یوم آزادی کے دن لاہور میںایک خاتون کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس واقعہ کے بعد متعدد واقعات اور بھی رونما ہوئے جن میں نہ صرف سوسائٹی میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی کی نشاندہی ہوتی ہے بلکہ خواتین کے تحفظ کے حوالے سے انتظامی سطح پر موجود سقم بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ یہ امرباعث افسوس ہے کہ اجتماعی اخلاقی اقدار روبہ زوال ہیں اور اخلاقی رویوں میں تیزی سے بگاڑ بڑھتا چلا جا رہا ہے اور والدین نے اپنے بچوں کے تحفظ کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ کچھ واقعات تو رونگٹے کھڑے کر دینے والے ہیں کہ پبلک ٹرانسپورٹ جن میں رکشہ کی سواری سر فہرست ہے ان میں سفر کرنے والی خواتین غیر محفوظ ہیں۔ ہر دور میں منتخب حکومتیں عوام کے جان و مال کے تحفظ بالخصوص خواتین کی عزت و ناموس کو محفوظ بنانے کیلئے بڑے بڑے دعوے کرتی ہیں مگر جب ہم اعداد و شمار دیکھتے ہیں تو زمینی حقائق ان دعوؤں کے برعکس ہوتے ہیں۔ جس معاشرے میں قانون کی عملداری اور بالادستی کمزور ہوتی ہے وہاں جرم پرورش پاتا ہے۔ ہمارا نظام انصاف انتہائی تاخیر سے حرکت میں آتا ہے جس کا فائدہ سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کو پہنچتا ہے۔ جب بھی کوئی افسوسناک واقعہ رونما ہوتا ہے حکومت، ادارے، میڈیا اور سیاسی سماجی تنظیمیں اس پر تبصرے کرتی اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے بیانات جاری کرتی ہیں۔ کچھ دن تک وہ واقعہ میڈیا کی زینت بننے کے بعد منظر سے ہٹ جاتا ہے اور پھر جب ویسا ہی کوئی اور واقعہ رونما ہوتا ہے تو پھر بیان بازی کا ایک طوفان امڈ آتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کے امن و امان کو قائم رکھنے کے کردار سے لے کر ایف آئی آرکے اندراج، غیر جانبدار تفتیش اور پراسیکیوشن اور ٹرائل کے تمام مراحل کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ مجرموں کو سزاؤں سے بچانے والے قانونی سقم دور کئے جائیں، جب تک نظام انصاف درست خطوط پر استوار نہیں ہوگا صنف نازک کے ساتھ ظلم ہوتا رہے گا، صوبائی دارلحکومت لاہور میں حوا کی دو بیٹیوں تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ کو 17 جون 2014 کے دن شہید کر دیا گیا تھا۔ شہید کرنیوالوں کے نام تمام تر ثبوتوں کے ساتھ عدالت کے ڈائس پر پڑے ہیں مگر 7سال گزر جانے کے بعد بھی تنزیلہ امجد کی بیٹی بسمہ امجد انصاف کیلئے دربدر ہے۔ موجودہ نظام انصاف کے حوالے سے مجرموں کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ دولت اور اثر و رسوخ کے ذریعے قطعی سزا سے بچ جائیں گے اس لئے جرم کا گراف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اسلام وہ واحد ضابطہ حیات ہے جس نے عورت کو سب سے زیادہ عزت اور اہمیت دی ہے۔ قرآن کی دو سورۃ مبارکہ سورۃ النساء اور سورۃ مریم عورت کے نام پر ہیں۔ اسلام میں عورت کو وہ حقوق عطا کئے ہیں جو کسی اور تہذیب اور مذہب نے نہیں دئیے۔ اسلام نے خاتون کو ماں، بہن، بیٹی، بیوی نیز ہر رشتے کے حوالے سے تحفظ اور وقار سے نوازا ہے۔ ماں کے رشتے کو وہ عزت و توقیر دی گئی ہے کہ اس سے قبل کسی الہامی یا غیر الہامی مذہب میں اس کا تصور تک نہ تھا۔ اللہ نے اپنی بیش قدر نعمت جنت کو ایک عورت (ماں) کے پاؤں کے نیچے رکھ دیا، یعنی ماں کی خدمت کے بدلے میں اللہ رب العزت جنت عطا فرماتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا دنیا کی بہترین متاع نیک عورت ہے یہاں پر اس امر کا ذکر بھی ضروری ہے کہ خواتین اپنی عزت و تکریم کی حفاظت کیلئے قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل پیرا رہیں۔ بہترین تعلیم و تربیت اور اخلاق کے ساتھ سوسائٹی میں اپنا کردار ادا کریں۔ اسلام نے حجاب کے حوالے سے جوہدایات اور تعلیمات دی ہیں ان پر عمل پیرا ہونے میں عورت کا دائمی تحفظ اور وقار ہے۔ آزادی اظہار کے نام پر ایسا رویہ اور اسلوب اختیار نہیں کرنا چاہیے جو انسانی اخلاقیات کے مروجہ ضوابط و اقدار کے خلاف ہو۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، ستمبر 2021ء
تبصرہ