طیبہ کوثر
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اس خطۂ ارض پر اگر طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو ماضی قریب میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ فردِ واحد نے اپنی فہم و فراست اور جُہدِ مسلسل سے فکری و نظریاتی، تعلیمی و تحقیقی، اخلاقی و روحانی، سماجی و اقتصادی ہر سطح پر نہ صرف ملتِ اسلامیہ بلکہ پوری انسانیت کے لیے مختصر وقت میں اتنی بے مثال اور ان گنت خدمات سرانجام دی ہوں، بلاشبہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ہی وہ کثیر الاوصاف شخصیت ہیں جو ہمہ وقت تمام میادین میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے نظر آتے ہیں۔
شیخ الاسلام عہدِ نو میں ملتِ اسلامیہ کے تابندہ و روشن مستقبل کی نوید ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآن و حدیث اور فیضانِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا نور عطا فرمایا ہے، جس سے پورا عالم اسلام منور اور فیضیاب ہو رہا ہے۔ آپ نہ صرف ارتقائے نسلِ انسانی کی راہیں متعین کر رہے ہیں بلکہ ان راہوں پر افکار و نظریات کے چراغ جلا کر ذہنوں کی تہذیب اور روحوں کی تطہیر کا فریضہ بھی بخوبی نبھا رہے ہیں۔ آپ کی شخصیت کے بارے میں بے ساختہ زبان سے یہ الفاظ نکلتے ہیں:
جب بھی دیکھا اک عالم نو دیکھا
سلسلہ طے نہ ہو سکا تیری شناسائی کا
شیخ الاسلام کثیر الجہت شخصیت ہیں۔ آپ کی ذات آفتاب کی مانند ہے جو ہر لمحہ اپنی مختلف جہات کے اعتبار سے لوگوں کو مستنیر کر رہی ہے۔ آپ کی شخصیت کا ایک اہم پہلو بے نظیر و بے مثال خطیب اور مقرر ہونا ہے۔ خدائے قدوس نے اس دورِ پُرفتن میں آپ کو حسنِ بیان کی وہ صلاحیتیں عطا کی ہیں کہ جن کی بدولت اک نئے عہدِ خطابت نے جنم لیا ہے۔
شیخ الاسلام کی خطابت کا شہرہ آسٹریلیا و جاپان سے لے کر امریکہ و کینیڈا تک وسیع ہے۔ آپ نے تاریک راہوں میں چراغ جلانے کی رسم کو زندہ کیا ہے۔ آپ کا عہدِ خطابت نصف صدی پر محیط ہے۔ فصاحت و بلاغت سے بھرپور گفتگو آپ کے خطاب کا حسن ہے۔ آپ علم و عرفان کے گوہر لٹاتے اپنی سحر بیانی اور تقریر کی روانی سے دلوں میں اتر جاتے ہیں۔ آپ شریعت و طریقت میں اک نئی دنیا کے خطیب ہونے کی حیثیت سے انفرادی مقام رکھتے ہیں۔ آپ کی دلکش اور سحر انگیز آواز سے سامعین کا جمِ غفیر سردیوں کی یخ بستہ رات کے سناٹے اور گرمیوں کی تپتی دوپہر میں بھی دنیا و مافیہا سے بے نیاز، بے خود اور مسحور ہو جاتا ہے۔
شیخ الاسلام ایسے عظیم مقرر ہیں جو کسی خاص موضوع پر ہی نہیں بلکہ عصرِ حاضر کو درپیش گوناگوں مسائل و موضوعات پر مدلل گفتگو کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ آپ کا یہ خاصہ ہے کہ آپ نے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک خصوصاً یورپی ممالک میں اِسلام کے مذہبی و سیاسی، روحانی و اَخلاقی، قانونی و تاریخی، معاشی و اِقتصادی، معاشرتی و سماجی پہلوؤں پر ہزارہا فکر انگیز لیکچرز دیے۔ جن کی بدولت نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر آپ کو وہ مقام حاصل ہے کہ آپ کا نام خود آپ کی ایک پہچان اور ایک حوالہ بن گیا ہے۔
شیخ الاسلام کے لہجہ کی لطافت نے آپ کو نامور مقررین کی فہرست میں بلند مقام سے آشنا کیا ہے۔ دلکش اسلوبِ بیان، بلا کی شائستگی، ادب کی چاشنی، ،متنوع طرزِ استدلال اور خوبصورت الفاظ پر مشتمل آپ کی گفتگو کا ایک ایک حرف ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے سند مانا جاتا ہے۔ گویا آپ خطابت کے افق پر صبح خنداں کا اجالا ہیں۔
شیخ الاسلام کا اظہارِ کلام کسی مخصوص زبان کا مقید نہیں بلکہ مادری، قومی اور بین الاقوامی زبانوں میں آپ کا کلام فصاحت و بلاغت کا شاہکار ہے۔ آپ زندگی کے ہر شعبہ کے حوالے سے اظہارِ خیال کے لیے ذخیرہ الفاظ اور واضح فکر رکھتے ہیں۔ آپ نہ صرف خطابات میں بلکہ نجی سطح پر بھی گفتگو کرتے ہوئے الفاظ کے انتخاب اور ادائیگی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ دلائل اور تحقیق سے مزین آپ کی گفتگو ہر سطح کے سامعین کے دل و دماغ کے شکوک و شبہات کو دور کرتی اور یقین کا نور عطا کرتی ہے۔ سامعین کو سمجھانے کے لیے آپ تشبیہات، اشارات و کنایات، شروحات اور تمثیلات کا ایک ایسا حسین انداز اپناتے ہیں کہ ان کا علمی اور ذہنی معیار چاہے کسی سطح کا بھی ہو، دقیق سے دقیق نکات بھی ان کی سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ عامۃ الناس نے آپ کے فصیح و بلیغ انداز سے بہت کچھ سیکھا ہے اور ان کی فکر و نظر کے پیمانے بدل چکے ہیں۔ آپ کی گفتگو سے استفادہ کرتے ہوئے شرق تا غرب ہزارہا نوجوان اعلیٰ پائے کے خطیب بنے ہیں۔
شیخ الاسلام امنِ عالم کے پیامبر اور وسیع القلب مسلم اسکالر ہیں۔ آپ بلا تمیز رنگ و نسل پوری انسانیت کو اپنے سایۂ عاطفت میں سمیٹنے کے لیے مائل بہ عطا رہتے ہیں۔ آپ کی شخصیت ہر ایک مسلک کے لیے وسیع ظرف رکھتی ہے۔ عقائد اور فقہی مسلک میں اپنی خاص شناخت رکھنے کے باوجود کسی کو کافر و مشرک نہیں کہتے۔ آپ کے افکار میں اسلام کا وہ حقیقی تصور موجود ہے جو لاکھوں غیر مسلموں کو مسلمانوں کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر لاکھڑا کرتاہے۔ آپ کے قرآن و حدیث کے نورانی دلائل سے آراستہ دل کشا کلام اور مؤثر اسلوب اظہار میں اللہ تعالیٰ نے وہ تاثیر رکھ دی ہے کہ بہت سے غیر مسلم متاثر ہو کر مسلمان ہو چکے ہیں۔
شیخ الاسلام ایسے عدیم النظیرخطیب ہیں جو بلا معاوضہ عرق ریزی اور دلجمعی کے ساتھ پوری دنیا میںدینِ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔ قرآن کو سائنسی دلائل کے ساتھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ سائنسدان انگشت بدنداں ہو جاتے ہیں۔ سود سے پاک بینکاری کا ایسا نظام العمل پیش کرتے ہیں کہ بڑے سے بڑے معیشت دان بھی حیران رہ جاتے ہیں۔ روحانیت کے موضوع پر بات کرتے ہوئے نفس و روح کے مقام اور درجات کو سمجھنے کے لیے ایسا زینہ فراہم کرتے ہیں کہ سامع قربِ الٰہی کے سفر کو اس طرح سمجھ جاتا ہے کہ گویا وہ اسی منزل کا راہی ہے۔ روحانی اجتماعات میں ایک عالم کو براہِ راست اپنی صحبت سے بہرہ ور کرتے ہوئے قلوب و اذہان کی میل کچیل دور کرتے ہیں اور بارگاہِ الہٰی میں گریہ و زاری کے کلمات اور خشوع و خضوع کے لہجے میں مانگی گئی دعائوں، التجاؤں کے ذریعے لاکھوں لوگوں کے من کی دنیا نورِ ایمان سے روشن کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام امتِ مسلمہ کے تن اور من کی دنیا سنوارنے کے لیے اپنی سنگت سے محبتِ الہٰی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رونے والی آنکھوں، سوز و گداز سے معمور قلوب و اذہان کی نعمتِ عظمیٰ سے اس طرح مالا مال کرتے ہیں کہ ان کی پژمردہ روحیں سرورِ سرمدی سے بہرہ ور ہوتی ہیں۔ ان کی طبیعتیں اک عجیب سا انبساط اور سرور محسوس کرتی ہیں۔ انہیں اپنی رگوں میں خون دوڑتا اور دل کے بند کواڑ کھلتے محسوس ہوتے ہیں۔ موقع محل کی مناسبت سے جب آپ آیات یا اشعار کو مخصوص مترنم آواز میں پڑھتے ہیں تو سامعین کی طبیعتیں وجد محسوس کرتی ہیں۔ آپ کی گفتگو اتنی پُرتاثیر ہوتی ہے کہ سجدوں کی لذت سے ناآشنا نوجوان نسل کی جبینیں آپ کی صحبت کی وجہ سے سجدوں کی لذت سے مالا مال ہو کر رشکِ ملائک بن جاتی ہیں۔ آپ اپنے جوشِ بیان سے نوجوان نسل کے مردہ دلوں کو حیاتِ نو بخش کر انہیں خدا اور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق سے مزین کرتے ہیں۔
یورپ میں مقیم دینی اقدار سے دور مسلمان کمیونٹی کے نہاں خانوں میں آپ کی صدائے بازگشت سے ہزاروں لوگوں کی سوچ، فکر اور زندگیاں بدل چکی ہیں۔ سجدوں سے عاری ان کی جبینوں کو آہِ سحر گاہی سے آشنائی ملی ہے۔ عشقِ الٰہی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ایمان کا خمیر بن گیا ہے۔ ان کی آنکھیں گنبدِ خضریٰ کے مکین کی یاد میں اشکبار دکھائی دیتی ہے۔ ان کے چہروں پر عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہاریں نور بکھیرتی نظر آتی ہیں۔ ان کی نسلوں کی اٹھتی جوانی میں حیا کا رنگ دیکھنے کو ملتا ہے۔
شیخ الاسلام نہ صرف مذہبی حوالے سے وسیع سوچ کے حامل ہیں بلکہ سیاسی حوالے سے بھی آپ کا لہجہ مضبوط چٹان کی مانند ہے۔ آپ فرعونی اقتدار کے ورثاء کے ظلم و ستم، استکبار و استکراہ اور استبدادی طرزِ حکومت کے سامنے اقبال کے فولادی مومن کی عملی تصویر کا پیکر ہیں۔ آپ کو ہر قسم کی مصلحتوں سے پاک کلمۂ حق کہنے اور افہام و تفہیم سے مسائل کو حل کرنے کا ملکہ حاصل ہے۔ آپ اپنی شعلہ جوانیوں سے سیاست کے فرعونوں کو للکارتے ہوئے قومی و ملی غیرت و حمیت کے جذبات اس طرح زندہ کرتے ہیں کہ پوری قوم اپنی عظمتِ رفتہ کی بازیابی اور مصطفوی نظام کو بپا کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور اخلاص و للہیت کا مظاہرہ کرتی ہوئی ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے آمادہ ہو جاتی ہے۔
المختصر شیخ الاسلام بطورِ خطیب قدرت کا وہ عطیہ ہیں کہ جن کی گفتگو سے عوام و خواص یکساں بہرہ مند ہو رہے ہیں۔ آپ کی خطابت اور شیریں کلام کی اثر آفرینی سامعین کے اذہان و قلوب میں کرشماتی طور پر منتقل ہو رہی ہے۔ آپ کی زندگی میں ہر رنگ کا فیض جھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔ آپ کی ولولہ انگیز زندگی کو جس جہت سے بھی دیکھا جائے، وہ ایک نئی سج دھج سے نظر آتی ہے۔ بقول شاعر:
ہر حال میں ہر دور میں تابندہ رہوں گا
میں زندہ جاوید ہوں پائندہ رہوں گا
تاریخ میرے نام کی کرے گی تعظیم
تاریخ کے اوراق میں آئندہ رہوں گا
شیخ الاسلام کی 69 ویں سالگرہ کے موقع پر بارگاہِ الٰہی میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مردِ قلندر کی تمام کاوشوں کو مزید فروغ و ارتقاء عطا فرمائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے تصدق سے آپ کا سایہ امتِ مسلمہ کے سروں پر تادیر قائم و دائم رکھے تاکہ امتِ مسلمہ آپ کے علمی و فکری سرمایہ سے روشنی حاصل کرتی ہوئی اوجِ ثریا کی بلندیوں پر دوبارہ متمکن ہو سکے اور ہمیں بطورِ کارکنان فکر قائد کے سائے اور معیت میں عملی جد و جہد پر استقامت عطا فرمائے (آمین بجاہ سید المرسلین)
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، فروری 2020ء
تبصرہ