خاندانی نظام، حقوق و فرائض کا تصور اور خواتین

کسی بھی معاشرے کے استحکام کے لیے خاندانی نظام اہم کردار کا حامل ہوتا ہے۔ مرد اور عورت خاندانی نظام کے وہ بنیادی کردار ہیں جن سے معاشرہ پروان چڑھتا ہے۔ اسلام وہ دین ہے جس نے خاندانی نظام کے لئے باقاعدہ اصول و ضوابط متعین کئے۔ خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے اوپر تمہاری عورتوں کے کچھ حقوق ہیں اسی طرح ان تمہارے حقوق واجب ہیں۔‘‘ مزید فرمایا کہ عورتوں کے حقوق کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو۔ یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانی حقوق کا ایسا نظام عطا کیا جہاں حقوق و فرائض میں باہمی تعلق و تناسب پایا جاتا ہے۔ کوئی فرد چاہے وہ مرد ہو یا عورت ہو بغیر اپنے فرائض پورے کئے حقوق کا مطالبہ نہیں کر سکتا لہذا کوئی بھی فرد معاشرہ اس وقت تک اپنے حقوق کے لئے آواز بلند نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنے فرائض ادا نہ کر چکا ہو۔ یہ اسلام کا وہ بنیادی تصور ہے جس پر خاندانی نظام کی بنیاد ہے۔ حقوق کا تصور چودہ سو سال قبل خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر کیا جا چکا ہے یہ تصور اتنا جامع ہے کہ قیامت تک کسی تغیر تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ اس کے برعکس مغرب میں حقوق کی یہ آواز اٹھارویں صدی میں بلند ہوئی تھی اسکے بعد مغرب نے تہذیبی و تمدنی طور پر جو ترقی کی اسکے نتیجے میں جو معاشرتی تبدیلی رونما ہوئی اس نے مغرب کے خاندانی نظام کو تباہ و برباد کر دیا ہے یہی تغیراب ہمارے معاشرے میں بھی تیزی سے رونما ہورہا ہے جسکے نتیجے میں ہمارا خاندانی نظام زوال پذیر ہو رہا ہے۔ اس کی مثال موجودہ معاشرے میں بڑھتا ہوا طلاق اور خلع کا رجحان ہے۔ جس کی بڑی وجہ Feminist سوچ کی حامل N.G.O's کا خواتین میں بڑھتا ہوا اثرو رسوخ بھی ہے جنکا بنیادی ہدف مسلمان عورت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں عورت کے حوالے سے استحصالی سوچ موجود ہے اور اسلام کے عطا کردہ بنیادی حقوق سے عورت آج بھی کماحقہ فائدہ حاصل نہیں کررہی ہے مگر اس کا حل بھی عورت کو دیا گیا ہے کہ اس کے حقوق پورے نہ کئے جارہے ہوں تو وہ قانونی طریقے سے ادائیگی کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ حالیہ 8 مارچ یوم خواتین کے عالمی دن کے موقع پربعض ’’نامعلوم‘‘ خواتین کی طرف سے جس طرز کے پوسٹرز لہرائے گئے انہیں پڑھی لکھی خواتین اور سیاسی، سماجی حلقوں نے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ وہ خاتون جس کی گود نسلوں کی امانت دار ہے اور جو بچے کی پہلی تعلیمی، تربیتی درسگاہ ہے، اگر اسے اس انداز سے سوسائٹی کے سامنے پیش کیا جائیگا تو یہ اس کے وقار کو کم کرنے کی شعوری کوشش ہوگی۔ سوسائٹی کے اندر پائی جانے والی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے منہاج القرآن ویمن لیگ نے پریس کلب لاہور کے باہر Women Dignity March کیا اور پاکستان سمیت دنیا بھر کی خواتین کو یہ پیغام دیا کہ عورت باوقار ہے، وہ صبر و تحمل اور شرم و حیاء کا پیکر ہے، حجاب اور چادر اس کا تحفظ ہے، عورت کو وہ حقوق چاہئیں جو اسلام نے دئیے، آئین پاکستان نے دئیے اور جو بین الاقوامی قوانین سے ملتے ہیں۔ ہر ملک، معاشرے کے اپنے تہذیبی، تمدنی معیار ہوتے ہیں، وہ معاشرہ انہی اخلاقی اقدار اور معیار کیساتھ آگے بڑھتا اور مضبوط ہوتا ہے۔ پاکستانی معاشرے کا پہلا یونٹ فرد نہیں خاندان ہے، اسی خاندانی نظام نے معاشرتی، سیاسی، سماجی اقدار کو سنبھالا دے رکھا ہے اور خاندان کی اخلاقی معلم خاتون ہے۔ اگر ہم نے اس معلم اور معاشرے کے بنیادی یونٹ خاندان کا تحفظ یقینی نہ بنایا تو مستقبل میں قومی سطح پر لاتعداد مسائل اور بحران جنم لیں گے، خاتون کی تعلیم و تربیت کو عصری تقاضوں کے مطابق یقینی بنانا خاندان کی بھی ذمہ داری ہے، سول سوسائٹی کی بھی ذمہ داری ہے اور ریاست کی بھی ذمہ داری ہے، ایک پڑھی لکھی تربیت یافتہ اور اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ماں اپنی ذمہ داریاں کما حقہ ہو پورا کرنے کے قابل ہو سکے گی۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اپریل 2019ء

تبصرہ