افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر میرا آج کا موضوع ہے۔ یہ شعر پڑھنے کے بعد کچھ سوالات ہمیشہ میرے ذہن میں مچلتے ہیں کہ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا ہم اس خیال کو بحیثیت قوم سمجھتے ہیں؟ افراد کن کو کہا گیا؟ افراد کی تعریف کیا ہے؟ قوم کی تعریف کیا ہے؟ قوم کسے کہتے ہیں؟ اور کتنے افراد کے ہاتھوں میں قوم کی تقدیر ہوتی ہے۔ یوم پاکستان کے خصوصی موقع پر آئیے ان سب سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں کہ واقعی افراد کے ہاتھوں میں قوموں کی تقدیریں ہوتی ہیں؟
سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ تقدیر کیا ہے؟ مذہبی نقطہ نظر سے تو ہم جانتے ہیں کہ تقدیر کیا ہے اور کسے کہتے ہیں مگر قوموں کی زندگی میں قومی اور ملی نقطہ نظر سے تقدیر کیا ہے؟ تقدیر نتائج کا نام ہے واقعاتی یا حادثاتی جو افراد کے اعمال کے نتیجے میں ظاہر ہوتے ہیں اچھائی، برائی، نفع و نقصان، خوشی و غم، خوشحالی وبدحالی، ترقی، پریشانی، عزت، ذلت، فتح و شکست، کامیابی، ناکامی نہ جانے کتنے نتائج ہیں جو افراد کے اعمال کے نتیجے میں سامنے آتے ہیں۔ کیسے کیسے حالات ہیں جو اعمال کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ افراد ہی ہیں جو ان کے پیدا ہونے کا باعث بھی ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کا سامان بھی پیدا کرتے ہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ افراد کون ہیں افراد میں خواتین و حضرات دونوں شامل ہیں باکردار اور بدکردار مہذب اور غیر مہذب، معاملہ فہم کم معاملہ فہم، تیز رفتار سست رفتار، ذہین و فطین کند ذہن و دور اندیش کوتاہ اندیش ، جری بہادر کم ہمت بزدل یہ سب جس طرح مل کر کام کریں گے اسی طرح کی قوم اسی طرح کی تقدیر سامنے آتی ہے اسی طرح کی صورت حال سامنے آتی ہے۔
اللہ جل شانہ نے ہر فرد کو حقوق دیئے ہیں۔ ہر فرد کو ذمہ دار بنایا ہے۔ ہر فرد کو فرائض دیئے ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق کہ ’’الکاسب حبيب الله‘‘ کہ محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔ یہ حدیث مبارکہ ہر فرد کو بیدارکرتی ہے۔ ہر فرد کو مسلسل جدوجہد کا پیغام دیتی ہے تاکہ قوم کی تقدیر بدل جائے۔ قوم ترقی کرجائے۔ یہ شعر اس حدیث مبارکہ کا ترجمہ بھی ہے۔ آئیے! ایک بار پھر پڑھ کر اس پیغام کے اور قریب ہو جائیں کہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اسی طرح قوم، زندگی کی موڑ میں افراد کی محتاج ہوتی ہے۔ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام میسر آجائیں تو آگ کی بجائے گلزار بنتے ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام مل جائیں تو کلیمی میسر آجاتی ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مل جائیں تو روشنی انصاف اور رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ ساری قوم راہنما و راہبر بن جاتی ہے اور اگر ابوجہل مل جائے توجہالت عام ہوجاتی ہے۔ قتل عام ہو جاتا ہے۔
یہی حال اس وقت پاکستانی معاشرے کا ہے جہالت ہے، ظلمت ہے، گمراہی ہے، تعصب ہے، فرقہ واریت ہے، بغض ہے، نفرت ہے۔ یہ معاشرہ ابوجہل کا معاشرہ بن چکا ہے اور ایک بار پھر کسی براہیم کی تلاش ہے۔
اگر آج ہر کوئی اپنا کام کرے اور دوسرے پر تنقید چھوڑدے۔ ہر کوئی علم حاصل کرے اور دوسروں میں عیب نہ نکالے، ہر کوئی محنت کرے اور سستی و کاہلی چھوڑ دے۔ ہر کوئی تعمیر کرے تخریب نہ کرے، ہر کوئی جستجو کرے، تحقیق کرے، دوسروں سے ہمدردی کرے، ہر کوئی محبت و اتفاق سے کام لے۔ ہر کوئی امن و سکون سے رہے تو یہ ہجوم بکھرا ہوا ایک قوم بن سکتی ہے اور جب ہم قوم بن گئے تو پھر ہماری تقدیر بھی بن جائے گی۔ تقدیر تو چیز کا نام ہے اور چیز عام ہوتی ہے۔ اس سے فلاح ہوتی ہے تب ہم کہہ سکیں گے کہ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر۔
لیکن اس کے برعکس آج ہر کوئی مائل بہ فساد ہے۔ ہر طرف قتل و غارت ہے دہشت گردی ہے ہر کوئی مائل جرم ہے مائل ہنر ہے تو ایسے میں ساری قوم بگڑ جاتی ہے۔ چند اچھے لوگ تبدیلی نہیں لاسکتے۔ قوم کی ترقی و خوشحالی رک جاتی ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں بحیثیت قوم ہمارا کردار کیا ہے۔ آج ہماری آنکھوں کو دوسری قوموں کی ترقی تو خیرہ کرتی ہے لیکن یہ کبھی نہیں سوچا کہ آخر وہ قومیں بام عروج پر کیسے پہنچیں۔ چینی سنبھل گئے، جاپانی سنبھل گئے۔ انہوں نے قوم کی تقدیر بدل ڈالی۔ انہوں نے محتاجی کا کشکول اٹھانے کی بجائے اپنی تقدیریں اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ غور و فکر سے کام لیا۔ منصوبے بنائے۔ ترقیاتی کاموں میں دلچسپیاں لیں تو قوم کی کایا پلٹ گئی۔
لیکن ان کے برعکس ہمیں بحیثیت قوم عزت ہی نہ ملی جب قوم کو ڈاکو مل جائیںعزت و غیرت فروش مل جائیں۔ دہشت گرد حکمران مل جائیں۔ جب افراد قتل و غارت کرنے لگیں۔ اپنے ہی قومی اثاثوں کی لوٹ مار کرنے لگیں۔ بنک لوٹے جانے لگیں۔ کرپشن عام ہوجائے۔ کارخانے بند ہوجائیں۔ لوگ مذہب کے نام پر دہشت گردی پھیلائیں۔ جب افراد ذہنی طور پر پسماندہ ہوجائیں۔ قوم بداخلاق ہوجائے۔ قوم اقوام عالم میں بدنام ہوجائے تو اس قوم کی تقدیر میں رسوائی اور بدنامی ہو جاتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ افراد ہی قوم کی تقدیر بناتے ہیں ان کے ہاتھوں میں قوم کا علاج ہے، قوم کی عزت ہے۔ 23 مارچ کا دن کامیابی کے حصول کا دن تھا۔ ایسا دن جس نے منزل تک رسائی مشکلات اور جدوجہد کی طرف ہماری راہنمائی کی تھی۔ آج ایک بار پھر یہ دن ہماری توجہ دلاتا ہے کہ قطرے کو گوہر بننے کے لئے کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ محمد بن قاسم سے لے کر قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ تک داستان آزادی کتنے آنسوؤں پر مشتمل ہے آج بھی یہ آنسو بہہ رہے ہیں افراد اپنے ہاتھ روکے ہوئے ہیں نظام زندگی معطل ہے۔
قوموں کی زندگی میں وہ لمحہ قیمتی ہوتا ہے جب وہ دوسرے کی غلطیوں پر نظر رکھنے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی اصلاح کی فکر کرتی ہیں۔ ہمارے دل اندھے ہو چکے ہیں۔ قائد کے فرمان اتحاد، ایمان، تنظیم کا نہ صرف مذاق اڑایا بلکہ ہمارے بزرگوں نے جو پاکستان بطور امانت ہمارے سپرد کیا تھا ہم نے اس میں بھی خیانت کی اور آج بھی کر رہے ہیں۔ ہم لوگ نہ قومی نہ عوامی ہیں، ابھی تک یہودیوں و انگریز کے حامی ہیں۔ ابھی تک اتنے برس بیت چکے ہیں مگر افسوس اس قوم میں آثار غلامی اب بھی باقی ہیں۔
تبصرہ