ڈاکٹر طاہر حمید تنولی
اِسلام اِنسانیت کے لیے تکریم، وقار اور حقوق کے تحفظ کا پیغام لے کر آیا۔ اِسلام سے قبل معاشرے کا ہر کمزور طبقہ طاقت ور کے زیر نگیں تھا۔ تاہم معاشرے میں خواتین کی حالت سب سے زیادہ ناگفتہ بہ تھی۔ تاریخِ اِنسانی میں عورت اور تکریم دو مختلف حقیقتیں رہی ہیں۔ قدیم یونانی فکر سے حالیہ مغربی فکر تک یہ تسلسل قائم نظر آتا ہے۔ یونانی روایات کے مطابق پینڈورا (Pandora) ایک عورت تھی جس نے ممنوعہ صندوق کو کھول کر اِنسانیت کو طاعون اور غم کا شکار کر دیا۔ اِبتدائی رومی قانون میں بھی عورت کر مرد سے کمتر قرار دیا گیا تھا۔ ابتدائی عیسائی روایت بھی اسی طرح کے افکار کی حامل تھی۔
مغرب میں عورت کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ایک طویل اور جاں گسل جد و جہد سے گزرنا پڑا۔ نوعی امتیاز کے خلاف عورت کے احتجاج کا اندازہ حقوقِ نسواں کے لیے جد و جہد کرنے والی خواتین کی طرف سے عورت کے لیے womyn کی اصطلاح کے استعمال سے ہوتا ہے جو انہوں نے نوعی امتیاز (Gender Discrimination) سے عورت کو آزاد کرنے کے لیے کیا۔ مختلف اَدوار میں حقوقِ نسواں کے لیے جد و جہد کرنے والی خواتین میں (Susan B. Anthony, 1820-1906) کا نام نمایاں ہے جس نے National Woman's Suffrage Association قائم کی۔ اور اسے 1872ء میں صرف اس جرم کی پاداش میں کہ اس نے صدارتی انتخاب میں ووٹ کا حق استعمال کرنے کی کوشش کی، جیل جانا پڑا۔ صدیوں کی جد و جہد کے بعد 1961ء میں صدر John Kennedy نے خواتین کے حقوق کے لیے کمیشن قائم کیا جس کی سفارشات پر پہلی مرتبہ خواتین کے لیے fair hiring paid maternity leave practices اور affordable child care کی منظوری دی گئی۔ سیاسی میدان میں بھی خواتین کی کامیابی طویل جد و جہدکے بعد ممکن ہوئی۔ Jeanette Rankin of Montana پہلی مرتبہ 1917ء میں امریکی ایوان نمائندگان کی رکن منتخب ہو سکی۔
جب کہ اسلام کی حقوقِ نسواں کی تاریخ درخشاں روایات کی امین ہے۔ روزِ اول سے اسلام نے عورت کے مذہبی، سماجی، معاشرتی، قانونی، آئینی، سیاسی اور انتظامی کرادر کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس کے جملہ حقوق کی ضمانت بھی فراہم کی۔ تاہم یہ ایک المیہ ہے کہ آج مغربی اہل علم جب بھی عورت کے حقوق کی تاریخ مرتب کرتے ہیں تو اس باب میں اسلام کی تاریخی خدمات اور بے مثال کردار سے یکسر صرف نظر کرتے ہوئے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ حضرت شیخ الاسلام پروفسیر ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کی زیر نظر کتاب میں اسلام میں خواتین کے حقوق کا جامع احاطہ کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ اس تصنیف سے نہ صرف اسلام کے بارے میں مغالطوں کا ازالہ ہوگا بلکہ معاشرے میں حقوقِ نسواں کے بارے میں حقیقی اِسلامی شعور کو بھی فروغ حاصل ہوگا جس سے ہم اس معاشرے کی تشکیل کی طرف پیش قدمی کرسکیں گے جس کی تعلیم قرآن وسنت میں دی گئی ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، مارچ 2019ء
تبصرہ