سعدیہ کریم
بے شمار خداداد صلاحیتوں کی حامل صنف نازک پوری دنیا میں امتیازی رویوں کا شکار ہے۔ اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کرتی خواتین 21 صدی میں بھی اپنی عظمت کے اس معیار کو حاصل کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں جو قدرت کی طرف سے انہیں عطا کیا گیا ہے۔ خواتین کے انہی حقوق کے حصول کی جدوجہد کو آشکار کرنے کے لیے 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین منایاجاتا ہے۔
خواتین کائنات کا جزو لاینفک ہیں۔ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی ہر روپ میں خدا کا ایک انمول تحفہ ہیں۔ یہاں تک کہ بیٹی کو خدا کی رحمت سے تعبیر کیا گیا ہے لیکن قرآن و حدیث کی آفاقی تعلیمات سے قطع نظر کرتے ہوئے ہر دور اور ہر معاشرے میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ ذیل میں ہم مختلف مذاہب میں خواتین کی حرمت و عظمت کے معیار کو دیکھتے ہیں:
روم میں خواتین کی حالت زار:
اسلام سے قبل مذاہب میں مجموعی معاشرتی حالت بہت خراب تھی۔ رومہ میں ایک عرصہ تک قانونی طور پر عورت نہایت پست درجے میں رہی تھی باپ اور شوہر اس کے مالک ہوئے تھے۔ اخلاقی حالت بہت خراب تھی۔ اس زمانے میں عصمت فروشی کا دھندہ سرعام کیا جاتا تھا۔ قحبہ خانے عام تھے۔ شوہر کا تصرف اس حد تک تھا کہ وہ اپنی بیوی کو قتل کرسکتا تھا۔ قانون کی نظر میں عورت ضعیف العقل شمار ہوتی تھی۔ اسے کسی قسم کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔
یہودیت میں عورت کا مقام:
یہودیت قدیم ترین مذہب ہے جس کی ترویج کے لیے بے شمار انبیائے کرام کو مبعوث کیا گیا تھا دیگر اقوام کے مقابلے میں سب سے زیادہ دینی فہم اور سرمایہ اسی مذہب کے پاس تھا لیکن یہود نے اپنی سرکشی، غرور اور تکبر سے خدا کی تعلیمات کو ٹھکرایا۔ پیغمبروں کا مذاق اڑایا اور دین سے انحراف کی راہ نکالی۔
یہودیت میں عورت کا مقام انتہائی کمتر تھا۔ ان کے نزدیک عورت مکار اور بدنیت تھی۔ عہد نامہ قدیم میں ہے کہ جب خدائے تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے دریافت کیا کہ تو نے اس درخت کا پھل کیوں کھایا جس سے تجھے روکا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ جس عورت کو تو نے میرے ساتھ کیا ہے اس کے دینے پر میں نے کھایا۔ اس کے بعد اللہ نے ان کو مشقت اور تکلیف کی زندگی میں ڈال دیا۔ یہود معاشرے میں بھی عورت اپنے بنیادی حقوق سے محروم پستی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھی۔
ہندو معاشرے میں عورت کا مقام:
ہندو معاشرے میں عورت کسی حال میں بھی آزاد نہیں۔ اس پر فرض ہے کہ ہر حالت میں اپنے خاوند کا انتظار کرے۔ اس کے جاگنے سے پہلے جاگے اور اس کے سونے کے بعد سوئے۔ اس معاشرے میں مردہ شوہر کی لاش کے ساتھ زندہ بیوہ کو جلانا ایک جائز فعل تھا۔ ہندومت میں تعدد ازواج کی اجازت ہے۔ عام ہندو چار شادیاں کرسکتے ہیں اور راجائوں کے لیے بیویوں کی کوئی تعداد متعین نہیں۔ بیوہ کو خاوند کی لاش کے ساتھ جلانا عزت کی بات ہے اور جو عورت ایسا نہ کرے اس کا کوئی معاشرتی مقام نہیں ہوتا۔ زندگی کے تمام دروازے اس پر بند کردیئے جاتے ہیں۔ ہر قسم کی زیب و زینت حرام ہوجاتی ہے اور طعن و تشنیع کا بازار گرم رہتاہے۔
ہندو مت میں لڑکی کی پیدائش کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے۔
عرب دور جاہلیت میں عورت کا مقام:
مسلم مورخین نے زمانہ قبل از اسلام کو عرب دور جاہلیت کا نام دیا ہے۔ عرب ایشیاء کے جنوب مغرب میں واقع دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ اور خشک خطہ ہے۔ عرب لوگ جوانمردی اور شجاعت میں فقیدالمثال تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بے رحمی، شراب نوشی، جہالت، سود خوری، توہم پرستی، دخترکشی اور قمار بازی جیسی بری عادات بھی ان میں موجود تھیں۔ ان کے معاشرے میں عورتوں کو اشیائے خریدوفروخت کی طرح ایک عام اور حقیر شے سمجھا جاتا تھا عورت معاشرے کا مظلوم ترین طبقہ تھا۔ عورتوں کو بطور ترکہ تقسیم کیا جاتا تھا۔ بڑے بیٹے کا حق تھا کہ باپ کی وفات کے بعد اس کی منکوحہ سے شادی کرلے۔ بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ زمین میں دفن کرنے کا رواج تھا۔ میراث میں عورتوں کا کوئی حصہ نہ تھا۔
اسلام میں عورت کا مقام:
جزیرہ نمائے عرب میں بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں ایک ایسا انقلاب رونما ہوا جس نے زمین کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔ عورت کو عزت کا تاج پہناکر اسے وہ اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا گیا جس کی وہ حقدار تھی۔ دختر کشی کی رسم کو ختم کیا گیا۔ زنا کو حرام قرار دیا گیا۔ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کو وراثت میں حصہ دار بنایا گیا۔ ان کے لیے تعلیم کا حق رکھا گیا۔ مہر کا حق دیا گیا۔ عورت کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کیا گیا۔ عورتیں براہ راست اپنے حقوق کی بات کرنے کے لیے بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوتیں تھیں۔ زمانہ جاہلیت کی تمام رسوم ختم کردی گئیں خواتین کو شخصی آزادی حاصل ہوئی۔
غرض مذاہب عالم میں خواتین کی حرمت و عظمت کا کوئی معیار نہ تھا۔ روم، یونان، ایران، ہندومت، یہودیت، عیسائیت اور عرب دور جاہلیت میں عورت کا کوئی معاشرتی مقام نہ تھا، اس کی کوئی قانونی حیثیت نہ تھی۔ رومہ تہذیب و معاشرت میں عورت کو کسی قسم کا کوئی اختیارحاصل نہ تھا۔
گویا اسلام سے قبل معاشرہ میں عورت کا کوئی مقام و مرتبہ نہ تھا لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تعلیم دی کہ عورت کا درجہ اور مرتبہ اسلام میں اتنا ہی بلند ہے جتنا کہ مرد کا۔ حیثیت، حقوق اور اخروی انعامات میں دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عمل سے دنیا کو یہ درس دیا ہے کہ عورت بھی اتنی ہی عزت کی حقدار ہے جتنا کہ مرد۔ البتہ اسلام نے دونوں کی حدود مقرر کی ہیں۔ اگر دونوں اپنی حدود سے تجاوز کریں گے تو عائلی زندگی تباہ ہوجائے گی جس طرح موجودہ دور میں ہورہا ہے۔ انسانیت کو مرد اور عورت کی صنفی تقسیم کے ساتھ پیدا کرنا حق تعالیٰ شانہ کی منصوبہ بندی ہے اور اس تقسیم کو باقی رکھنے میں ہی انسانی زندگی کی بقا اور ترقی ہے۔
عالمی یوم خواتین منانے کا بنیادی مقصد خواتین میں اپنے حقوق و فرائض سے آگہی پیدا کرنا ہے جب تک خواتین اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے حقوق و فرائض کا شعور حاصل نہیں کریں گی تب تک وہ عزت کے اعلیٰ مقام کو حاصل نہیں کرسکتیں۔ اسلام میں عورت کو اعلیٰ مقام و مرتبہ سے نوازا گیا ہے لیکن اس کے باوجود آج بھی خواتین اپنے حقوق و مرتبہ، وراثت و عزت سے محروم ہیں۔ برابری کا سلوک نہیں کیا جارہا اس کی بڑی وجہ قرآن و سنت سے دوری ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، مارچ 2020ء
تبصرہ