ڈاکٹر انیلہ مبشر
اللہ رب العزت نے کائناتِ ارضی میں انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔ اُسے شرف بھی عطا فرمایا اور حسن بھی۔ گنبدِ آبگینہ رنگ کو تمام تر نُدرتوں کے ساتھ اسے عنایت کیا اس میں موجود تمام حیوانات، نباتات و جمادات کو اس کے تابع کیا۔ اس کے گردو نواح میں جاری و ساری کار حیات اور اس سے وابستہ خیرو برکات کا نگران بنایا۔ اُس اعلیٰ اور برتر ہستی نے اس نظامِ حیات کو تشکیل دیتے ہوئے نسلِ انسانی سے لے کر تمام حیوانات، نباتات، جاندار و غیر جاندار تمام ہی اجسام کی حفاظت و بقا کے لیے ایک جامع قدرتی ماحول فراہم کیا جو ہر لحاظ سے مفید بھی ہے اور متوازن بھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’(لوگو!) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے تمہارے لیے ان تمام چیزوں کو مسخّر فرما دیا ہے جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، اور اس نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر پوری کر دی ہیں۔ اور لوگوں میں کچھ ایسے (بھی) ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیںبغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب (کی دلیل) کے۔‘‘
(سوره لقمان، 31: 20)
اس نظام ہستی کے رواں دواں رہنے میں ترتیب و توازن اور ربط و ضبط کا قائم رہنا ہی جزو لاینفک ہے۔
’’ان لوگوں کے لیے بے جان زمین ایک نشانی ہے۔ ہم نے اس کو زندگی بخشی اور اس سے غلہ نکالا جسے یہ کھاتے ہیں۔ ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کیے اور اس کے اندر سے چشمے پھوڑ نکالے تاکہ یہ پھل کھائیں۔ ان کے لیے ایک اور نشانی رات ہے۔ ہم اس کے اوپر سے دن ہٹادیتے ہیں تو ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جارہا ہے۔ یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے اور چاند اس کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں یہاں تک کہ ان سے گزرتا ہوا وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کی مانند رہ جاتا ہے۔ نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔‘‘
(یٰسین، 36: 33۔40)
اس بزرگ و برتر ہستی کی عطا کردہ بیش بہا نعمتوں سے مستفید ہونا اسی صورت ممکن ہے جب اس کی نعمتوں کی حفاظت کی جائے اور ان میں قائم توازن و ربط کو بگاڑنے کی کوشش نہ کی جائے۔ مثلاً کائنات کے سب سے چھوٹے ذرے کو توڑ کر یعنی ایٹم کو توڑ کر ایٹم بم بنایا جاتا ہے جو ہیروشیما اور ناگا ساکی کی تباہی اور انسانی ہلاکت خیزی کا موجب بنا۔ قوانینِ فطرت میں تبدیلی اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی زمین پر فساد پھیلانے کے مترادف ہے۔ قرآن حکیم نے زمین پر فساد پھیلانے سے منع فرمایا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم بہت جامع ہے اسی لیے فرمایا ہے:
’’زمین میں فساد برپا نہ کرو۔ جبکہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔‘‘
(الاعراف)
زمین میں فساد پھیلانے سے مراد اس کے قدرتی حسن کو تباہ کرنا، فطری تناسب کو بگاڑنا اور سامانِ حیات و زیست کو خطرات سے دوچار کرنا ہے۔ بقائے حیات کے لیے اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ پاکیزہ ماحول کو فطری انداز میں قائم رکھنا اشد ضروری ہے۔ حضرت محمد ﷺ کی ذاتِ بابرکات نے تحفظِ ماحولیات کے لیے بہترین رہنمائی فرمائی ہے۔
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے نبی مجھے کسی ایسی بات کی تعلیم عطا فرمایئے جس سے مجھے فائدہ ہو۔ آپ نے فرمایا مسلمانوں کے راستے سے تکلیف دینے والی چیزوں کو ہٹادیا کرو۔‘‘
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے کہ وہ بری، بحری اور فضائی راستوں کو ضرر رساں اور باعثِ اذیت اشیاء سے پاک کرے۔
’’حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ نے فرمایا جو مسلمان بھی درخت لگائے یا کاشت کاری کرے اس میں سے پرندے، انسان یا چوپائے کھائیں تو لگانے والے کے لیے صدقہ کا ثواب ہے۔‘‘
اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث مبارکہ میں شجر کاری کی فضیلت اور صریح ہدایات موجود ہیں۔
مذہبِ اسلام انسانیت کی فلاح و بہبود اور اس سے وابستہ تمام امور کو کار خیر قرار دیتا ہے۔ اس دین فطرت نے عوام الناس کے وجدان اور شعور حیات میں انقلاب برپا کرتے ہوئے نہ صرف اس دور کے مسائل بلکہ آنے والے تمام زمانوں کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے راہ ہموار فرمادی۔ یہی وجہ ہے کہ خلفاء راشدین اور ان کے مابعد بنو امیہ، بنو عباس کے ادوار میں بلکہ مسلمان جہاں بھی فاتح بن کر گئے انہوں نے وہاں کے قدرتی وسائل کو تحفظ دیا اور بلا لحاظ مذہب و ملت عوامی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا۔ زرعی اصلاحات، سیلابی پانی کی روک تھام، بنجر اور بے آباد زمینوں کی کاشتکاری و شجرکاری سے علاقوں کو سر سبز و شاداب بنایا گیا، حوض نہروں کی کھدائی پلوں اور سڑکوں کی تعمیر سے عوامی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ خطہ ارضی کو سنوارا گیا۔ مسلمان سپین گئے تو زراعت کے جدید طریقوں کو اپناتے ہوئے دوسرے پھلوں اور اشجار کے علاوہ چاول، خوبانی، انار، کھجور، نارنگی، روئی اور زعفران کی کاشت سے علاقے کو متعارف کروایا۔ اسے باغات، چشموں، جھرنوں، آبشاروں اور نہروں سے سجا کر لافانی عطیہ عطا کیا۔
برصغیر پاک و ہند میں مسلم دورکی یادگار باغات آج بھی موجود ہیں جو تحفظ ماحولیات کے سلسلے میں ان کے کار خیر پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔
قرآن حکیم کائنات اور اس کے جملہ رموز پر غورو فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ عربوں نے جب قرآن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تو کرہ ارض اور اجرام فلکی کی ماہیت کو جاننے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے۔ مامون الرشید کے عہد میں کرہ ارض کے محیط کی تحقیق کے لیے متعدد تجربات کیے گئے۔ علم ہیت میں حیرت انگیز ترقی کے لیے شماسمیہ کے مقام پر دنیائے اسلام کی پہلی رصد گاہ قائم کی گئی جس کے ذریعے سورج، چاند، سیاروں اور دیگر کواکب کے حالات معلوم کیے جاتے۔ مسلم ہیت دانوں کی جانفشانی کی بدولت آسمان پر دریافت ہونے والے ستاون (۵۷) ستاروں کے نام عربی زبان میں ہیں۔ مثلاً Achemar (آخرالنہر) Aldearan (الدیران) Alphard (الفرد) Minkar (منقار) اور Suhail (سہیل) وغیرہ۔ اس طرح ہمارے تحفظ ماحولیات کے حوالے سے ہمارے اجداد کی کاوشیں بہت مثبت اور حوصلہ مند رہی ہیں۔
اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں جابجا اور سورۃ الرحمن میں خاص طور پر انسان کے لیے کرہ ارض، کرہ آب اور کرہ باد میں مہیا کردہ نوازشات اور نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اگر آج کی دنیا پر نظر دوڑائیں تو سائنسی تحقیق نے بھی انسان کو یہ باور کروادیا ہے کہ فطرت کی عظیم لیبارٹری نے جس طرح بے شمار وسائل ہمارے لیے زمین پر بکھیر دیئے ہیں اسی طرح زیر زمین بھی بیش بہا عناصر خام مال کی صورت میں جمع کررکھے ہیں۔ یہ عناصر جو بہت کارآمد ہیں صدیوں کے عمل سے صدیوں پہلے تخلیق ہوئے۔ گزشتہ ڈیڑھ صدی سے صنعت و حرفت میں جدید ترقی کے خواہاں انسان نے ان عناصر کو بے دریغ استعمال کرنا شروع کیا۔ قدرت کے عطا کردہ توانائی کے ذرائع کوئلہ، تیل، گیس اور لکڑی ہیں جو آج مشرق و مغرب میں نہایت برق رفتاری سے خرچ ہورہے ہیں۔ ان ذخائر کے خاتمے کے بعد انہیں دوبارہ حاصل کرنا ناممکن ہے۔ مثلاً دنیا میں میلوں پھیلے جنگلات تیزی سے کاغذ میں تبدیل ہورہے ہیں مگر کوئی طریقہ ایسا نہیں کہ کاغذ کو واپس جنگلات میں تبدیل کیا جاسکے۔ اسی طرح ایک طرف تو خام وسائل کی مقدار لمحہ بہ لمحہ ختم ہورہی ہے تو دوسری طرف ان کے استعمال کے غلط طریقوں سے ایسی باقیات جنم لے رہی ہیں جس سے اس کرہ ارضی کا چہرہ مسخ ہورہا ہے۔
ماہرین ہیت و ارضیات کے نزدیک آج کی دنیا میں ماحولیاتی آلودگی ایک اہم ترین چیلنج ہے۔ یہ عمل ہوا، مٹی، پانی اور نباتات کی طبعی، کیمیائی اور حیاتیاتی خصوصیات میں عدم توازن اور محض تبدیلیاں پیدا کرنے کے باعث ہوا۔ گلوبل وارمنگ کے بڑھتے ہوئے منفی اور مضر اثرات قدرت کے اجزائے ترکیبی میں خلل ڈالنے کے باعث مرتب ہوئے اور آبی، زمینی اور فضائی آلودگی کا باعث بنے۔ معاشی اور اقتصادی ترقی کی دوڑ میں صنعتی عمل، فیکٹریوں اور گاڑیوں سے خارج ہونے والے کیمیائی مرکبات اور ذرات سورج کی روشنی سے مل کر ایسے مرکبات بناتے ہیں جسے سموگ کہتے ہیں۔ گرمی کی حدت اور موسمی تبدیلی کے نتیجے میں دنیا بھر میں گلیشر پگھل رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر گلیشر پگھلنے کی رفتار یہی رہی تو گلیشر چند سالوں میں ختم ہوجائیں گے۔ سورج کی تمازت بڑھ رہی ہے۔ کرہ ارض پر اوزون کی تہہ میں سوراخ کی دریافت ہوچکی ہے۔ جنگلی و آبی حیات معدوم ہورہی ہے۔ پودے، درخت اور فصلیں سورج کے گندے پانی سے سیراب ہورہے ہیں۔ پانی قدرت کے دیئے ہوئے اس تحفے کو بھی قابل استعمال نہیں رہنے دیا گیا۔ سورج کا گندا پانی ندی، نالوں اور دریائوں میں بہادیا جاتا ہے۔ فیکٹریوں اور صنعتوں کے پیداواری عمل سے خارج ہونے والے آبی اور ٹھوس فضلات کو دریائوں اور آبی وسائل میں شامل کردیا جاتا ہے جو سمندر تک پہنچ کر آبی حیات کو شدید متاثر کررہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ دریائے راوی میں روزانہ تقریباً 212 ملین گیلن گندا پانی شامل ہورہا ہے۔
ترقی کے بڑھتے ہوئے معیار کو قائم رکھنے، کم محنت کرکے سہل، پرلطف اور پُرآسائش زندگی گزارنے کی خواہش، سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم اور صنعتکاروں کے حریفانہ اقدامات نے ماحولیاتی آلودگی کو اس نہج پر پہنچادیا ہے کہ ایک طرف تو نسل انسانی تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی ہے اور دوسری طرف کرہ ارضی پر حیات و زندگی کے آثار معدوم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ آج کا دور ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ خوبصورت ارضی و سماوی نعمتوں کو اپنی حریفانہ کاوشوں سے آلودہ کردیا اور اس خوبصورت بزم رنگ و بو کو شہرِ خموشاں میں تبدیل کردیا۔
ماحولیات کا تحفظ اور قدرتی نظام توازن کو بحال کرنا آج کے انسان کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ حیوانات، آبی حیات، نباتات و اشجار ابتدائے آفرینش سے انسان کے ساتھی ہیں۔ ان کی حفاظت کا اہتمام کرنا انسان کی ذمہ داری ہے۔ ان حالات میں اگر ہم اسلامی اصولوں اور ضابطہ حیات کو اپنائیں تو ماحولیاتی آلودگی کے بہت سے مسائل نبرد آزما ہوسکتے ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے اور ہمیں سادہ زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ذاتی طہارت کے ساتھ ساتھ گردو پیش کے ماحول کو پاک و صاف رکھنے کا اجر و ثواب ہے۔ اسلامی تعلیمات میں بقائے حیات اور فلاح انسانیت کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اسلام تہذیب و معاشرت میں دلنوازی، حسن و سلیقہ اور نظم و ضبط قائم کرنے کا درس دیتا ہے۔ جانوروں سے پیار اور رخ، اشجار سے انسیت و حفاظت کا اہتمام اسلام ہی نے سکھایا ہے۔ یہاں تک کہ دشمن کے علاقے میں بھی ان کی حفاظت کا حکم ہے۔ شجر کاری صدقہ جاریہ ہے اگر صرف اسی پر عمل کرلیا جائے تو ہم اپنے اردگرد کے ماحول کو آلودگی سے بچاسکتے ہیں۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جون 2021ء
تبصرہ