عبادات کا مقصود، اللہ رب العزت کی اطاعت و بندگی ہے جس سے اسلام اپنے پیروکاروں کو ظاہرو باطن کی روشنیوں سے منور کرتا ہے۔ وہ جہاں ہر فرد کے اندر پاکیزگی، طہارت اور تقویٰ و پرہیزگاری کے اوصاف دیکھنا چاہتا ہے وہاں ان کے ظاہرو باطن پر انسانی معاشرے کی اقدار کی عظیم بنیادیں بھی استوار کرنا چاہتا ہے۔ آج نفس کی آلائشوں نے دنیا کی محبت میں گرفتار کرکے انسان کو اس کا حقیقی مقصد فراموش کرادیا ہے اور وہ اس دنیوی زندگی ہی کو دائمی زندگی سمجھ بیٹھا ہے جس سے ہمارا معاشرہ بڑی تیز رفتاری سے مادیت کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے اور روح کو توانا کرنے کی خواہش دم توڑ رہی ہے۔

انسان، انس اور نسیان کا مرکب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے زندگی میں خطائیں، لغزشیں اور گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف خالق کائنات اپنی صفت رحمان و رحیم کے غلبہ کے پیش نظر انسان کو بے شمار ایسے مواقع فراہم کرتا رہتا ہے جس سے وہ فائدہ اٹھاکر اپنے گذشتہ گناہوں اور معاصی سے توبہ کرکے اللہ رب العزت سے مغفرت و بخشش کا پروانہ حاصل کرسکتا ہے۔ ان خصوصی اوقات، لمحات اور ساعتوں میں سے ایک لیلۃ القدر بھی ہے جو نہایت قدرو منزلت اور عزت و شرف کی رات ہے جس کی عبادت کو قرآن حکیم نے ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی افضل قرار دیا ہے یعنی تراسی سال اور چار مہینے کی عبادت و ریاضت سے انسان اس قدر فیوض و برکات اور خیرات وحسنات حاصل کرتا ہے جس قدر اس ایک رات میں اجرو ثواب کماتا ہے۔

تفسیر خازن کے مطابق ’’قدر‘‘ کا ایک معنی ’’تنگی‘‘ ہے۔ اس معنی کی رو سے لیلۃ القدر کی وجہ تسمیہ یہ ہوگی کہ چونکہ اس رات آسمان سے زمین پر اتنی زیادہ کثرت سے ملائکہ کا نزول ہوتا ہے کہ ان کی کثرت کی بناء پر زمین کا دامن تنگ ہوجاتا ہے۔

قرآن حکیم کے مطابق شب قدر کی سب سے بڑی فضیلت یہ قرار دی گئی ہے کہ اس رات اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید کو نازل فرمایا۔ اس بابت قرآن حکیم کی سورۃ القدر میں ارشاد ہوتا ہے۔

اِنَّا اَنْزَلَنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ.

(القدر،97:1)

’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ تمام الہامی کتب پر قدرو منزلت رکھنے والی عظیم کتاب ’’قرآن‘‘ تمام انبیاء و رسل پر قدرو منزلت رکھنے والے پیغمبر نبی آخرالزماں، آقائے دو جہاں، رحمۃ للعالمین حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر عظیم قدر والی رات میں نازل ہوئی۔ حدیث مبارکہ میں خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے لیلۃ القدر کی فضیلت و اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

من قام ليلة القدر ايمانا و احتسابا غفرله ماتقدم من ذنبه.

(متفق عليه)

’’جس شخص نے شبِ قدر میں ایمان کی حالت میں اجرو ثواب کے حصول کی نیت سے اپنا محاسبہ نفس کرتے ہوئے عبادت کی اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں‘‘۔

صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی اس ایمان افروز حدیث سے یہ امر قطعی طور پر واضح ہوگیا کہ شب قدر کی صرف ایک رات کی عبادت بندہ مومن کے زندگی بھر کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اور وہ معصوم عن الخطاء ہونے کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔ اسی بناء پر لیلۃ القدر کو بخشش و مغفرت کی رات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس رات کی خیرو برکت سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو اپنے مقدر کو سنوارنے کا آرزو مند نہ ہو اور اپنی ذات کے ساتھ بھی مخلص نہ ہو۔ اس حوالے سے ابن ماجہ نے اپنی سنن میں حضرت انس ابن مالک سے روایت نقل کی جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

ان هذا الشهر قد حضرکم وفيه ليلة خير من الف شهر من حرمها فقد حرم الخير کله ولا يحرم خيرها الا حرم الخير.

(سنن ابن ماجه)

’’یہ مہینہ جو تم پر سایہ کررہا ہے اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں (کی عبادت) سے افضل ہے۔ جو (بدنصیب) واقعتا خیر سے محروم رہا‘‘۔

اس عظیم قدر والی رات کی خصوصیت اور انفرادیت کا عالم یہ ہے کہ یہ عظیم رات سابقہ تمام انبیاء و رسل کی امت میں سے کسی کو بھی عطا نہیں کی گئی۔ اسے فقط نبی محتشم، رسول مکرم، محبوب خدا حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عظیم امت کے ساتھ خاص کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے حضرت امام جلال الدین سیوطی، حضرت سیدنا انس ابن مالک سے ایک نہایت اہمیت کی حامل روایت نقل کرتے ہیں جس میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:

ان الله وهب لامتی ليلة القدر لم يعطها من کان قبلهم.

’’یہ مقدس اور عظیم رات اللہ تبارک و تعالیٰ نے فقط میری امت کو مرحمت فرمائی ہے اور سابقہ کسی امت کو یہ عظیم شرف عطا نہیں ہوا‘‘۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اکثر اپنے صحابہ کرام کو انبیاء کرام اور ان کی سابقہ امتوں میں متقی اور پرہیزگار بندوں کی عبادتوں اور نیک اعمال کے واقعات سنایا کرتے تھے۔ تاکہ صحابہ کرام میں بھی عبادت کا ذوق و شوق قائم رہے۔ ایک مرتبہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے ان صلحاء و عابدین میں سے اللہ تعالیٰ کے ایک مقرب بندے کا ذکر فرمایا کہ اس نے ایک ہزار ماہ تک جہاد فی سبیل اللہ کا اعزاز حاصل کیا اور مختلف انبیاء کرام مثلاً حضرت ایوب علیہ السلام، حضرت زکریا علیہ السلام، حضرت حزقیل علیہ السلام اور حضرت یوشع بن نون علیہ السلام اور ان کے امتی کی اسی سالہ عبادتوں کا ذکر کیا کہ اتنی طویل عمر عبادت کرنے کے باوجود ان کے اندر اکتاہٹ، بددلی اور نافرمانی تک کا شائبہ بھی پیدا نہیں ہوا۔ صحابہ کرام نے جب یہ مختلف انوکھے اور حیرت انگیز واقعات سنے تو انہیں انبیاء کرام اور ان کی امتوں کی طویل عمروں اور طویل سجدوں اور عبادتوں پر رشک آیا کہ کاش ہماری عمریں بھی اتنی طویل ہوتیں اور ہم بھی بارگاہ الہٰی میں اپنی عاجزانہ عبادتوں اور بندگی کا تحفہ پیش کرتے۔ جب انہوں نے اس امر کا اظہار رحمت للعلمین علیہ التحیۃ والثناء سے کیا اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قلب اطہر میں صحابہ کرام کے ساتھ ہمدردی کے جذبات موجزن ہوئے تو رب کریم نے اپنے ملکِ مقرب حضرت جبریل امین علیہ السلام کو بھیج کر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مژدہ جاں فزا سنایا کہ اے میرے پیارے محبوب! تیری عظیم امت کو ’’لیلۃ القدر‘‘ کا عظیم تحفہ عطا فرمایا جاتا ہے۔ میرے قبضہ قدرت سے باہر کوئی شے نہیں لہذا آپ کی خاطر آپ کی امت کو صرف ایک رات کی عبادت کے ثواب کو اتنا وسیع کیا جاتا ہے کہ اس کے مقابلے میں ایک ہزار مہینے بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ جب اس عظیم خبر سے صحابہ کرام مطلع ہوئے تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔

شب قدر عطا کئے جانے کے اسی سبب کا ذکر کرتے ہوئے امام مالک نے اپنی کتاب ’’موطا‘‘ میں حدیث روایت کی ہے جس میں فرمایا گیا:

ان رسول الله صلی الله عليه واله وسلم اری اعمار الناس قبله او ماشاء الله من ذلک فکانه تقاصر اعمار امته عن ان لا يبلغوا من العمل مثل الذی بلغ غيرهم فی طول العمر فاعطاه ليلة القدر خير من الف شهر.

(موطا امام مالک)

’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سابقہ (امتوں) کے لوگوں کی عمروں سے مطلع کیا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کے مقابلے میں اپنی امت کے لوگوں کی عمر کو کم دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر نیک اعمال کیسے بجا لاسکیں گے۔ جب آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے مقدس دل کو اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں ملال و پریشان پایا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو لیلۃ القدر عطا فرمادی جو ہزار مہینے سے افضل ہے‘‘۔

شب قدر کی تعین کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو آگاہ فرمادیا تھا اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے پیارے صحابہ کرام کو بھی اس سے باخبر کرنے کے لئے اپنے کاشانہ عالیہ سے باہر تشریف لائے مگر جب دو شخصوں کو آپس میں جھگڑا کرتے ہوئے دیکھا تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم واپس تشریف لے گئے۔ فعل الحکیم لایخلو عن الحکمہ (اس حکیم کا کوئی بھی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا) کے مصداق قدرت کو بھی منظور نہ ہوا کہ اس رات کو Disclose کیا جائے تاکہ آخری عشرہ کی دیگر راتوں میں بھی تجسس، جدوجہد، ذوق عبادت اور عمل پیہم کا جذبہ برقرار رہے۔ اس بابت بخاری شریف کی حدیث پاک میں فرمایا گیا:

خرج ليخبر الناس ليلة القدر فتلاحی رجلان من المسلمين قال صلی الله عليه واله وسلم خرجت لاخبر فتلاحی فلان وانها رفعت وعسی ان يکون خيرالکم فالتمسوها فی التاسعة والسابعة والخامسة.

(صحيح بخاری:893)

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم شب قدر کے بارے میں مطلع کرنے کے لئے تشریف لائے۔ اس وقت دو شخص آپس میں جھگڑ پڑے۔ (آپ کے قلب اطہر اور مزاج مقدس پر یہ چیز گراں گزری لہذا آپ واپس تشریف لے گئے) بعد میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہم باہر اس لئے آئے تھے تاکہ تم کو شب قدر سے آگاہ کریں لیکن فلاں فلاں کے جھگڑے کی وجہ سے وہ تعیین اٹھالی گئی۔ ممکن ہے یہی تمہارے حق میں بہتر ہو لہذا اب انیتسویں، ستائیسویں اور پچیسویں راتوں میں اسے تلاش کرو‘‘۔

بخاری شریف کی ایک روایت میں جو ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ سے مروی ہے شب قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امت محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو محنت و مشقت پر ابھارنا اور ان کے اندر جذبہ عمل کو بیدار رکھنا مقصود تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شب قدر کو پانے کے لئے آخری عشرہ کا اعتکاف اور اس میں پانچ طاق راتیں مخصوص کردیں کہ جو لوگ زیادہ عبادت کے رسیا ہوں ان کا ذوق بھی پورا ہوجائے اور جو لوگ ان سے کم ذوق کے حامل ہوں وہ پانچ راتیں ہی جاگ لیں اور جو لوگ اتنا بھی گوارا نہ کرسکیں ان کو ستائیسویں شب کو جاگ کر عبادت کرکے اپنے مالک کی رحمت کو حاصل کرنے کی ترغیب دلائی گئی۔ اس حوالے سے ترمذی شریف کی حدیث پاک جو حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:

انها فی رمضان وانها ليلة سبع وعشرين ولکن کره ان يخبرکم فتتکلوا.

(جامع ترمذی)

’’شب قدر رمضان المبارک کی ستائیسویں شب ہے لیکن تمہیں اس بات کی اس لئے خبر نہ دی گئی تاکہ تم اس پر بھروسہ کرکے نہ بیٹھ جائو‘‘۔

شبِ قدر کے وظائف و اعمال

شب قدر میں کئی اعمال و وظائف احادیث مبارکہ سے ثابت ہیں۔ شریعت اسلامیہ میں اعتکاف کا مقصد بھی شب قدر کو پانا قرار دیا گیا ہے لہذا اس کی طاق راتوں میں جاگ کر ساری رات عبادت، تلاوت قرآن، نوافل، درود پاک، ذکر الہٰی، مناجات اور استغفار کرتے ہوئے گزارنی چاہئے۔ اس حوالے سے حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص لیلۃ القدر میں دو رکعت نفل اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سات مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھے اور سلام پھیرنے کے بعد ستر مرتبہ استغفار کرے تو اللہ تعالیٰ مصلے سے اٹھنے سے پہلے اس کے اور اس کے والدین کے تمام گناہ معاف فرمادے گا‘‘۔ (درۃ الناصحین)

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ سے مروی ہے کہ جو شخص لیلہ القدر میں نماز عشاء پڑھ کر سات مرتبہ سورۃ القدر پڑھے گا تو اللہ رب العزت اس کو ہر مصیبت، پریشانی اور بلائوں سے نجات عطا فرمائے گا اور ستر ہزار فرشتے اس کے لئے جنت کی دعا کریں گے۔ (نزھۃ المجالس)

شب قدر کا خاص وظیفہ اللہ تعالیٰ سے عفو درگزر کی بھیک مانگنا ہے۔ ایک ایمان افروز حدیث پاک میں ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دریافت کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! اگر مجھے شب قدر کے بارے میں علم ہوجائے تو میں اس میں کیا عمل کروں‘‘۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا یہ دعا پڑھو:

اللهم انک عفو تحب العفو فاعف عنی.

(ترمذی)

’’یااللہ! تو معاف کرنے والا ہے اور معافی چاہنے والے کو پسند کرتا ہے مجھے بھی معاف فرمادے‘‘۔

لیلۃ القدر بخشش و مغفرت اور توبہ و استغفار کی رات ہے اور ناامیدی و مایوسی کو ختم کرنے کی رات ہے۔ خدا سے ناامیدی کفر کے ارتکاب کے مترادف ہے اور ’’امید پر دین قائم ہے‘‘ کے مقولے کے تحت بندہ جتنا بھی گناہگار کیوں نہ ہو اگر وہ اپنے گناہوں پر شرمندہ اور شرمسار ہوجائے اور آئندہ زندگی کی اصلاح کا عزم مصمم کرے تو اس کا شمار گناہگاروں میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے صالحین بندوں میں ہوگا کیونکہ توبۃ النصوح یعنی سچے دل کی توبہ اس کے گناہوں کی سیاہی کو دھودیتی ہے اور وہ ایسے ہوجاتا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔

تبصرہ