ڈاکٹر فرخ سہیل
نگاہ بلند، سخن دلنواز جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
عصر حاضر میں ملت اسلامیہ پر ایک جمود طاری ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے تہذیبی ورثے کے اہمیت سے بے خبر ہے۔ اس جمود کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ امت مسلمہ اسلام کے دیئے ہوئے آفاقی و درخشندہ اصولوں کو فراموش کرچکی ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر عملی زندگی کے میدان میں بہت پیچھے ہے اور ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں احساس کمتری کا شکار ہوچکی ہے کیونکہ وہ قومیں ہی جمود کا شکار ہوتی ہیں جن کے ہر عمل کے پیچھے کوئی محرک کارفرما نہ ہو اس کے علاوہ مغربی تہذیب کی چکا چوند نے امت مسلمہ کو اس کے آباء کے کارناموں پر ایک نظر ڈالنے سے بے بہرہ کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے سامنے کوئی بھرپور اور بامقصد نصب العین نہیں لیکن اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کسی مردہ قوم میں نئی روح پھونکنا چاہے تو یہ اس کا بہت بڑا کرم ہے رحم ہے جو کہ رحمۃ للعالمین کے صدقے سے جاری و ساری ہے۔ ایسی نازک صورت حال میں ہمیشہ پروردگار اپنے بندوں میں نبض شناس اشخاص کو پیدا کرتا آیا ہے کہ جن کی باریک بین نظروں نے اپنے اپنے وقت کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے قابل عمل اور قابل قدر اصول فراہم کیے۔ ان معاصر چیلنجز سے نپٹنے کے لیے اکسیر نسخے تجویز کیے۔ ایسی ہی ایک شخصیت ڈاکٹر علامہ محمد طاہرالقادری کی صورت میں ابھر کر سامنے آئی کہ جس کا نام معاصر علمائے دین میں امتیازی مقام کا حامل ہے۔
علامہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نہ صرف امت مسلمہ کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا بلکہ ان مسائل کے حل کے لیے قابل ستائش لائحہ عمل بھی پیش کیا۔ 9/11 کے خطرناک تاریخی واقعے کے بعد اسلام کو بین الاقوامی سطح پر دہشتگرد مذہب کے طور پر پیش کیا گیا اور مسلمان کو ایک انتہا پسند دہشت گرد گردانا جانے لگا۔ ڈاکٹر صاحب کی دور رس نگاہ نے اس خطرے کو قبل از وقت محسوس کرتے ہوئے دنیا کو بتایا کہ اسلامی تہذیب تصور اعتدال و توازن پر مبنی تہذیب ہے جس میں کسی بھی قسم کی انتہا پسندانہ سوچ کی کوئی جگہ نہیں اور یہ بھی باور کرایا کہ اسلامی تہذیب رواداری اور وسعت فکر و نظر کی حامل ہے اور اس سلسلے میں 2009ء میں آپ کے 33 اقساط پر مبنی لیکچرز ’’اسلام دین امن و رحمت ہے‘‘ کے عنوان سے ٹی وی پر نشر ہوئے۔
اس کے علاوہ تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے مختلف عملی مظاہرے نظر آئے جن میں اقامت دین کے امن پر مبنی تصور کے تحت بین المسالک ہم آہنگی اور رواداری کے فروغ کے لیے تحریک ملت جعفریہ سے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اور بین المذاہب فورم کی شکل میں Muslim Christian Dialouge Forum کا قیام عمل میں لایا گیا اور ان تمام ایکٹویٹیز کے پیچھے اسلام کے تصور اعتدال و توازن کا محرک کار فرما تھا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے فتنہ دہشت گردی پر پانچ سو صفحات پر مشتمل تاریخی فتویٰ دیا جو کہ بین المذاہب ہم آہنگی اور مختلف معاشروں کے مابین وحدت کے فروغ کا بین ثبوت ہے اور عالمی سطح پر کی جانے والی ایک ایسی کاوش ہے کہ جس سے ڈاکٹر صاحب نے دہشت گردی کو فتنہ خوارج قرار دیا اور ثابت کیا کہ اگر کوئی مسلمان دہشت گردی کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اور کہا کہ دہشت گردی ایک مذہبی کینسر کا نام ہے بلکہ اس کے مرتکب اشخاص کو قدیم برائی کا نیا روپ قرار دیا۔ اس کے علاوہ 2010ء میں امریکہ کے ایک انتہائی گھناؤنے جارحانہ اقدام قرآن جلاؤ ڈے کے خلاف ڈاکٹر صاحب نے صدائے احتجاج بلند کی اور امریکہ کے صدر بارک اوباما کے نام ایک خط ارسال کیا جس میں انہوں نے اس قرآن جلاؤ تحریک کو نہ صرف ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے کا باعث قرار دیا بلکہ اسے معاشرتی وحدت کو پارہ پارہ کرنے اور مذہبی رواداری کا خاتمہ قرار دیا جو کہ انسانیت کو ایک بار پھر صلیبی جنگوں کی طرف لانے کا باعث بن سکتی ہے۔
اسی طرح ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے احترام مذاہب کے حوالے سے UNO اور OIC سمیت پوری دنیا کے سربراہوں کو مراسلے جاری کیے جس میں گستاخانہ فلموں اور خاکوں کی اشاعت کے مسلسل عمل کو توہین ذوات مقدسہ قرار دیا اور باور کرایا کہ یہ کسی بھی مذہب کی توہین کا عمل Freedom of Expression نہیں ہے اور مختلف یورپی ممالک کو تجویز دیتے ہوئے احترام مذہب کی بنا پر مذاہب کی توہین کے امتنائی قوانین کی سفارش پیش کی آپ کے اس عملی احتجاج کی آواز عالمی ایوانوں میں بھی گونجی۔
ڈاکٹر صاحب نے بنیادی انسانی حقوق کو انسانی تہذیب کی شناخت قرار دیا جس کی بنا پر کوئی بھی ملک و قوم اعلیٰ قومی و تہذیبی اقدار کی حامل قرار پاتی ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے اسلام میں انسانی حقوق کے نام سے بہت جامع اور مدلل کتاب لکھی جس میں ہر طبقہ کے فرد کے انفرادی و اجتماعی حقوق کو مفصل انداز میں پیش کیا اس کے علاوہ شہری و ریاستی حقوق کی بھی مدلل وضاحت کرتے ہوئے تمام حقوق کا تقابل مغربی قوانین کے مطابق دیئے جانے والے حقوق سے بھی کیا اور یہ ثابت کیا کہ اسلامی تہذیب ہی دنیا کی وہ واحد تہذیب ہے جس میں انسانی حقوق کا تصور انوکھا نہیں ہے بلکہ یہ تو داعی اور معلم اعظم نے اسلام کی ابتدا میں ہی پیش کیا ان تمام حقوق پر عمل درآمد بھی ہوتا رہا۔ وہ ہادی و رہبر انسانیت حضرت محمدa ہی تھے جنہوں نے ایک غلام کو اپنے آقا کے مدمقابل لاکھڑا کیا اور ظلم و بربریت اور ناانصافی کی چکی میں پسی ہوئی محکوم و مظلوم عورت کو انسانیت کی صف میں اعلیٰ مقام عطا کیا۔ اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے غیر مسلموں کے حقوق کا بھی مفصل ذکر کیا ہے کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے بھی بہت سے حقوق ہیں اور حاکم ریاست ان کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے۔ اسی طرح گذشتہ 34 سالوں میں ڈاکٹر صاحب کی گرانقدر خدمات جاری ہیں اور آپ کے سینکڑوں لیکچر اور درجنوں کتابیں اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ انہوں نے اسلامی تہذیب کی اعلیٰ اقدار کی تعلیمات اور تنگ نظری و فرقہ واریت کے خلاف علمی و فکری میدان میں کس طرح جدوجہد کی۔
ڈاکٹر صاحب نے مسیحی مسلم مکالمہ کی ترویج و فروغ کے لیے عملی سطح پر کاوشیں جاری رکھی اور باہمی رواداری کے فروغ کو موثر اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے منہاج القرآن انٹرنیشنل کے پلیٹ فارم سے Peace and Humanity Conference کا اہتمام کیا جس میں دنیا کے پانچ بڑے مذاہب اسلام، عیسائیت، یہودیت، ہندومت اور سکھ مت کے علاوہ بدھ مت کے عالمی راہنماؤں، مذہبی سکالرز اور حقوق انسانی کی علمبردار تنظیموں کے ساتھ ساتھ عالمی امن کی خواہاں شخصیات کے علاوہ 11000 افراد نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا ایجنڈا یہی تھا کہ عالمی امن کے قیام کے لیے مختلف تہذیبوں اور تقاضوں کا باہمی تعاون کس قدر ضروری ہے۔ جن میں عالمی عدل و مساوات کے فروغ کی شقوں پر مشتمل London Declaration کے نام سے 24 نکات پر مشتمل اعلامیہ بھی جاری کیا گیا اور بعد ازاں اس اعلامیے کو مختلف مقتدر اور موثر عالمی اداروں اور عالمی راہنماؤں کو ارسال کیا گیا۔
آپ کی عالمی امن کے لیے کی جانے والی ان کاوشوں میں ایک سعی International Conference on Religious Pluralism & World Peace کے نام سے نومبر 2017ء میں منہاج یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے منعقد ہوئی جس کا اولین مقصد عالمی سطح پر موجود انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ماحول میں مختلف مذاہب و اقوام کے مابین خوشگوار تعلقات کے حوالے سے مشترکہ ملی و قومی اور تہذیبی مفادات کا حصول تھا تاکہ مختلف ثقافت و تمدن کے حامل افراد مشترک اصولوں کی بنا پر عالمی امن کے لیے راہیں ہموار کرسکیں۔
ڈاکٹر صاحب کی تمام دینی و اصلاحی خدمات کو ہر صاحب شعور انسان نے سراہا کیونکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ڈاکٹر صاحب ایک متبحر عالم دین ہیں۔ آپ کی تمام تحاریر و تصانیف اور تقریر و تکلم آپ کی اعلیٰ مہارت اور ثقاہت علمی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات کے فروغ کے لیے کی جانے والی کاوشیں آپ کے اعلیٰ مقاصد کی نشاندہی کرتی ہیں۔ امت مسلمہ کے نوجوانوں کی بہتری و اصلاح کے لیے آپ ہر لمحہ خدمات سرانجام دیتے نظر آئے ملک و بیرون ملک بہت سی معاصر شخصیات نے آپ کی تربیتی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ہے چند مقتدر شخصیات کے ڈاکٹر صاحب کے متعلق ادا کیے گئے بیانات کو پیش کیا جارہا ہے جیسا کہ پاکستان تحر یک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ
’’ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اعلیٰ تعلیم یافتہ، درد مند، محب وطن پاکستانی ہیں انہوںنے پاکستان کو جمہوری اقدار کا حامل ایک باوقار ملک بنانے کے لیے کٹھن جدوجہد کی جانی و مالی قربانیاں دیں ڈاکٹر طاہرالقادری نے ہمیشہ امن، بھائی چارے اور تکریم انسانیت کے لیے عملی جدوجہد کی ہے‘‘۔
علامہ راجہ ناصر عباس جو کہ مجلس وحدت المسلمین پاکستان کے سربراہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
’’شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اسلام اور پاکستان کے لیے خدمات تاریخ کا قابل فخر باب ہے۔ انہوں نے تن تنہا جرات و بہادری کے ساتھ اسلام کا پیغام امن پوری دنیا میں پھیلایا جسے زبردست پذیرائی ملی‘‘۔
قمرالزماں کائرہ (صوبائی صدر پاکستان پیپلز پارٹی) ڈاکٹر صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
’’اللہ نے انہیں علم و عمل کی نعمتوں سے نوازا، انہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اسلام اور پاکستان کی سربلندی کے لیے صرف کیا انہوں نے بہتری کے حوالے سے امید کے چراغوں کو بجھنے نہیںدیا پوری دنیا کے نوجوانوں کو اسلام اور پاکستان کی فکری اساس سے جوڑا‘‘۔
امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق صاحب ڈاکٹر صاحب کی خدمات کا اعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ
’’پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری عالم اسلام کی پہچان اور بین الاقوامی شخصیت ہیں جو اتحاد امت، امن، بین المذاہب و بین المسالک رواداری اور فلاح انسانیت کے لیے کوشاں ہیں‘‘۔
محترمہ سعدیہ سہیل رانا جو کہ ممبر پنجاب اسمبلی (پی ٹی آئی) ہیں وہ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں فرماتی ہیں کہ
’’اگر میں بطور ایک استاد، دینی راہنما اور سیاسی لیڈر ان کی شخصیت کا تجزیہ کروں تو ان کی شخصیت کا اہم پہلو سچائی اور دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنا ہے جو تربیت آپ نے لوگوں کو دی وہ قائداعظم کا طریقہ تھا کہ نظم و ضبط، وقت کی پابندی اور ایک دوسرے کا احترام روا رکھا جائے جو شخص صاحب نظر ہونے کے ساتھ صاحب علوم بھی ہو اور اس کی دینی و دنیاوی علوم یہ گرفت اور نظریہ clear ہو وہ ضرور کامیاب ہوتا ہے‘‘۔
مختصر یہ کہ اسلامی تہذیب کے احیاء کے فکری و عملی پہلوؤں پر ڈاکٹر صاحب کی کوششیں جاری و ساری ہیں، جس کا بنیادی مقصد ملک و ملت کی راہنمائی کرتے ہوئے نوجوانان ملت کو اسلامی تہذیب کی مخالف فرقہ وارانہ سازشوں سے آگاہ کرنا ہے کیونکہ دور حاضر میں امت مسلمہ کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان کا شعور و ادراک پیدا کرنے کی بے حد ضرورت ہے تاکہ آنے والے وقت میں نوجوان نسل ان مسائل سے بخوبی نبرد آزما ہوسکے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، فروری 2020ء
تبصرہ