ڈاکٹر فرخ سہیل
حضرت مریم علیہا السلام دائود علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ ان کے والد عمران اپنے دور میں بنی اسرائیل کے معزز امام تھے اور ان کی والدہ حنۃ بنت فاقود ایک نیک پرہیزگار،عابد و زاہدہ خاتون تھیں اور حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ کے اولاد نہیں تھی تو انہوں نے اللہ کے نام پر یہ نذر مانی کہ اگر ان کے ہاں اولاد ہوئی تو وہ اسے بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کردیں گی۔ جب حضرت مریم علیہا السلام کی ولادت ہوئی تو ان کی والدہ نے ان کا نام مریم رکھا۔ بہت سے مفسرین بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ ان کی پیدائش کے بعد کپڑے میں لپیٹ کر مسجد میں لے کر گئیں اور انہیں مسجد کے خداموں کے حوالے کیا تو ان کا آپس میں اس بات پر جھگڑا ہوگیا کہ کون اس کی کفالت کرے گا اس زمانے میں زکریا علیہ السلام نبی تھے انہوں نے فرمایا کہ میں اس کی کفالت کروں اور یوں اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کو مریم علیہا السلام کا نگران مقرر کیا۔
قرآن مجید میں حضرت مریم کے حوالے سے سورۃ آل عمران میں ارشاد ہوا کہ:
’’جب بھی زکریا علیہ السلام کمرے میں اس کے پاس جاتے تو اس کے پاس روزی پاتے، کہا اے مریم، یہ تیرے لیے کہاں سے آیا؟ کہا وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ یقینا اللہ جس کو چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے‘‘۔
(آل عمران: 37)
مفسرین کے مطابق زکریا علیہ السلام نے مریم کے لیے مسجد میں ایک مناسب جگہ مخصوص کردی تھی پس وہ وہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتیں اور اپنی ذمہ داریوں کے مطابق بیت المقدس کی خدمت پر مامور رہتیں۔ دن رات اللہ کی عبادت میں مشغول رہنے کی وجہ سے بنی اسرائیل میں ان کی عبادت ضرب المثل بن گئی۔
سورۃ الاعراف کے مطابق فرشتوں نے مریم علیہا السلام کو اس زمانے کی عورتوںپر منتخب کرلیا تھا اس طرح کہ بغیر باپ کے بچہ پیدا کرنے کے لیے منتخب کیا اور اسے خوشخبری دی کہ وہ بچہ شرافت والا نبی ہوگا۔ وہ لوگوں سے گہوارے میں کلام کرے گا اور اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلائے گا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ الانبیاء میں حضرت مریم کے ہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے حوالے سے فرمارہے ہیں:
’’اور وہ پاک دامن بی بی، جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور خود اس کو اور اس کے لڑکے کو تمام جہانوں کے لیے نشانی بنادیا۔‘‘
(الانبیاء: 98)
فرشتوں نے جب حضرت مریم کو یہ خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں چن لیا ہے اور انہیں پاکیزہ بیٹا عطا کرے گا جو باعزت مقدس نبی ہوگا اور معجزات کے ساتھ اس کی تائید کی جائے گی تو مریم علیہا السلام نے بن باپ کے بچے کی پیدائش پر تعجب کا اظہار کیا کیونکہ وہ شادی شدہ نہیں تو فرشتوں نے انہیں آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ جب کسی چیز کو بنانے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے۔ لہذا مریم علیہا السلام نے اللہ کے فیصلے کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کردیا۔ اللہ کی طرف سے توجہ اور اس کے فیصلے پر سر کو جھکادیا اور انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ یہ ان کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش ہوگی۔
حضرت مریم علیہا السلام جان چکی تھیں کہ لوگ ان پر بہتان لگائیں گے اس کی تصدیق نہیں کریں گے اور بچے کو دیکھ کر انہیں جھوٹا قرار دیں گے حالانکہ وہ اپنے زہد و تقویٰ اور پرہیزگاری کی وجہ سے بہت معروف تھیں اور ایک دینی اور نبوی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا وقت قریب آیا تو آپ ایک الگ دور افتادہ مقام پر آگئیں۔ اللہ کے حکم کے مطابق تازہ کھجوریں کھائیں اور پانی پیا اور حکم ہوا کہ اگر تو لوگوں کو دیکھے تو زبان، حال سے یا اشارے سے کہہ دے کہ میں نے رحمن کے لیے منت مانی ہے یعنی خاموش رہنے کی نذر مانی ہے اور جب مریم علیہا السلام اپنے بچے کے ساتھ اپنے علاقے میں واپس آئیں تو لوگوں نے کہا اے مریم بنت عمران یہ بچہ کہاں سے لائیں تو انہوں نے بچے کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ اس سے بات کرو یہ تمہارے سوال کا جواب دے گا تو حضرت عیسیٰ جو کہ اس وقت چند دن کے دودھ پیتے بچے تھے بول اٹھے:
’’کہا میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے اور اس نے مجھے برکت والا بنایا ہے۔‘‘
(مریم: 33)
حضرت وہب بن منبہ نے ذکر کیا ہے کہ جس دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اس دن مشرق و مغرب کے تمام بت منہ کے بل گر پڑے اور شیاطین اس وجہ سے بہتر حیران ہوئے حتی کہ ابلیس نے ان کو عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی خبر دی پھر شیاطین نے دیکھا کہ آپ اپنی ماں کی گود میں ہیں اور فرشتے ان کو گھیرے ہوئے ہیں، اس دن آسمان پر ایک عظیم ستارہ طلوع ہوا اور فارس کا بادشاہ اس کے ظاہر ہونے پر پریشان ہو۔ اس نے کاہنوں سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ کسی بڑے آدمی کی پیدائش کی بنا پر ہوا ہے تو اس نے اپنے قاصدوں کو سونا اور خوشبو کے تحائف کے ساتھ شام کی طرف روانہ کیا۔ جب وہ قاصد بادشاہ کے دربار میں آئے تو بادشاہ نے ان کے آنے کا مقصد دریافت کیا تو انہوں نے اپنا مقصد بتایا تو بادشاہ نے ستارے طلوع ہونے کے وقت کو معلوم کیا تو انہوں نے وہی وقت بتایا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا تھا۔ بادشاہ نے انہیں تحائف کے ساتھ عیسیٰ کی طرف روانہ کیا اور ساتھ اپنے چند خاص لوگوں کو بھی بھیجا کہ وہ واپسی پر اسے قتل کردیں تو مریم علیہا السلام کو جب معلوم ہوا تو وہ خفیہ طریقے سے آپ کو لے کر مصر میں آگئیں اور وہاں رہائش پذیر ہوئیں۔
بچپن ہی سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کرامات اور معجزات ظاہر ہونے لگے تھے۔ ابن عدی سے روایت ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام بچپن میں بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے تو بچوں کو کہتے کہ کیا میں تجھے بتائو کہ تیری ماں نے گھر میں تیرے لیے کیا چھپا رکھا ہے وہ کہتا ہاں بتائیں عیسیٰ علیہ السلام اسے بتاتے تو وہ اپنی ماں سے دریافت کرتا تو ماں پوچھتی کہ تجھے یہ خبر کس نے دی تو بچہ کہتا کہ عیسیٰ ابن مریم نے اس طرح لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ اگر تم اپنے بچوں کو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ کھیلنے کے لیے چھوڑو گے تو وہ تمہارے بچوں کو بگاڑ دے گا۔
عیسیٰ ابن مریم علیہا السلام اللہ کے برگزیدہ انبیاء میں سے تھے اور ایسے دور میں مبعوث ہوئے جب حکمت و طب کا فن عروج پر تھا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے ایسے معجزات عطا فرمائے جو بڑے بڑے حکماء و اطباء کی دسترس سے باہر تھے۔ کوئی ایسا حکیم نہیں ہوسکتا جو مادر زاد اندھے کو بینائی عطا کردے یا برص اور کوڑھ کے دائمی مریضوں کو شفا یاب کردے۔ اللہ نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو ایسی طاقت نہیں دی تھی کہ وہ کسی قبر سے مردے کو زندہ کردے لیکن عیسی ابن مریم کو اللہ تعالیٰ نے یہ قدرت بھی عطا فرمائی تھی۔
جب پروردگار نے عیسیٰ علیہ السلام پر ان براہین و دلائل کے ساتھ مبعوث فرمایا تو اکثر لوگ اپنے کفر و عناد اور گمراہی کی وجہ سے آپ کی اطاعت میں نہ آئے صرف چند افراد پر مشتمل ایک چھوٹی سی جماعت ہی آپ کی ممدو معاون بنی اور آپ کی بیعت کرتے ہوئے آپ کی مدد اور خیر خواہی کی۔ بغض و عداوت کی وجہ سے بنی اسرائیل نے آپ کے قتل کا ارادہ کیا اور بادشاہ وقت سے آپ کی شکایت کی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس طرح محفوظ رکھا کہ انہیں میں سے ایک آدمی کو عیسیٰ علیہ السلام کا ہم شکل بنادیا تو بنی اسرائیل کے ان حاسد شرپسندوں نے اسی ہمشکل کو سولی چڑھادیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اﷲُط وَاﷲُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ.
’’اور انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘
(آل عمران: 54)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے خاتم ہیں اور جب آپ نبی مبعوث ہوئے تو آپ خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور ان کو آگاہ کیا کہ بنی اسرائیل میں نبوت کا سلسلہ ان سے ختم ہوچکا ہے اور میرے بعد نبی امی تشریف لائیں گے وہ تمام انبیاء کے خاتم ہوں گے ان کا نام احمد ہوگا۔ وہ اسماعیل بن ابراہیم خلیل اللہ کے خاندان سے ہوں گے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام بہت نرم دل اور نرم کو صابر اور سادہ مزاج رکھتے تھے۔ ایک روایت ہے کہ جب عیسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھیوں کے پاس آئے تو آپ پر اون کا جبہ اور چادر تھی آپ ننگے پائوں اور پراگندہ بالوں والے تھے۔ بھوک کی وجہ سے آپ کا رنگ زرد اور پیاس کی وجہ سے آپ کے ہونٹ خشک تھے۔ آپ نے فرمایا اے بنی اسرائیل! تم پر سلامتی ہو۔ دنیاکو میں نے اس کا صحیح مقام دیا ہے اور اس میں کوئی فخر و غرور نہیں، جانتے ہو میرا گھر کہاں ہے انہوں نے جواب دیا۔ اے روح اللہ آپ خود ہی بتادیں آپ کا گھر کہاں ہے؟ فرمایا: میرا گھر مساجد، میری خوشبو پانی، میرا سالن بھوک، میرا چراغ رات کو چمکتا چاند، میرا شعار رب العالمین کا خوف، میرے ہمنشیں، ہمیشہ کے بیمار اور مساکین ہیں۔ میرے پاس نہ صبح کچھ ہوتا ہے اور نہ شام کو کچھ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود میں خوش و خرم رہتا ہوں اور مجھے کسی چیز کی پرواہ نہیں ہوتی تو مجھ سے زیادہ غنی اور زیادہ نفع والا کون ہوسکتا ہے۔
(ابن عساکر)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ اے عیسیٰ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہیے تاکہ لوگ آپ کو پہچان کر آپ کو تکلیف نہ دیں۔
قتادہ سے روایت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: مجھ سے پوچھو میں نرم دل ہوں اور میں اپنے آپ کو چھوٹا خیال کرتا ہوں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمایا: جو کی روٹی کھائو اور صاف پانی پیو اور دنیا سے امن و سلامتی کی حالت سے الگ ہوجائو۔ میں تم سے برحق بات کرتا ہوں کہ دنیا کی شیرینی آخرت کی تلخی ہے اور دنیا کی تلخی آخرت کی شیرینی ہے۔ اللہ کے بندے ناز و نعمت والی زندگی نہیں گزارتے میں تم سے برحق بات کرتا ہوں کہ وہ عالم تم سے بہت برا ہے جو اپنے علم پر خواہش کو ترجیح دیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ تمام لوگ اسی جیسے ہیں۔
عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا شیطان دنیا کے ساتھ ہے اور اس کے مکرو فریب مال و دولت کے ساتھ ہیں اور اس کی تزئین و آرائش خواہش کے ساتھ ہے اور اس کا غلبہ شہوات کے ساتھ ہوتا ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، دسمبر 2019ء
تبصرہ