ڈاکٹر شفاقت علی البغدادی الازہری
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلمان میں اسی لیے نمازی
اللہ رب العزت نے حضرت انسان کو عناصر اربعہ (مٹی، پانی، ہوا، آگ) سے تخلیق فرمایا۔ اور اسے اپنی نیابت و خلافت سے سرفراز فرمایا اور اسے مقصدِحیات و تخلیق کا شعورِ لازوال عطا فرمایا۔ بعد ازاں فرشتوں کو حکم دیا کہ اس باشعور اور بامقصد پیکرِ انسان کو تعظیماً سجدا کرو۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اس واقعہ کا تذکرہ مختلف مقامات پر ملتا ہے۔
سورہ بقرہ میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا۔
وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَةً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِیهَا مَن یُّفْسِدُ فِیهَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّی أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ.
(البقرة: 30)
اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے عرض کیا: کیا تُو زمین میں کسی ایسے شخص کو (نائب) بنائے گا جو اس میں فساد انگیزی کرے گا اور خونریزی کرے گا؟ حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور (ہمہ وقت) پاکیزگی بیان کرتے ہیں، (اللہ نے) فرمایا: میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
اللہ رب العزت علیم و بصیر ہے قادر مطلق ہے اس نے حضرتِ انسان کو پیدا کیا۔ اس کی تخلیق کے مقاصد کو وہ خود بھی جانتا تھا اور آدم علیہ السلام کو بھی اس کی معرفت و آگاہی عطا فرمائی۔ مگر دوسری طرف فرشتے تھے جو ابھی تک تخلیق انسان کے مقصد سے لاعلم تھے اسی لیے انہوں نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سوال پیش کیا اور عرض کی کہ اے ربِ قادر تو ایسے پیکرِ انسانی کی تخلیق کیوں فرما رہا ہے جو زمین پر فتنہ و فساد اور شر انگیزی کرے گا۔
جب اللہ رب العزت نے آدم علیہ السلام اور فرشتوں کے مابین علمی مکالمہ کروایا تو فرشتوں نے اپنے علم کی کمی کو قبول فرمایا اور بارگاهِ ایزدی میں یوں گویا ہوئے :
قَالُواْ سُبْحَانَکَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنتَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ.
(البقرة، 2: 32)
فرشتوں نے عرض کیا: تیری ذات (ہر نقص سے) پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے، بیشک تو ہی (سب کچھ) جاننے والا حکمت والا ہے۔
اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کو اس کی تخلیق کا مقصد سکھایا فرمایا:
وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ کُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِی بِأَسْمَاءِ هَـؤُلَاءِ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ.
(البقرة، 2: 31)
اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے عرض کیا: کیا تُو زمین میں کسی ایسے شخص کو (نائب) بنائے گا جو اس میں فساد انگیزی کرے گا اور خونریزی کرے گا؟ حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور (ہمہ وقت) پاکیزگی بیان کرتے ہیں، (اللہ نے) فرمایا: میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
یعنی آدم علیہ السلام کو اپنی معرفت و عبادت اور قرب کے تما م راستے اور طرق سکھائے۔ پھر اللہ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا کہ ان کو بتاؤ کہ حضرت انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے۔
قَالَ یَا آدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَآئِهِمْ فَلَمَّا أَنبَأَهُمْ بِأَسْمَآئِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّکُمْ إِنِّی أَعْلَمُ غَیْبَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ.
(البقرة، 2: 33)
اللہ نے فرمایا: اے آدم! (اب تم) انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کرو، پس جب آدم (علیہ السلام) نے انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کیا تو (اللہ نے) فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) مخفی حقیقتوں کو جانتا ہوں، اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔
اگر اس وسیع و عریض کائنات کا بنظر عمیق جائزہ لیا جائے تو اس میں اللہ رب العزت نے کوئی بھی چیز ایسی تخلیق نہیں فرمائی جو بے مقصد ہو یا جس کو کوئی غرض و غایت نہ ہو اس بات کو قرآن کریم میں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
الَّذِینَ یَذْکُرُونَ اللّهَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَی جُنُوبِهِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.
(آل عمران، 3: 191)
وہ جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں (وہ بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے رب ! تو نے یہ (سب کچھ) بے کار اور (بے مقصد) پیدا نہیں کیا۔
اللہ رب العزت نے تمام کائنات کی موجودات میں سے افضل و اشرف حضرتِ انسان کو بنایا ہے۔ جب تمام کائنات کی ہر چیز کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے تو پھر انسان کی حیات کا بھی کوئی مقصد ہونا چاہیے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَأَنَّکُمْ إِلَیْنَا لَا تُرْجَعُونَ.
(المومنون: 115)
سو کیا تم نے یہ خیال کر لیا تھا کہ ہم نے تمہیں بے کار (و بے مقصد) پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟
بامقصد زندگی گزارنے والا انسان ایک ایسے مسافر کی طرح ہوتا ہے جس کو اپنی منزل کا مکمل ادراک و شعور ہوتا ہے۔ اگرچہ راستے میں اس مسافر کو کئی دلفریب مناظر، خوشنما اقامت گاہیں اورٹھنڈے سائے اپنی طرف کھینچتے ہیں مگر وہ ان کو نظر انداز کرتا ہوا منزل کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یعنی دنیا کی رنگینیاں و رعنائیاں انسان کو اپنی طرف نہیں کھینچ سکتیں اگر انسان کے سامنے اس کے مقاصد حیات واضح و روشن ہوں۔
اب سوال یہ ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے ؟۔ اگر ہم اس پر غور کریں تو ہمیں اس فانی دنیا میں لوگوں کے بے شمار مقاصد زندگی دیکھنے کو ملیں گے۔ ان میں سے بعض مقاصد ِحیات شریعت کے مطابق ہونے کی بنا پر انسان کے لیے مفید ہوتے ہیں اور بعض ایسے مقاصد ہیں جن کا انتخاب انسان کیلیے نقصان و ایذا کا باعث بنتا ہے۔ کیونکہ وہ شریعت اسلامیہ کے مطابق نہیں ہوتے جس طرح اللہ رب العزت نے انسان کو پیدا کیا اور ہر معاملے میں اس کی راہنمائی فرمائی ہے اسی طرح مقصد حیات کے چناؤ میں بھی اللہ رب العزت نے انسان کو ایک سمت فراہم کی ہے اور ان تمام مقاصد حسنہ کو ایک ایسے جامع لفظ میں سمو دیا ہے کہ انسان کے تمام اشکالات و خدشات دور ہو گئے ہیں۔ چنانچہ سورۃ ذاریات میں اس مضمون کو یوں فرمایا ہے :
وَذَکِّرْ فَإِنَّ الذِّکْرَی تَنفَعُ الْمُؤْمِنِین. وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ.
(الذاریات: 54-55)
اور آپ نصیحت کرتے رہیں کہ بیشک نصیحت مومنوں کو فائدہ دیتی ہے۔ اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لئے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔
ایک اور مقام پر اللہ رب العزت فرماتا ہے:
یَا أَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُواْ رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ.
(البقرة، 2: 21)
اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان لوگوں کو (بھی) جو تم سے پیشتر تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔
مذکورہ بالا بحث سے ثابت ہوا کہ انسان کی زندگی کا بنیادی مقصد عبادت الٰہی ہے اور عبادت کا لفظ جامع ہے جس میں انسان کے تمام ظاہری و باطنی امور داخل ہیں جیساکہ علامہ ابن تیمیہ سے ایک فعہ کسی شخص نے پوچھا کہ یاایہا الناس اعبدوا ربکم میں کس عبادت کا حکم دیاگیا ہے؟ اس کا کیا مفہوم ہے؟ آپ نے اس مسئلہ پر مفصل تقریر فرمائی جو رسالہ العبودیہ کی شکل میں موجود ہے، اس کی ابتدا میں علامہ ابن تیمیہ نے لکھا ہے:
عبادت ایک ایسا جامع لفظ ہے اس کے اندر وہ تمام ظاہری و باطنی اقوال و افعال داخل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور اس کی خوشنودی کا باعث ہیں مثلاً: نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، راست گوئی، امانت داری، اطاعت والدین، ایفائے عہد، امربالمعروف، نہی عن المنکر، جہاد فی سبیل اللہ، پڑوسیوں، مسکینوں اور ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک، جانوروں کے ساتھ اچھا برتاؤ، دعاء، ذکر الٰہی، تلاوت قرآن اوراس قسم کے تمام اعمال صالحہ عبادات کے اجزاء ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی محبت، رحمت خداوندی کی امیدوار اور عذاب الٰہی کا خوف، خشیت، انابت، اخلاص، صبر و شکر، توکل اور تسلیم و رضا وغیرہ ساری اچھی صفات عبادات میں شامل ہیں۔
اس آیت میں انسان کے اس دنیا میں آنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان کو اپنی عبادت و بندگی کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ لیکن اگر ہم روز مرہ کے امور پر نظر دوڑائیں تو عبادت کے معاملہ میں ہمارا دینی تصور اس قدر محدود ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ عبادت کا مطلب صرف نماز، روزہ، حج اور زکٰوۃ سمجھتے ہیں۔ عبادت ایک ایسا جامع لفظ ہے اس کے اندر وہ تمام ظاہری و باطنی اقوال و افعال داخل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور اس کی خوشنودی کا باعث ہیں اور چنانچہ اس کو اللہ رب العزت نے انسان کی زندگی کا مقصد قرار دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
لَّیْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِکَةِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّینَ وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّهِ ذَوِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ وَالسَّآئِلِینَ وَفِی الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواْ وَالصَّابِرِینَ فِی الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِینَ الْبَأْسِ أُولَئِکَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَأُولَئِکَ هُمُ الْمُتَّقُونَ.
(البقرة، 2: 117)
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیں۔
مذکورہ آیت سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ انسان کا مقصد ِحیات اللہ کی عبادت کرنا ہے اور عبادت سے مراد نماز روزہ سے لے کر انسانیت کے ساتھ بھلائی کرنے تک کے جملہ امور ہیں جو رضائے الٰہی کے حصول کا سبب بنتے ہیں۔ قرآن کریم میں رضائے الہی کو سب سے بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے فرمایاہے :
رَّضِیَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ.
(المائدة: 119)
اﷲ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے، یہی (رضائے الٰہی) سب سے بڑی کامیابی ہے۔
جب رضائے الہی مقصد حیات بن کر انسان کی پوری زندگی پر محیط ہوجائے تو انسان اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، سونا جاگنا، چلنا پھرنا، الغرض سارا کاروبار حیات ہی عبادت اور بندگی قرار پاتا ہے۔ اس کا ایک ایک سانس اور ایک ایک لمحہ عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ حیات انسانی کی ہر حرکت و سکون سراسر عبادت و بندگی میں بدل جاتی ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا
إن الله تعالی یقول یا ابن آدم تفرغ لعبادتی أملأ صدرک غنی وأسد فقرک وإلا تفعل ملأت یدیک شغلا ولم أسد فقرک.
(مسند أحمد: ج 2، ص358)
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:اے انسان!تو میری عبادت کے لئے فارغ ہو جا میں تیرا سینہ غنا سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند کر دوں گا اور اگر تو ایسانہیں کرے گا تو میں تیرے دونوں ہاتھ مصروفیات سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند نہیں کروں گا۔
یعنی اگر بندہ مومن اللہ رب العزت کی عبادت اور اس کی مخلوق کی خدمت میں خود کو مصروف کر لے تو اس کی ضروریات زندگی میں کو پورا کرنا اللہ اس کے لیے آسان فرما دیتا ہے اور انسان کو تنگی و محتاجی سے نجات مل جاتی ہے۔
احادیث کریمہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی ساری زندگی اللہ رب العزت کے احکام کی بجا آوری میں صرف فرمائی اور ہمیں بھی سی طرز حیات کی تعلیم عطا فرمائی۔ آپ نے صحابہ کرام ؓ کو حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کا شعور عطا فرمایا۔ اللہ کے احکام و عبادات میں حقوق اللہ سب شامل ہیں اور دوسرے انسانوں کے ساتھ شریعت کی تعلیمات کے مطابق معاملہ و برتاؤ کرنا حقوق العباد کے ضمن میں ہے۔ لہذا خدمت خلق اور دوسرے کے ساتھ ہمدردی، تعاون، بھلائی اور خیر کے کام کرنا بھی تصور عبادت میں شامل ہے۔ جب بندہ دوسروں پر رحم کرتا ہے تو اللہ کی رحمت جوش میں آجاتی ہے جیساکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :
"الرَّاحِمُونَ یَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ، ارْحَمُوا مَنْ فِی الْأَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِی السَّمَاءِ. (سنن ترمذی)
رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے، تم لوگ زمین والوں پر رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا۔
سیدنا جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من لا یرحم لا یرحم، ومن لایغفر لایغفر له، ومن لایتب لایتب علیه. (مسلم)
جو ( مخلوق پر) رحم نہیں کرتا، ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے) اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ جو ( مخلوق کو) معاف نہیں کرتا، ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے) اس کی بخشش نہیں ہوتی اور جو (اللہ کی طرف) توبہ نہیں کرتا، اسے (اس کی طرف سے) معاف نہیں کیا جاتا۔ بقول خواجہ میر درد
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں
اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی زندگی اللہ کے بتائے ہوئے مقصد کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جولائی 2021ء
تبصرہ