حافظہ سحر عنبرین
دین اسلام کی دو اہم عیدوں میں ایک عید الاضحی ہے، جو ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو عالمِ اسلام میں پورے جوش و خروش سے منائی جاتی ہے۔ اس عید کا آغاز 624ء میں ہوا۔ نبی کریم ﷺ کی ہجرت سے پہلے اہلِ مدینہ دو عیدیں مناتے تھے، جن میں وہ لہو و لعب میں مشغول رہتے تھے اور بے راہ روی کے مرتکب ہوتے تھے۔ آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ ان دونوں کی حقیقت کیا ہے؟ان لوگوں نے عرض کیا کہ عہدِ جاہلیت سے ہم اسی طرح دو تہوار مناتے چلے آرہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا! اللہ تعالی نے اس سے بہتر دو دن تمہیں عطا کیے ہیں، ایک عید الفطرکا دن اور دوسرا عید الاضحی کا دن.
(ابوداؤد: 1134)
عیدالاضحی ایک انتہائی بامقصد اور یادگار دِن ہے، اس دِن کی دُعائوں کی قبولیت کا عندیہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دیا گیا ہے، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ روزِ عید ہم سب مل کر توبہ استغفار کریں۔ زبانی نہیں، عملی توبہ ۔ پروردگار کے حضور گڑگڑا گڑگڑا کر دُعا کریں، اپنی کوتاہیوں، گناہوں کی معافی طلب کریں اور اپنے رب کو راضی کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ یاد رہے، دُنیا کی ابتدا ہی سے قربانی تمام مذاہب کا ایک لازمی حصّہ رہی ہے۔ یہ اللہ کے حضور جان کی نذر ہے، جو کسی جانور کو قائم مقام ٹھہرا کر پیش کی جاتی ہے۔ عیدالاضحی کے دن جانور کے گلے پر رسماً اور عادتاًچھری چلائی جائے تو بہت آسان ہے لیکن اگر اسوۂ ابراہیمی کو مدنظر رکھا جائے تو پھر اس کے لئے انسان کو پہلے ان مراحل کو سامنے رکھنا پڑتا ہے جن سے حضرت ابراہیم علیہ السلام گزرے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی مسلسل قربانیوں سے عبارت ہے۔
محبوبان الٰہی کو امتحان اور آزمائش کی سخت ترین منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے، اور قدم قدم پر جاں نثاری ، تسلیم ورضا کا مظاہرہ کرناہوتا ہے۔ امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد تمام مخلوقات میں انبیائے کرام علیہم السلام کا مرتبہ ہے، اور وہی اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب واقرب ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی گئی آزمائش میں پورے اترے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے ربّ کریم کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کو اشاعت دین کی محنت کے سبب امتحان وآزمائش سے دو چار ہونا پڑا، ہر نبی اور رسول کے امتحان کا انداز مختلف تھا۔ اللہ تعالیٰ کے انہیں برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک سیّدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں، آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر اور تسلیم ورضا اور اطاعت ربانی کے پیکر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا خلیل ( گہرا دوست) قرار دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی استقامت دین کے لیے پیش کی جانے والی عظیم قربانیوں سے عبارت ہے۔ اللہ ربّ العزت کو آپ علیہ السلام کا جذبہ قربانی و استقامت اسقدر پسند آیا ، کہ یہی جذبہ قربانی ہر دور کے لیے ایمانی معیار اور کسوٹی قرار دیا گیا ہے۔ آپ علیہ السلام ہر امتحان وآزمائش میں کامیاب وکامران ہوئے۔ یہاں تک کہ عقیدہ توحید بیان کرنے او ربت شکنی کی پاداش میں آپ علیہ السلام کو بادشاہ نمرود نے آگ میں ڈالا تو آپ علیہ السلام عظمت دین اور عقیدہ توحید کی سر بلندی کے لیے پوری طرح ثابت قدم رہے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کا فرمان مبارک جاری ہوا ہم نے حکم دیا آگ کو، اے آگ! سرد ہو جا اور ابراہیم علیہ السلام پر سلامتی والی ہو جا۔
(سورة الانبیاء، آیت: 69)
آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
ابھی یہ آزمائش کا سلسلہ ختم نہ ہوا تھا کہ آپکی وہ آرزو اور دعا جس کا اظہار آپ نے اللہ تعالی سے ان الفاظ میں کیا:
رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ.
(الصافات، 37: 100)
’’(پھر اَرضِ مقدّس میں پہنچ کر دعا کی:) اے میرے رب! صالحین میں سے مجھے ایک (فرزند) عطا فرما‘‘۔
اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور بیوی حضرت حاجرہ کو فاران کے بیابان میں چھوڑنے کا حکم ملا۔ اسلامی تاریخ جن خواتین پر فخر کرتی ہے اور جنہوں نے اپنے ایمان و یقین کی دلچسپ اورولولہ انگیز تاریخ رقم کی ان میں حضرت ہاجرہؓ کا نام اہم ہے۔ جن کی زندگی قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے بالعموم اور عورتوں کے لیے بالخصوص ایک پیغام اور سبق ہے۔ حضرت ہاجرہ ؓ حضرت ابراہیم ؑ کی وفاشعار اہلیہ اور حضرت اسماعیلؑ کی عظیم ترین ماں تھی، ابنیاء کرام ؑکی فہرست میں یہ ایسا قابل ِ رشک گھرانہ ہے جس کا ہر فرد جذبہ عشق و محبت سے سرشار اور تسلیم ورضا کا پیکر تھا، اللہ تعالی کی محبت اور فنائیت میں حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت ہاجرہ ؓ نے عجیب وغریب امتحانات دئیے اور رہتی دنیا تک ایک مثالی خاندان ہونے کی یادگار چھوڑگئے۔ حج جیسی عظیم عبادت میں انجام دئیے جانے والے بہت سے اعمال کا تعلق انہیں حضرات کی یادوں کو تازہ کرنا ہے اور بالخصوص صفا و مروہ کی بے تابانہ سعی تو حضرت ہاجرہؓ کی اداوں کی نقالی ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں حضرت ہاجرہؓ کی یہ بےقراری نے شرفِ قبولیت حاصل کیا اور ہمیشہ کے لیے عبادت کا ایک لازمی حصہ بن گیا۔ حضرت ہاجرہؓ کی ایمان افروزکی زندگی سے یہاں ایک دوواقعے ذکر کیے جاتے ہیں۔
اللہ تعالی نے جب حضرت ابراہیمؑ کو وفا شعار بیوی او ر شیر خوار بچہ حضرت اسماعیلؑ دو نوں کو لے جاکر ایک ایسی سرزمین پر چھوڑآنے کا حکم دیا جو ابھی غیر آباد تھی اور چاروں طرف صحرا وجنگل کا سناٹاتھا، چرند وپرند کا کوئی پتہ نہیں اور انسانوں کی آمد ورفت کا کوئی گمان نہیں۔
یہ بھی کوئی معمولی امتحان نہ تھا، سخت آزمائش کا مرحلہ تھا۔ حضرت ابراہیم ؑبے چوں چرا کچھ سامان ِ سفر لے کر ان دونوں کے ساتھ چل دئیے، بڑھاپے کی تمناووں کا مرکز، راتوں اور دنوں کی دعاؤں کا ثمر، قلب ونظر کا چراغ سیّدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام، جس کو آپ صرف حکم الٰہی کی تعمیل میں ایک بے آب وگیاہ مقام پر چھوڑ آتے ہیں، اس طرح کہ پیچھے مڑکر بھی نہیں دیکھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شفقت پدری جوش میں آجائے اور حکم ربانی کی تعمیل میں لغزش ہو جائے ۔ سیدہ حاجرہؓ آپ کے پیچھے پیچھے چلیں اور پوچھا کہ آپ ہمیں کس کے ذمہ پر چھوڑے جاتے ہیں؟ جواب ملااللہ پر تو انہوں نے فرمایا: میں اللہ پر راضی ہوں۔ ٹھیک تب تواللہ ہم کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔ جب حضرت ابراہیم کی نگاہوں سے وہ دونوں اوجھل ہوگئے تو آپ نے رقت انگیزدعافرمائی۔
(بخاری؛ حدیث نمبر: 3136)
رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ لا رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْٓ اِلَیْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَشْکُرُوْنَ.
(ابراهیم، 14: 37)
’’اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی اولاد (اسماعیل علیہ السلام) کو (مکہ کی) بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ شوق و محبت کے ساتھ ان کی طرف مائل رہیں اور انہیں (ہر طرح کے) پھلوں کا رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر بجا لاتے رہیں‘‘۔
جب آپ اس آزمائش پر کھرے اترے۔ تو اللہ تعالی نے انعام کے طور پر اس بے آب وگیاہ آبادی میں زمزم کا چشمہ جاری کردیا اور قبیلہ جرہم کو آباد کیا۔ یاد رہے کہ اللہ کے دین کو رائج اور قائم کرنے کے لیے بڑا سے بڑا خطرہ مول لینے میں کبھی نہیں جھجکنا ہے، چاہے اس کے لیے بیوی بچوں سے جدائی یا بھوک پیاس براشت کرنا پڑے اور جان ومال کی قربانی دینی ہوتو بھی پس و پیش سے کام نہ لیں جیسا کہ حضرت، ابراہیم ؑنے کیا تھا ان کٹھن منزلوں کو عبور کرنے کے بعد اب تیسری آزمائش کی تیاری ہے، جو پہلے دونوں امتحانوں سے کہیں زیادہ سخت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام تین رات متواتر خواب دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں اے ابراہیم ! تو ہماری راہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کر دے آپ اسے وحیِ الٰہی سمجھ کر فوراً اس کی تکمیل کے لیے تیار ہو گئے اور اپنے بیٹے اسماعیلؑ سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی اللہ تعالی کے حکم کے آگے سر تسلیمِ خم کر دیا۔ قرآن کریم نے اس کی منظرکشی یوں فرمائی۔
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰـبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰی ط قَالَ یٰٓـاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُز سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَ اللهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ.
’’پھر جب وہ (اسماعیل علیہ السلام) ان کے ساتھ دوڑ کر چل سکنے (کی عمر) کو پہنچ گیا تو (ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں سو غور کرو کہ تمہاری کیا رائے ہے۔ (اسما عیل علیہ السلام نے) کہا ابّاجان! وہ کام (فوراً) کرڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے۔ اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میںسے پائیں گے‘‘۔
(الصافات، 37: 102)
حضرت ابراہیم علیہ السلام تسلیم ورضا اور اطاعت ربانی کا پیکر بن کر تیار ہو گئے۔ چوں کہ اس امتحان وآزمائش میں بیٹا بھی شریک تھا اس لیے باپ نے اطاعت شعار اور فرماں بردار بیٹے کو اپنا خواب اوراللہ تعالیٰ کا حکم سنایا اور اپنے نو عمر فرزند سے پوچھا ، اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہاہوں ، بتا تیری کیا مرضی ہے ؟ ابا جان! جو حکم ملا ہے کر گزریے، مجھے آپ صبر کرنے والا پائیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے رائے اس لیے نہیں پوچھی کہ اگر بیٹے کی رائے ہو گی تو ایسا کروں گاورنہ میں اپنے بیٹے کو ذبح نہیں کروں گا۔ نہیں !نہیں ایسا ہرگز نہیں۔ بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رائے اس لیے پوچھی تھی کہ میری نبوت کا وارث اس آزمائش میں پورا اترتا ہے یا نہیں اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ اللہ کے حکم کے بارے میں بیٹے کا تصور کیا ہے؟
جب حضرت ابراہیمؑ اس عظیم قربانی کے لیے تیار ہو گئے اور آپ نے اسماعیلؑ کو پیشانی کے بل لیٹا دیا کہ چہرا دیکھ کر پدرانہ محبت ہاتھوں میں لرزش نہ پیدا کر دے اور یہ صرف بات چیت کا قصہ نہیں، باپ نے بیٹے کو زمین پر لٹا دیا ہے، آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے، ہاتھ میں چھری ہے اور اکلوتے بیٹے کا بوڑھا باپ بیٹے کی گردن پر چھری رکھ کر اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ذبح کر رہا ہے۔ مگر چھری بھی تو اسی ذات کے اختیار میں ہے جس کے اختیار میں آگ تھی۔ چھری سے ذبح کرنے کی صلاحیت سلب ہو جاتی ہے اور آسمان سے آواز آتی ہے:
اور قریب تھا کہ چھری اپنا کام کر جاتی کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ابراہیم تم اس آزمائش میں بھی سرخرو ہو نکلے اور ایک مینڈھا آپ کی جگہ بطور فدیہ قربانی کے لیے جنت سے بھیج دیا۔ قرآن نے اس کو اپنے مخصوص انداز میں بیان کیا ہے:
فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَ تَلَّهٗ لِلْجَبِیْنِۚ وَ نَادَیْنٰهُ اَنْ یّٰۤاِبْرٰهِیْمُۙ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْیَا ۚ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ وَ فَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ
(الصافات، 37: 103 تا 107)
’’پھر جب دونوں (رضائے الٰہی کے سامنے) جھک گئے (یعنی دونوں نے مولا کے حکم کو تسلیم کرلیا) اور ابراہیم ( علیہ السلام) نے اسے پیشانی کے بل لِٹا دیا (اگلا منظر بیان نہیں فرمایا)۔ اور ہم نے اسے ندا دی کہ اے ابراہیم!۔ واقعی تم نے اپنا خواب (کیاخوب) سچّا کردکھایا۔ بے شک ہم محسنوں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں (سو تمہیں مقامِ خلّت سے نواز دیا گیا ہے)۔ بے شک یہ بہت بڑی کھلی آزمائش تھی۔ اور ہم نے ایک بہت بڑی قربانی کے ساتھ اِس کا فدیہ کردیا۔ ‘‘
غرض جب دونوں مطیع ہو گئے اور اس نے (باپ نے)اس کو(بیٹے کو) پیشانی کے بل گرا دیا۔ تو ہم نے آواز دی اے ابراہیم! یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا، بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں ۔ در حقیقت یہ کھلا امتحان تھا اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا
ابراہیم! بس اب امتحان پورا ہو چکا ہے۔ آپ کی قربانی کی یاد قیامت تک ہر سال زندہ کی جاتی رہے گی۔ آپ کے حقیقی پیروکار ہر سال آپ کی یاد کو تازہ کرنے کے لیے موٹے تازے جانوروں کا خون اللہ کی رضا کے لیے بہاتے رہیں گے۔
یہ ہے ایک ہلکا سا منظر اس عظیم و جلیل پیغمبر کی عزیمت و استقامت کا جسے اللہ تعالیٰ نے اولوالعزم رسولوں میں شمار کیا ہے اور خلیل اللہ جیسا پیارا خطاب دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی تو نہیں فرمایا کہ
اور جب ابراہیمؑ کو اس نے بہت سی باتوں میں آزمایا تو وہ بھی پورا اترا۔ پھر رب نے کہا میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔
یہ انسانی قربانی اپنی نوعیت اور تاریخ کے لحاظ سے پہلی قربانی تھی کیونکہ یہ صرف اللہ تعالی کے لیے تھی ۔ کسی دیوی یا دیوتا کے نام پر نہ تھی ۔ باپ اپنے بیٹے کو خود اپنے ہاتھوں ذبح کر نے کو تیار تھا ورنہ عموماً ا س کام کو دوسرے لوگ انجام دیتے ہیں اور یہ کہ قربان ہونے والا بذاتِ خود تیار تھا ، ورنہ اس سے پہلے قربانی کے لیے زبردستی پکڑ کر لایا جاتا تھا۔ یہی وہ سنتِ ابراہیمی ہے جس کی یاد میں ہر سال مسلمان عید الاضحی کے موقع پرقربانی کرتے ہیں۔ سنتِ ابراہیمی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالی کی راہ میں اپنی محبوب ترین چیز پیش کی جائے جس کا مقصد صرف اور صرف اس کی خوشنودی و رضا کا حصول ہو اوراہم بات یہ کہ اس میں ریا کاری نہ ہو کوئی اگر اس وجہ سے عمدہ مہنگے جانور خریدتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں اور اسے سراہا جائے تو اللہ تعالی کے پاس اس کا کوئی اجر نہ ہوگا ۔ بڑے سے بڑے عدد کو اگر صفر سے تقسیم کر دیا جائے تو حاصلِ ضرب صفر ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں جان ومال، اولاد، وقت اور صلاحیتیں وغیرہ کی بھی قربانی شامل ہیں۔ جبکہ قربانی کی اصل روح تقویٰ اور اخلاص ہے۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں:
رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کے بعد ہرسال قربانی فرمائی، کسی سال ترک نہیں فرمائی۔ جس عمل کو حضور ﷺ نے لگاتار کیا اور کسی سال بھی نہ چھوڑا ہو تو یہ اُس عمل کے واجب ہونے کی دلیل ہے۔ علاوہ ازیں آپ نے قربانی نہ کرنے والوں پر وعید ارشاد فرمائی۔ حدیث پاک میں بہت سی وعیدیں ملتی ہیں، مثلاً: آپ ﷺ کا یہ ارشاد کہ جو قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔ علاوہ ازیں خود قرآن میں بعض آیات سے بھی قربانی کا وجوب ثابت ہے۔ جو لوگ حدیث پاک کے مخالف ہیں اور اس کو حجت نہیں مانتے، وہ قربانی کا انکار کرتے ہیں، ان سے جو لوگ متاثر ہوتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ پیسے دے دیئے جائیں یا یتیم خانہ میں رقم دے دی جائے، یہ بالکل غلط ہے، کیونکہ عمل کی ایک تو صورت ہوتی ہے، دوسری حقیقت ہے، قربانی کی صورت یہی ضروری ہے، اس کی بڑی مصلحتیں ہیں، اس کی حقیقت اخلاص ہے۔ آیت قرآنی سے بھی یہی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ قربانی کی بڑی فضیلتیں ہیں مسند احمد کی روایت میں ایک حدیث پاک ہے، حضرت زید بن ارقمؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: قربانی تمہارے باپ ابراہیم ؑکی سنت ہے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: ہمارے لیے اس میں کیا ثواب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کے ایک ایک بال کے عوض ایک نیکی ہے۔ جانور کی اون کے متعلق فرمایا: اس کے ایک ایک بال کے عوض بھی ایک نیکی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قربانی کے دن اس سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں، قیامت کے دن قربانی کا جانور سینگوں، بالوںاور کھروں کے ساتھ لایا جائے گا اور خون کے زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے یہاں قبولیت کی سند لے لیتا ہے، اس لیے تم قربانی خوش دلی سے کرو۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ سے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی قربانی ذبح ہوتے وقت موجود رہو، کیونکہ پہلا قطرہ خون گرنے سے پہلے انسان کی مغفرت ہوجاتی ہے۔
قربانی کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث ہیں، اس لیے اہل اسلام سے درخواست ہے کہ اس عبادت کو ہرگز ترک نہ کریں جو اسلام کے شعائر میں سے ہے۔ اور اس سلسلہ میں جن شرائط وآداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے، اُنہیں اپنے سامنے رکھیں اور قربانی کا جانور خوب دیکھ بھال کر خریدیں۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جولائی 2021ء
تبصرہ