عابدہ قاسم
پاکستان سمیت دنیا بھر میں10 دسمبرعالمی انسانی حقوق کے دن ((World Human Rights Day کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جس کا بنیادی مقصددنیا بھر میں انسانوں کو قابل احترام مقام دینا،انسانی حقوق کی پامالی کی روک تھام،عوام میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے اور خصوصا خواتین کو ان کے بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں آگاہی کا شعور فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں اور خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنا ہے۔ انسانی حقوق کا عالمی دن اقوام متحدہ کی طرف سے عالمی سطح پرانسانی وقار برقرار رکھنے اور لوگوں میں انسانوں کے حقوق کے حوالے سے بیداری پیدا کرنے کی غرض سے منایا جاتاہے، اس خصوصی دن کے حوالے سے محکمہ انسانی حقوق حکومت پاکستان،ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان،تحفظ حقوق انسانی ایسوسی ایشن پاکستان اور دیگرادارے انسانی حقوق کے تحفظ کا شعور بیدار کرنے کے لئے تقریبات منعقد کرتے ہیں۔
انسانی حقوق پر بہت سی کتب لکھی جا چکی ہیں۔ عصرِ حاضر میں ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی انسانی حقوق پر لکھی گئی ’’اسلام میں انسانی حقوق ‘‘بہترین اور قابل مطالعہ کتاب ہے۔ ذیل میں بیان کردہ انسانی حقوق کے لئے اسی کتاب سے استفادہ کیا گیا ہے۔
اسلام میں انسانی حقوق:
انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کاتصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام، وقار اور مساوات پر مبنی ہے۔ حق کی پاسداری، انسانی معاشرے میں باہمی حقوق کا احترام اور اعلیٰ اقدار کاقیام و فروغ اسلامی تعلیمات کی بنیادی روح ہے۔ انسانی حقوق دورِ جدید کا اہم ترین موضوع ہے تا ہم اسلام دنیا کی وہ واحد تہذیب ہے کہ جس کے لئے انسانی حقوق ہرگز کوئی نیا تصور نہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاً.
’’اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا۔‘‘
(القرآن، 17: 70)
سب سے بنیادی حق زندگی کا ہے اسلام نے انسانی زندگی کے تقدس پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاط وَمَنْ اَحْیَاهَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاط
’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد انگیزی (کی سزا) کے بغیر (ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)۔‘‘
(القرآن، 5: 32)
انسانی حقوق کا عالمی چارٹر خطبہ حجۃ الوداع:
اسلام سے قبل تاریخ عالم کا جائزہ اس امر کو واضح کرتا ہے کہ مختلف اقوام وملل کے عروج و زوال اور انحطاط کے عمل میں حقوق انسانی کے احترام اور استحصال و استبداد کے کلچر کا مرکزی کردار رہا ہے۔ اسلام دین فطرت ہوتے ہوئے حقوق انسانی کی پاسداری اور احترام کی تعلیم دیتا ہے۔ باہمی حقوق کے احترام سے معاشرے میں امن و سکون اور محبت و مودت کو فروغ ملتا ہے لیکن حقوق کی پامالی کے نتیجہ میں نفرت،انتشار اور جنگ و جدل کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ سے پہلے انسانیت گمراہی و تاریکی کی اتھاہ گہرائیوں کا شکار تھی۔ انسانی حقوق کی حرمت پامال اور اور کسی کی عزت و آبرو محفوظ نہ تھی ہر طرف خوف،دہشت،اور استحصال کا راج تھا خوں ریزی،ظلم و ستم اور نہ ختم ہونے والی قبائلی و ملکی جنگوں نے انسانی عظمت و عصمت کو تار تار کر دیا۔خطبہ حجۃ الوداع میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانیت کی عظمت، احترام اورحقوق پر مبنی ابدی تعلیمات اور اصول عطا کئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی انسانیت نوازی اور تکریم انسانیت کی تعلیمات سے عبارت ہے۔ تاہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں انسانی حقوق کے تحفظ اور عملی نفاذ کے حوالے سے خطبہ حجۃ الوداع کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
1۔ مساوات انسانی کا تصور:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں واضح الفاظ میں اعلان فرمایا:
یا ایها الناس الا ان ربکم واحد وان اباکم واحد الا لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لاحمر علی اسود ولا اسود علی احمر الا بالتقوی.
’’اے لوگو! خبردارہو جاؤ کہ تمہارا رب ایک ہے او رتمہارا باپ (آدم علیہ السلام )ایک ہے۔ کسی عرب کو غیر عرب پر اور کسی غیر عرب کو عرب پرکوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی سفید فام کو سیاہ فام پر اور نہ سیاہ فام کو سفید فام پر فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ کے۔‘‘
(الازهری، محمد کرم شاه، ضیاء النبی، ج: 4، ص: 769)
انسانی معاشرہ افراد کے مابین موجود روابط پر مشتمل ایک ایسی سماجی اکائی ہے جو افراد کے مابین باہمی ذرائع و مقاصد کے رشتہ سے قائم ہوتی ہے۔ اسلام سے قبل کا معاشرہ طرح طرح کے معاشرتی عیوب اور نقائص کا شکار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعلیم کردہ انسانی حقوق کے تصور سے عرب معاشرہ ان اعلیٰ معاشرتی روایات سے بہرہ ور ہوا:
- تکریم انسانیت
- مساوات
- آزادی
- عدل
- رواداری
1۔ تکریم انسانیت:
جملہ انسانی حقوق کی بنیاد انسان کے اشرف المخلوقات ہونے پر ہے جب تک من حیث العموم شرف انسانیت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، انسانی حقوق کے احترام اور ان کی ایک نظام کے طور پر ادائیگی رو بہ عمل نہیں ہو سکتی۔ رنگ و نسل اور وطن و زبان کی بنیاد پر تمام معیارات بے معنی و بے وقعت قرار دیتے ہوئے ان تمام حوالوں کو اضافی و تعارفی قرار دیا گیا ہے۔
یٰٓـاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَـآئِلَ لِتَعَارَفُوْاط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اﷲِ اَتْقٰـکُمْط اِنَّ اﷲَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ.
اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بے شک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والاہے۔
(القرآن، 49: 13)
2۔ مساوات:
تکریم انسانیت کی تعلیم کا لازمی نتیجہ معاشرتی مساوات ہے۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ انسانی حقوق کے تصور نے عرب معاشرے کو مساوات کی وہ انقلاب آفریں تعلیم عطا کی جس سے نسلی و قبائلی برتری کے تمام بت پاش پاش ہو گے۔
وَلِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْاط وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ.
اور ہر ایک کے لیے ان کے اعمال کے لحاظ سے درجات (مقرر) ہیں، اور آپ کا رب ان کاموں سے بے خبر نہیں جو وہ انجام دیتے ہیں۔
(القرآن، 6: 132)
3۔ آزادی:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رب ذوالجلال کی وحدانیت کی تعلیم عطا کر کے انسانیت کو ہر نوع کی غلامی و بندگی سے ہمیشہ کے لئے آزادی عطا کر دی۔ اسلامی معاشرے میں ہر شخص کواپنے حقوق سے فائدہ اٹھانے کی پوری آزادی عطا کی گئی بایں شرط کہ اس کی آزادی سے کسی دوسرے فردِ معاشرہ کے حقوق اور شریعت کی مقرر کردہ حدودمتاثر نہ ہوں۔
4۔ عدل:
عدل کے بغیر کوئی بھی معاشرہ صحت مند انداز سے فروغ پذیر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس معاشرے میں انسانی حقوق کی کما حقہ ادائیگی ممکن ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عدل کا کثرت سے ذکر فرمایا۔ قرآن حکیم نے اکثر مقامات پر قیام عدل پر زور دیا :
قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ قف
فرما دیجیے: میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے۔
(القرآن، 7: 29)
5۔ رواداری:
جب تک کسی معاشرے میں برداشت اور رواداری کا رویہ موجود نہ ہو وہاں انسانی حقوق کے احترام کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ برداشت اور رواداری کا رویہ موجود نہ ہو وہاں انسانی حقوق کے احترام کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ برداشت اور رواداری ہی دوسرے افراد معاشرہ کے حقوق کے احترام کا جذبہ پیدا کرتی ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ہر سطح پر برداشت اور روادری کی تعلیم دی۔ انفرادی سطح پر رواداری کی اہمیت قرآن حکیم نے یوں بیان کی :
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِط وَاﷲُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ.
یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
(القرآن، 3: 134)
2۔ زندگی کا حق:
’’لوگو !تمہارے خون و مال اور عزتیں ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے پر قطعاحرام کر دی گئی ہیں۔ان چیزوں کی اہمیت ایسی ہی ہے جیسے اس دن کی اور اس ماہ مبارک (ذی الحجۃ) کی خاص کر اس شہر میں ہے۔‘‘
3۔حقوق کی ادائیگی کا حکم:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’قریش کے لوگو ایسا نہ ہو کہ اللہ کہ حضور تم اس طرح آؤ کہ تمہاری گردنوں پر تو دنیا کا بوجھ لدا ہواور دوسرے لوگ سامان ِ آخرت لے کر پہنچیں اور اگر ایسا ہوا تو میں خدا کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آ سکوں گا۔‘‘
4۔ نسلی تفاخرکا خاتمہ:
’’قریش کے لوگو ! خدا نے تمہاری جھوٹی نخوت کو ختم کر ڈالا اور باپ دادا کے کارناموں پر تمہارے فخر ومباہات کی کوئی گنجائش نہیں۔ ‘‘
5۔ مال کے تحفظ کا حق:
’’اگر کسی کے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ اس بات کا پابند ہے کہ امانت رکھوانے والے کو امانت پہنچا دے۔ ‘‘
6۔ معاشی استحصال سے تحفظ کا حق:
’’اب دور جاہلیت کا سود کوئی حیثیت نہیں رکھتا،پہلا سود جسے میں چھوڑتا ہوں عباس بن عبد المطلب کے خاندان کا سود ہے، اب یہ ختم ہو گیا۔‘‘
7۔ وراثت کا حق:
’’لوگو! خدا نے ہر حق دار کو اس کا حق خود دے دیا، اب کوئی کسی وارث کے لئے وصیت نہ کرے۔‘‘
8۔ لا قانونیت کا خاتمہ:
’’دور جاہلیت کا سب کچھ میں نے اپنے پاؤں تلے روند دیا ہے۔ زمانہ جاہلیت کے خون کے سارے انتقام اب کالعدم ہیں۔ پہلا انتقام جسے میں کالعدم قرار دیتا ہوں، میرے اپنے خاندان کا ہے۔ ربیعہ بن حارث کے دودھ پیتے بیٹے کا خون جسے بنو ہذیل نے مار ڈالا تھا اب میں معاف کرتا ہوں۔‘‘
9۔ معاشرتی شناخت کا حق:
’’ جو کوئی اپنا نسب بدلے گا یا کوئی غلام اپنے آقا کے مقابلے میں کسی اور کو اپنا آقا ظاہر کرے گا تو اس پر خدا کی لعنت ہو گی۔‘‘
10۔ ملکیت کا حق:
’’کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے کچھ لے، سوائے اس کے جس پر اس کا بھائی راضی ہو اور خوشی خوشی دے۔ خود پراور ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرو۔‘‘
11۔ خاوند اور بیوی کے باہمی حقوق:
’’عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اس کی اجازت کے بغیر کسی کو دے۔ دیکھو! تمہارے اوپر تمہاری عورتوںکے کچھ حقوق ہیں۔ اسی طرح ان پر تمہارے حقوق واجب ہیں۔ عورتوں پر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ اپنے پاس کسی ایسے شخص کو نہ بلائیں جسے تم پسند نہیں کرتے اور وہ کوئی خیانت نہ کریں،کوئی کام کھلی بے حیائی کا نہ کریں اور اگر وہ ایسا کریں تو خدا کی جانب سے اجازت ہے کہ تم انہیں معمولی جسمانی سزا دو اور وہ باز آ جائیں تو انہیں اچھی طرح کھلاؤ پلاؤ۔‘‘
12۔ خواتین کے حقوق:
’’عورتوں سے بہتر سلوک کروکیونکہ وہ تو تمہاری پابند ہیں اور خود اپنے لئے وہ کچھ نہیں کر سکتیں۔ چنانچہ ان کے بارے میں خدا کا لحاظ رکھو کہ تم نے انہیں خدا کے نام پر حاصل کیا اور اسی کے نام پر وہ تمہارے لئے حلال ہوئیں۔‘‘
13۔ قانون کی اطاعت:
’’میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر اس پر قائم رہے تو تم کبھی گمراہ نہ ہو سکو گے اور وہ خدا کی کتاب ہے اور ہاں دیکھو دینی معاملات میں غلو سے بچنا کہ تم سے پہلے کے لوگ انہی باتوں کے سبب ہلاک کر دئیے گئے۔‘‘
14۔ خادموں کے حقوق:
’’اپنے غلاموں کا خیال رکھو، ہاں غلاموں کا خیال رکھو انہیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو، ایسا ہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو۔ ‘‘
15۔ انصاف کا حق:
’’آگاہ ہو جاؤ!اب مجرم خود ہی اپنے جرم کا ذمہ دار ہو گا۔ آگاہ ہو جاؤ!اب نہ باپ کے بدلے بیٹا پکڑا جائے گا اور نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائے گا۔ ‘‘
16۔ اللہ کے حقوق:
’’لوگو!اپنے رب کی عبادت کرو،پانچ وقت کی نماز ادا کرو، مہینے بھر کے روزے رکھو،اپنے مالوں کی زکوٰۃ خوش دلی کے ساتھ دیتے رہو،اپنے خدا کے گھر کا حج کرو اور اپنے اہلِ امر کی اطاعت کروتو اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ ‘‘
خاتم الانبیاء سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مندرجہ بالاخطبہ حجۃ الوداع میں احترام انسانیت اور حقوق و فرائض کا جو فلسفہ پیش کیا ہے اس پر سختی سے عملد ر آمدکر کے ہی نہ صرف مسلمانان عالم بلکہ پوری دنیا مثالی اور پر امن معاشرے کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خطبے میں ارشاد فرمایاکہ میں تم میں دین اور ہدایت چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم ان کو پکڑے رہو گے کبھی گمراہ نہیں ہو گے بد قسمتی سے آج ہم قرآن و سنت سے دور ہو گئے ہیں اگر ہم اپنی موجودہ پستی و زوال کے اسباب پر غور کریں اور سوچیں کہ آج اہلِ ایمان ترقی کی دوڑ میںکیوں پیچھے ہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ ماضی کے مسلمان فاتح حکمران اور ان کی عظمت کی داستانیں ماضی کا حصہ بن گئی ہیں؟دراصل قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کا عروج قرآن اور سنت ِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کے باعث تھا۔
آیئے اب ہم عہد کریں کہ ہم قرآن اور سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رکھیں گے اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر انشاء اللہ حال کو ماضی سے بہتر اور مستقبل کو حال سے بہتر بنائیں گے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، دمسبر 2019ء
تبصرہ