انسدادِ منشیات اور ہماری ذمہ داریاں

سُمیَّہ اسلام

انسان کو جن نعمتوں سے سرفراز کیا گیا ہے، ان میں ایک عقل و دانائی بھی ہے، یہی عقل ہے جس نے اس کے کمزور ہاتھوں میں پوری کائنات کو مسخر کر رکھا ہے اور اسی صلاحیت کی وجہ سے اللہ نے اس کو دنیا میں خلافت کی ذمہ داری سونپی ہے ؛ اسی لئے اسلام میں عقل کو بڑی اہمیت حاصل ہے، قرآن مجید نے بےشمار مواقع پر مسلمانوں کو تدبر اور تفکر کی دعوت دی ہے، تدبر اور تفکر کی حقیقت کیا ہے؟ یہی کہ انسان جن چیزوں کا مشاہدہ کرے اور جو کچھ سنے اورجانے، عقل کو استعمال کر کے اس میں غور و فکر کرے اور انجانی حقیقتوں اور ان دیکھی سچائیوں کو جاننے اور سمجھنے کی سعی کرے اسی لئے قانونِ اسلامی کے ماہرین اور فلاسفہ نے لکھا ہے کہ شریعت کے تمام احکام بنیادی طور پر پانچ مقاصد پر مبنی ہیں، دین کی حفاظت، جان کی حفاظت، نسل کی حفاظت، مال کی حفاظت اور عقل کی حفاظت، گویا عقل اور فکر و نظر کی قوت کو برقرار رکھنا اور اسے خلل اور نقصان سے محفوظ رکھنا اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے۔

چنانچہ اسلام میں جن کاموں کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور جن سے منع فرمایا گیا ہے، ان میں ایک نشہ کا استعمال بھی ہے، قرآن مجید نے نہ صرف یہ کہ اس کو حرام بلکہ نا پاک قرار دیا ہے:

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَO

اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔

( المائدة: 90)

کیونکہ انسان کا سب سے اصل جوہر اس کا اخلاق و کردار ہے، نشہ انسان کو اخلاقی پاکیزگی سے محروم کر کے گندے افعال اور ناپاک حرکتوں کا مرتکب کر تی ہے اور روحانی اور باطنی ناپاکی ظاہری ناپاکی سے بھی زیادہ انسان کے لئے مضر ہے، احادیث میں بھی اس کی بڑی سخت وعید آئی ہے اور بار بار آپ ﷺ نے پوری صفائی اوروضاحت کے ساتھ اس کے حرام اور گناہ ہونے کو بتایا ہے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:

ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ (بخاری)

حضرت جابر بن عبد اللہ سے آپ ﷺ کا ارشاد مروی ہے کہ:

جس شے کی زیادہ مقدار نشہ کا باعث ہو، اس کی کم مقدار بھی حرام ہے۔ (ترمذی)

یہ نہایت اہم بات ہے کیونکہ عام طور پر نشہ کی عادت اسی طرح ہوتی ہے کہ معمولی مقدار سے انسان شروع کرتا ہے اور آگے بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ بعض اوقات اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ زہر آمیز انجکشن کے بغیر اس کی تسکین نہیں ہوتی۔

نشہ ایک ایسا لفظ ہے جس کے زبان پر آتے ہی اس کی خرابیاں نگاہوں کے سامنے رقص کرنے لگتی ہیں۔ اصل میں اس کی خرابیاں واضح ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایک صالح و صحت مند معاشرہ اسے ہرگز قبول نہیں کرتا۔ منشیات کا زہر ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، کتنے ہی خاندان ایسے ہیں جو نشے میں مبتلا اپنے بچوں کے مستقبل سے نااُمید ہو چکے ہیں۔ ہمارے نوجوان اکثر و بیشتر معاشرتی ردعمل اور نامناسب رہنمائی کی وجہ سے نشے جیسی لعنت کو اپنا لیتے ہیں۔ آج ہماری نوجوان نسل منشیات، شراب، جوے اور دیگر علتوں میں مبتلا ہو کر نہ صر ف اپنی زندگی تباہ کر رہی ہے بلکہ اپنے ساتھ اپنے خاندان والوں کے لیے بھی اذیت اور ذلت و رسوائی کا سبب بن رہی ہے۔ ملک و قوم کی ترقی اور مستقبل کے ضامن یہ نوجوان جرائم پیشہ ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ نشہ جسم کے ساتھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی سلب کر کے رکھ دیتا ہے۔

منشیات کا خاتمہ اور اسلام:

آج اگر دنیا واقعتا منشیات کی گرفت سے آزاد ہونا چاہتی ہے تو اسے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے راستے ہیں جنھیں اپنا کر اس دنیا کو منشیات کے چنگل سے آزادی دلائی جاسکتی ہے۔ دنیا سے اس سنگین و خطرناک لعنت کے خاتمے کا واحد ذریعہ اسلام ہے۔ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس میں منشیات کے قلع کو قمع کرنے کی مکمل صلاحیت موجود ہے۔ اسلام نے اس لعنت سے سماج کے تحفظ کے لیے جو قوانین متعین ہیں وہ اس قدر جامع ہیں کہ ان اصولوں پر کاربند ہوجانے کے بعد منشیات کے نجس وجود سے زمین پاک ہو سکتی ہے۔ دنیا میں سوائے اسلام کے دوسرا کوئی مذہب ایسا نظر نہیں آتا جس میں نشے کے تمام ذرائع پر ایسا قدغن لگایا گیا ہو جیسا کہ اسلام نے لگایا ہے۔ اسلام نے اسے ام الخبائث کا نام دیا یعنی تمام جرائم کی ماں کا نام دے کر اس کے جملہ پوشیدہ عیوب و نقائص بیان کردیے۔ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس نے اس کو ہر لحاظ سے ممنوع قرار دیا حتی کہ ایک شراب ہی نہیں بلکہ جملہ نشہ آور اشیاء کو حرام فرما کر روئے زمین سے منشیات کا ہی قصہ پاک کردیا۔

ایک انگریز قانون داں بنتام لکھتا ہے کہ:

اسلامی شریعت کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں شراب حرام ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جب افریقہ کے لوگوں نے شراب کا استعمال کرنا شروع کیا تو ان کی نسلوں میں پاگل پن سرایت کرنے لگا۔ یورپ کے جن لوگوں کو اس کا چسکا لگ گیا ان کی بھی عقلوں میں تغیر آنے لگا۔ یہ تو ایک نشہ آور مشروب کا ذکر ہے جس کی ممانعت نے اہل دنیا پر اسلامی قوانین کی عظمت کا نقش مرتب کردیا جب حرمت نشہ کے مکمل قوانین کا جائزہ لیا جائے گا تو دنیا کے پاس سوائے اسلام کے کوئی جائے پناہ نہ رہ جائے گی۔

سڑکو ں اور پتھروں پر بکھرے ہوئے منشیات کے عاد ی افراد کے حلیے اور ٹھکانوں سے تو اکثر لوگ باخبر اور واقف ہیں اور اُن پر نفرین بھی بھیجتے ہیں لیکن کیا کیا جائے شہر کے پوش علاقوں اور اعلیٰ درس گاہوں میں زیرتعلیم ان نوجوانوں کا جو انتہائی تیزی سے نشے کو فیشن کے نام پراپنا رہے ہیں۔ صد حیف کہ جب تک ان بچوں کے والدین پر یہ کربناک حقیقت آشکار ہوتی ہے تب تک اُن کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہتا۔

اس وقت دنیا بھر میں 15 سے 64 سال کی عمر کے 35 کروڑ لوگ کسی نہ کسی نشے میں مبتلا ہیں۔ دنیا کی تقریباً سات ارب آبادی میں سے ساڑھے چار ارب افراد کی عمریں 15 سے 64 سال کے درمیان ہیں جن میں نشے کے عادی افراد کی شرح سات فیصد ہے۔ پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد افراد نشے میں مبتلا ہیں۔ صوبائی شرح کے حساب سے پنجاب کے 55 فیصد اور دیگر صوبوں کے 45 فیصد افراد نشے کے عادی ہیں۔ صرف لاہور میں ہی ایک لاکھ لوگ نشے میں مبتلا نظر آتے ہیں جبکہ پاکستان میں ہرسال نشہ کرنے والوں کی تعداد میں پانچ لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ گو پاکستان میں سرکاری سطح پر اے این ایف کسٹم اور ایکسائز سمیت 24 ایجنسیاں منشیات کے خلاف فعال ہیں۔ ہمارے ہاں پکڑی جانے والی منشیات میں سے 60 فیصد اینٹی نارکوٹکس فورس پکڑتی ہے جبکہ 60 فیصد باقی 23 ادارے پکڑتے ہیں لیکن ان کی تمام تر کوششوں اور کاوشوں کے باوجود یہ زہر تیزی سے معاشرے کی رگوں میں اُترتا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں چرس، افیون، ہیروئن، بھنگ اور حشیش سمیت منشیات کی 21 سے زائد اقسام ہیں۔ دنیا میں 62 فیصد لوگ چرس بھنگ اور حشیش کے عادی ہیں جبکہ باقی 20 فیصد ہیروئن، دس فیصد افیون، 20 فیصد لوگ کوکین، کیپسول، کرسٹل اور گولیاں استعمال کرتے ہیں۔

منشیات کے استعمال کی بنیادی وجوہات:

ماہر منشیات ڈاکٹر ہیرا لال لوہانو منشیات کے استعمال کی تین بنیادی وجوہات بیان کرتے ہیں:

پہلی وجہ:

منشیات کے استعمال کی تین بنیادی وجوہات میں ذہنی دباؤ سرفہرست ہے۔ یہ دباؤ دور حاضر کے مادیت پرست دور میں تیزی سے انسانوں کو اپنے گھیرے میں لے رہا ہے۔

دوسری وجہ:

دوسری وجہ شخصیت کا عدم توازن ہے۔

تیسری وجہ:

تیسری وجہ دوستوں کی صحبت ہے یعنی چار دوست اگر منشیات استعمال کرتے ہیں تو پانچواں دوست دباؤ میں آکر اس کا استعمال شروع کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر لوہانو کے مطابق بعض امیر گھرانوں کے نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کی ایک وجہ جنسی قوت میں اضافے کی خواہش بھی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم (UNODC) نے 2013ء میں پاکستان میں منشیات کے استعمال پر شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پاکستان میں نشے کے عادی افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور گزشتہ سال ملک میں نشہ کرنے والے افراد کی تعداد 67 لاکھ تھی۔ اس کے علاوہ 42 لاکھ افراد ایسے ہیں جو ممکنہ طور منشیات استعمال کرتے ہیں۔ ملک میں نشے سے بحالی کے مراکز اور ماہرین کی تعداد بہت کم ہے اور وہ صرف سال میں 30 ہزار افراد کو دستیاب ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر علاج مفت بھی نہیں کیا جاتا۔ اس سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں نشے سے چھٹکارا حاصل کرنے والے خواہش مند 99.7 فیصد افراد اس علاج کے اخراجات ہی برداشت نہیں کرسکتے۔

نوجوان اور منشیات:

پاکستان کو درپیش مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ نوجوان نسل کا منشیات کی طرف راغب ہونا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے نوجوانوں خاص کر تعلیمی اداروں کے طلبہ میں منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں کی صلاحیتیں متاثر ہورہی ہے اور ان کا مستقبل تاریک ہورہا ہے۔ تعلیمی اداروں اور نوجوان نسل میں منشیات کا استعمال فیشن بن گیا ہے اور اسے سٹیٹس سمبل سمجھا جاتا ہے۔ منشیات کے عادی افراد میں صرف مرد ہی شامل نہیں ہیں بلکہ خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی نشے کی عادی ہے۔ نوجوانوں میں تمباکو، چرس، شیشہ، افیون، شراب و دیگر جدید قسم کی منشیات عام ہیں اور وہ ان کے نقصانات سے بے خبر بطورِ فیشن اور خود کی تسکین کیلئے منشیات استعمال کر رہے ہیں۔ منشیات کے استعمال سے شرح اموات میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور اس سے بے شمار خاندان اجڑ چکے ہیں۔

منشیات کے اثرات:

منشیات مختلف خوشگوار، پُرجوش اور یہاں تک کہ عصبی اثرات پیدا کرسکتی ہیں، لیکن اس کا استعمال صارفین کی جسمانی اور نفسیاتی صحت اور ان کے معاشرتی کام کے لئے بھی سنگین نتائج کا باعث بنتا ہے۔ منشیات کے معاشرے پر دو طرح کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دینی مضرات اور اخروی مضرات۔

دینی مضرات:

اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور کی بناء پر جو شرف بخشا ہے، منشیات کے استعمال سے وہ اس سے محروم ہو جاتا ہے۔

ہر مسلمان عقل کی وجہ سے احکام شرعیہ کا مکلف ہوتا ہے اور اسی مکلف ہونے کی وجہ سے وہ صاحبِ احترام ہوتا ہے۔ منشیات کے استعمال سے اس کی عقل متاثر ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کے قابل نہیں رہتا۔

منشیات کا استعمال انسان کو اللہ کے ذکر سے غافل کر دیتا ہے۔ اللہ کے ذکر سے غافل انسان شیطان کا ترنوالہ بن جاتا ہے۔

اسلامی معاشرے میں منشیات کا استعمال کرنے والا شخص ایک مجرم کی حیثیت رکھتا ہے۔

اخروی مضرات:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: آنحضرت ﷺ نے شراب کی وجہ سے دس لعنتیں فرمائی ہیں:

بذات خود شراب پر، شراب بنانے والے پر، شراب بنوانے والے پر، شراب فروخت کرنے والے پر،۔ شراب خریدنے والے پر،۔ شراب اٹھا کر لے جانے والے پر،۔ جس کی طرف شراب اٹھا کر لے جائی جائے اس پر، شراب کی قیمت کھانے والے پر،۔ شراب پینے والے پر، شراب پلانے والے پر۔

منشیات کا خاتمہ اور ہماری ذمہ داری:

منشیات کا خاتمہ سب کی ذمہ داری ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ملک بھر میں منشیات کا استعمال کرنے والوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے،نشے کے نت نئے طریقے متعارف کروائے جا رہے ہیں۔ ملک بھر کیاسکول اور کالجز میں طلباء کی بڑی تعداد منشیات کا استعمال کر رہی ہے اور تو اور خواتین کی بڑی تعداد بھی نشے کی لت میں مبتلاہے۔ منشیات کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر قانون سازی کی جانی چاہیے۔ منشیات کے خاتمے کے لئے متعلقہ اداروں کو اپنی کارکردگی بہتر بنانی ہو گی، نشے سے بحالی کے مراکز قائم کرنا ہوں گے اور اس میں مبتلا افراد کے علاج معالجے کے لئے ہر علاقے میں الگ الگ زیادہ سے زیادہ سنٹرز بنائے جانے چاہیں، تاکہ کافی حد تک یہ وبا مزید پھیلاؤ سے بچ سکے۔ نوجوان نسل میں زہر فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی بھی کرنی ہو گی تاکہ ہماری آئندہ آنے والی نسلیں اورافراد معاشرہ بالخصوص نوجوانوں کا اسلام سے تعلق بحا ل کرنا ہوگا تاکہ ہم سب بھی منشیات کی لعنت سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوسکیں۔ بلاشبہ اسلام ہی واحد وہ راستہ ہے جو اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں سب سے کارآمد ہے۔

منشیات فر وشی پر پابندی اور ا س کے خلاف کیے جانے والے اقدامات اپنی جگہ لیکن والدین کا اپنے بچو ں پر نظر رکھنے کا عمل انتہائی ضروری ہے۔ بچو ں کے ساتھ ان کے دوستوں پر نظر رکھیں اور انہیں اچھی صحبت کے فو ائد بتائیں۔ جہاں اُن کے قدمو ں میں ہلکی سی بھی لرزش نظر آئے اُن پر قابو پانے کی کوشش کریں بصورت دیگر زندگی کا یہ اہم ترین سرمایہ ضائع ہو سکتا ہے۔ تعلیمی نصاب میں منشیات کے مضر اثرات کو نمایاں کرکے پیش کیا جائے۔ غرض اس خطرناک وبا سے نجات اس وقت ممکن ہے، جب تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی قومی، ملی اور دینی فریضہ سمجھ کر اس کے خلاف ایک منظم حکمت عملی کے ساتھ برسرپیکار ہوجائیں گے۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جون 2021ء

تبصرہ