تحریم رفعت
ماہ ربیع الاول نہ صرف امت مسلمہ بلکہ دنیائے عالم کے لیے خاص اہمیت کا حامل مہینہ ہے کیونکہ اس ماہ مقدس میں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری ہوئی، جو بلا تفریق و تقسیم تمام عالم انسانیت کیلئے رحمت بن کر آئے۔ آپ نے ظلمت و تاریکی میں ڈوبی انسانیت کو گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نجات دلائی، اور انسانیت کو اس کی حقیقی معراج اور بلندی کے نکتہ کمال پر پہنچایا۔ اللہ رب العزت نے آپ کے ہاتھ میں سیادت رسل کا علم اور سر پہ خاتمیت انبیاء کا تاج سجا کر اس دنیا میں مبعوث فرمایا گیا۔
ماہ ربیع الاول جسے ماہ ربیع النور بھی کہا جاتا ہے اسلامی تقویم کے لحاظ سے تیسرا مہینہ ہے، بالخصوص اس ماہ مقدس کی مناسبت سے دنیا بھر میں بسنے والے مسلمان عید میلادالنبی کے طور پر مناتے ہیں، اس ماہ مبارک میں محافل حمد و نعت، محافل قرأت و نعت، محافل سماع، محافل میلاد النبی و سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وغیرہ بھرپور جوش و جذبہ اور پوری مذہبی عقیدت و احترام سے مناتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَذَکِّرْهُمْ بِأَیَّامِ اللّهِ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُورٍ.
(ابراهیم: 5)
اور انہیں اللہ کے دنوں کی یاد دلاؤ (جو ان پر اور پہلی امتوں پر آچکے تھے)۔
امام المفسرین سیدنا عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہما)کے نزدیک ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں۔ جن میں رب تعالٰی کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو۔ ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت و معراج کے دن ہیں، ان کی یاد قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے)۔
(تفسیر خزائن العرفان)
اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ہیں، لہٰذا حکم ربی کے تحت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے فضل و کرم پر شکر بجا لانا تقاضائے عبودیت و بندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کسی نعمت پر شکر بجالانے کا ایک معروف طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان حصولِ نعمت پر خوشی کا اظہار کرنے کے ساتھ اس کا دوسروں کے سامنے ذکر بھی کرتا رہے کہ یہ بھی شکرانۂ نعمت کی ایک صورت ہے اور ایسا کرنا قرآن حکیم کے اس ارشاد سے ثابت ہے:
وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ.
(الضحی، 93: 11)
اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب)تذکرہ کریں۔
اِس میں پہلے ذکرِ نعمت کا حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کو دل وجان سے یاد رکھا جائے اور زبان سے اس کا ذکر کیا جائے لیکن یہ ذکر کسی اور کے لیے نہیں فقط اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔ اس کے بعد تحدیثِ نعمت کا حکم دیا کہ کھلے بندوں مخلوقِ خدا کے سامنے اس کو یوں بیان کیا جائے کہ نعمت کی اَہمیت لوگوں پر عیاں ہوجائے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ذکر کا تعلق اللہ تعالیٰ سے اور تحدیثِ نعمت کا تعلق مخلوق سے ہے کیوں کہ اس کا زیادہ سے زیادہ لوگوں میں چرچا کیا۔
اللہ رب العزت نے مومنین سے خطاب کر کے ارشاد فرمایا :
لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ.
(آل عمران، 3: 164)
بے شک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ اُن میں اُنہی میں سے عظمت والا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی اپنے یوم ولادت کے موقع پر اللہ رب العزت کے ہاں سپاس گزار ہوتے ہوئے پیر کے دن روزہ رکھتے، اور تحدیث نعمت کا شکر بجا لاتے ہوئے صحابہ کرام کے جھرمٹ میں محفل شکرانہ کا اہتمام فرماتے، کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌo
(إبراهیم، 14: 7)
اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اِضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناّ سخت ہے۔
جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ کی موجودگی میں اصحاب مدینہ بالخصوص بنو نجار کی معصوم بچیاں اور اوس و خزرج کی عفت شعار خواتین دف بجا کر دل و جان سے محبوب ترین اور عزیز ترین مہمان کو طلع البدر علینا جیسے خوبصورت اشعار سے خوش آمدید کہہ رہی تھیں، اس عمل کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع نہ فرمایا اور یقیناً یہ عمل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبعیت کیلئے سکون اور راحت کا سامان تھا۔ لہٰذا جشن عید میلاد النبی کی مستحسن اور مبارک محافل کو حرام قرار دینا حقائق سے لاعلمی، ضد اور ہٹ دھرمی کے سواء کچھ نہیں ہے۔
کتب سیر و احادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آمد کا حال اس طرح بیان کیا گیا ہے:
فَصَعِدَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاء ُ فَوْقَ الْبُیُوتِ وَتَفَرَّقَ الْغِلْمَانُ وَالْخَدَمُ فِی الطُّرُقِ یُنَادُون: یَا مُحَمَّدُ! یَا رَسُولَ ﷲِ! یَا مُحَمَّدُ! یَارَسُولَ ﷲِ!
مرد اور عورتیں گھروں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام راستوں میں پھیل گئے، سب نعرے لگا رہے تھے: یا محمد! یا رسول اللہ! یا محمد! یا رسول اللہ!
(مسلم، الصحیح، 4: 231، رقم: 2009)
دیگر روایات کے مطابق اہل مدینہ جلوس میں یہ نعرہ لگا رہے تھے:
جَاءَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ ﷲِ ﷺ
اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔
سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا اپنے عظیم نونہال کے واقعاتِ ولادت بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں :
لما فصل منّی خرج معه نور أضاء له ما بین المشرق إلی المغرب.
جب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور ہوا تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے شرق تا غرب سب آفاق روشن ہوگئے۔
متعدد کتب سیرت کی روایات میں سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وقتِ ولادت اُن سے ایسا نور خارِج ہوا جس کی ضوء پاشیوں سے اُن کی نگاہوں پر شام میں بصریٰ کے محلات اور بازار روشن ہوگئے یہاں تک اُنہوں نے بصریٰ میں چلنے والے اونٹوں کی گردنیں بھی دیکھ لیں۔
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ فرماتی ہیں، (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی ، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہوگیا۔ اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں)۔
جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعات کی تاریخی خوشی میں مسرت و شادمانی کا اظہار ہے اور یہ ایسا مبارک عمل ہے جس سے ابولہب جیسے کافر کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر ابولہب جیسے کافر کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں ہر پیر کو عذاب میں تخفیف نصیب ہوسکتی ہے۔ تو اُس مومن مسلمان کی سعادت کا کیا ٹھکانا ہوگا جس کی زندگی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشیاں منانے میں بسر ہوتی ہو۔
حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی اپنے یومِ ولادت کی تعظیم فرماتے اور اِس کائنات میں اپنے ظہور وجود پر سپاس گزار ہوتے ہوئے پیر کے دن روزہ رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے یوم ولادت کی تعظیم و تکریم فرماتے ہوئے تحدیثِ نعمت کا شکر بجا لانا حکم خداوندی تھا کیوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے وجودِ مسعود کے تصدق و توسل سے ہر وجود کو سعادت ملی ہے۔
جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل مسلمانوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام جیسے اَہم فرائض کی رغبت دلاتا ہے اور قلب و نظر میں ذوق و شوق کی فضاء ہموار کرتا ہے، صلوۃ و سلام بذات خود شریعت میں بے پناہ نوازشات و برکات کا باعث ہے۔ اس لیے جمہور اُمت نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِنعقاد مستحسن سمجھا۔
سیرتِ طیبہ کی اَہمیت اُجاگر کرنے اور جذبۂ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فروغ کے لیے محفلِ میلاد کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اِسی لیے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فضائل، شمائل، خصائل اور معجزاتِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ اور اُسوۂ حسنہ کا بیان ہوتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم و نور کی ایسی شمعیں روشن کیں جس نے عرب جیسے علم و تہذیب سے عاری معاشرے میں جہالت کے اندھیروں کو ختم کر کے اسے دنیا کا تہذیب یافتہ معاشرہ بنا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تعلیمات میں امن، اخوت، بھائی چارہ، یکجہتی اور ایک دوسرے کو برداشت کا درس دیا۔
اگر صرف 25 سے 30 سال قبل ہم اپنے معاشرے کے حالات کا جائزہ لیں تو یہ حققیت ہم پر روز روشن کی طرح آشکار ہو جائے گی کہ بلاشک و شبہ یہ منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہی ہیں جن کی بدولت آج معاشرہ میں فرقہ بندی، فتویٰ بازی اور مناظرہ و مجادلہ کی بجائے عید میلادالنبی اور جشن عید میلاد النبی منایا جاتا ہے، اور معاشرے میں اسے ایک عید اور جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر شیخ الاسلام کی تصانیف و مدلل خطابات نہایت قیمتی اثاثہ ہیں جن میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرضیت، علمی و فنی حیثیت، جواز کے دلائل اور پروپیگنڈہ کے مدلل جوابات موجود ہیں، جو تاریخ انسانیت کیلئے مشعل راہ ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نگر نگر گلی گلی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کو ایک عظیم عید کے طور پر منانے کا جو رواج قائم کیا ہے اس کے روح پرور اثرات و ثمرات نہ صرف پاکستان بلکہ متعدد دیگر ممالک میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ سے نوجوان نسل کو روشناس کروانے میں تحریک منہاج القرآن دنیا بھر میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔
یہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا امت مسلمہ پر احسان عظیم ہے کہ انہوں نے ایک معتدل معاشرے کی بنیاد رکھی اور روئے دنیا پر اپنے مراکز کے تحت انسانوں کی فلاح و بہبود اور رشد و ہدایت کے مواقع فراہم کیے ہیں۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دنیا بھر میں چرچے کرنے اور نوجوان نسل کے دلوں میں عشق رسول اور محبت اہل بیت اطہار کے چراغ روشن کرنے پر صحت و سلامتی کے ساتھ درازی عمر عطا فرمائے اور دنیا بھر میں لوگوں کو شیخ الاسلام کا دست و بازو بن کر دین مصطفوی کا پیغام عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں اس مشن پر ہمیشہ استقامت عطا فرمائے اور ہماری ٹوٹی پھوٹی کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اکتوبر 2020ء
تبصرہ