مرتبہ: اقراء مبین
دور جدید میں اہداف دعوت:
دور جدید کے تقاضوں اور امت مسلمہ کے موجودہ احوال و ظروف کو پیش نظر رکھتے ہوئے احیائے دین کا کام کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ درج ذیل پانچ اہداف کے حصول کے لیے کوشاں رہیں۔
1۔ تعلق باللہ کی بحالی:
تعلق باللہ سے مراد ایسی وابستگی ہے جو محبت اور دیوانگی پر مبنی ہو۔ معبود حقیقی اور اپنے خالق و مالک کے لیے انتہا درجے کے جذبات اطاعت و محبت کا نام ہی تعلق باللہ ہے۔ یہ تعلق جتنا اہم ہے اتنا ہی کمزور پڑچکا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں جہاں دڑاریں پڑچکی ہیں ان کی نشاندہی کرکے اصلاح احوال کے بارے میں سوچا جائے اس امر کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے۔
i۔ تعلق کی اہمیت:
اللہ تعالیٰ نے کائنات کو بامقصد پیدا فرمایا اس کائنات میں انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور بغیر کسی استحقاق کے ہزارہا نعمتیں فراہم کردیں۔ پیدا کرنے والا چاہتا ہے کہ انسان سراپا بندگی اور عجز و نیاز کا پیکر بن جائے۔ ساری ستائشیں اور چاہتیں، عشق جنون کی بے قراریاں اس کے لیے مختص کردے تاکہ جاذبِ نظر مناظر اور دنیا کی آب و تاب اور چکا چوند اسے اپنی جانب متوجہ نہ کرسکیں۔ اگر مال و دولت، بیوی بچوں اور جاہ و منصب سے محبت تعلق بندگی پر غالب آجائے تو سمجھ لیں کہ ہم اللہ کے نہیں اپنی خواہش کے بندے ہیں۔ زن، زر، زمین اور ٹھاٹھ باٹھ کی محبت میں انسان بعض اوقات حدود انسانیت کو پھلانگ جاتا ہے۔ مال کی محبت کے بارے میں فرمایا۔
وَّ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا.
(الفجر، 89: 20)
’’اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہو۔‘‘
بیویوں اور اولاد کے بارے میں فرمایا یہ تمہارے دشمن ہیں۔
اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوْهُمْ.
(التغابن، 64: 14)
’’بے شک تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں پس اُن سے ہوشیار رہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے مال اور اولاد کو آزمائش قرار دیا۔
اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَةٌ.
(التغابن، 64: 15)
’’تمہارے مال اور تمہاری اولاد محض آزمائش ہی ہیں۔‘‘
گویا سارے کا سارا سامان زیست فتنہ اور آزمائش ہے اس کی محبت انسان کے لیے مہلک اور زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے یہ محبتیں اور آسائشیں پیدا ہی کیوں کی گئیں۔ جواب صاف ظاہر ہے ان کی عدم موجودگی میں آزمائش کیسے ہوتی ہے؟ پتہ چلتا ہے کہ اپنے دعوی محبت اور تعلق بندگی میں سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے۔ تقاضائے محبت یہ ہے کہ
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰهِ.
(البقرة، 2: 165)
’’اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘
کے جواب میں ہر کوئی دعویدار بن سکتا ہے۔ سچی محبت کے مقابلے میں جھوٹی محبتیں پیدا کیں اس طرح جو شخص ریاضت و مجاہدہ کرکے جھوٹی محبتوں کو مغلوب کرکے اللہ کی سچی محبت کو ان سب پر غالب کردے وہی مخلص اور سچا ہوگا۔
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ.
(آل عمران، 3: 92)
’’تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو‘‘۔
اس آیت کریمہ میں ماسوا اللہ ہر چیز کی قربانی کا مطالبہ ہے۔ اللہ کی اطاعت اور محبت کے راستے میں جو بھی آئے اس سے منہ موڑ لیا جائے۔
ii۔ کمزوری کے اسباب:
دور حاضر میں بندے کا اللہ سے تعلق رسمی اور واجبی سا رہ گیا ہے اس کمزوری اور دوری کے بہت سے اسباب ہیں جن میں تقویٰ کا فقدان سرفہرست ہے۔ دلوں سے اللہ کا ڈر اور خوف نکل گیا۔ نور تقویٰ کی اس محرومی سے اخلاقی بندھن کمزور ہوئے، انسان بے خوف ہوکر وحشی درندہ بن گیا ہے۔ ادب و ثقافت اور آرٹ کے نام پر فحاشی کا سیلاب برپا کردیا اس کی بے قید آزادی ہی اس کی بربادی کا سبب بن گئی۔ خود غرضی اور مطلب پرستی عام روش بن چکی ہے۔ ہوائے نفس کے باعث نفسا نفسی کا عالم ہے۔ ہر کوئی دوسرے کو گرا کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ جائزہ و ناجائز کی تمیز مٹ گئی۔
iii۔ علاج:
من کی اصلاح کے لیے دروس قرآن و حدیث، دروس تصوف و اخلاق، مجالس ذکرو فکر کا انعقاد ضروری ہے تاکہ صحبت صلحاء کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آئیں اور نفس کی گرفت ڈھیلی ہوکر اللہ سے تعلق اور وابستگی کا باعث بنے۔ اللہ کے ساتھ ٹوٹے ہوئے تعلق کو بحال کیا جائے۔
2۔ ربط رسالت:
اسلام کے ارفع و اعلیٰ مقاصد کے حصول کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک کہ امت تاجدار کائنات سے غلامی کے ٹوٹے ہوئے رشتے کو پھر سے بحال نہیں کرلیتی۔ یہی تو وہ تعلق ہے جس سے ایمان کے سوتے پھوٹتے ہیں اور ادنیٰ سی بے ادبی سارے اعمال کو ضائع کردیتی ہے۔ ایمان و عرفان کا شعور بلندی درجات عشق و اطاعت رسول ﷺ میں گم ہوجانے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس بارگاہ میں آواز کا اونچا ہوجانا بھی اتنی بڑی گستاخی ہے جو کہ بربادی کا باعث بن جاتی ہے۔
لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ کَجَهْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ.
(الحجرات، 49: 2)
’’تم اپنی آوازوں کو نبئ مکرّم (ﷺ) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہوجائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو۔‘‘
اس بارگاہ کے آداب قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے خود سکھائے ہیں اور گناہگاروں کو ان کے در اقدس پر حاضر ہوکر اللہ سے معافی مانگنے کی ترغیب دلائی ہے۔
وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآئُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا.
(النساء، 4: 64)
’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (ﷺ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘
انسان کا مقصود زندگی رضائے الہٰی کا حصول ہے لیکن اس کا طریق کار بواسطہ رسول ﷺ سے ہی ملتا ہے بلکہ عرفان ذات باری تعالیٰ بھی واسطہ رسالت کے بغیر ممکن نہیں اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت عقیدہ توحید کو بیان کرتے وقت بھی واسطہ رسالت کو اختیار کیا گیا۔
قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ.
(الاخلاص، 112: 1)
’’(اے نبی مکرّم!) آپ فرما دیجیے: وہ اللہ ہے جو یکتا ہے۔‘‘
فرمایا اے نبی ﷺ آپ ﷺ کہیں کہ اللہ ایک ہے براہ راست توحید کا اعلان نہیں کیا گیا لہذا دامن رسول ﷺ تھام کر ہی کشتی کو سلامتی کے ساتھ کنارے پر اتارا جاسکتا ہے۔
رابطہ کی بحالی کا طریق کار:
عصر حاضر کے تقاضوں کے تناظر میں اس وقت ربط رسالت کی بحالی کے پانچ ذرائع ہیں جنہیں نظر انداز کرکے کوئی مسلمان بھی غلامی رسول ﷺ کا حق ادا نہیں کرسکتا۔
1۔ معرفت مقام رسول ﷺ
2۔ ادب و تعظیم رسول ﷺ
3۔ محبت رسول ﷺ
4۔ اتباع رسول ﷺ
5۔ نصرت رسول ﷺ
جیسا کہ قرآن مجید میں بیان کیا گیا۔
فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَهٓٗ لا اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.
(الاعراف، 7: 157)
’’پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول ﷺ ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
3۔ رجوع الی القرآن:
قرآن اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے جو اس نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے نازل کی اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود لے لیا اس لیے قیامت تک اس میں تحریف اور کمی بیشی ممکن نہیں۔ نبی آخرالزمان ﷺ کی بعثت پر دین کو مکمل کردیا۔ اب رہتی دنیا تک کسی نئے دین کی ضرورت باقی نہ رہی اس کی تعلیمات ہر دور کے لیے کفایت کریں گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَ رَیْبَ.
(البقرة، 2: 2)
’’(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔‘‘
اس کی تعلیمات ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہیں اب انسانیت کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ اپنی فلاح کے لیے قرآن کی طرف رجوع کرے کیونکہ یہ
تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ.
(النحل، 16: 89)
’’اس میں ہر چیز کا بیان موجود ہے۔‘‘
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بهما کتاب الله و سنة رسوله. (مشکوٰۃ)
’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں تم ہرگز گمراہ نہیں ہوگے اگر ان کو تھامے رکھو گے اور وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت ہے۔‘‘
گویا گمراہی سے بچنے کے لیے تمسک بالقرآن کے بغیر چارہ نہیں ورنہ انسانیت یونہی اندھیروں میں بھٹکتی رہے گی۔ مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ کتاب زندہ پاس ہونے کے باوجود اسے پڑھنا اور اس پر عمل کرنا چھوڑ بیٹھے اور اب قلوب بے سرور اور نگاہیں بے نور ہیں۔ عیش پرستی اور نفس پرستی غالب آگئی تو ذلت و مسکنت مقدر بن گئی۔
امت کی بدقسمتی کہ نہ اس کی تلاوت کرتے ہیں کہ انہیں روحانی ترقی ملے نہ تفکرو تدبر کا رجحان رہا کہ زندگی میں پیش آمدہ مسائل کو حل کرکے دنیا کی سیادت اور راہنمائی کرسکیں حالانکہ ہر سوال کا جواب قرآن سے مل سکتا ہے۔
افَـلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ.
(النساء، 4: 82)
’’تو کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے ۔‘‘
احکام قرآنی کی تعمیل میں سرے سے دلچسپی نہیں ساری توانائیاں مادی ضروریات کی تکمیل میں صرف ہورہی ہیں اور حلال و حرام کے پیمانے مٹ چکے ہیں۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کے احکامات کے مطابق نظام زندگی نہ چلانے والے ظالم اور کافر ہیں۔
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللهُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ.
(المائدة، 5: 45)
’’اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
4۔ اتحاد امت:
امت کے موجودہ احوال و ظروف کے تناظر میں دعوت کا ایک اہم ہدف اتحاد امت بھی ہونا چاہیے کیونکہ مسلمان فرقوں اور گروہوں میں بٹ چکے ہیں۔ حالانکہ فرمان خدا ہے۔
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا.
(آل عمران، 3: 103)
’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو‘‘۔
یہ راز کسی سے پوشیدہ نہیں کہ قوت کا راز اتحاد میں مضمر ہے لیکن سب کچھ جانتے بوجھتے تفرقہ اس لیے ہوتا ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق زیادتی کرنے سے باز نہیں آتا انانیت کا بت آڑے آجاتا ہے اور اتحاد کی کاوش رائیگاں چلی جاتی ہے۔
اگرچہ انسانی اختلافات کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن ایک مذہب کے پیروکاروں میں اختلاف رائے تک بات محدود رہے تو کوئی حرج نہیں البتہ نوبت مخالفت تک پہنچ جائے تو خطرے کی گھنٹی ہے بعض درد مند عناصر امت کی اس زبوں حالی کا رونا روتے ہیں اور حسب استطاعت اصلاح احوال کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
حصول اتحاد کا طریق:
اتحاد امت کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے صدق نیت، منصوبہ بندی، تنظیم، صبرو تحمل اور مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے نصب العین سے وابستگی اور ذہنی ہم آہنگی کے بغیر پائیدار اتحاد کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔ قومی سطح پر ذرائع ابلاغ اور جلسے جلوسوں کے ذریعے وحدت فکر اور ہم آہنگی کے فروغ کی تشہیر کرنی چاہیے۔ ہر ایسی تحریر اور تقریری پر پابندی لگادینی چاہیے۔ جس سے دوسروں کے جذبات مجروح ہوتے ہوں۔
5۔ غلبہ اسلام کی بحالی:
کوئی دعوت اس وقت تک دعوت اسلام کہلانے کی مستحق نہیں ہوسکتی جب تک غلبہ دین اسلام کی بحالی اس کے اہداف اور پروگرام میں شامل نہ ہو کیونکہ دینی تعلیمات کے بیشتر حصے کے عملی نفاذ کا تعلق اسلام کے سیاسی غلبہ کے ساتھ ہے۔ نہی عن المنکر کے فرمان خداوندی پر عملدرآمد قوت اور اقتدار کے بغیر مشکل ہے۔ برائی کا قلع قمع کرنے اور باطل اور طاغوتی طاقتوں کے اثرو نفوذ اور مزاحمتوں کی روک تھام کے لیے سیاسی انقلاب ناگزیر ہے جس کا آغاز تو قومی سطح سے ہوگا لیکن منتج بین الاقوامی سطح پر جاکر ہوگا لیکن اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ نہ تو انقلاب فرانس کی طرح محض میں ایک ہمہ جہت تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے جس کا مقصد حق کی مٹی ہوئی معاشرتی، معاشی، سیاسی، مذہبی، اخلاقی، روحانی اور علمی قدروں کو پھر سے زندہ کرنا ہے گویا موجودہ حالات میں دعوت کا ہدف مکمل احیائے دین اور غلبہ اسلام ہونا چاہیے۔ مقصود بعثت کے حوالے سے جس کا ذکر اس آیت میں ہے:
هُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّهٖ وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُوْنَ.
(الصف، 61: 9)
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول (ﷺ) کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ اسے سب ادیان پر غالب و سربلند کردے خواہ مشرک کتنا ہی ناپسند کریں۔‘‘
اظہار دین سے مراد علمی و فکری غلبہ بھی ہے اور عسکری و سیاسی غلبہ بھی۔ اس غلبہ کو قائم رکھنا امت کی ذمہ داری ہے اور کسی دور میں کہیں غلبہ برقرار نہ رہے تو اس کی بحالی کی جدوجہد فرض عین بن جاتی ہے کیونکہ اسی میں امت مسلمہ کی بقا کی ضمانت ہے۔
(ماخوذ: ’’دعوت کا انقلابی طریق کار‘‘ از پروفیسر محمد رفیق)
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جولائی 2021ء
تبصرہ