دعوت و تبلیغ میں خواتین کا کردار

سعدیہ کریم

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ.

’’(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو۔‘‘

(النحل، 16: 125)

دین اسلام کی ترقی اور بقا کا دارو مدار دعوت و تبلیغ پر ہے حضور نبی عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا میں نہ صرف قرآن کا درس دیا بلکہ دعوت و تبلیغ کے ذریعے بھی اسلام کو چار دانگ عالم میں پھیلایا جس کی برکت سے آج عرب و عجم نور قرآن سے منور اور فیض اسلام سے مستفیض ہیں۔

دور حاضر میں ہر طرف سے شرک کے بادل امنڈتے ہوئے نظر آرہے ہیں خود ساختہ رسومات اور بدعات کو سنت نبویہؐ کا عنوان دیاجارہا ہے اور قرآنی مفاہیم کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ثابت کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر مسلمان خواہ وہ مرد ہو یا عورت دین کی دعوت و تبلیغ کے ذریعے دنیا کے گوشے گوشے میں حق کا پیغام پہنچائے تاکہ عوام باطل پرست اور دین پر دنیا کے جلب منفعت اور عقیل زر کی خاطر ترجیح دینے والے اشخاص کے ہتھکنڈوں کا شکار نہ ہوسکیں۔

عورت کی پیدائش کا مقصدِ عظیم

عورت کو انسان سازی کے عظیم کام کے لیے منتخب کرکے کائنات میں بھیجا گیا ہے۔ اسلام نے جو عزت اور مقام عورت کو عطا کیا ہے وہ نہ تو قومی تاریخ میں ملتا ہے اور نہ ہی دنیا کی مذہبی تاریخ اس کا پتہ دیتی ہے۔ اسلام نے صرف عورت کے حقوق ہی مقرر نہیں کیے بلکہ ان کو مرد کے برابر درجہ دے کر مکمل انسانیت قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے چاہے وہ ماں کی صورت میں ہو، بہن کی صورت میں، بیوی ہو یا بیٹی کی صورت میں۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو عزم و حوصلہ کی نعمت سے مالا مال کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسی عزم و ہمت کی وجہ سے جنت عورت کے قدموں تلے رکھی گئی ہے۔ عورت ہی وہ ذات ہے جس کے وجود سے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام نے جنم لیا ہے۔ حضرت حوا سے لے کر امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور تک کئی داعی اور مبلغین خواتین کا ذکر قرآن و حدیث میں کیا گیا ہے جنہوں نے دین کی اشاعت و فروغ میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔

داعی کے لیے ضروری اوصاف

شیخ ابن تیمیہؒ نے لکھا ہے کہ دعوت دینے والے (داعی) کے لیے خواہ وہ مرد ہیں یا عورت، تین اوصاف کا پایا جانا از حد ضروری ہے۔

  1. علم
  2. نرمی
  3. صبر

داعی اور مبلغ خواتین کے لیے علم کا حاصل کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ماں کی گود سے دعوت و تبلیغ کا آغاز ہوتا ہے۔ اگر عورت تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ نہ ہو تو وہ معاشرے کو اچھے افراد مہیا نہیں کرسکتی۔ عورت ہی ایسے مرد پیدا کرکے ان کی تربیت کرتی ہے جن سے مستقبل کا معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جب عورتیں اصلاح پذیر ہوئیں تو ان کی آغوش سے ہی وہ نسل نو نکلی جس نے پوری دنیا میں اپنی اخلاقی، علمی اور فوجی فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیئے۔

قرآن کی روشنی میں خواتین کا دعوتی کردار

قرآن کریم میں بھی خواتین کے دعوتی کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر

’’اور اہل ایمان مرد اور اہل ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔‘‘

(التوبة، 9: 71)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کثرت ازواج کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دعوتی مشن کی کامیابی کے لیے یہ شادیاں کی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات نے دعوت و تبلیغ کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دیا۔

حدیث رسولؐ کی روشنی میں مبلغ و داعی خواتین

بے شمار احادیث مبارکہ سے بھی ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دین کی ترویج و اشاعت میں خواتین کا کردار کتنا اہم اور ضروری ہوتا ہے۔

حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’دنیا بھر کی عورتوں میں صرف چار کے فضائل جاننا تیرے لیے کافی ہے۔ وہ مریم علیہا السلام، خدیجہ بنت خویلد زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آسیہ بنت مزاحم (زوجہ فرعون) ہیں۔‘‘

(کتاب المناقب)

اس حدیث پاک کے مطابق تمام مبلغ و داعی خواتین کے لیے ان چار خواتین کا کردار قابل تحسین و اتباع ہے۔ ان چار خواتین کا کردار ہر دور، ہر امت اور ہر نسل میں نمایاں حیثیت کا حامل رہا ہے۔ ذیل میں چند اہم خواتین کا دعوتی کردار پیش کیا جاتا ہے۔

حضرت خدیجہ بنت خویلدؓ کا دعوتی کردار

امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حضرت خدیجہ بنت خویلد وہ پہلی زوجہ رسول تھیں جنہوں نے کفرو شرک سے آلودہ ماحول میں بلند ہونے والی صدائے حق پر سب سے پہلے لبیک کہا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت ایمان کو دل و جان سے قبول کرنے کی سعادت عظمیٰ حاصل کی انہوں نے ساری زندگی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرب میں رہ کر دین اسلام کی خدمت کی اور اپنے اخلاق عالیہ سے ایسے روشن مینار قائم کیے جن کی نورانی شعاعوں سے قیامت تک آنے والی خواتین رہنمائی حاصل کرتی رہیں گی۔ فروغ و اشاعت اسلام کے لیے سیدہ خدیجہؓ نے اپنا سارا مال و دولت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان کردیا بلکہ خود کو بھی اس عظیم فریضہ کے لیے وقف کردیا۔

سیدہ عائشہؓ کا دعوتی کردار

سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’میرا آدھا دین عائشہ کی وجہ سے محفوظ ہوگا۔‘‘

حضرت عائشہؓ وہ معزز خاتون اور زوجہ رسول ہیں جنہوں نے (2000) دو ہزار سے زائد احادیث روایت کی ہیں جو بے شمار معاشرتی مسائل اور الجھنوں کو سلجھانے کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ سیدہ عائشہؓ سے بے شمار صحابہ کرامؓ نے حدیث رسول کا علم حاصل کیا ہے۔ مستند روایات کے مطابق حضرت عائشہؓ آٹھ ہزار سے زائد صحابہ کی استاد تھیں۔

سیدہ حفصہ بنت عمر فاروقؓ کا دعوتی کردار

دعوت و تبلیغ کے باب میں حضرت حفصہ بنت عمر فاروقؓ کا نام بھی سر فہرست ہے نکتہ آفرینی، زور بیان اور فصاحت و بلاغت میں ان کا خاندان ایک امتیازی مقام رکھتا تھا۔ حضرت حفصہؓ کو یہ تمام اوصاف و خصوصیات ورثہ میں ملے تھے وہ لکھنا، پڑھنا جانتی تھیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ظاہری حیات میں ہی قرآن کریم کی تمام کتابت شدہ اجزاء یکجا کرکے حضرت حفصہؓ کے پاس رکھوائے تھے۔ عہد عثمانی میں بھی انہی نسخوں کی نقول حضرت عثمانؓ کی مہر کے ساتھ تمام علاقوں میں بھیجی گئی تھیں۔ اس طرح قرآن کی ترتیب و تدوین اور حفاظت کا سہرا بھی انہی کے سر رہا ہے۔

میدان جنگ میں بھی عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ نظر آتی ہیں۔ جہادی کوششوں میں حضرت ام عمارہؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت عطیہؓ، حضرت ربیع بنت معوذؓ، حضرت صفیہؓ اور دیگر بے شمار خواتین شامل ہیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ دعو ت و تبلیغ میں خواتین نے اتنا اہم کردار ادا کیا ہے کہ بہت سے جید صحابہ کرامؓ بھی خواتین کی دعوت سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوئے جن میں حضرت عمر فاروقؓ سر فہرست ہیں آپ اپنی بہن کی دعوت پر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ حضرت عثمان غنیؓ سعدی بنت کریز کی دعوت پر ایمان لائے، حضرت عکرمہ بن ابی جہل اپنی بیوی ام حکیم کی کوشش سے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔

حضرت ام سلیم کا دعوتی کردار

’’الطبقات الکبریٰ‘‘ میں ایک اور خاتون صحابیہ ام سلیم کی دعوت و تبلیغ کا جو انداز بیان ہوا ہے وہ قابل تحسین ہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت طلحہؓ نے ام سلیم کو نکاح کا پیغام بھجوایا تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے لیے ایک مشرک سے شادی کرنا درست نہیں اے ابوطلحہ! کیا آپ کو اس بات کا علم نہیں کہ جن معبودوں کی آپ پرستش کرتے ہیں انہیں فلاں قبیلہ کے بڑھئی نے چھیل کر بنایا ہے اور اگر ان کو آگ میں جلائو تو جل کر راکھ ہوجائیں۔ مزید کہا کہ اگر آپ کلمہ پڑھ لیں تو میرے لیے آپ کا قبول اسلام ہی حق مہر ہے۔

حضرت زینبؓ بنت علیؓ کا دعوتی کردار

اسی طرح حضرت زینب بنت علیؓ کا کردار کیسے بھلایا جاسکتا ہے جن کی تربیت آغوش مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہوئی تھی۔ آپ کاروان کربلا کی وہ باکمال و بے مثال معرکہ کربلا کے دل خراش اور روح کو زخمی کردینے والے ماحول میں، اسیران کربلا کے سفر کوفہ و شام میں ہر قدم اور ہر موڑ پر آپؓ کا کردار بلندی و عظمت کا حامل نظر آتا ہے۔ ہر مقام پر آپ دین مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافظت اور اشاعت و فروغ کے لیے سر بکف نظر آتی ہیں۔ سیدہ زینبؓ ہی وہ ہستی ہیں جو صرف ماں، بہن، بیٹی کے کردار کا نام نہیں بلکہ ایک ایسے مبلغ و داعی کے روپ میں جلوہ گر ہوتی ہیں جن کے لاتعداد کرداروں کو ایک سانچے میں ڈھالتے ہوئے دین حق کے فروغ و اشاعت اور سربلندی میں عورت کے کردار کی وضاحت کی ہے۔

دور حاضر میں خواتین کے دعوتی کردار کی ضرورت

درج بالا تمام خواتین اور ان جیسی اور بے شمار داعی و مبلغین خواتین کے کردار آج کے دور میں مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بطور داعی و مبلغ عورت کا کردار پوری کائنات میں اہمیت کا حامل ہے لیکن نفاذ اسلام کے اس عمل کو اپنی ذات سے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر خواتین صاحب علم و عمل ہوں اور قرآن کریم کی ابدی تعلیمات کو اپنی زندگی میں شامل کرلیں تو پھر معاشرے کو امام حسنؓ و حسینؓ، امام اعظم ابو حنیفہؒ اور امام الاولیاء سید عبدالقادر جیلانیؒ جیسے بیٹے نصیب ہوتے ہیں۔ آج کے پرفتن دور میں ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین اپنے علم و عمل میں نکھار پیدا کریں۔ اپنے کردار کو سیدہ کائنات فاطمۃ الزہرائؓ کے اوصاف سے مزین کریں۔ اپنی شخصیت کو اسلام کی ابدی تعلیمات کے مطابق سنواریں۔ دعوت و تبلیغ کو اپنی ذات سے شروع کرکے پورے معاشرے میں پھیلائیں تاکہ ایک فلاحی اسلامی معاشرہ قائم ہو۔ نفاذ اسلام کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ہمارا یقین روز آخرت پر ایسا ہو کہ اس کے اثر سے عملی زندگی تبدیل ہوکر رہ جائے کہ عصر حاضر میں خواتین میں اصلاح احوال کے جس مشن کو لے کر چل رہی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس دور پرفتن میں اگر آج کی عورت اپنے دین و ایمان میں مضبوطی اور اپنے بچوں کی صحیح خطوط پر تربیت کرنا چاہتی ہے تو وہ اس عظیم مشن کا حصہ بن کر اسلام کی خدمت کرسکتی ہے۔ منہاج القرآن ویمن لیگ اپنے 31 ویں یوم تاسیس پر صدہا مبارکباد کی مستحق ہے۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جنوری 2020ء

تبصرہ