منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیراہتمام یوم خواتین پر ویمن سمٹ نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ ویمن سمٹ میں منہاج القرآن ویمن لیگ کی مرکزی صدر فرح ناز، تحریک انصاف کے پی کے سے رکن اسمبلی ملیحہ اصغر، صدر انصاف فیڈریشن شہلا خان نیازی، فوزیہ اصغر ڈاکٹر فرخندہ جبیں، راضیہ نوید، نصرت آمین، ارشاد اقبال، عائشہ مبشر، ام حبیبہ، انیلا الیاس، رابعہ خان اور عذرا اکبر نے بھی شرکت کی اور اظہار خیال کیا۔
اس موقع پر منہاج القرآن ویمن لیگ کی مرکزی صدر فرح نازنے کہا کہ کسی کو گالی دیکر حقوق کی آواز بلند کرنا محض شر انگیزی اور نظریاتی تخریب کاری ہے۔
مرکزی نائب صدر راضیہ نوید نے کہا کہ حقوق نسواں کی آڑ میں کسی کو پاکستان، اسلام اور انسانیت کی مسلمہ اقدار کا جنازہ نہیں نکالنے دیں گی۔
ایم پی اے ملیحہ اصغر نے کہا کہ قانون بنانے سے زیادہ بڑا چیلنج ان پر عمل درآمد کروانے کا ہے، مرد عورت کے تعاون کے بغیر معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔
شہلا نیازی نے کہا کہ بلوچستان اور سندھ میں عورت کے حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازیں اخلاص پر مبنی ہوتیں تو ہم ساتھ ہوتیں ان کا ایجنڈا کچھ اور ہے۔
ویمن سمٹ 2020 میں شریک جملہ خواتین نے فرح ناز کی پیش کردہ درج ذیل نکات پر مشتمل قرارداد کی مکمل تائید و حمایت کی۔
آج کا یہ اجلاس اور پرامن مارچ اتفاق رائے سے قرار دیتا ہے کہ آئین پاکستان اور ملکی و بین الاقوامی قوانین میں خواتین کو تعلیم و تربیت، انصاف و تحفظ کی فراہمی، صحت اور روزگار کے ضمن میں جو گارنٹیاں دی گئی ہیں ان پر ان کی روح کے مطابق عملدرآمد کیا جائے اور خواتین کی حالت زار اور قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے سے متعلق ہر سال بجٹ کے موقع پر خصوصی رپورٹ جاری کی جائے۔
سال میں کم از کم تین دن خواتین کی حالتِ زار اور ان سے کیے گئے وعدوں اور ان کی بہتری کیلئے قومی اسمبلی، سینیٹ بشمول چاروں اسمبلیوں میں بحث کی جائے اور مسائل کی نشاندہی او ران کے حل کیلئے قراردادیں پاس کی جائیں۔
ویمن امپاورمنٹ کیلئے ضروری ہے کہ پرائمری سے اعلیٰ سطح کی تعلیم فراہم کرنے کے لیے خواتین کیلئے نئی یونیورسٹیاں، کالجز اور سکول بنائے جائیں اور یہ ہدف مقرر کیا جائے کہ کسی بھی بچی کو ناخواندہ نہیں رہنا دیا جائے گا، ناخواندگی کا ذمہ دار خاندان اور ریاست ہو گی۔
آئین پاکستان اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں عورت کے سیاسی، سماجی، معاشی کردار کو اجاگر کیا جائے اور حقوق و فرائض کے ضمن میں ایک متوازن سوچ کے ساتھ رائے عامہ ہموار کی جائے، یہ سوچ کہ عورت صرف خدمت گار، چادر اور چار دیواری کی محض چوکیدار، خاندان کی نشوونما اور بچوں کی پرورش تک محدود ہے ایک استحصالی سوچ ہے۔
خواتین کو ان کی تعلیم و تربیت اور سماجی حیثیت کے مطابق کردار ادا کرنے کی مکمل اجازت ہونی چاہیے اور اس راہ میں اگر کوئی بے جا رکاوٹیں ہیں تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان رکاوٹوں کو دور کرے۔
آزادی ہر جاندار کا فطری حق ہے مگر اس حق کے استعمال کے لیے کچھ حقوق و فرائض اور حدود و قیود بھی ہیں، تعلیم، روزگار، معاشی سرگرمیوں میں برابری کی بنیاد پر فعال کردار عورت کا حق ہے مگر اس حق کے حصول کی دوڑ میں مردوں کی تحقیر و تذلیل، خاندانی نظام اور مروجہ اخلاقی، ثقافتی، سماجی، خاندانی روایات کو تہس نہس کرنا یا عائلی زندگی کی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنا حقوق نسواں کے زمرے میں نہیں آتا۔
ایک عورت محض ایک ذی نفس نہیں ہے وہ معاشرہ ساز اور نسلوں کی امین ہے۔
حقوق نسواں کی جدوجہد کی قوت محرکہ مقابلہ نہیں موازنہ، مواخذہ نہیں محاسبہ کی سوچ ہونی چاہیے۔
خواتین سے متعلق استحصالی اور انتہا پسندانہ سوچ کو ختم کرنے کے لیے سیاسی، سماجی، مذہبی جماعتیں، پارلیمنٹرینز، علماء و مشائخ، اساتذہ، وکلاء، جملہ مذاہب کے رہنما متوازن سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے اپنا فکری، تقریری، تحریری کردار ادا کریں اور ان مقاصد کے حصول کے لیے سوسائٹی کے تمام طبقات پر مشتمل سہ ماہی کانفرنسز منعقد ہونی چاہئیں اور قومی میڈیا اس کی بھرپور تشہیر کو یقینی بنائے تاکہ خواتین کے حوالے سے ایک مثبت سوچ اور اپروچ کو پروان چڑھایا جا سکے۔
خواتین کے حقوق کے نام پر سال میں محض ایک دن منا لینا اور اس کی کوریج کو یقینی
بنا لینا کافی نہیں ہے۔
خواتین کے حقوق سے متعلق آئین کے آرٹیکلز، قوانین، سیاسی، مذہبی جماعتوں کے منشور
اور مذاہب و مسالک کی حقوق نسواں سے متعلق تعلیمات کو پبلک کیا جائے۔ مذہب کی غلط
تشریح کا راستہ روکا جائے تاکہ استحصال کے جتنے بھی چور دروازے ہیں انہیں بند کیا
جا سکے۔
تبصرہ