حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی نے انسانیت کے لئے آخری ہدایت کا سر چشمہ بنا کر بھیجا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت اور بعث ایک نئے دور کا آغاز اور تا ریخ کی ایک نئی جہت کا تعین تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشر یف آوری کے بعد انسانیت کلیتاً ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔ ایک ایسا دور جس میں شعور، آگہی، تہذیب، کلچر اور اعلی انسانی اقدار کے فروغ، قیام اور استحکام کے وہ نظائر ملتے ہیں جن کا نہ صرف آپ کی آمد سے قبل وجود نہ تھا بلکہ ان کا تصور بھی مفقود تھا۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خانہ کعبہ میں حج کے موقع پر باہر سے آنے والے حجاج کرام سے ملتے اور ان تک اپنی دعوت پہنچاتے تھے ان میں مدینہ سے آنے والے حجاج کرام بھی شامل تھے دو سال کے اس تبلیغ کا فائدہ یہ ہوا کہ اہم قبائل کے سرداروں نے اسلام قبول کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہا تھ پربعیت کی اور واپس مدینہ جا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کو دوسروں تک پہنچایا یہاں تک کہ مدینہ کی اکثریت مسلمان ہو گئے مکہ میں کفار مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جینا محال کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ تشریف لا نے کے بعد جن امور کو اپنی ترجیحات میں رکھا ان میں سر فہرست آئینی ریا ست کی تشکیل اور اسکا دستور متفقہ طور پر منظور کروانا تھا۔ نئی ریا ست کے دستور کی تیاری آپ نے قیام مدینہ کے ابتدائی دنوں میں ہی شروع کر دی تھی اسلئے کے مدینہ طیبہ میں آپ سے پہلے ہو نے والی جنگوں خصوصاً جنگ بعاث نے اہل مدینہ کو اس سوچ بچار پر مجبور کر دیا تھا کی وہ مدینہ میں مستقل خون ریزی اور قتل وغارت کے خا تمے کیلئے کچھ اقدامات کریں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ طیبہ تشریف لا نے کے بعد اس بات کے امکانات بہت روشن ہو گئے کہ مدینہ طیبہ لا قانونیت کی کیفیت سے نکل کر ایک منظم معاشرے میں ڈھل جا ئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پیغمبرانہ اور خداداد صلا حیتوں کے ذریعے شروع ہی سے ایسے اقدامات کیے جن سے آگے چل کر ایک متفقہ دستور کی منظوری کی راہ ہموار ہو ئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مو ثر حکمت عملی میں سب نمایاں اور دور رس نتا ئج کے حا مل وہ معا ہدات تھے جوآپ نے یہودونصاری سمیت کفار مکہ اور دیگر عرب قبا ئل کے سا تھ فر ما ئے ان میں سب سے زیا دہ اسلام دشمن سیکو لر اکا ئیاں تھیں جن کے ساتھ آپ نے مختلف اوقات میں مختلف نو عیت کے اتحا دی معاہدے کئے لیکن آپ کے دو اتحا دی معاہدے بطور خا ص نتا ئج کے اعتبار سے تا ریخی اور فیصلہ کن ثا بت ہو ئے۔ ان میں سے میثاق مدینہ اور دوسرامعا ہدہ حدیبیہ کے نا م سے موسوم ہیں۔ یہا ں صراحت ضروری ہے کہ یہ اتحادی مذہبی بنیا دوں پر نہیں بلکہ سماجی بنیا دوں پر قائم ہو ا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل کتاب کو نفسیاتی طور پر قریب کر نے اور انہیں اعتماد میں لینے کے لئے مذہبی قدر مشترک کو پیش کیا یعنی اللہ تعا لی ٰ پر ایمان۔ قرآن نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مدعا کو یو ن بیا ن فرما یا :
قُلْ یٰـٓاَهْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَةٍ سَوَآءٍم بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ.
’’آپ فرما دیں: اے اہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔‘‘
(آل عمران، 3: 64)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثت کے بعد عمر بھر جس لگن اور ذمے داری کے ساتھ اپنے فرض کو پورا کرکے انسانیت کو پستی سے نکال کر رفعت تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیا، اس کی مثال تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مثالی طرز حکمرانی، جس نے داخلی و خارجی سطح پر بکھرے یثرب کو دنیا کی بہترین اسلامی فلاحی ریاست مدینہ میں تبدیل کر دیا،
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بعد فوری طور پر مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی، دوسرے لفظوں میں ریاست کے لیے سیکرٹریٹ قائم کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ معاشرے کے معاشی مسائل کے حل کو اولیت دی گئی۔ ایک طرف ریاست میں ہنگامی حالت تھی تو دوسری طرف انصار مدینہ تھے جن میں متوسط بھی تھے اور کافی مالدار بھی، یعنی عملی طور پر جو شکل آج پاکستان کی ہے کچھ ایسی ہی شکل مدینہ منورہ کی تھی۔ ہمارے ہاں بھی ایک طبقہ معاشی ظلم کی وجہ سے بدحالی کا شکار ہے اور دوسرا طبقہ کافی متمول ہے۔ ایسی حالت میں محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا دیا۔ ایک ٹیم موجود تھی جو اسلامی فلاحی نظام پر پختہ یقین رکھتی تھی۔ اس ٹیم میں شامل لوگوں نے ایک دوسرے کے لیے قربانیاں دیں اور اس طرح دو طبقوں میں جو غیر معقول معاشی فرق تھا وہ ختم ہوگیا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان دنوں مدینہ منورہ کی معیشت کا سارا انحصار یہودیوں کے سودی کاروبار پر تھا مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین سے یہ نہیں فرمایا کہ تم بھی یہودیوں سے سود پر قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کر دو، کیوں کہ اس طرح معاشی انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل ناممکن تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار مدینہ سے فرمایا کہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو اور پھر قرض حسنہ کا نظام رائج فرمایا اور جب معاشرے کے افراد عملاً باہمی تعاون کے ذریعے بلا سود قرضوں پر معیشت کو قائم کرنے میں لگ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود کو مکمل طور پر حرام قرار دے کر اس لعنت کو ختم کر دیا۔
ریاست مدینہ کے اہم خدوخال
حکمت کا مرحلہ باہمی اخوت
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدنی زندگی بہت زیادہ مصروف رہنے کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ انتہائی مشکل اوقات میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی خداداد بصیرت سے سلامتی کی راہیں نکالیں۔ مدینہ طیبہ میں تشریف لانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا، کیوں کہ مکہ میں مسلمان ایک مختصر اقلیت کے طور پر رہ رہے تھے جب کہ یہاں انہیں اکثریت حاصل تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہریت کی اسلامی تنظیم کا آغاز کیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منتظم ریاست کا درجہ حاصل ہو گیا۔ اس میں شک نہیں کہ مکی زندگی کے مقابلے میں یہ بڑی کام یابی تھی، لیکن پر سکون معاشرے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی تھا۔
اسلامی ریاست کا تصور
یہ معاہدہ اسلامی ریاست کی بنیاد تھا، یہاں سے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی نیا رخ اختیار کرتی ہے۔ اب تک آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تدبر و فراست کے تمام پہلو ایک ایسے مرکز کے قیام کے لیے تھے جہاں سے دعوت اسلام موثر طریق سے دی جا سکے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سابقہ کوششیں ایک مدبر کی تھیں لیکن اب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم منتظم ریاست کے طور پر سامنے آ رہے ہیں، لہٰذا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تدبر کا مطالعہ اسی زاویے سے کرنا ہو گا۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیش نظر ایک اہم مقصد مثالی اسلامی فلاحی معاشرے کا قیام تھا اور اس کے لیے قوتِ نافذہ کا ہونا ناگزیر تھا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر دعا فرمایا کرتے تھے کہ:
اے اللہ اقتدار کے ذریعے اسلام کی مدد فرما۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوئی اور ریاست مدینہ کی شکل میں پہلی اسلامی فلاحی مملکت کا قیام عمل میں آیا۔ قرآن مجید نے اسلامی ریاست کا جو مقصد متعین کیا کہ
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِوَ ِﷲِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ.
’’(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘
(الحج، 22: 41)
اس آیت مبارکہ کے مطابق آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست مدینہ اور اس کے رہنے والوں نے اپنے فرائض کو سرانجام دیا۔ ریاست مدینہ کے قیام سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصود رضائے الہٰی کا حصول اور عوامی بہبود تھا۔ اس حکومت کی بنیاد خاندانی عصبیت اور نسلی شعور کی جگہ دینی وحدت پر قائم تھی۔ اس انوکھی اور اپنی نوعیت کی منفرد ریاست کے منتظم کا انداز بھی عام حکمرانوں سے یکسر مختلف تھا۔ منتظم ریاست کی حیثیت سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تدبر کی بے شمار مثالیں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقی عظمت کا پتا دیتی ہیں۔
قانونی مساوات
ریاست مدینہ دنیاکی اولین ریاست تھی جس میں سب انسان قانون کی نظر میں برابر تھے۔ریاست مدینہ کی تشکیل وتاسیس تک تو کسی ریاست نے اس بات کا دعوی بھی نہیں کیاتھا کہ اس کے ہاں سب برابر ہیں لیکن اس کے بعد آج کی ریاستوں میں کاغذی دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن قانون سب کے لیے یکساں کا رواج عملاً کہیں بھی موجود نہیں ہے۔عیسائی راہبات کے لیے سکارف کی اجازت ہے جبکہ مسلمان خواتین کے لیے اس قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔ دوسری طرف ریاست مدینہ ایسی ریاست تھی جس میں انصاف و عدل کے تقاضوں کے مطابق مسلمان قاضی کا فیصلہ یہودی کے لیے برات اورمسلمان کے لیے گردن زنی کا تھا۔ ایک دفعہ جب محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مجرم کے لیے قانون میں رعایت مانگی گئی تو فرمایامیری بیٹی بھی ایساجرم کرتی تو یہی سزا پاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بذات خود عمر کے آخری ایام میں مسلمانوں کے درمیان براجمان ہوئے اور فرمایا میں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو بدلہ لے لے۔قانون کی نظر میں سب برابر ہیں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درسِ مساوات نے ہی اس معاشرے کو عدل فاروقی سے روشناس کرایا۔
نظام تعلیم
اسلامی ریاست میں نظام تعلیم کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت سے قبل ہی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو معلم بنا کر مدینہ بھیج دیا تھا اور ہجرت کے بعد مسجد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باقاعدہ درس گاہ کا درجہ حاصل ہو گیا۔ غیر مقامی طلبہ کی تدریس و رہائش کے لیے صفہ چبوترہ بنایا گیا۔ عرب میں چوںکہ لکھنے کا رواج نہیں تھا اس لیے مسجد نبوی میں ہی حضرت عبد اللہ بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ اور حضرت عبادہ بن رضی اللہ عنہ صامت کو لکھنا سکھانے پر مامور کیا گیا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مختلف زبانیں سکھائی گئیں اور فنون جنگ کی تعلیم ہر جوان کے لیے ضروری قرار دی گئی۔ خواتین گھریلوں صنعتوں کے ساتھ علاج معالجے کا انتظام بھی کرتی تھیں، حتیٰ کہ ایک صحابیہ نے مسجد نبوی ہی میں خیمہ لگا دیا تھا جہاں زخمیوں کی مرہم پٹی کی جاتی تھی۔دنیاوی علوم سیکھنے کے لیے قیدیوں کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ انھیں اپنی رہائی کے بدلے مسلمانوں کو پڑھانا ہو گا۔
عمل احتساب
اگر چہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں احتساب کا کوئی مستقل محکمہ قائم نہیں تھا مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرض خود انجام دیا کرتے تھے۔ تجارتی معاملات کی بھی نگرانی فرماتے۔ عرب میں تجارتی معاملات کی حالت نہایت قابل اصلاح تھی۔ مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصلاحات جاری کیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے اصلاحات پر عمل کراتے، جو باز نہ آتے انہیں سزائیں دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں کوئی باقاعدہ جیل خانہ نہیں تھا اس لیے صرف اتنا خیال کیا جاتا تھا کہ مجرم کو کچھ مدت کے لیے لوگوں سے ملنے جلنے اور معاشرتی تعلقات قائم نہ رکھنے دیے جائیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں دیکھا کہ لوگ تخمیناً غلہ خریدتے تھے۔ ان کو اس بات پر سزا دی جاتی تھی کہ اپنے گھروں میں منتقل کرنے سے پہلے اس کو خود ہی وہاں بیچ ڈالیں جہاں اس کو خریدا تھا۔آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عمال پر کڑی نگاہ رکھتے، کسی عامل کی شکایت پہنچتی تو فوراً تحقیقات کراتے کیو نکہ حکمران کی حیثیت ایک داعی کی ہے اگر سلطنت عدل کی جگہ ظلم و تشدد قبول کر لے تو سلطنت کا نظام درہم برہم ہو تا ہے۔ یہ تھی مدینہ کی ریا ست جو اسلامی اصولوں کی بنیاد پر استوار ہو ئی تھی۔
ریاست مدینہ میں اقلیتوں کے حقوق
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اقلیتوں کومعاشرئے میں وہی مقام عطاکیا جو معاشرے کے بنیادی شہریوں کو حاصل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اقلیتوں کی جان و مال، عزت وآبرو،ناموس حتی کہ ان کے مذہبی حقوق کے تحفظ کو آئین کا حصہ بنایا کیونکہ اسلامی ریاست کے تنا ظر میں اس دور کا ایک اہم سوال بن گیا ہے۔ اسلئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان مبارک میں بھی اس امر کی توضیح کرتے ہیں کہ ریاست اسلامی میں اقلیتوں کو کون کون سے حقوق حا صل ہیں۔
قال صلی الله علیه وآله وسلم لاهل الذمه:ما اسلمو علیه من ذرایهم و اموالهم و اراضیهم وعبیدهم و مواشیهم، ولیس علیهم الا الصدقه.
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ذمی کے لئے وہ کچھ ہے جس کے لئے اس نے اطاعت کی۔ذمی کی اولاد اموال، اراضی، غلام اور ان کے مواشی کا خیا ل رکھو۔ ان پر صدقہ کے سوا کچھ نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اقلیتوں کی مذہبی آزادی کے بارے میں فرمایا :
و ان یهود بنی عوف امۃ مع المومنین، للیهود دینهم، و للمسلمین دینهم، مولیهم و انفسهم الا من ظلم و اثم، فانه لا یو قع الا نفسه و اهل بیته.
اور عوف کے یہودی مو منین کے ساتھ ایک سیاسی وحدت تسلیم کیے جا تے ہیں۔ یہودیوں کے لئے ان کا دین ہے اور مسلمانوں کے لئے اپنا دین ہے خواہ ان کے موالی ہوں یا وہ بذات خود ہو ں، ہاں جو ظلم یا عہد شکنی کا ارتکاب کرے تو اس کی ذات یا گھرانے کے سوا کو ئی مصیبت میں مبتلا نہیں کیا جا ئے گا۔
امیر اور غریب میں حقیقی مساوات
ریا ست مدینہ میں قرآن مجید اور قرآن و سنت کے قوا نین کا نفاذانسانیت کے لیے بہت بڑی رحمت تھی یہ مثالی ریاست قیامت تک انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے رول ماڈل ہے مدینہ کی اسلامی ریاست میں ہر ایک پر قانون نافذ ہوتا ہے امیر اور غریب، بڑے اور چھوٹے، سب کے لیے منصفانہ قانون نے انسانیت کا احترام بحال کیا۔
سیرت صحابہ پر معروف مورخ ابن الاثیر الجزری نے ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے جنگ بدر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کی صف بندی فرمائی صف بندی کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صفوں کا م معائنہ کیا آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی آپ نے دیکھا کہ سواد بن غزیہ صف سے با ہر نکلے ہو ئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں صف میں سیدھے کھڑے ہو نے کا بھی حکم دیا اور لکڑی سے ان کے پیٹ پر ٹھو نکا بھی لگا یا۔سواد نے عرض کیا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا تعا لی نے آپ کو حق و عدل کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، آپ نے مجھے تکلیف دی ہے مجھے آپ کا بدلہ ( ْقصاص ) دیں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ لکڑی سواد کی طرف بڑ ھا دی اور فرمایا : لو بدلہ لو۔ انھو ں نے عرض کیا میرا پیٹ تو ننگا تھا اور آپ کے پیٹ مبا رک پر آپ کا کرتہ ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا کر تہ مبارک اپنے بطن سے اٹھا دیا۔ سواد اگے بڑھے لکڑی ایک جا نب پھینکی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بطن مبارک کو بو سہ دیا اور پھر آپ سے لپٹ گئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پو چھا سواد تم نے کیا کیا ہے ؟ انھو ں نے جواب میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا کہ آپ دیکھ ر ہے ہیں کو چ کا وقت آیا چا ہتا ہے۔ میں نے چا ہا کہ جا نے سے پہلے آخری عمل آپ کو بو سہ دینا اور آخری لمس جسد مطہر سے چھو نا نصیب ہو جا ئے، سو میں نے یہ تمنا پوری کر لی ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے اس جذبہ صادق اور خلو ص عمل کو دیکھ کر ان کے حق میں دعا ئے خیر فرمائی۔
معا شی پا لیسی
اسلام نے ہر شعبہ زندگی کی طرح معیشت کی پا لیسی بھی بہت وا ضح انداز میں بیان کی ہے، اللہ تعا لی نے فرمایا:
مَآ اَفَآءَ اﷲُ عَلٰی رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَةًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْط وَمَآ اٰتٰـکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاج وَاتَّقُوا اﷲَط اِنَّ اﷲَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ.
’’جو (اَموالِ فَے) اللہ نے (قُرَیظہ، نَضِیر، فِدَک، خَیبر، عُرَینہ سمیت دیگر بغیر جنگ کے مفتوحہ) بستیوں والوں سے (نکال کر) اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر لوٹائے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے لیے ہیں اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) قرابت داروں (یعنی بنو ہاشم اور بنو عبد المطّلب) کے لیے اور (معاشرے کے عام) یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لیے ہیں (یہ نظامِ تقسیم اس لیے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مالداروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے) اور جو کچھ رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقسیم و عطا پر کبھی زبانِ طعن نہ کھولو)، بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘
(الحشر، 59: 7)
دولت کی گردش اور عوام تک پہنچنا معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت ر کھتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ اسلامی ریا ست کی معا شی پا لیسی یہ ہے کہ امرا سے پیسہ لیا جا ئے اور غربا کو دیا جائے، اسی طر ح سو د، رشوت، جوا، چور با زاری، ذخیرہ اندوزی اور دیگر غیر اخلا قی ذرا ئع آمدن مکمل طور پر ممنو ع قرار دے دیے گئے تھے۔ اسلامی معیشت میں ان چیزوں کی گنجا ئش نہیں۔ حکو متی کارندے اپنے منصب پر رہتے ہو ئے تحفے بھی و صول نہیں کر سکتے تھے۔ یہ تحفے بیت المال میں جمع ہو تے تھے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اغنیاء اور فقرا کے درمیا ن دولت کی تقسیم کے حوالے سے جواصول متعارف کرایا اسی کی بنیا د پر مدینہ میں فلا حی ریا ست کا تصور پروان چڑھا۔
اسلامی ثقافت اور عزت کی حفا طت
مدینہ کی اسلامی ریا ست کی ثقافت اور اسکا کلچر، بے حیائی، عریا نی اور رقص و سرور سے مکمل پا ک تھا۔ مردو زن کی مخلو ط محفلیں اور راگ رنگ، شراب نو شی اور نشے کی ہر صورت حرام اور قابل تعزیر جرم تھی۔ شراب پینا ہی جرم نہیں تھا بلکہ شراب بنانا، اس کا فروخت کرنا، اسے لاد کر لے جا نا اور اسے بطور تحفہ کسی غیر مسلم کو دینا سبھی حرام تھا۔ زنا اور بدکاری کے جرم پر قرآن و سنت کے مطابق غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کو سو کو ڑے ما رے جاتے اور شادی شدہ بدکاری کے مرتکب مرد و عورت کو سنگسار کر نے کی حدود جا ری ہو تی تھیں۔ خواتین کو پردے کا حکم دیا گیا اور مرد و عورت کو غص بصر (نظریں جھکانے)کا پا بند بنایا گیا۔ یہ احکا م قران میں نازل ہو ئے ہیں۔
یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّـاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّط ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَـلَا یُؤْذَیْنَط وَکَانَ اﷲُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا.
’’اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
(الاحزاب، 33: 59)
جا نوروں کے حقو ق کا خیال
انسان تو انسان ہیں،اشرف المخلوقات ان کا اعزاز ہے، نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توانسانوں کے علاوہ جانوروں کے بھی حقوق بیان فرمائے۔ اس تعلیمات کا یہ اثر تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے : اگر دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر گیا تو مجھ سے اس کا حساب لیاجائے گا اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی معروف ہے:اگر کسی راستے کے غیر ہموار ہونے کی وجہ سے باربرداری کا کوئی خچر ٹھوکر کھا کر گرا اور زخمی ہوگیا تو عمر رضی اللہ عنہ سے اس کا بھی حساب لیاجائے گا یہ تھا احساس ذمہ داری تھا جس نے مدینہ کی ریاست کو اسلامی اور فلاحی ہونے کے ساتھ جدید ترین ریاست ہونے کا شرف بھی بخشا۔ راستے بنانے اور ان کو ٹھیک رکھنے کا باقاعدہ شعبہ قائم کردیا گیا۔
اسلامی فلاحی ریاست کا تصور
ریاست کا اسلامی تصور کیا ہے اسلام نے ریا ست کے لئے کون سا لفظ استعمال کیا ہے۔ اسلام نے اپنے اصولوں پر قائم شدہ سیا سی تنظیم کے لئے سیا ست یا ریا ست یا حکو مت کی اصطلا حیں استعمال نہیں کی ہیں بلکہ خلافت یا اما مت کی اصطلا ح اختیا ر کی ہے اس لئے اسلامی ریا ست کو اسلامی تصور واضح کرنے کے لئے ان اصطلاحات کا جا ننا بہت ضروری ہے۔
خلافت کی اصطلا ح اسلامی اصولوں پر قائم جدا ایک ریاست کے لئے استعمال ہوئی ہے اور امامت سے مراد وہ گورنمنٹ ہوتی جو خلافت کے ارادوں کی تنقیذ کرتی اور اس کے منصوبوں کو عملی جا مہ پہنا تی ہے۔ دوسرے الفا ط میں ان میں فرق یو ں ہو گا جو فرقstate اور Government کے درمیا ن ہے وہ ہی فرق امامت اور خلا فت کے درمیا ن ہے۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ اسلام میں ریاست محض ایک ریا ست نہیں ہے بلکہ وہ خلافت ہے۔
اسلامی حکو مت کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ ملک کے تمام شہریوں کو ایک نظم و نسق کے مطا بق چلا یا جائے، عوام کے لئے معاشی وسائل فراہم کئے، امن و امان قائم کیا جائے اور ملک کی سرحدوں کی حفاطت کی جا ئے، بلکہ اسلامی ر یاست کا بنیا دی مقصد بھلائیو ں کی ترویج اور برائیوں کا سدباب ہے:
جیسے فرمان الہی ہے:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط وَ ِﷲِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ.
’’(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘
(الحج، 22: 41)
اس آیت مبارکہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمادی ہے کہ اسلامی ریاست نہ تو سیکولر ہوتی ہے اور نہ ہی محدود مذہبی تصور پر مبنی ہوتی ہے۔ اس کا اللہ پر محکم ایمان ہوتا ہے۔ نظام عبادت کی پابندی اور نفاذ کے ساتھ اس کا سب سے اہم کام معاشرے میں نیکی کا فروغ اور برائی کا خاتمہ ہے۔ اسلامی حکومت ایک ایسا ماحول فراہم کرتی ہے جس میں ہر شخص کے لیے حلال طریقوں کے مطابق زندگی گزارنا آسان اور حرام طریقوں کو اختیار کرنا مشکل تر ہوتا ہے۔ کوئی شہری برائی کو قوت اور ہتھیاروں کے ساتھ ختم نہیں کرسکتا، یہ ریاست کے دائرہ اختیار اور فرائض منصبی میں شامل ہے۔ خود ریاست بھی قانون کی قوت سے برائی کو ختم کرتی ہے اگر حکومت یہ کام چھوڑ دے تو پھر پوری امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نیکی کے فروغ اور برائی کے خاتمے کے لیے اجتماعی جدوجہد کرے۔ امت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ نے خیرامت قرار دیا ہے۔ اس کا فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ امربالمعروف یعنی نیکی کا حکم دینا اور نہی عن المنکر یعنی برائی سے روکنا، امت مسلمہ کی شناخت اور امتیاز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ.
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
(آلِ عمران، 3: 110)
پوری امت اگر غفلت کا شکار ہوجائے، جیسا کہ دورِ انحطاط میں ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اس کے کچھ مخلص بندے تو ایسے ہونے چاہییں جو اس کام کا بیڑہ اٹھائیں۔ ارشاد باری ہے:
وَلْتَکُنْ مِّنکُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ واُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.
تم میں سے کچھ لوگ ایسے ضرور ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔
(آلِ عمران، 3: 104)
مدینہ کی اسلامی ریاست نے وجود میں آنے کے بعد قرآنی حکم کے عین مطابق نظام صلوٰۃ وزکوٰۃ کے ساتھ اپنے پورے قانونی نظام کے تحت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بھی اہتمام کیا۔ جس معاشرے میں ہر جانب برائی اور ظلم وزیادتی، فحاشی وعریانی اور بدکاری، شراب نوشی اور قمار، سودخوری اور لوٹ مار کا دور دورہ تھا وہ معاشرہ یکسر تبدیل ہوگیا۔ اب وہاں ہر کارِ خیر فروغ پارہا تھا اور ہر برائی دم توڑ چکی تھی۔نہ سود اور ڈاکہ،نہ شراب نوشی اور فحاشی،ہر جانب عفت وعصمت اور نیکی و خیر کا فروغ۔ مدنی سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک بندہ مومن کی عقیدت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے نظام کے مطابق ڈھال دے۔ سب سے زیادہ ذمہ داری مقتدر طبقات اور ذمہ داران حکومت پر ہے۔
یَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیفَةً فِی الْأَرْضِ فَاحْکُم بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ.
اے داؤد! بے شک ہم نے آپ کو زمین میں (اپنا) نائب بنایا سو تم لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلے (یا حکومت)کیا کرو۔
(ص، 38: 26)
غرض یہ اسلام کے نظام سیا ست میں حکو مت کا بنیادی مقصد احکام خدووندی کی تنقید، عدل قائم کر نا، ظلم کو روکنا، بھلا ئیوں کو رواج دینا اور برا ئیوں کو مٹانا ہے۔
پا کستان نظریاتی اسلامی فلاحی مملکت
ریاست مدینہ کے بعد پاکستان وہ پہلی ریاست ہے جو اسلامی نظریے کی بنیا د پر معرض وجود میں آئی۔قیام پاکستان کی تحریک کے دوران جب قائد اعظم سے پاکستان کی قانون سازی کے حوالے سے پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ پاکستان کی قانون سازی آج سے چودہ سو سال قبل ہو چکی ہے۔ قائد اعظم کی اس بات کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے وجود میں آنے والی یہ نظریاتی ریاست اب ریاست مدینہ کی عملی تصویر ہوگی۔ لیکن آج اسلامی جمہوریہ پاکستان پر جاگیرداروں، سرمایہ داروں، چوروں کا قبضہ ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست پاکستان کو بھی ریاست مدینہ کی طرز پر اسلامی فلاحی مملکت بنایا جائے تاکہ قیام پاکستان کا مقصد پورا ہوسکے۔ مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اگر اس مملکت خداداد کو اسی طرز پر ڈھالنے کے لئے جس سنجیدہ کوشش کے کرنے کی ضرورت ہے وہ ناپید ہے۔
تبصرہ