سعدیہ کریم
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت مقدسہ پر جن محترم لوگوں نے احسن طریقے سے عمل کیا جنہوں نے اپنی زندگیاں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت میں گزار دیں انہیں اولیائے کرام کہا جاتا ہے۔ انہی مقدس و محترم اور برگزیدہ ہستیوں میں نہایت ہی معتبر نام حضرت سیدہ رابعہ بصریؒ کا ہے آپ نے ہمیشہ نماز اور روزے کی اہمیت پر زور دیا اور پاکیزگی اور طہارت کا درس دیا ان کا شمار بلند پایہ اولیاء اللہ میں ہوتا ہے۔ اسلامی تصوف میں پہلی خاتون ہیں جنہیں شہرت دوام حاصل ہوئی۔
ولادت باسعادت:
95 ہجری کی ایک بابرکت رات میں بصرہ کے ایک نیک سیرت انسان اسماعیلؒ کے گھر بیٹی کی ولادت ہوئی۔ گھر میں تین بیٹیاں پہلے سے تھیں نومولد کا نام رابعہ رکھا گیا۔ حضرت رابعہ بصریؒ کا شمار اسلام کی ان پاک خواتین میں ہوتا ہے جن کی زندگی ابتداء سے انتہا تک فقر و غنا سے عبارت ہے۔ حضرت رابعہ بصریؒ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ تسلیم و رضا اور صبر و شکر کی نوید تھا۔ آپ کے والد محترم زمانے کی سختیاں سہتے، فاقے کرتے اور نت نئے مصائب و آلام برداشت کرتے مگر زبان سے کبھی شکایت نہ کرتے اور نہ کسی سے دستِ سوال دراز کرتے۔ ایسے باپ کی بیٹی فطرتاً، عابدہ و زاہدہ تھیں۔
تعلیم و تربیت:
حضرت رابعہ بصریؒ کو بچپن سے ہی قرآن پاک اور بزرگان دین کے اقوال سے لگاؤ تھا وہ انتہائی ذہین و فطین، شائستہ اورمہذب خاتون تھیں۔ بچپن سے ہی حلال و حرام کی تمیز تھی۔ ایک دن سب گھر والے کھانے کے لیے جمع ہوئے مگر وہ کھانے سے دور رہیں والد نے پوچھا رابعہ تو کیوں کھانا نہیں کھاتی؟ انہوں نے نہایت غمگین لہجے میں جواب دیا کہ میں سوچ رہی ہوں کہ یہ کھانا حلال بھی ہے کہ نہیں۔ والد نے کہا کہ بیٹی یہ کیسی بات ہے۔ ہم کیوں حرام کھائیں گے تو انہوں نے فرمایا کہ اس دنیا میں ہمیں بھوک پر صبر کرنا چاہئے تاکہ آخرت میں آگ پر صبر نہ کرنا پڑے۔
حضرت رابعہ بصریؒ کی عمر مبارک ابھی تقریباً پانچ برس تھی کہ والدین دنیا سے رحلت فرماگئے۔ ان دنوں بصرہ میں ایسا شدید قحط پڑا کہ بھوک سے لوگ ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ ہجرت کے دوران حضرت رابعہؒ اپنی بہنوں سے بچھڑ گئیں۔ ایک ظالم شخص نے انہیں پکڑ کر ایک دولت مند کو فروخت کردیا۔ وہ ان سے تمام کام کراتا تھا۔ وہ دن کو روزہ رکھتیں اور گھر کے تمام کام کاج کرتیں۔ رات کو عبادت الہٰی میں بسر کرتی تھیں۔ ایک دن رات کو عبادت میں مشغول تھیں تو ان کے مالک نے دیکھ لیا وہ یہ سارا منظر دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ صبح اٹھ کر اس نے حضرت رابعہؒ بصری سے معافی مانگی اور انہیں آزاد کردیا۔
آپ نے علوم ظاہری حاصل کرنے کے لیے کوفہ کا رخت سفر باندھا جو اپنے وقت میں بہت بڑا علمی مرکز تھا۔ وہاں سے پہلے انہوں نے قرآن حکیم حفظ کیا۔ اس کے بعد فقہ اور حدیث کی تعلیم حاصل کی اور اتنی مہارت حاصل کی کہ آپ کا وعظ سن کر بڑے بڑے محدث اور فقیہ حیران رہ جاتے۔ ان کی بارگاہِ معرفت میں بڑے بڑے علماء اور صوفیاء حاضر ہوتے تھے۔ ان میں سر فہرست امام سفیان ثوریؒ ہیں جنہیں امیرالمومنین فی الحدیث کہا جاتا تھا اس کے علاوہ حضرت مالک بن دینارؒ بھی حضرت رابعہ بصریؒ سے نہایت عقیدت رکھتے تھے۔
دیگر اہل معرفت اور صاحبان تصوف کی طرح حضرت رابعہ بصریؒ بھی خدا کے وصل کی متمنی تھیں۔ حضرت رابعہ بصری تصوف میں وہ ہستی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے حُبِ الہٰی کو مستقل اور محکم مسلک کی صورت میں پیش کیا۔ طبقات الکبریٰ میں درج ہے کہ ’’حضرت رابعہ بصریؒ ہر وقت مغموم اور ملول رہا کرتی تھیں۔ انہیں دنیا سے محبت نہیں تھی۔ جب وہ عذاب، دوزخ کا ذکر سنتی تھیں تو دیر تک اس کی دہشت سے بے ہوش رہتی تھیں۔ ہوش میں آتی تو توبہ میں مشغول ہوجاتیں ان کی سجدہ گاہ ہمیشہ آنسوؤں سے تر رہتی تھیں‘‘۔
حضرت رابعہؒ بہت کم گفتگو کرتی تھیں اگر کوئی سوال پوچھ لیتا تو مختصر اور مدلل جواب دیتی تھیں۔ ہر بات میں قرآنی آیات کا حوالہ دیتی اور اکثر آیات قرآنی ہی بیان کردیتی جب لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ ’’انسان جو کچھ بولتا ہے فرشتے اسے لکھتے ہیں اسی لیے قرآن کی آیتوں کے سوا کچھ نہیں بولتی کہ کہیں میرے منہ سے بری بات نہ نکل جائے جسے فرشتے لکھ لیں۔
حضرت امام غزالیؒ احیائے علوم الدین میں فرماتے ہیں:
’’حضرت رابعہؒ نے اپنے اشعار میں غرض اور آرزو کی جس بحث کا ذکر کیا ہے۔ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا احسان اور انعام ہے جو وہ اپنے بندوں پر روا رکھتا ہے اور جس حبِ الہٰی کا ذکر کیا ہے اس سے مراد دیدار الہٰی اور جمال خداوندی ہے اور یہی محبت سب سے بہتر اور برتر ہے‘‘۔
امام غزالیؒ نے حضرت رابعہؒ کے ایک اور فقرے کی عمدہ تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت رابعہؒ سے سوال کیا گیا کہ جنت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے تو انہوں نے جواب دیا ’’پہلے ہمسایہ اور پھر مکان‘‘۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ رابعہ بصریؒ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے دنیا میں خدا کو نہیں پہچانا وہ اگلے جہاں میں بھی اس کے دیدار سے محروم رہے گا۔ حضرت رابعہ بصریؒ نے اپنے علم، ریاضت اور زہد و عبادت سے ایسا مقام حاصل کیا کہ ان کے عہد کے بڑے بڑے عالم و صوفیاء ان کے پاس بیٹھنا اور ان کی گفتگو سننا اپنے لیے ایک شرف سمجھتے تھے۔ ان کی مجلس میں مودب رہتے اور اپنے مسائل کا حل ان سے کرواتے۔ حضرت رابعہؒکا مقام و مرتبہ بہت بلند تھا۔ مردوں کے معاشرے میں جہاں منبرو محراب تک مرد ہی فائق ہوتے وہاں ایک زاہدہ و صالح عورت کے اقوال و افکار اور عبادت کی انتہا ہلچل مچادے تو سب کے لیے حیرت کا مقام ہوتا ہے۔
حضرت فریدالدین عطارؒ نے بھی حضرت رابعہؒ کا تذکرہ بہت احسن انداز میں فرمایا ہے وہ کہتے ہیں دیکھنے والوں نے دیکھا کہ غزالان صحرا دوڑ دوڑ کر رابعہ کی طرف آتے جبکہ وہ ہر انسان سے بدک کر بھاگ اٹھتے ہیں۔
ایک دفعہ لوگوں نے ان سے سوال کیا کہ آپ نکاح کیوں نہیں کرتیں تو فرمایا کہ مجھے تین باتوں کا اندیشہ ہے اگر ان سے مجھے نجات مل جائے تو میں نکاح کروں۔ اول یہ کہ مرتے وقت ایمان سلامت لے جاؤں گی یا نہیں؟ لوگوں نے کہا معلوم نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ دوسرا یہ کہ میرا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا یا بائیں ہاتھ میں اور تیسرا یہ کہ قیامت کے دن ایک گروہ کو بہشت میں دائیں طرف سے لے جایا جائے گا اور دوسرے کو بائیں طرف سے تو میں کس جانب سے جاؤں گی۔ لوگوں نے جواب دیا ہمیں علم نہیں تو حضرت رابعہؒ فرماتی ہیں کہ جسے اس قدر غم ہوں وہ عورت شوہر کی خواہش کیسے کرسکتی ہے؟ ان کا دل ہر وقت خوف الہٰی سے معمور رہتا تھا۔ وہ اپنے خوف جہنم اور طمع جنت سے بے نیاز ہوکر خدا کو یاد کرتی رہتی تھیں۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ خدا کو یاد کیا جائے کیونکہ وہ وحدہٗ لا شریک ہے اس کی محبت غیر مشروط ہونی چاہئے یہ محدود لامحدود ہو۔ اس محبت کا مقصد باری تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا ہو اس کے دیدار کا حصول ہو۔ آپ ہمیشہ روتی رہتی تھیں۔ فرمایا کرتی تھیں کہ میں نے صرف اللہ تعالیٰ سے ہی محبت کی ہے۔ ڈرتی ہوں کہ مرتے وقت آواز نہ آئے کہ رابعہ تو ہمارے لائق نہیں وہ ہمیشہ کھردرے کمبل کا کرتہ پہنتی تھیں اور وصیت فرماتی تھی کہ مرنے کے بعد اسی میں دفن کیا جائے۔ ان کے انتقال کے بعد ایک معتقد خاتون نے انہیں ؒخواب میں دیکھا کہ بہت ہی قیمتی ریشم کا کرتہ پہنے ہوئے ہیں۔ خاتون نے سوال کیا کہ کمبل کا کرتہ کہاں گیا تو جواب میں کہا کہ ’’رحمن نے اس کرتے کے بدلے میں یہ کرتہ عطا فرمایا ہے‘‘۔
اس عورت نے کہا کہ قرب الہٰی کے حصول کا کوئی طریقہ بتائیں تو جواب دیا کہ ’’قرب الہٰی کے لیے یاد الہٰی سے بہتر کوئی چیز نہیں‘‘۔ اکثر وہ اشعار پڑھا کرتی تھیں جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے:
اے میرے آقا، مقرب بندے خلوتوں میں تیرا قرب ڈھونڈتے ہیں۔ تیری عظمت کے گیت سمندر میں مچھلیاں گاتی ہیں اور تیرے مقدس جلال کی وجہ سے موجیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں۔ دن کی روشنی رات کی تاریکی، گھومنے والے آسمان، منور چاند چمکیلے تارے سب تیرے سامنے سجدہ کرتے ہیں اور ہر چیز ایک اندازے کے مطابق ہے کیونکہ تو غنی اور قہار ہے۔
وہ اپنی دعائیں اپنے اشعار کے ذریعے بیان کرتی تھیں اس دعا کو اکثر راتوں کو چھت پر جاکر پڑھا کرتی تھیں۔
اے میرے مالک، ستارے چمک رہے ہیں اور سب لوگوں کی آنکھیں نیند سے بند ہیں اور ہر کوئی اپنی خلوت میں ہے اور میں یہاں تیرے ساتھ اکیلی ہوں۔ اے مالک اگر میں دوزخ کے عذاب کے خوف سے تیری عبادت کرتی ہوں تو تو مجھے دوزخ میں جھونک دے اور اگر میں جنت کی توقع میں تیری عبادت کرتی ہوں تو تو مجھے جنت سے محروم کردے لیکن اگر میں محض تیری خاطر عبادت کرتی ہوں تو مجھ سے اپنے حسن لازوال کو پوشیدہ نہ رکھنا۔
وہ فرماتی تھیں کہ ’’کوئی انسان کس طرح توبہ کرسکتا ہے جب تک اس کا مالک اس کو اس کی توفیق عطا نہ کرے اور اسے قبولیت نہ بخشے اگر وہ تمہاری طرف رخ کرے گا تو تم بھی اس کی طرف رخ کرو گے‘‘۔
فرماتی تھیں کہ ’’اللہ تعالیٰ سے قناعت پسند دل مانگو یہ بہت بڑی نعمت ہے‘‘۔
دل کو قابو میں رکھنا اور اختیار ہونے پر ناجائز خواہشوں کو روکنا مردانگی ہے۔
انتقال: ایک مدت تک لوگوں کو راہ حق کی روشن شاہراہ پر گامزن کرنے اور حق و صداقت کی راہ پر چلتے رہنے کی تلقین کرنے والی یہ عظیم شخصیت حالت نزع میں تھیں اور بستر علالت پر آرام فرما تھیں۔ بصرہ کے نیک دل لوگ عیادت کی غرض سے حاضر خدمت تھے۔ اچانک حاضرین سے مخاطب ہوئیں کہ یہاں سے ہٹ جائیں۔ ملائکہ کے لیے جگہ چھوڑ دیں۔ سب لوگ باہر چلے گئے کچھ دیر تک گفتگو کی آواز آتی رہی جب آوازیں آنا بند ہوگئیں تو لوگ اندر داخل ہوئے اور دیکھا کہ حضرت رابعہؒ اس دنیا سے رخصت فرما چکی تھیں۔
اللہ کی عبادت گزار بندی فرشتہ، مجاہدہ صفت، عابدہ، صالحہ، فخرالنساء فی الصالحین نے 185 ہجری میں بصریٰ میں وصال فرمایا اور وہیں آپ کو دفن کیا گیا۔ محبتوں کا یہ آبشار اس دنیا میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد اس طرح اس دنیا سے رخصت ہوا جسے باد نسیم کا کوئی جھونکا تیزی سے گزر جائے۔ آپ کی سیرت اور آپ کا کردار غرض کہ آپ کی پوری زندگی خواتین کے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ کی عبادت، ریاضت، زہد و ورع، اللہ سے محبت یہ پیغام دیتی ہے کہ انسان خواہ مرد ہو یا عورت اسے ہر حال میں خدا کی بندگی اور محبت کا حق ادا کرنا ہے۔ اسے دوزخ و جنت سے بے نیاز ہوکر معبود حقیقی کی عبادت کرنی ہے۔ اسے صبرو رضا کا پیکر بننا ہے۔ اسے اپنی زندگی کے شب و روز خدا کے نور سے منور کرنا ہے تاکہ جب اس کا سفر آخرت ہو تو ہر راستہ اور منزل منور ہو۔ عورتوں کی فضیلت کے مباحثے میں فرماتی تھیں کہ اگر ان میں کوئی نبی نہیں تو کسی عورت نے خدائی دعویٰ بھی نہیں کیا مگر تمام انبیاء اولیائ، صدیق عورت کی گود میں ہی پرورش پاتے اور بڑے ہوئے ہیں اور معرفت کی اصل خدا کی طرف متوجہ ہونا ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اکتوبر 2020ء
تبصرہ