ڈاکٹر انیلہ مبشر
پاکستان کی تخلیق درحقیقت مشیت ایزدی کا نام ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز اور پرخلوص قیادت کا اعجاز ہے۔ پاکستان برطانوی سامراج اور ہندوؤں جیسی شاطر قوم کا مقابلہ کرکے حاصل کیا گیا۔ اس میں پوری ایک صدی کی دلخراش اور جان لیوا تگ و دو اور جدوجہد شامل تھی جو سرسید احمد خان سے شروع ہوئی اور قائداعظم محمد علی جناح پر ختم ہوئی۔ قائداعظم محمد علی جناح کو اللہ رب العزت نے مسلمانوں کے دور زوال میں پیدا ہی اس لیے کیا تھا کہ ان کے ذریعے تخلیق پاکستان کا عمل ممکن بنایا جائے۔ عالم اسلام میں ریاست مدینہ کے بعد دین کی بنیاد پر دوسری ریاست قائم ہوئی۔ پروفیسر سٹینلے ولپرٹ جو قائداعظم کے بہترین سوانح نگار سمجھے جاتے ہیں آپ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنی کتاب میں اعتراف کرتے ہیں کہ کسی محکوم ملک کو آزادا کرانا کوئی نئی بات نہیں اور کسی ملک کو فتح کرنا بھی عام سی بات ہے لیکن ایک ملک کے اندر سے پرامن طریقے سے ایک ملک تخلیق کرنا نئی بات ہے کہ محمد علی جناح نے تاریخ کا دھارا بدلتے ہوئے نقشہ عالم کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔
برصغیر کے مسلمان اپنی تہذیب و ثقافت، زبان و ادب، معاش و معیشت اور مذہب و ملت کا تحفظ چاہتے تھے۔ ہندوؤں جیسی متعصب اور بے حوصلہ قوم سے الگ برصغیر میں مسلم اکثریتی علاقوں میں اسلامی اصول و ضوابط کا احیاء چاھتے تھے۔ خواہش کی اس شدت کو صدیوں کے تاریخی سفر میں ہندوؤں اور برطانوی حکمرانوں کے استحصالی رویے نے قدم قدم پر بھڑکایا۔ مگر ہر مرحلے پر مسلمان قوم کو ایسے قافلہ سالار میسر آتے رہے جنہوں نے قومی تشخص کی علمی و عملی وضاحت کی۔ خواہش کے اس عظیم سفر کے آخری سالار کی بات سب سے جدا تھی۔ یہ قافلہ سالار قلبِ سلیم کے مالک، اعلیٰ فکری و اخلاقی صلاحیتوں سے مزین، آئینی و قانونی رموز سے آشنا محمد علی جناح تھے جو اپنی قوم جو پشاور سے راس کماری اور قلات سے آسام تک پھیلی ہوئی تھی کے نبض شناس تھے خود حکیم الامت علامہ اقبال نے آپ کی بلند کرداری اور اعلیٰ خوبیوں کا اعتراف کیا ہے اور فرمایا کہ
’’آج ہندوستان میں مسٹر جناح سے بڑا مسلمان کا کوئی رہنما نہیں اور یہ کہ وہ میرے افکار اور نظریات پر عمل پیرا ہیں۔‘‘
قائداعظم ایک نہایت متحرک انسان تھے۔ آپ نے قوم کو کام کام اور کام کا جو پیغام دیا آپ خود اس کی عملی تفسیر تھے۔ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد آپ نے ملک بھر کے انقلابی دورے کیے اور اپنے وسیع علم، تجربے اور بصیرت کی بنیاد پر اپنی تقاریر اور فرمودات میں قوم کی رہنمائی کے اصول و ضوابط بیان کیے۔ خاص طور پر قیام پاکستان کے بعد آپ نے خرابی صحت کے باوجود ایک لمحے کے لیے آرام نہ کیا۔ اس دوران آپ نے مختلف تقریبات کے موقع پر جو بیانات دیئے اور خطابات سے قوم کو نوازا اگر انہیں مرتب کرلیا جائے تو پاکستان کو رہنمائی کے لیے کسی دوسرے منشور کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے فرمودات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ پاکستان میں کیسا نظم حکومت چاہتے تھے اور آپ کے ذہن میں پاکستان کو کس قسم کی اسلامی فلاحی جمہوری ریاست بنانے کا تصور موجود تھا۔
قائد کی نظر میں حصول پاکستان بذات خود منزل مقصود نہ تھا بلکہ امت مسلمہ کے لیے حصول مقصد اور منزل مراد پالینے کا ایک ذریعہ تھا۔ آپ ریاست مدینہ کی طرز پر ایک ایسی ریاست کا قیام چاہتے تھے جہاں مدنی سیاست و معاشرت کے نمونہ کی پیروی کی جائے۔ امت مسلمہ اپنی مذہبی اقدار، فکری شعور، تہذیب و ثقافت اور اسلامی اصولوں پر مبنی ایک ایسے نظم حکومت کو فروغ دے جہاں ہر شہری کو مساویانہ حقوق حاصل ہوں جہاں مساوات، رواداری اور عدل و انصاف کے اعلیٰ و ارفع اسلامی اصولوں پرعمل کیا جاتا ہو۔
عصر حاضر میں نئی نسل کو یہ باور کروانے کی اشد ضرورت ہے کہ خالق پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے نزدیک تصور پاکستان کی حقیقت اور نظم ریاست کے معاملات کیا تھے؟ نسل نو کے لیے غلط فہمی کی صورت اس وقت جنم لیتی ہے جب چند حلقے یہ رائے پیش کرتے ہیں کہ بابائے قوم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کے خواہاں تھے۔ اس سلسلے میں آپ کے خطبہ صدارت کا حوالہ دیا جاتا ہے جو آپ نے 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں دیا۔ آپ نے اعلان فرمایا کہ
’’آپ آزاد ہیں آپ عبادت کے لیے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ اپنی مسجدوں میں جانے میں آزاد ہیں، آپ مملکت پاکستان میں اپنے عقیدے کے مطابق اپنی عبادت گاہوں میں جانے میں آزاد ہیں۔ آپ خواہ کسی مذہب، فرقے یا عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں امور مملکت کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم اس زمانے میں آغاز کررہے ہیں جبکہ دو فرقوں کے درمیان کسی قسم کا امتیاز روا نہیں رکھا جاتا جبکہ ایک فرقے کو دوسرے فرقے پر رنگ نسل کی وجہ سے ترجیح نہیں دی جاتی۔ ہم اس بنیادی اصول سے آغاز کررہے ہیں کہ ہم سب ایک ہی مملکت کے شہری ہیں اور برابر کے شہری ہیں۔‘‘
جب آپ کے مخالفین نے 11 اگست 1947ء کے خطبہ صدارت کو بنیاد بناکر آپ کے بارے میں رائے قائم کی کہ آپ قوم پرست ہیں اور پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو شدید افسوس ہوا اور آپ نے اس کے جواب میں ایک وضاحتی بیان دیا جو کہ 25 جنوری 1948ء کے اخبارات میں شائع ہوا۔ آپ نے فرمایا:
’’وہ ان لوگوں کی ذہنیت نہیں سمجھ سکتے جو دیدہ دانستہ اور شرارت سے یہ پروپیگنڈہ کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ میں ایسے لوگوں کو جو گمراہ ہوچکے ہیں بتانا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ یہاں غیر مسلموں کو بھی خوف نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
اس بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ آپ نظم ریاست کو اسلام کی روادارانہ پالیسی پر چلانا چاہتے تھے۔ آپ نوزائیدہ اسلامی مملکت سے وابستہ تمام شہریوں کو بلا لحاظ مذہب و نسل مساوی شہری، آئینی و قانونی حقوق دینا چاہتے تھے تاکہ ہندوستان میں موجود مسلم اقلیت کے ساتھ بھی مساویانہ سلوک روا رکھا جائے۔ پاکستان میں اس وقت مسلم آبادی کا تناسب 95فیصد سے زیادہ تھا۔ اس عددی اکثریت کو سیکولرازم کے راستے پر ڈالنا ممکن نہ تھا اور نہ ہی قائد کے ذہن میں ایسا کوئی تصور موجود تھا۔ قیام پاکستان سے پہلے اور حصول پاکستان کے بعد مختلف مواقع پر آپ کے ایسے بیانات موجود ہیں جن میں آپ نے دو ٹوک الفاظ میں وضاحت کی کہ پاکستان کا نظم حکومت قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ہوگا۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے نظم حکومت کا ذکر کرتے ہوئے 7 اپریل 1948ء کو پشاور میں قبائلی جرگے سے خطاب میں فرمایا:
’’میں نے جو کچھ کیا اسلام کے ادنیٰ خادم کی حیثیت سے کیا۔ میں نے صرف اپنا فرض ادا کیا ہے اور اپنی قوم کی ہر ممکن مدد کی ہے۔ہمیشہ میری کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کو متحد رکھوں۔ ہم مسلمان ایک خدا، ایک کتاب یعنی قرآن مجید اور ایک پیغمبر پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ ہماری اسلامی مملکت ہے اور اسلامی حکومت ہے۔‘‘
اسی طرح آپ نے قرآن و سنت کی روشنی میں پاکستان کے نظام حکومت کو تشکیل دینے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے مارچ 1943ء میں فرمایا:
’’ایک دفعہ قوت ہمارے ہاتھ میں آجائے تو ہم سب بھائیوں کی طرح ایک میز پر بیٹھ کر سوچیں گے کہ بحیثیت مسلمان حالات اور رنگ ڈھنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں ہمارے لیے کون سا نظام بہتر ہے۔‘‘
اگرچہ قائداعظم کا طرز معاشرت اور بودو باش 1973ء سے پہلے تک مغربی انداز و اطوار کے زیر اثر تھا تمام تر ظاہری مغربیت کے باوجود آپ سچے مسلمان اور اسلامی اصولوں اور عقائد پر کامل یقین رکھتے تھے اور ملک کو قرآن و سنت کے اسلامی ضابطوں کے مطابق چلانے کے خواہاں تھے۔ آپ کے سیاسی تصورات کی بنیاد جمہوریت اور اسلامی جمہوریت پر قائم تھی۔ آپ پاکستان کے لیے جمہوری نظام کو موزوں قرار دیتے تھے اور ایسے نظام حکومت کے خواہش مند تھے جو لوگوں کی مرضی کے مطابق چلایا جاسکے جس نظام میں مملکت کا ہر شہری مستفید ہو اور جہاں باشندوں میں کسی قسم کی تفریق نہ ہو لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملک کے مسلمانوں کو جمہور کی بھاری اکثریت کی حیثیت سے اس بات کا پورا موقعہ حاصل ہو کہ وہ مملکت کی پالیسیوں کو اسلام کے اصولوں کے مطابق ڈھال سکیں۔
آپ شخصیت کی حکمرانی کی بجائے قانون کی حاکمیت پر یقین رکھتے تھے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا جلسہ ہورہا تھا اس دوران کسی نے نعرہ لگایا شاہ پاکستان زندہ باد۔ قائداعظم اس خوشامدی انداز سے خوش نہ ہوئے بلکہ فوراً بولے کہ ’’آپ کو اس قسم کی باتیں نہیں کرنی چاہیں پاکستان میں کوئی بادشاہ نہ ہوگا۔ یہ مسلمانوں کی ری پبلک ہوگی۔ جہاں سب مسلمان برابر ہوں گے۔ ایک کو دوسرے پر فوقیت نہیں ہوگی۔‘‘ قائداعظم محمد علی جناح کی جمہوریت پسندی کے بے شمار اقتباس پیش کیے جاسکتے ہیں لیکن آپ کے فرمودات سے یہ حقیقت واضح ہوگی کہ آپ مغربی جمہوریت کی بجائے ایسے جمہوری نظام کے خواہش مند تھے جو اسلامی بنیادوں پر استوار ہو۔ آپ اسلامی جمہوری ریاست کے علمبردار تھے اور جمہوری اقدار کو اسلامی نظام سے الگ تصور نہیں کرتے تھے۔ آپ نے ان خیالات کا اظہار فروری 1948ء میں اس طرح سے کیا۔
’’پاکستان کا دستور ابھی بننا ہے اور یہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بنائے گی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس دستور کی شکل اور ہیت کیا ہوگی لیکن میں اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا اور اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل ہوگا۔ اسلام اور اس کے نظریات سے ہم نے جمہوریت کا سبق سیکھا۔ اسلام نے ہمیں انسانی مساوات، انصاف اور ہر ایک سے رواداری کا درس دیا ہے۔‘‘
آپ کے نزدیک پاکستان کا قیام اس دیس کے باسیوں اور خاص طور پر مفلس و پسماندہ طبقات کو ایک جمہوری فلاحی ریاست کی خیرو برکات سے مستفید کرنا اور ان کے معیار زندگی کو بلند تر کرنا تھا۔ آپ سرمایہ دارانہ نظام اور استحصالی معاشرہ سے وابستہ عناصر کی اجارہ داری کا خاتمہ چاہتے تھے چنانچہ آپ نے قیام پاکستان سے قبل ہی ان عناصر کو متنبہ کردیا۔ اجلاس مسلم لیگ 1943ء میں فرماتے ہیں۔
’’میں ضروری سمجھتا ہوں کہ زمینداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کردوں۔ اس طبقے کی خوشحالی کی قیمت عوام نے ادا کی ہے۔ کیا آپ نے سوچا کہ کروڑوں لوگوں کا استحصال کیا گیا ہے اور اب ان کے لیے دن میں ایک بار کھانا حاصل کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اگر پاکستان کا حصول اس صورت حال میں تبدیلی نہیں لاسکتا تو پھر اسے حاصل نہ کرنا ہی بہتر سمجھتا ہوں۔ اگر وہ (سرمایہ دار اور زمیندار) عقل مند ہیں تو اپنے آپ کو نئے حالات کے مطابق ڈھال لیں گے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر خدا ان کے حال پر رحم کرے۔ ہم ان کی مدد نہیں کریں گے۔‘‘
الغرض قائداعظم محمد علی جناحؒ نے نہایت تدبر اور صراحت کے ساتھ ریاست کے انتظامی امور سے متعلق اپنے افکار و خیالات کا اظہار کیا مگر پاکستان کے ارباب اختیار نے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل اور نظم و نسق کے جملہ قواعد و ضوابط کو ترتیب دیتے ہوئے بانی پاکستان کے نظریات، فرمودات اور رہنما اصولوں کو قطعی نظر انداز کردیا۔ جس کے باعث قوم ترقی و خوشحالی کی وہ منازل طے نہ کرپائی جس کی آرزو بابائے قوم اپنے قلب سلیم میں رکھتے تھے۔
نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے
نگہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اگست 2021ء
تبصرہ