خصوصی خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
مرتبہ: نازیہ عبدالستار
وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ ط رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا.
(البقرة، 2: 127)
’’اور (یاد کرو) جب ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے (تو دونوں دعا کر رہے تھے) کہ اے ہمارے رب! تو ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بہت سی باتوں میں آزمائش کی جتنی باتوں میں آزمایا گیا انہوں نے وہ ساری باتیں پوری کردی۔ ان میں سے ایک آزمائش یہ بھی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے وطن سے نکلے جبکہ ان کا اصل وطن عراق تھا۔ عراق میں ایک جگہ بابل ہے جو نمرودوں کا پایہ تخت تھا۔ نمرود ان کے بادشاہوں کا ٹائیٹل تھا جیسے مصر کے بادشاہوں کا ٹائیٹل پرانے وقتوں میں فرعون تھا۔ کئی فرعون ہوگزرے انہیں فراعین مصر کہتے ہیں اس طرح نمرود تھا اس کے پاس بابل کی بادشاہت تھی۔ انسان کی معلوم تاریخ بابل سے شروع ہوتی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام بابل سے نکلنے سے قبل نمرود کے پاس تھے۔ نمرود نے آگ جلوائی اور آپ کو اس میں ڈال دیا تو شعلے اس قدر بھڑک اٹھے۔
اگر اس آگ کے قریب بھی انسانی جسم آئے تو سلامت نہ بچے حضرت ابراہیمؑ آگ میں کود گئے۔ اللہ کا امر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آگ کو فرمایا:
یٰـنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰـمًا عَلٰٓی اِبْرٰهِیْمَ.
’’اے آگ! تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سراپا سلامتی ہو جا۔‘‘
(الانبیاء، 21: 69)
ہمارے ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈی ہوجا تاکہ تو جلا نہ سکے۔ سلامتی والی ہوجا۔ اتنی ٹھنڈی نہ ہو جا کہ ٹھٹھرنے ہی لگ جائیں۔ ایسی ٹھنڈی ہو کہ انہیں سکون اور حفاظت بھی ہو۔ فرشتے نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ آپ حکم دیں تو میں آگ بجھادوں۔ فرمایا پھر آزمائش کیسی؟ میرے حکم سے تو بجھا ڈالو لیکن اللہ کی جو آزمائش ہے وہ کیسے پوری ہوگی؟ فرمایا جلنے دو پھر اس میں کامیاب ہوگئے۔
اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام بابل سے سیریا میں آئے۔ سیریا میں ایک جگہ حلب ہے اسی سے حلیب ہے اس کا تعلق دردھ سے ہے۔ آپ کے پاس بکریوں کا بہت بڑا ریوڑ تھا۔ آپe بکریوں کا دودھ دوہ کر مہمانوں کو پلاتے تھے۔ اسی کی وجہ سے اس شہر کا نام حلب پڑ گیا۔ دودھ والا شہر۔ اس شہر کے بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے۔ حلب میں ایک پتھر بھی موجود ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدم مبارک کے نشان لگے ہوئے ہیں۔ اس پتھر کے بارے میں تاریخی طور پر تصدیق نہیں کرسکتے مگر جو مصدقہ قرآن کی تصدیق سے ہے وہ مقام ابراہیم ہے جو کعبۃ اللہ میں ہے۔ پھر بیت المقدس چلے گئے وہاں چند میل کے فاصلہ پر ایک جگہ الخلیل ہے وہی پر آپ کی وفات ہوئی۔ آپ کا مزار بھی وہاں پر ہے۔ پس پیدائش بابل کے علاقے عراق میں اور وفات ومزار فلسطین میں ہے اس کا پرانا نام کعنان تھا۔ ہجرت بڑی آزمائش ہوتی جس میں آپ پورا اترے۔ آپ علیہ السلام کی پہلی زوجہ حضرت ہاجرہ سلام اللہ علیہا تھی ان سے حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے اور حضرت سائرہ سلام اللہ علیہا سے اسحاق علیہ السلام تھے۔ اللہ کا امر ہوا کہ اپنی زوجہ اور اپنے بیٹے دونوں کو ہجرت کروادیں یہ آزمائش تھی لیکن آزمائش کے پیچھے ایک راز الہٰی کارفرما تھا۔
آپ علیہ السلام اپنی زوجہ اور بیٹے کو مکہ کی ایک وادی بے آب و گیاہ ریگستان میں چھوڑ آئے جہاں نہ آبادی، نہ پانی نہ مخلوق بلکہ خشک پہاڑ تھے پھر کبھی کبھی ان کے جوان ہونے تک سال میں ایک مرتبہ جاکر مل آتے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام معصوم بچہ تھے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ بھی معلوم تھا کہ پیغمبر بھی بننے والا ہیں اور پیغمبر بھی وہ جس کی نسل سے پیدا محمد مصطفی ﷺ پیدا ہونے والے ہیں۔ جب پیغمبر کو آزمائش کا حکم دیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو یہ بھی ودیعت کردیتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟ اس میں بھی آپؑ پورا اترے۔
پھر بیٹے کی آزمائش آگئی جو بڑی کڑی آزمائش تھی۔ سب آزمائشوں سے انتہا کی آزمائش تھی۔ ذبح کا حکم آگیا پوچھا: اے بیٹے تیرا کیا خیال ہے؟ عرض کیا:
قَالَ یٰٓـاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُز سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَ اللهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ.
(الصافات، 37: 102)
’’(اسما عیل علیہ السلام نے) کہا ابّاجان! وہ کام (فوراً) کرڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے۔ اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘
انہوں نے تو ذبح کر ڈالا پھر اللہ پاک نے بدل کر فدیہ کر دیا۔ پس سنت ابراہیمی کے تحت دنبہ ذبح ہوگیا۔ سنت ابراہیمی کو سنت خلیل بنادیا۔ اللہ کے دوست کی سنت۔ پیغمبر کا خواب وحی ہوتا ہے۔ جبکہ مومنوں کا خواب رہنمائی ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا اللہ کا حکم ہے تیری کیا رائے ہے؟ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا: میں صبر کروں گا۔ نہ صبر کی بات کی اور نہ صبر کی نسبت اپنی طرف کی بلکہ زمرہ صابرین کا ذکر کیا جو صبر کرنے والے لوگ ہیں، صبر کرنے والوں کو یادکیا۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔کتنا عاجزانہ اور مودبانہ جواب دیا اس جواب میں ادب کا کمال ہے۔ ان شاء اللہ کہا کہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔اس کو علامہ اقبال نے کہا کہ
یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آداب فرزندی
اللہ پاک کا ارشاد ہے: اے حبیب ﷺ وہ وقت یاد کریں۔ آپ ﷺ کی وساطت سے آپ کی امت وہ وقت یاد کرے جب اللہ پاک نے حضرت ابراہیمؑ کو بہت سی باتوں میں آزمایا جب وہ کامیاب ہوگئے تو اللہ رب العزت نے فرمایا اے ابراہیم! ہم نے ٹیسٹ کرلیا آپ تمام امتحانوں میں کامیاب ہوگئے۔
اب میں نے آپ کو امامت کے منصب پر فائز کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جب کوئی بڑا منصب عطا کرنا چاہتے ہیں تو آزمائش فرماتے ہیں۔ جب کامیابی ہوتی ہے تب اللہ کی نعمت پیشوائی نصیب ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا مولا! میری اولاد کو بھی امامت عطا کرے گا۔ اس سے پتہ چلا کہ امام و پیشوائی بڑی نعمت ہے اور اولاد کے لیے طلب کرنا سنت ابراہیمیؑ ہے۔ جب اولاد کے لیے امام و پیشوائی مانگی تو صاف ظاہر ہے کہ پھر اہلیت بھی مانگی جارہی ہے پھر انہیں لائق بھی بنا۔ عرض کیا میری اولاد کو بھی امامت دے گا فرمایا: ہاں تیری اولاد کو بھی دوں گا۔ اس لیے کہ سب سے بڑے امام و پیشوا تیری اولاد میں آنے والے ہیں۔ لیکن میرا یہ وعدہ اور نعمت ظالموں کو نصیب نہیں ہوگئی۔
امامت دو طرح کی ہوتی ہے ایک امامت روحانی ہے دوسری امامت سیاسی ہے۔
سیاسی امامت اس کا معنی امام بمعنی حکومت و سلطنت ہے۔ وہ ظالموں کو بھی ملی۔ یزید غاصب حکمران بنا بڑے بڑے فاسق و فاجر حکمران بھی آئے۔ بڑے بڑے خون خوار، ظالم بھی حکمران بنے یہاں جس امامت کا وعدہ ہورہا ہے وہ امامت سلطنت نہیں بلکہ امامت ولایت ہے۔ امامت ولایت کبھی ظالموں کو نہیں جاتی جبکہ امام سلطنت کبھی ظالموں کو جاتی ہے، کبھی نیک لوگوں کو جاتی ہے وہ دونوں لوگوں کو جاتی ہے اس میں عبدالعزیز جیسے بھی آئے ہیں اورنگزیب جیسے بھی آئے ہیں جو امامت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت میں دینے کا وعدہ فرمایا۔ وہ امامت ولایت ہے۔
وہ دن بھی یاد کرو جب ہم نے اس گھر کو رجوع اور اجتماع کا مرکز بنایا تو باپ اور بیٹے نے مل کر کعبۃ اللہ تعمیر کیا۔ جب کعبۃ اللہ تعمیر کیا تھا تو کعبہ زمین پر ظاہراً موجود نہ تھا۔ جب بنیادیں کھودی تو یہ وہ جگہ تھی جہاں حضرت آدم علیہ السلام نے کعبہ تعمیر کیا تھا مگر طوفان نوح علیہ السلام میں سب کچھ مٹ گیا۔ کعبہ دوبارہ تعمیر نہیں ہوا بلکہ انتظار میں رہا پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کردہ کعبہ کی بنیادیں کھودیں اور کعبہ کو لوگوں کے اجتماع کا مرکز بنایا۔ جس پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہوکر کعبۃ اللہ تعمیر کررہے تھے جوں جوں تعمیر اوپر ہوتی تھی۔ پتھر اوپر اٹھتا چلا جاتا تھا۔
باپ اور بیٹے نے کعبۃ اللہ تعمیر کیا۔ جب تعمیر کرچکے تو اسی پتھر پر کھڑے ہوکر ابراہیم السلام نے عرض کیا باری تعالیٰ ہم نے کعبہ تعمیر کردیا ہمیں مزدوری دے دے۔ وہ ایک یہ کہ اس شہر کے پھل کبھی ختم نہ ہوں۔ ہر مومن کو پھل اور رزق ملتا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ابراہیم تیری دعا قبول کی جب میرے اس شہر کا رزق ہے صرف مومن ہی کیوں کھائے غیر مومن آئے گا وہ بھی کھائے گا۔
اشارہ اس امر کی طرف تھا ساری دنیا کھائے گی۔ شرق سے غرب تک پوری دنیا اس سے تھوڑا یا زیادہ کھائے گی۔ دوسری دعا کی مولاً جو تونے امت مسلمہ بنانی ہے۔ میرے اولاد میں بنادے۔ تیسری دعا یہ کہ ہر کوئی حضرت آدم علیہ السلام سے بتاتا چلا آرہا ہے تیرے محبوب نے آنا ہے۔ باری تعالیٰ میری آخری دعا یہ ہے اس محبوب کو بھی میری اولاد میں پیدا فرما۔
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ.
(البقرة، 2: 129)
’’اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (ﷺ) مبعوث فرما ۔‘‘
اپنے محبوب کو بھی میری نسل سے پیدا کر۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضور علیہ السلام کا اپنی نسل سے پیدا ہونا کیوں مانگا؟
وہ اس لیے مانگا کہ میں قیامت کے دن حضور علیہ السلام کا دادا کہلاؤں۔ ہر پیغمبر آرہا ہوگا تو اس کی کوئی خاصیت ہوگی، پہچان ہوگی کہ یہ کون ہیں؟ یہ فلاں نبی کے باپ ہیں۔ ہر کوئی کسی کی نسل سے ہوگا۔ جب حضور علیہ السلام آئیں گے تو کوئی پوچھے گا یہ کون ہیں؟ میں کہوں گا محمد ﷺ کا دادا۔ دنیا جانے گی۔ محمد ﷺ کا دادا ہے۔
اللہ پاک نے فرمایا: براہیم تو نے یہاں کھڑے ہوکر تین چیزیں مانگی میں نے تجھے تینوں عطا کردیں۔ جب پتھر سے اترے تو پتھر پگھل چکا تھا۔ اس پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دونوں قدموں کے نشان ثبت تھے۔ باری تعالیٰ تعالیٰ یہ کیا ہوگیا پتھر پر میرے قدموں کے نشان جم گئے ہیں؟ عرض کیا: مولا! یہ کیوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو نے مجھ سے اس پتھر پر کھڑے ہوکر مجھ سے میرا محبوب مانگا ہے۔ میں نے تیرے قدموں کو ثبت کرکے تیری دعا کا نشان بنادیا ہے تاکہ قیامت تک دنیا کو یاد رہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدم اس پتھر پر لگے ہیں۔ جس پتھر پر کھڑے ہوکر مصطفی ﷺ کو مانگا گیا تھا۔
جب ابراہیم علیہ السلام جانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ابراہیم! ادھر آؤ۔ عرض کیا: باری تعالیٰ کیا بات ہے فرمایا: تو نے میرا گھر تو بنالیا۔ تجھے یہ اندازا نہیں اس پتھر کی اہمیت کیا ہے؟ میرا محبوب تو نے اس پتھر پر کھڑے ہوکر مانگا۔ میں نے تیرے قدم اس پتھر پر ثبت کردیئے۔ عرض کیا باری تعالیٰ کیا کروں؟ فرمایا: لوگ طواف اس کعبہ کا کریں گے۔ اس پتھر کو اس کعبہ کے صحن میں گاڑھ دو۔ عرض کیا: کیوں؟ فرمایا: تاکہ لوگ آکر میرے گھر کا طواف کریں۔ میں طواف اس وقت تک قبول نہیں کروں گا جب تک اس نشان والے پتھر کے سامنے کھڑے ہوکر دو رکعت نماز نہ پڑھ لیں اس پتھر کا نام مقام ابراہیم رکھ دیا فرمایا:
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّی.
’’اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو۔‘‘
(البقرة، 2: 125)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصہ کا عروج یہ ہے جس پتھر پر کھڑے ہوکر ابراہیم علیہ السلام نے دعا مانگی تھی جس پتھر پر ان کے قدموں کے نشان ثبت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس کو تم اپنی جائے نماز بناؤ۔ کسی کا حج اور طواف مکمل نہیں ہوتا جب تک اس پتھر کے سامنے کھڑے ہوکر دو رکعت نفل ادا نہ کرلیں یہ دو رکعت نفل شکرانہ ہے دعائے ولادت مصطفی ﷺ کا۔
جب آقا علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے اور مکہ فتح ہوگیا 360 بت کعبہ کے صحن میں تھے۔ اس میں1 پتھر مقام ابراہیمؑ بھی تھا۔ جس پر حضرت ابراہیمؑ کے قدموں کے نشان تھے۔ کل 361 پتھر تھے۔ فرمایا: اب توحید کا راج ہوگا۔ توحید یہ ہے کہ میرے گھر کو اب سارے پتھروں سے پاک کردو۔ 360 اٹھا کر پھینک دیئے جب اس پتھر کی باری آئی فرمایا: 360 پتھروں کو نکال پھینکنا توحید ہے جبکہ اس پتھر کو برقرار رکھنا توحید ہے۔
کبھی پتھروں سے گھر کو پاک کرنا توحید ہے کبھی ایک پتھر تیرے گھر میں گاڑھ دینا توحید ہے۔ کبھی پتھر نکالنا توحید ہے، کبھی پتھر کے سامنے نفل پڑھنا توحید ہے۔ عرض کیا باری تعالیٰ: تیرا نظام کیا ہے؟ فرمایا: ان پتھروں کی نسبت میرے محبوب سے نہ تھی، بتوں سے تھی وہ شرک ہوگا جبکہ مقام ابراہیم پتھر کی نسبت میرے محبوب سے تھی۔ یہ پتھر ہوکر بھی توحید ہوگیا۔ سارے پتھروں کو لاتعلق کردیا۔ گلیوں میں پھینک دیا فرمایا: دو پتھر ایسے ہیں۔ اک پتھر کو کعبہ کی دیوار میں گاڑھ دو۔ فرمایا: جب طواف کرو چوما کرو۔ ایک پتھر حالت نماز میں سامنے رکھا جارہا ہے کہ اس کے سامنے کھڑے ہوکر نفل ادا کرو۔ کہیں پتھروں کو چومنا توحید ہے، کہیں پتھروں کا احترام کرنا توحید ہے، کہیں پتھروں کو اٹھا کر پھینک دینا توحید ہے۔ پتہ چلا توحید ایک طرح کی نہیں ہوتی جو بغیر نسبت کے ہو ان کو نکال دینا توحید ہوتا ہے۔ نسبت والے ہوں تو سینے سے لگا رکھنا توحید ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جولائی 2021ء
تبصرہ