عصر حاضر میں Women Empowerment کا لفظ زدِ عام ہے اس وقت ہمارے معاشرے میں خواتین کی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لیے کی جانے والی تمام کاوشوں کے لیے مذکورہ لفظ کا استعمال عام بات ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ Empowerment کا جو مفہوم منظر عام پر لارہا ہے اُس سے عورت کی حیثیت میں بہتری کی بجائے تنزلی آرہی ہے۔ لہذا سب سے پہلے Women Empowerment کے صحیح تصور کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اسلام نے معاشرے کی بنیاد جن اصولوں پر استوار کی ہے ان میں حقوق و فرائض کا حسین امتزاج پیش کیا۔ مرد اور عورت کے لیے برابر حقوق و فرائض متعین کئے۔ اب دونوں فریق اپنے ذمے کے حقوق ادا کرنے کے پابند ٹھہرے۔ ایک فریق اپنے فرائض کی ادائیگی بجا آوری کا تقاضا اسی وقت کرسکتا ہے اگر وہ اپنے ذمے کے حقوق بھی ادا کررہا ہے۔ غرض یہ کہ حقوق و فرائض بیک وقت لازم و ملزوم ہیں۔ اگر مرد و عورت اپنے ذمہ کے حقوق اور فرائض احسن طریقے سے انجام دیں تو کوئی بھی معاشرہ بگاڑ کا شکار نہ ہو۔
اسلام نے عورت کو بے شمار حقوق عطا کئے اور عورت کو Empower کیا ہے جو اس سے قبل مذاہب میں عورت کو حاصل نہ تھے۔ مگر عورت اپنے حقوق کا تقاضا تب کرسکتی ہے جب اپنے فرائض کی انجام دہی بھی پوری دیانتداری سے ادا کررہی ہو۔
یہی وجہ ہے منہاج القرآن معاشرے میں خواتین کی حیثیت اور ان کے حقوق و فرائض کے ادراک کے لیے WOICE کا قیام عمل میں لایا ہے جو خواتین کے سماجی، معاشرتی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کررہی ہے اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے افکار و نظریات کی روشنی میں خواتین کو معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے کے قابل بنانے اور خواتین کو حقیقی خود مختاری کی طرف گامزن کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
WOICE نے اپنے قیام سے اب تک کے قلیل عرصہ میں درج ذیل منصوبہ جات پہ کام کیا ہے:
- بیداری شعور
- Charity پراجیکٹس
- WOICE ہنر گھر
بیداری شعور پراجیکٹ:
معاشرے میں خواتین کی حیثیت اور ان کی حقوق و فرائض کے ادراک کے لیے WOICE کامیابی کے ساتھ اپنے Awareness پراجیکٹ پر کام کررہی ہے۔ Awareness پراجیکٹ درج جہات پر کام کررہا ہے:
- تعلیمی
- سماجی
- قانونی
- طبی
- اخلاقی
اس پروجیکٹ کے زیر اہتمام خواتین میں اپنے حقوق سے آگاہی اور خود انحصاری پر کام کیا جاتا ہے جس کی چند مثالوں میں ایک مثال ایک ایسی خاتون کی ہے جس نے نامساعد حالات میں Woice کی مدد سے خودانحصاری کا سفر طے کیا۔
انسان کی تخلیق کے ساتھ حقوق کی فراہمی کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی اسے ایک حق دے دیا اور وہ زندگی کا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو زندگی عطا کی اب یہ حق اسے اللہ کی طرف سے دیا گیا کوئی شخص ماسوائے اللہ کے یہ حق اس سے نہیں لے سکتا اگر کوئی ایسا کرے تو وہ جرم کا مرتکب تصور کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آغاز انسانیت سے تاحال حقوق و فرائض کی ایک طویل بحث چلی آرہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو باعث تکریم بنایا تو ہر دوسرے فرد پر لازم ہوگیا کہ وہ بحیثیت انسان دوسرے کی عزت و تکریم کرے یعنی دوسرے کی عزت کرنا اس کا حق تصور کیا جائے گا۔
مختلف معاشروں میں حقوق کی جنگ بھی چلتی رہی ہے مگر ہمارا معاشرہ جن اصولوں پر پروان چڑھا اس میں حقوق کے ساتھ فرائض کو لازم قرار دیا گیا۔ یعنی نظریہ حقوق و فرائض کے تحت معاشرے میں اصول و ضوابط متعین کئے گئے۔ اس سلسلہ میں محمد حفظ الرحمن سیوہاروی لکھتے ہیں:
جو شے انسان کے فائدہ کے لیے ہوتی ہے وہ حق کہلاتی ہے اور جو اس کے ذمہ عائد ہو اس کا نام ’’فرض‘‘ ہے اور یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اس لیے ہر ایک ’’حق‘‘ ایک بلکہ دو ’’فرض‘‘ کا حامل ہوتا ہے۔ پہلا یہ کہ دوسروں پر اس کا ’’حق‘‘ کا احترام فرض۔ دوسرا یہ کہ صاحب حق کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے حق کو امن عام اور جماعتی فلاح کے لیے استعمال کرے۔ (اخلاق و فلسفہ اخلاق، 1984ء، مکتبہ رحمانیہ لاہور، ص: 244)
یہ وہ تعریف ہے حق کی جو آج ہمارے معاشرے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ خصوصاً عورت کے حقوق کے حوالے سے جو ابہام ہمارے معاشرے میں پنپ رہا ہے وہ اس کی درست سمت متعین کرنا بہت ضروری ہے۔ بات صرف نظریہ حقوق کی نہیں بلکہ نظریہ حقوق و فرائض پر مبنی ہونی چاہئے۔ مثلاً عورت کے حقوق ہر ملک و قوم میں موجودہ دور میں متعین ہیں اب ان کے مطالبے کے ساتھ ساتھ عورت پر لاز م ہے کہ وہ اپنے ذمے فرائض بھی پوری ایمانداری سے سرانجام دے۔ اگر وہ اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے مگر اس کے حقوق اسے نہیں مل رہے تو پھر مذہب اسے یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا بہتر فیصلہ کرسکتی ہے۔ یہ وہ تصور ہے جو آج سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ آج بھی عورت کے ساتھ استحصالی رویہ موجود ہے خواتین میں دن بدن بڑھتے ذہنی دبائو کی وجہ یہی استحصالی رویہ ہے۔ سسرال کے ظلم و ستم، شوہر کے ناروا سلوک، ایسے سلوک کا شکار ہوکر کئی خواتین اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرچکی ہیں۔ بہت کم ہاتھ ایسے ہیں جو ان کی فلاح و بہبود کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ زیادہ تر کا مقصد اپنا مفاد ہوتا ہے جس کی وجہ سے جو حقوق عورت کو ملنے چاہئے تھے وہ نہیں مل پارہے۔ اس سوچ کے برعکس WOICE نے Intiative لیتے ہوئے ایسی خواتین کی فلاح کا بیڑا اٹھایا جو اپنی نجی زندگی میں مصائب کا شکار ہیں مگر اپنی زندگی کو بامقصد بنانے کی خواہشمند ہوں۔
یہاں ایسی ہی ایک خاتون کی کہانی بیان کی جارہی ہے جو جسے ظلم و ستم کے گرداب سے نکال کر معاشرے میں مستحکم مقام دلانے میں WOICE نے اہم کردار ادا کیا۔ اس خاتون کا نام فائزہ ہے۔ فائزہ کی زندگی کو بامقصد بنانا WOICE کی ایک ایسی کامیابی ہے جو قابل تحسین ہے۔ اس خاتون کی کہانی بھی ہے اب معاشرے کا ناسور بن جانے والے فعل Domestic Violence سے ہی شروع ہوتی ہے۔ شادی کے بندھن میں بندھتے ہی فائزہ کو اپنے شوہر اور ساس جو کہ اس کی سگی پھوپھی تھی کے مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک ہی گھر جس کے گرائونڈ فلور پر فائزہ کے ماں باپ رہائش پذیر تھے۔ اسی گھر کے فرسٹ فلور پر وہ اپنے سسرال کے ظلم کا شکار ہوتی رہی والدین کو بتانے پر بھی اسے صبر کی تلقین ہی ملی اس کا شوہر ایک غیر تعلیم یافتہ نشے کا عادی اور جرائم پیشہ شخص تھا جبکہ وہ خود انگلش لٹریچر میں ماسٹرز تھی۔ اس کے باوجود وہ اپنے ماں باپ کی خاطر اپنی زندگی گزارتی رہی مگر اس کے صبر کا پیمانہ اس وقت لبریز ہوا جب اس کا شوہر آئے روز اسے طلاق دے کر بعد ازاں سب کے سامنے اس کی بات سے انکار کردیتا۔ فائزہ کے بہت بار بتانے پر بھی اس کے ماں باپ نے اس کی بات کا یقین نہیں کیا تو فائزہ کے پاس سوائے اپنی زندگی کے خاتمہ کے کوئی حل نہ بچا۔
ایسے میں فائزہ کی یہ الم ناک کہانی کسی ذریعے سے WOICE تک پہنچی۔ WOICE تنظیم کیونکہ معاشرے میں خواتین کے حقوق کے استحصال کے خاتمے کی جنگ لڑ رہی ہے اور ہر وہ خاتون جو ظلم کی چکی میں پس رہی ہے اس کا سہارا بننا WOICE کی اولین ترجیح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فائزہ کی مدد کرنے اور اسے اس صورتحال سے نکالنے کے لیے WOICE نے اہم کردار ادا کیا۔ اس ضمن میں سب سے پہلے ماہر نفسیات کے ذریعے دو ماہ تک فائزہ کے سیشن کروائے گئے تاکہ وہ مایوسی سے نکل کر اپنی زندگی کو بامقصد بنائے اور اپنے دو بچوں کی خود کفیل بنے۔
اگرچہ یہ بہت مشکل تھا کہ فائزہ کو اس ماحول سے نکالا جاتا مگر WOICE نے دو مہینے کی محنت سے یہ کر دکھایا اور فائزہ اپنے بچوں کو لے کر دارالامان پہنچ گئی۔ اس صورتحال میں اب اگر دیگر NGO's کی طرح WOICE تنظیم چاہتی تو میڈیا پر اس کے ساتھ ہونے والے ظلم کو اچھال کر اس کے لیے مزید مشکلات پید اکرتی یا فائزہ کو آگے کا راستہ دکھاتی اس ضمن میں WOICE نے دوسرا آپشن چنا اور اپنی لیگل ٹیم کے ساتھ نہ صرف فائزہ کو اپنا کیس عدالت میں لے جانے میں معاونت کی بلکہ اس کی جاب کا بندوبست بھی کیا۔ آج فائزہ ایک مشہور ادارے میں بحیثیت ٹرینر اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہے اور اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دینے کے لیے کوشاں ہے۔ یوں ایک خاتون کی زندگی کو مایوسی کے اندھیرے سے نکال کر روشنی تک کا سفر طے کروانا بلاشبہ WOICE کی ایک عظیم کامیابی ہے۔
Charity پراجیکٹس:
WOICE Food Bank کے نام سے ایک پراجیکٹ ہے۔ جس کے تحت بیوگان یتیموں اور نادار خواتین کو راشن پیکجز تقسیم کیے جاتے ہیں۔
Woice ہنر گھر:
’’میرا ہنر، میری کامیابی‘‘
1۔ معاشرے کو باہنر، باصلاحیت اور کامیاب خواتین فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین میں ہنر اور مختلف فنون سیکھنے کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے WOICE ہنر گھروں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ جس میں مختلف Women Skill development کورسز چلائے جارہے ہیں۔
بہت سارے اور ادارہ جات بھی ویمن ووکیشنل ٹریننگ پر کام کررہے ہیں مگر WOICE ہنر گھروں کی انفرادیت یہ ہے کہ ان میں بے سہارا اور ضرورت مند خواتین کو مفت فنی تربیت دی جاتی ہے نہ صرف ٹریننگ بلکہ کورس سیک Planed کے ذریعے اور روزگار فراہم کیے جارہے ہیں۔ ہر گھر میں کروائے جانے والے کورسز میں سلائی کورس، کمپیوٹر کورس، پروفیشنل کوکنگ کورس اور بیوٹیشن کورس۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، مارچ 2019ء
تبصرہ