میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریبات قلب و روح کو تازگی بخشتی ہیں

ماہ ربیع الاول کے آغاز کے ساتھ ہی ہر طرف موسم بہار آجاتا ہے۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیوانوں اور عاشقوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے گویا کہ ہر بوڑھا، جوان، عورت اور بچے اس خوشی کے اظہار کے لیے بے چین و بے تاب نظر آتے ہیں۔

جب کائنات میں کفرو شرک اور ظلم و جبر کے بادل چھائے ہوئے تھے اور انسانیت سسک رہی تھی تو اللہ رب العزت کو اپنی مخلوق کی بے چارگی اور بے بسی پر رحم آگیا ایسے میں 12 ربیع النور کو سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے کاشانہ محبت میں نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلوہ گر ہوا۔ اس روز ملائکہ کو حکم دیا گیا کہ تمام آسمانوں اور جنتوں کے دروازے کھول دیئے جائیں اور سب ملائکہ زمین پر جشن ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اتر جائیں۔ شب ولادت اللہ رب العزت نے حوض کوثر کے کنارے مہکتی کستوری کے ستر ہزار درخت لگائے، تین جھنڈے مشرق، مغرب اور کعبہ کی چھت پر نصب کئے گئے، شیاطین کو قید کردیا گیا، سارے جہاں کے بت سربسجود ہوگئے، قیصر و کسریٰ کے سالہا سال سے جلتے آتش کدے بجھ گئے اس سال پورا عرب قحط اور افلاس کی سخت اذیت میں مبتلا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے طفیل سب سختیاں ٹل گئیں، ویران زمین سیراب ہوگئی، ہر سو سبزہ لہلہانے لگا اور کھیت اناج سے بھر گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سال اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں عورتوں کو بیٹے عطا فرماکر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کو منایا۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے احوال بیان کرتے ہوئے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:

’’میں نے کھجور کی طرح لمبی خواتین کو دیکھا انہوں نے مجھے اپنے گھیرے میں لے لیا میں نے ان سے زیادہ روشن چہرے والی خوبصورت عورتیں نہیں دیکھیں۔ انہوں نے مجھے پینے کے لیے ایک پاکیزہ مشروب پیش کیا جو دودھ سے زیادہ سفید، برف سے زیادہ ٹھنڈا اور شہد سے زیادہ میٹھا تھا۔ ان خوبصورت عورتوں نے مجھے بتایا کہ وہ حضرت مریم اور حضرت آسیہ علیہما السلام ہیں اور ان کے ساتھ جنتی حوریں ہیں۔‘‘

وقت ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سارا گھر بقعہ نور بن گیا۔ ہر شے نور میں ڈوب گئی۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ میری والدہ نے مجھ سے بیان کیا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود تھی، میں نے اس وقت جس چیز کو بھی دیکھا اسے نور ہی نور پایا اور میں نے دیکھا کہ ستارے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ بس جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے تو اس نور سے گھر کے در و دیوار منور ہوگئے۔ ہر طرف نور ہی نور دکھائی دینے لگا۔

(سیوطی، الخصائص الکبریٰ، 1: 78)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اقدس پر پڑنے والی پہلی نظر کے حوالے سے سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:

’’میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اقدس کو چودھویں کے چاند کی طرح پایا جس سے ترو تازہ کستوری کے حلّے پھوٹ رہے تھے۔‘‘

(سیوطی، الخصائص الکبریٰ، 1: 82)

مخدومہ کائنات سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کائنات ہست و بود میں جلوہ افروز ہوئے تو آپ کے لب مبارک متحرک تھے اور آپ شہادت توحید و رسالت کا اقرار و اعلان فرمارہے تھے۔ امام حسین بن محمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

’’جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد از ولادت زمین پر تشریف فرما ہوئے تو آپ نے اپنا سر انور اٹھایا اور فصیح زبان میں فرمایا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘

(تاریخ الخمیس، 1: 202)

الغرض ولادت باسعادت کی رات نور کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر پوری کائنات میں موجزن تھا، نوری اجرام جھک جھک کر اس نور میں اور اضافہ کررہے تھے اور فرشتے جھانک جھانک کر اپنے اشتیاق دید کا مظاہرہ کررہے تھے۔ پروردگار عالم نے اپنی شان کے لائق محبوب سبحانی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا جشن منایا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے اسے اپنی سنت قرار دیا۔

ماہ ربیع النور کے آغاز کے ساتھ ہی پورا عالم اسلام میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانا اور استقبال ربیع الاول کی تیاریاں شروع کردیتا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مقدس مہینے کی خوشی منانا ماضی بعید اور قریب میں اسلامی معاشروں کا خاصہ رہی ہے۔

صدیوں سے اہل مکہ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناتے رہے ہیں۔ 12 ربیع الاول کی رات ہر سال باقاعدہ مسجد حرام میں اجتماع ہوتاہے۔ تمام علاقوں کے علمائ، فقہاء اور گورنر چاروں مذاہب کے قاضی مغرب کی نماز کے بعد مسجد حرام میں اکٹھے ہوجاتے ہیں ادائیگی نماز کے بعد سوق اللیل سے گزرتے ہوئے مولدالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں فانوس اور مشعلیں ہوتی ہیں۔ وہاں لوگوں کا کثیر اجتماع ہوتا ہے۔

(الاعلام اعلام بیت الله احرام، 196)

ملا علی قاری لکھتے ہیں:

’’اہل مدینہ (اللہ ان کو زیادہ کرے) اسی طرح محافل منعقد کرتے ہیں اور اس طرح کے امور بجا لاتے ہیں اور بادشاہ مظفر شاہ اس معاملے میں بہت زیادہ توجہ دینے والا اور حد سے زیادہ احترام کرنے والا تھا۔ جب عیسائی اپنے نبی کی شب ولادت کو بہت بڑے عشق کے طور پر مناتے ہیں تو اہل اسلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم ولادت پر بے پناہ خوشی و مسرت کا اظہار کریں۔‘‘

(ملا علی قاری، المورد الروی نبی مولد النبی: 15، 16)

اسی طرح اہل مصر اور شام بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشیاں مناتے ہیں۔ ملا علی قاری مزید لکھتے ہیں:

’’محافل میلاد کے اہتمام میں اہل مصر اور اہل شام سب سے آگے ہیں اور سلطان مصر ولادت باسعادت کی رات ہر سال محفل میلاد منعقد کرنے میں بلند مقام رکھتا ہے۔ فرمایا کہ میں 785ء میں سلطان طاہر یرقوق کے پاس میلاد کی رات قلعہ میں حاضر ہوا۔ وہاں وہ کچھ دیکھا کہ جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور بہت زیادہ خوش کیا اور کوئی چیز مجھے بری نہ لگی۔ میں ساتھ ساتھ رکھتا گیا جو بادشاہ نے اس رات قرائ، واعظین مبلغین، نعت خواں (شعراء) اور ان کے علاوہ کئی اور لوگوں بچوں اور مصروف خدا کو تقریباً دس ہزار مثقال سونا، خلعتیں، انواع و اقسام کے کھانے، مشروبات، خوشبوئیں، شمعیں اور دیگر چیزیں دیں جن کے باعث وہ اپنی معاشی حالت درست کرسکتے تھے۔‘‘

(ملا علی قاری، المورد الروی فی مولد النبی صلی الله علیه وآله وسلم: 12)

آپ مزید اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

’’بلاد ہند میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریبات جیسا کہ بلند پایہ نقاد، علماء اور اہل قلم حضرات نے مجھے بتایا ہے ہندوستان کے لوگ دوسرے ممالک کی نسبت بڑھ چڑھ کر ان مقدس اور بابرکت تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں اور عجم میں جونہی اس ماہ مقدس اور بابرکت مہینے کا آغاز ہوتا لوگ عظیم الشان محافل کا اہتمام کرتے جن میں قراء حضرات اور عوام و خواص میں فقراء ان لوگوں کے لیے انواع و اقسام کے کھانوں کا اہتمام کیا جاتا۔ مولود شریف پڑھا جاتا اور مسلسل قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی، بآواز بلند نعتیہ ترانے پڑھے جاتے اور فرحت و استنباط کا متعدد طریقوں سے اظہار کیا جاتا۔‘‘

(ملا علی قاری)

الغرض تمام بلادِ اسلام اور مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کا جشن مناتے رہے ہیں اور تحدیثِ نعمت کے طو رپر شکر بجا لاتے رہے ہیں۔ استقبال ربیع الاول اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متبرک تقریبات میں حسن صورت و سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکرے تو ہوتے ہی ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کثیر الجہت شانوں کا تذکرہ اہل ایمان کے دلوں میں عشق و محبت کی شمعیں روشن کردیتا ہے۔ یقینا میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منانا ایمان کو جلا بخشتا ہے۔ لہذا امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی اس انداز سے منائے کہ قلب و روح اس خوشی کے احساس سے شادماں ہوجائے۔

تبصرہ