ام حبیبہ اسماعیل
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو بنیادی حقوق ودیعت کیے انہیں میں اُسے ایک آزاد انسان پیدا کرنا بھی شامل تھا لیکن جیسے جیسے معاشرہ منازل طے کرتا چلا گیا انسان نے ایک دوسرے سے ہی یہ بنیادی حق سلب کر لیا، یہی صورتحال عورتوں کے ساتھ پیش آئی عورت کے سماجی و معاشرتی مقام کے حوالے سے مختلف معاشرے و مذاہب ابہام کا شکار رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ دنیا میں مردوں کے برابر یا اس سے زیادہ تعداد کی حامل عورت اپنے حقوق کیلئے جنگ لڑتی چلی آ رہی ہے اسی ابہام کی وجہ سے ماضی میں عورتوں کے ساتھ جوناروا سلوک روا رکھا گیا اس کے سبب عورت سب سے مظلوم طبقہ شمار ہونے لگی پھر جب عورت پر مظالم کی انتہا ہو گئی تو عورت نے اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کی جس میں سب سے زیادہ زو ر آزادی پر دیا۔ عورت کے نعرہ آزادی کے پیچھے جو حالات کار فرما تھے اُن کا اندازہ مختلف معاشروں میں عورت کی حیثیت سے لگایا جا سکتا ہے سوائے اسلام کے کسی مذہب یا معاشرے نے عورت کی حیثیت کو واضح نہیں کیا اسی لیے آزادی نسواں کا نعرہ مغرب سے بلند ہوا۔ یہ بات بھی مسلم ہے کہ عورت معاشرے کا ایک بنیادی رکن ہے اور ہر وہ معاشرہ جو ترقی کی منازل طے کرنا چاہتا ہے اُس کیلئے ضروری ہے کہ وہ عورت کی حیثیت متعین کر لے، یورپ میں عورتوں کے حقوق اور بعد ازاں آزادی نسواں کیلئے لگائے جانے والے نعرہ میں یورپ کے صنعتی انقلاب نے اہم کردار ادا کیا۔ یورپی معاشرہ جس میں کلیسائی نظام اپنی بدترین صورت میں موجود تھا، جہاں بنیادی حقوق کا استحصال کیا جا رہا تھا وہاں اب حقوق، آزادی اور مساوات انسانی کا نعرہ بلند ہوا ٰیہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ یورپ میں صنعتی انقلاب سے قبل عورت تو ایک طرف، مرد بھی بنیادی حقوق سے محروم تھے اب جب منظر نامہ میں تبدیلی آئی ہر فرد اپنے حق کیلئے کھڑا ہوا تو عورت کے حقوق کے لئے بھی راہیں کھلتی چلی گئیںاوریہاں سے شخصی آزادی کا نعرہ بلند ہوا۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری انقلاب فرانس کے حوالے سے اپنی کتاب’’ اسلام میں انسانی حقوق‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’فرانس میں فرانسیسی شہریوں کو بنیادی حقوق اور شہری آزادی کی فراہمی کا اعلان 26اگست1789ء کو انقلاب فرانس کے ساتھ ہی فرانس کی قومی اسمبلی کے ڈیکلریشن برائے شہری و انسانی حقوق میں دیا گیا تھا جس میں اس ا مر پر زور دیا گیا کہ ’’انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں اور وہ اپنے حقوق میں آزاد اور برابر ہیں‘‘ ان حقوق کی شناخت، آزادی و حریت، جائیداد مساوات، اخوت، تحفظ اور ظلم وجبر کی مزاحمت کے حوالے سے کی گئی ’’حریت‘‘ کی تعریف میں بلا روک ٹوک تقریر، اجتماع، مذہبی آزادی اور یک طرفہ گرفتاری اور حراست سے آزادی کو شامل کیا گیا ہے۔ ‘‘اس کے بعد حقوق کی جو جنگ شرو ع ہوئی اُس میں عورتوں نے ہر صورت مردوں پر بازی لینے کی کوشش کی۔
مولانا مودودی اپنی کتاب پردہ میں رقمطراز ہیں:
’’پہلی جنگ عظیم میں یورپ اور امریکہ کے لاکھوں مرد مارے گئے اور اپنے پیچھے لاکھوں عورتیں چھوڑ گئے جنہیں انتہائی مصائب و شوائد سے دو چار ہونا پڑا اب نہ کوئی سہارا تھا اور نہ کوئی سربراہ جن کی حفاظت میں زندگی بسر کر سکتیں جو لوگ ان کے لیے زندگی کا سہارا تھے ان میں سے کچھ تو مارے گئے تھے اور کچھ عمر بھر کے لئے معذور ہو گئے تھے کچھ ایسے تھے کہ جنہیں خوف، اعصابی کھچاؤ اور زہریلی گیسوں نے ہمیشہ کیلئے ناکارہ بنا دیا تھا۔ ‘‘
اسی ضمن میں سید جلال الدین عمری لکھتے ہیں:
عورت کو آزادی کے اس مرحلے تک پہنچانے میں تاریخی طور پر وقت کے حالات نے بھی ساتھ دیا جس وقت وہ مرد کے پنجہ ستم سے رہائی کیلئے کوشاں تھی اس وقت مغرب میں بڑی تیزی سے صنعتی انقلاب آرہا تھا۔ اس انقلاب نے عورت کی جدوجہد آزادی کو کامیابی کی راہ پر لگا دیا وہ اس سے پہلے گھر سے بغاوت کرنا چاہتی تھی تو اُسے نہیں معلوم تھا کہ گھر سے باہر وہ کیا کرے گی اور زندگی کے کس نقشے کو اختیار کرے گی۔ اس انقلاب نے اس کے سامنے گھر سے باہرنکلنے کیلئے ایک ایسا نقشہ پیش کیا جو خانگی زندگی سے زیادہ حسین تھا اور جس کے ذریعہ وہ غلامی کی زنجیر کو توڑ سکتی تھی، اس نئے نقشے کو پا کر وہ جو کبھی ماں باپ اور شوہر کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتی تھی اُن سے بغاوت پر آمادہ ہو گئی کیونکہ اب وہ کسی کی دست نگر نہیں تھی اب اس کیلئے ہر طرف رزق کے دروازے کھلے تھے۔ ان تصورات نے معاشرے کی سوچ میں بھی تیزی سے تبدیلی رونما کی۔ یورپ کی تحریک آزادی نسواں کے اثرات سے مسلم ممالک بھی محفوظ نہ رہ سکے اور مغربی خواتین کی طرح مسلم خواتین آزادی نسواں کا نعرہ بلند کرنے لگیں جبکہ اسلام میں پہلے سے ہی خواتین کے جامع حقوق موجود تھے اور مسلمان خواتین اُن حقوق سے بہت حد تک مستفید بھی ہو رہی تھیں۔
اسی ضمن میں خواتین کے حقوق کے لئے منعقدہ مختلف کانفرنسز میں مسلمان خواتین رہنماوں نے بھی شرکت کی۔ بیجنگ میں 2000ء میں منعقدہ کانفرنس کی چیئر پرسن اس وقت پاکستان کی وزیر اعظم تھیں۔
حیثیت نسواں کو لیکر ایک طرف جب آزادی نسواں کے ایجنڈا پر مبنی کانفرنسز ہو رہی تھیں تو دوسری طرف اس ایجنڈا کی مخالفت میں ایک طبقہ عورت کو جائز معاشرتی مقام دینے سے بھی انکاری تھا۔ ایسے میں شدت سے خواتین کے ایک ایسے فورم کی ضرورت تھی جو اسلام کی واضح تعلیمات کے مطابق عورت کی عظمت کی بحالی کے لئے متوازن کردار کا حامل ہو۔ تحریک منہاج القران کے بانی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ اور احیائے اسلام کے عالمگیر مقصد کے حصول کی جدوجہد میں خواتین کوخصوصی حیثیت اور مقام دیا اور اسلامی تہذیب کی درخشندہ روایت کو زندہ کرنے لیے فکری و نظریاتی اور علمی و عملی جدو جہد میں خواتین کو شریک کار بنانے کے لئے 5 جنوری 1988 کو منہاج القرآن ویمن لیگ کی بنیاد رکھی۔ آپ نے اسلام کی تعلیمات کی رو سے بتایا کہ اسلامی معاشرہ حقوق و فرائض کے امتزاج سے نمو پاتا ہے۔ مرد وعورت معاشرے کے اہم جزو ہیں او ر اسلام نے دونوں کی حیثیت کو الگ الگ متعین کیا ہے۔ اسلام حق پر زور دیتاہے لہذا معاشرے کا ہر فرد اگر اپنے ذمے فرائض کو ادا کرے تو لازمی طور پر دوسرے کے حقوق ادا ہو جائیں گے۔ لہذا مر د اور عورت اپنے ذمے فرائض کو ایمانداری سے انجام دیں تاکہ معاشرہ میں توازن قائم ہو سکے۔ نیز موجودہ صدی میں امر بالمعروف و نہی عن المنکرکیلیے بپا کی جانے والی ہمہ گیر عالمی تحریک میں دورزوال کو درپیش چیلنجز کے پیش نظر خواتین کو انکی ذمہ داریوں کا شعوردینا اور معاشرے میں ان کا اصل مقام دلانا بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ بد قسمتی سے دینی خدمت کے حوالے سے مختلف سطحو ں پر ہونے والی جد و جہد اور اس میدان میں سر گرم عمل مختلف جماعتوں، تنظیموں اور اداروں کے عمومی مزاج، مطمع نظر، دائرہ کار اور طریق کار میں خواتین کے کردار کو نظر انداز کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے کی سیاسی و اقتصادی، سماجی و معاشرتی، تہذیبی و ثقافتی اور فکری و عملی زندگی میں پائے جانے والے اصلاح طلب پہلوؤں سے انکی سعی و کاوش کی کوئی چھاپ دکھائی نہیں دیتی۔
منہاج القرآن ویمن لیگ کے قیام کے مقاصد و اہداف:
- خواتین میں فکری و نظریاتی، علمی و عملی اور دینی و اخلاقی شعور بیدار کرنا اور انہیں خدمت دین کے فروغ کیلئے اہم کردار ادا کرنے کے قابل بنانا۔
- خواتین کو سیدہ فاطمہ الزہراؓ اور سیدہ زینب ؓ کی سیرت کا عملی پیکر بنا نے کے لیے ان میں تربیتی و اصلاحی، فکری، عملی اور علمی انقلاب کی روح پھونکنا۔
- خواتین میں قوم اور ملت اسلامیہ کے مسائل، چیلنجز اور تقاضوں کے متعلق شعور بیدار کرنا اور مصطفوی انقلاب کے لیے ایک پلیٹ فارم پر منظم کرنا۔
- نئی نسل کی تربیت اور شخصیت سازی جدید انداز میں قدیم اسلامی اقدار کے مطابق کرنا۔
- خواتین کے حقوق کی بحالی اور معاشی و معاشرتی مسائل کے حل کے لئے تعلیمی و فلاحی ادارہ جات کا قیام تاکہ متاثرہ، غریب اور نادار خواتین کو ہنر مند بنا کر باعزت زندگی گزارنے کے اہل بنا یا جا سکے۔
- موثر خواتین کو خود غرضی اور بے حسی کے تنگ حصار سے نکال کر اجتماعی فلاحی جدو جہد میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرنا۔
خواتین کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق معاشرے میں اپنا مفید کردار ادا کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہیاکیا گیا۔ منہاج القرآن ویمن لیگ معاشرے میں عورت کے شکست خوردہ تشخص کو بحال کرنے میں بنیادی کردار ادا کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ویمن لیگ کے تحت دنیا بھر میں خواتین اسلامی اور جدید تعلیمات کے تناظر میں خدمت دین کا فریضہ سر انجام دے رہی ہیں۔
خواتین کے لیے تعلیمی اداروں کا قیام:
معاشرے میں جاری قدیم و جدید تصورات کو متوازن شکل دینے کے لیے ایسے تعلیمی ادارہ جات کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں دینی علوم کے ساتھ ساتھ خواتین کو جدید علوم سے بہرہ ور کر کے معاشرہ میں اصلاح احوال کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اس نظریے کے تحت کہ امت مسلمہ میں بیداری شعور اور اصلاح احوال خواتین کی تعلیم و تربیت کے بغیر ممکن نہیں؟؟؟
پیشہ ورانہ اور عائلی زندگی میں توازن:
آزادی نسواں کے تحت تباہ ہونے والے خاندانی نظام سے مسلم معاشرے کو بچانے کے لیے ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اسلام میں خواتین کے کردار سے مسلم خواتین کو روشنا س کروایا کہ جب تک عورت پیشہ وارانہ اور عائلی دونوں حیثیتوں میں توازن قائم نہیں کرے گی وہ معاشرے کی ترقی میں حصہ نہیں لے سکتی۔ مغرب معاشرہ اسلام میں خواتین کے کردار پر قدامت پسندانہ نظریہ رکھتا ہے اور قدامت پسند مذہب ہونے کا الزام لگاتا ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے خواتین کو تحریک منہاج القرآن میں نمایاں نمائندگی دیتے ہوئے ویمن لیگ کا پلیٹ فارم دیا جس کا مقصد دنیا میں خواتین کے کلیدی کردار کو متعارف کروانا ہے۔ حضور اکرمa کے اسوہ سے ثابت ہے کہ آپ ریاستی اور عسکری معاملات میں خواتین کی رائے کو اہمیت دیتے اور خواتین غزوات میں بھی شر کت کرتیں لہذا اسلام عورت کو معاشرے کا جزو لا ینفک بنانے کا درس دیتا ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا معاشرے کی خواتین کو ان کے حقیقی مقام سے روشناس کروانے کا نتیجہ ہے کہ آج منہاج القرآن ویمن لیگ کے پلیٹ فارم سے یونٹ اور گھروں کی سطح پر خواتین معاشرے میں اصلاح احوال امت اور تجدیداحیائے دین کا فریضہ سر انجام دے رہی ہیں جن میں بڑا طبقہ عام گھریلو خواتین پر مشتمل ہے۔
بلاشبہ منہاج القرآن ویمن لیگ خدمت دین، اصلاح احوال، تربیت نسواں اور عصمت نسواں کی بحالی کے سلسلے میں کلیدی کردار ادا کرنے پر اپنے 31 ویں یوم تاسیس پر مبارکباد کی مستحق ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جنوری 2020ء
تبصرہ