اسلام اور معاشی استحکام

سمیہ اسلام

اسلام بنی نوع انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا دین ہے۔ یہ تمام کا تمام حق ہے اور اسے اللہ بزرگ و بر تر کے پسندیدہ دین ہونے کا اعزاز حاصل ہے خود اللہ رب العزت نے فرمایا:

إِنَّ الدِّینَ عِندَ اللَّهِ الإِسْلاَمُ.

"بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔ "

یہ طریقہ حیات اپنے اندر مکمل ضابطہ حیات اور ہر شعبہ زندگی کے جامع، واضح اور قابلِ عمل قواعد و ضوابط لیے ہوئے ہے۔ یہ ایک طرف عقائد و عبادات کی نشاندہی کرتا ہے تو دوسرے طرف معاملات کے شعبہ میں مکمل ہدایات فراہم کرتا ہے۔ معاملات کے شعبہ میں اقتصادیات کا شعبہ بڑی اہمیت کا حامل ہے اس لیے اسلا م نے اس شعبہ سے صرفِ نظر نہیں کیا بلکہ معاشیا ت میں اس کے بنیادی تصورات و اصول دوسرے معاشی نظاموں سے مختلف ہیں۔ یہ افراط و تفریط کو رد کرتے ہوئے اعتدال کا راستہ دکھاتا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے جابجا معیشت کا ذکر کیا ہے۔ سورۃ الاعراف میں ارشاد فرمایا:

وَلَقَدْ مَکَّنَّاکُمْ فِی الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیهَا مَعَایِشَ.

’’اور بیشک ہم نے تم کو زمین میں تمکن و تصرف عطا کیا اور ہم نے اس میں تمہارے لیے اسبابِ معیشت پیدا کیے۔‘‘

اسلام ہی وہ دین ہے جو معاشی جہدوجہدکا ایک ایسا نظام قائم کر سکتاہے جو مادّی ترقی اور روحانی ترقی میں ایسی ہم آہنگی پیداکردے گا جس کی مثال ساری تاریخ انسانی میں سوائے نظام اسلامی کے کہیں نہیں مل سکتی ۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے ساتھ اس کے دیے ہوئے معاشی نظام کو نافذ کر کے بھی دکھایا جو کہ اس قدر مضبوط اور مستحکم نظام تھا کہ آج بھی اس کی مضبوطی اسی شد ومد کے ساتھ قائم و دائم ہے۔ اگر کوئی ریاست آج بھی اس کو اپنا لے تو وہ ریاست مدینہ کی مانند نہ صرف معاشی ترقی بلکہ معاشی استحکام بھی حاصل کر سکتی ہے۔

اسلامی فکر اور معاشی فکر صدیوں سے انسانی زندگی کی آبیاری کر رہے ہیں مگران دھاروں کا ملاپ جس طرح بیسویں صدی میں ہوا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ معاشی فکر پر اب جو کتابیں لکھی جا رہی ہیں وہ ابن خلدون کے اضافوں کا اعتراف کرتی ہیں جو آدم اسمتھ سے تقریباً 400 سال پہلے گزرے تھے۔ معاشیات کی نسبت سے اس علم کا امتیاز یہ ہے کہ انسان کی معاشی زندگی کو سمجھنے اور اسے سدھارنے، دونوں کاموں میں اس بصیرت سے بھی کام لیتا ہے جو ہدایت الہٰی سے حاصل ہوتی ہے۔

انسانوں کی اکثریت معاشی کشادگی اور خوشحالی کی متمنی ہے اور لوگوں کی اکثریت کی مصروفیات اور مستقبل کی خواہشات کا بہت زیادہ تعلق معاشی استحکام کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ بہت سے لوگ معیشت کو بہتر بنانے کے لیے بہت تگ و دو کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کو زندگی بھر وہ معاشی کشادگی حاصل نہیں ہوتی جس کے وہ متمنی ہوتے ہیں ۔ اس کے بالمقابل بہت سے لوگ خوشحالی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ بعض لوگ معاشی کشادگی کے لیے حرام اور ناجائز راستے کو اختیار کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ جبکہ جن لوگوں کے دلوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا خوف ہوتا ہے وہ اپنی خواہشات اور تمناؤں کے باوجود رزقِ حلال کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ حصولِ رزق کے حوالے سے سب سے پہلی بات جس کو ذہن نشیں کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ تمام مخلوقات کو رزق فراہم کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ رب العزت کی ہے۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے:

وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّهِ رِزْقُهَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا کُلٌّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ.

"اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اللہ (کے ذمہ کرم )پر ہے اور وہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ کو اور اس کے امانت رکھے جانے کی جگہ کو (بھی)جانتا ہے، ہر با ت کتابِ روشن (لوحِ محفوظ)میں (درج)ہے۔"

(هود: 6)

اسلام ہر فر د کو شریعت کے حدود میں رہ کر اپنی روزی کمانے کا حق دیتا ہے تاہم اس آزادی کا تصور ذمہ داری کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ ہر شخص اپنے پیشے میں حلال و حرام کے مابین فرق کرسکتاہے۔ اسلام نہ ذاتی ملکیت کے خلاف ہے نہ ہی نفع کمانے سے منع کرتاہے۔ اسلام کا مطمع نظر معاشی عدل ہے۔ جب سوسائٹی عیش وعشرت میں مبتلا ہوکر فضول خرچیاں نہ کریں بلکہ اپنی اضافی دولت کو غریبوں اور محروموں کے تعاون میں لٹائیں گے توایک محنتی، بے غرض اورایماندار معاشرہ میں ہمیشہ دولت میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اسلامی تاریخ بشمول ہندوستان کا مسلم دور ِحکومت، ایسی مثالوں سے مزین ہے کہ وقف کردہ جائیدادوں کے ذریعے اسکول، ہسپتال،دوسرے سماجی اور رفائے عام کے ادارے بنائے گئے۔ ہمارا مذہب دوقسم کے انسانوں پر رشک کر نے کا حکم دیتا ہے۔ ایک وہ جس کو اللہ قرآن و دین کا علم عطاکیا ہو اوروہ اسے دوسروں تک پہنچاتا ہو۔

علامہ اقبال ایک عظیم فلاسفر، شاعر اور دانشور تھے جن کی شاعری اور افکار آج بھی ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں:

"سیاسی اورمعاشی استحکام کے بغیر خودی کی حفاظت ممکن نہیں"۔

معاشی استحکام غلبہ دین کی جدوجہدکے لئے ایندھن کا کام کرتاہے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اس دین کوغالب کر کے رہے گا بس دیکھنا یہ کہ کون اس میں خلوصِ نیت سے حصہ لیتا ہے۔

"وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدایت اوردین ِحق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنس دین پرغالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے"۔

(الفتح: 28)

اگر کوئی قوم معاشی استحکام حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے اسلام کے دیے ہوئے سنہری اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ غربت جو کہ ملکی معیشت کے استحکام کے لیے ناسور بنی ہوئی ہے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ اسلام کے نزدیک غریبی محض ایک سماجی روگ ہے لیکن ایساروگ بھی نہیں جس سے پیچھاچھڑانا سخت دشوا ر ہو، بلکہ جس طر ح عام جسمانی امراض کا علاج مناسب تدابیر سے ہوجاتاہے۔ اگر ملت کے صنعت کار اور سرمایہ کار اور دوسرے با صلاحیت تاجر اپنی جد وجہد میں ملت کے پچھڑے ہوئے افر اد اور وسائل سے محروم نوجوانوں کو اپنے ساتھ ساتھ اونچا اٹھانے کا منصوبہ بنائیں اورساتھ ہی عدل احسان کی روش اختیار کریں تو یہ طرز عمل ملت کے متعدد مسائل کا حل بھی فراہم کرے گا اور ایک ایسا سماج بھی وجود پذید ہوگا جو انسانی اور اخلاقی قدروں پر استوار کیاجائے گا۔ اس کے اثرات ملک کے عام سماج پر بھی پڑیں گے۔ ہم اپنے ارب پتیوں اورکھرب پتیوں کو سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوراقوالِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں اس کے لئے تیار کریں کہ وہ دنیا کو خیر با دکہنے سے پہلے زیادہ سے زیادہ دولت راہِ خدا میں دے جائیں ۔ یہ احسان اورعد ل کی ایسی پکار ہے جو عام افراد کی مادی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ ان کو روحانی اوراخلاقی سکون سے بھی ہمکنار کرسکتی ہے۔ مسلمان نوجوان اس کشمکش میں فرنٹ لائن کاکردار اداکرنا ہو گا۔ جوبھی ہنر،کام یاپیشہ اختیارکریں اس میں اچھی طرح مہارت حاصل کرے تاکہ اپنے کام،پیشے اورمنصب کے ساتھ ساتھ پوراپوراانصاف کرسکیں اور جوبھی ذمہ داری سونپی جائے اسے اچھی طرح نبھا سکیں۔

موجودہ صدی میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ دنیا میں وہی قومیں حکمرانی کریں گی جو معاشی و اقتصادی طور پر مضبوط ہوں اور عالمی طاقتوں نے بھی یہ بات سمجھ لی ہے کہ اب دنیا کو لوہے کے ہتھیاروں سے نہیں بلکہ معاشی ہتھیاروں سے زیر کیا جاسکتا ہے۔ جاپان، فرانس، سعودی عرب، جرمنی، مراکو اور ملائیشیاء وغیرہ کم فوجی طاقت رکھنے کے باوجود مضبوط معاشی طاقت ہیں اور اب تھائی لینڈ، بنگلہ دیش اوردیگر ممالک بھی اپنی معاشی سرگرمیوں سے مضبوط ہورہے ہیں۔ لہٰذا ثابت ہوتا ہے کہ آنے والے سالوں میں دنیا میں معاشی ترقی کوہی ترقی کا معیارسمجھا جائے گا۔

Business Management

حسنِ انتظام اور تدابیر کو معاشی ترقی میں بھی وہی اہمیت حاصل ہے جو سیاسی اورعسکری بر تری کے لیے لازم سمجھی جاتی ہے ۔ معاشی بہتری کے لئے حسنِ انتظام اور تدبر کو جدید اصطلاح میں Business Managementکہتے ہیں جو صنعت اورتجارت اورفرد کی معاشی بہتری میں سرمایہ سے کمتر اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ سرمایہ اہم ضرور ہے لیکن وہ اقدام نہیں ہے بلکہ انسانی کاوش اور اس کا حسن ِانتظام اور اس کی تدابیر اقدام ہیں۔

معاشی استحکام کی تعلیم و تربیت:

یہ دو ر مسابقت کا ہے ۔ یہاں جوتیزدوڑ سکتا ہے، وہ کامیاب ہوتا ہے۔ جو وسائل کواستعمال کرنے میں سب سے زیادہ زیر ک ہوتاہے وہ دولت بھی زیادہ کماسکتاہے، اس لئے ملّت اسلامیہ کوصرف دنیوی تعلیم حاصل نہیں کرناہے بلکہ اس کو تعلیم اور فنی مہارت کی اس دوڑ میں مسابقت بھی کرناہے تاکہ و ہ اپنے سے زیادہ توانا اورصحت مند گروہ کو اس اکھاڑے سے پچھاڑسکے۔

اسی مقصد کے لئے انٹرپرینرشپ کی تعلیم بزنس کی معلومات، مہارت اور تحریک پیداکرنے کیلئے مہیا کر ائی جانی چاہیے۔ انٹرپرینرشپ کے کو رسزکے بارے میں بیداری بہت کم ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی سطح پر مسلم چیمبر آف کا مرس اینڈ انڈسٹریزکاقیام عمل میں لایا جائے، ایمپلائزاسوسی ایشن، سیلف ہیلپ گروپس کی تشکیل، مزدوروں کی تنظیمیں بنائی جائیں ۔ انٹرپرینر شپ کی تربیت اور گائیڈنس کے اداروں کاقیام عمل میں لایا جائے،جوکہ بزنس کی پروجیکٹ رپورٹ تیار کرنے میں، بز نس کو ڈیولپ کر نے میں اور مفت مشاورتی خدمات فراہم کریں اورتیا ر شدہ مال کو بازارمیں فروخت کر نے میں مدد کریں۔ مختلف کورسز، سیمینارز، ورکشاپس، مخصوص طویل مدتی اور مختصر مدتی بزنس ڈویلپمنٹ تربیتی پروگرامز کے انعقاد کو ممکن بنایا جائے ۔ قرضہ حسنہ یا بلا سودی قرض سے غریب مسکین عوام کی مدد کی جائے تاکہ ان کو بینک سے یاکسی اورذریعے سے بھاری سود پر قرضے لینے کی ضرورت نہ پڑے بلکہ صنعت و تجارت اورتعلیم کے لئے قرضہ حسنہ دے۔

معاشی استحکام کیسے ممکن؟

معاشی بہتری اور استحکام کے لئے بڑے بڑے کارخانے، قیمتی مشینیں اوروسیع پیمانے پر کاروباراور خدمات فراہم کرنا ضروری ہیں ۔ جن کے لئے بہت زیادہ سرمایہ درکار ہوتا ہے، مگریہ ناگزیر شرائط نہیں ہیں کہ ان کے لئے بہت انویسٹمنٹ کرنا ہی لازم قرار پائے ۔ ایسی سیکڑوں مصنوعات ہیں جن میں نسبتاً نہایت قلیل سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلکہ ان مصنوعات کو بہتر طریقے سے چھوٹے چھوٹے کارخانوں میں بنا یا جاتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت اپنے عوام کو کاروبار کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرے اور ملک کا کو ئی ایک بھی فرد ایسا نہ جو ملکی معیشت کی ترقی میں اپنا حصہ نہ ڈالے، تب ہی ممکن ہے کہ ملک پاکستان معاشی ترقی کی راہ سے گزرتا ہوا معاشی استحکام کی منزل کی طرف گامزن ہو سکے۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، دسمبر 2019ء

تبصرہ