12 ربیع الاول، ریاست مدینہ اور انصاف کے تقاضے

اللہ تعالیٰ کا کروڑ ہا شکر ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ایک بار پھر جشن ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منارہے ہیں اور اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تجدید عہد وفا کررہے ہیں جنہیں اللہ نے تمام جہانوں کے لیے رحمتہ للعالمین بنا کر مبعوث فرمایا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ شان ہے کہ انہیں قرآن مجید کی شکل میں جو ضابطہ حیات اور منشور حیات دے کر بھیجا گیا وہ کسی ایک قوم، خطے اور ملک کے لیے نہیں یہ ضابطہ تاقیامت پوری بنی نوع انسانیت کے لیے ہے، قرآن مجید کا ہرہر لفظ، حکم اور حقوق و فرائض کے تناظر میں کیا گیا استدلال پوری انسانیت کی فلاح کا ضامن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے بے بہا خزانوں اور بیش قدر نعمتوں سے نوازا مگر کسی نعمت کا احسان نہیں جتلایا جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرما کر اسے ایک بڑا احسان قرار دیا، قرآن مجید میں شانِ رسالت میں نازل ہونے والی آیات اللہ رب العزت کی طرف سے کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جملہ پیغمبران خدا میں فضیلت کی غماز ہیں۔

آج کل حکومتی اور سیاسی ایوانوں سے پاکستان کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کے خوش کن الفاظ پر مشتمل اعلانات ہماری سماعتوں سے ٹکراتے رہتے ہیں۔ یہ تصوراتی اعلانات بلاشبہ ہمارے قلوب و اذہان کو جلا بخشتے ہیں، ہر مومن مسلمان کی ایمانی زندگی کا یہ مقصود ہے کہ وہ بطور مسلمان ایک ایسے سیاسی، سماجی ،معاشرتی، اقتصادی ،دفاعی نظام مملکت میں فعال کردار کا حامل ہو جس کی فکری رہنمائی ریاست مدینہ سے میسر آتی ہے، حکومتیں منشور تیار کریں یا انتخابی سلوگن وہ انتہائی خوبصورت الفاظ پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن عملدرآمد اور نتائج کے مرحلہ پر صورت حال انتہائی مایوس کن اور افسوسناک ہوتی ہے، یہ المیہ اسلامی قوانین کے نفاذ کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ ہماری پارلیمنٹ بھی انسانیت کی فلاح و بہبود قانون کی بالادستی کے لیے جو قانون سازی کرتی ہے وہ دعوؤں کی حد تک خوش کن ہوتی ہے مگر عملدرآمد کے مرحلہ پر صورتحال افسوسناک اور بدترین ہوتی ہے، حکومتی ایوان اگر پاکستان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ریاست مدینہ کے ماڈل کو قابل عمل سمجھتے ہیں تو پھر دیر کس بات کی؟ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے لیے مزید کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے صرف بات آئین پر عملدرآمد کی ہے، پاکستان کا آئین طاقتور اور کمزور کا لحاظ کیے بغیر ہر شہری کو انصاف، روزگار ،ترقی کے مساوی مواقع، جان و مال کا تحفظ دینے کی گارنٹی دیتا ہے لیکن عملاً ایک کمزور شہری کو یہ گارنٹی میسر نہیں ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ پانچ سال گزرجانے کے بعد شہدائے ماڈل ٹاؤن کو انصاف نہیں ملا، سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ہماری دو بہنیں تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ کو بھی بے دردی سے شہید کیا گیا اور ان کی بیٹی بسمہ امجد انصاف کے اعلیٰ اداروں اور شخصیات سے پانچ سال سے انصاف مانگ رہی ہے۔ 12 ربیع الاول کی مبارک ساعتوں کے موقع پر ہم حکومتی ایوانوں سے کہتے ہیں کہ اگر وہ پاکستان کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کے حوالے سے سنجیدہ ہیں تو اس کی ابتداء سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف سے کریں کیونکہ کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ انصاف کا علم سربلند رکھا اوراپنی سیاسی، سماجی، عائلی، ریاستی زندگی میں انہوں نے کسی بھی مرحلہ پر انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا بلکہ ایک موقع پر تو انہوں نے چوری کے کیس میں لائی جانے والی ایک خاتون کے بارے میں کہا تھا کہ اگر یہاں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو وہ بھی سزا سے نہ بچ پاتی۔ اس ربیع الاول کے بابرکت لمحات میں حکومت یہ عہد کرے کہ وہ نظام انصاف کی اصلاح کرے گی اور قانون اور انصاف کی نظر میں امیر، غریب کو ایک مقام پر کھڑا کرے گی اور غریب حصول انصاف میں نسل در نسل انصاف کے اداروں کی راہداریوں کی خاک نہیں چھانے گا، اسے فوری اور سستا انصاف گھر کی دہلیز پر میسر آئے گا۔جیسے ریاست مدینہ اور خلفائے راشدین کے عہد اقتدار میں میسرتھا۔

تبصرہ