بشریٰ قمر، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، ممبر پنجاب بار کونسل
اسلامی جمہوریہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ یہ ایسا ملک ہے جس کی بنیادیں اسلامی اصولوں پر استوار ہیں۔ اسلام نہ صرف مکمل دین بلکہ کامل ضابطہ حیات ہے۔ بلکہ اسلام وہ واحد مذہب ہے جو عورت کے حقوق، عزت و احترام اور برابری کو بیان کرتا ہے۔ سورہ نساء، سورہ مائدہ اور سورہ الاحزاب میں عورت کے عزت و مقام کا بیان ملتا ہے۔ نہ صرف قرآن پاک بلکہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عملی زندگی سے اس کی واضح مثالیں ملتی ہیں۔ جس کی واضح مثال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضاعی ماں کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے کیلئے مدینہ منورہ تشریف آوری ہے۔ جب حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا تشریف لائیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف اپنی رضاعی والدہ کی تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے بلکہ اپنی چادر مبارک بچھاکر احترام کے ساتھ ان کو بٹھایا۔ روز اول سے ہی عورت معاشرے کا اہم اہم رکن ہے۔ خواہ وہ حضرت اماں حوا علیہا السلام ہوں، حضرت ہاجرہ ہوں، حضرت سائرہ ہوں، حضرت مریم ہوں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ہوں، حضرت حفصۃ رضی اللہ عنہا ہوں، حضرت حسنین کریمین کی والدہ سردارِ جنت حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد ہوں۔
عالم اسلام کی پہلی شہید دختر حضرت سمیعہ رضی اللہ عنہا ہیں، اسی طرح تحریک آزادی پاکستان کی روحِ رواں ہمیشہ قائداعظم جناب محترمہ فاطمہ جناحؒ عورت کا کردار ہمیشہ ملک و قوم اور نئی نسل کی ترقی کا ضامن رہا ہے۔ اسی طرح مغربی معاشرے میں مدد ٹریسا کے رول کو ہم بھلا نہیں سکتے۔
روزمرہ زندگی کو لیں یا کسی مخصوص مکتبہ فکر کی عورت کو لیں یا کسی مخصوص گھرانے کی عورت کی زندگی کا مطالعہ کریں ہم پر عیاں ہوتا ہے کہ صدیوں پرانے ظلم و ستم رسم و رواج کی خود ساختہ چیزیں آج بنتِ حوا پر ظلم و بربریت کی تلواریں تانے ہوئے ہیں۔ آج اقتدار کے ایوانوں سے لے کر گھر کی چار دیواری تک جنسِ مخالف بنتِ حوا کے حقوق، ان کی ترقی، عزت و آبرو، سالمیت، ترقی کی راہ میں آڑے ہیں۔ اس دلدل سے نکلنے کے لیے بنت حوا تک قرآن وسنت کا پیغام دینا لازمی امر ہے۔ ساتھ ہی ساتھ آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان اور خصوصاً بالخصوص تحفظ نسواں کے ہر پہلو کو عام عورت سے روشناس کرانا انتہائی ضروری ہے۔ جنسِ مخالف کی خود ساختہ غالب رہنے کی سوچ اور علمی میدان میں پیچھے رہ جانے کی بابت ملکِ پاکستان میں عورت کو وہ حقوق حاصل نہ ہوسکے جو اسلام نے قرآن میں وضع فرمائے ہیں۔
تیزی سے بدلتے ہوئے وقت سے مقابلے کے لیے آج بہت سی NGO's حقوق نسواں کے لیے کام کررہی ہیں۔ اس سلسلے میں 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منعقد کیا جاتا ہے۔ آگاہی ورکشاپ بھی منعقد بھی کی جاتی ہیں۔ الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا بھی حقوق نسواں آگاہی مہم میں بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ 8 مارچ کو سکول کالجز میں تقاریر کے علاوہ مختلف پروگرامز ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ جس کا واحد مقصد حقوق نسواں کی آگاہی ہے۔
حکومت پنجاب بھی حقوق نسواں کی آگاہی مہم میں پیش پیش رہی۔ بنت حواکے تحفظ کے لیے مارچ 2015ء میں فیملی قانون میں ترمیم، حقوق نسواں بل سبھی عورت کو تحفظ فراہم کرنے کی مختلف کڑیاں ہیں۔
ہمارے معاشرے میں عورت کے لیے بےشمار معاشرتی مسائل ہیں۔ جس کا شکار صرف ان پڑھ عورتیں ہی نہیں بلکہ پڑھی لکھی خواتین بھی ہیں۔ بہت سارے مظالم وہ صرف اسی لیے برداشت کرتی رہتی ہیں کہ انہیں علم نہیں کہ انصاف کے لیے کس ادارے میں جانا ہے۔ کس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا ہے۔ اگر انصاف کے حصول کے لیے کوئی ستم رسیدہ خاتون عدالت تک پہنچ بھی جاتی ہے تو اسے عدالتی نظام کی پیچیدگیاں تھکا دیتی ہیں۔ جس کی وجہ سے بہت ساری خواتین مظالم کا شکار ہوتی ہیں اور جنسِ مخالف کی سفاکی بربریت کا شکار بنتی رہتی ہیں۔ مگر عدالت آنے کی بجائے صبر کو ترجیح دیتی ہیں۔
جن چند عورتوں کو علم ہے کہ ان کے حقوق، ان کے مسائل اور ان کا تدارک کیا ہے۔ وہ بھی سسٹم کی خامیوں کی وجہ سے آواز بلند نہیں کرتیں اور اندر ہی اندر کڑھتے کڑھتے نفسیاتی بیماری ڈپریشن کا شکار بن جاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی نصاب میں خواتین کے احکام (ماں کی عزت، بیٹی ایک رحمت، بیوی ایک راحت وغیرہ) کو اجاگر کرنے کے لیے استحقاق کا اضافہ کیا جائے تاکہ زمانہ بچپن سے ہی عورت کو اپنے مقام و مرتبہ اور حقوق نسواں سے آگاہی حاصل ہوسکے۔ عدالتی کاروائی کا عمل تیز تر اور سہل ہو اور اداروں میں خواتین کے مسائل کو ٹریٹ کرنے والے ملازمین کے لیے سپیشل کورسز کروائے جائیں اور ان کی خصوصاً بالخصوص کردار سازی کی جائے تاکہ ان کو علم ہو کہ ماں، بہن اور بیٹی کو ٹریٹ کیسے کرنا ہے؟
NGO's کو چاہئے کہ صرف شہرت کے حصول کے لیے نہیں بلکہ عملی طور پر کام کریں۔ زیادہ سے زیادہ ورکشاپ منعقد کروائیں اور موثر طریقے سے خواتین میں ان کے حقوق کے حوالے سے شعور پید اکیا جائے۔
حکومت مرکزی اور ضلعی سطح پر خواتین کے حوالے سے کام کررہی ہے جس میں کچھ مراکز اور کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک انسداد تشدد مرکز برائے خواتین ہے جس کی ذمہ داریاں درج ذیل ہیں:
- خواتین کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کا پولیس کے پاس اندراج کروانا۔ طبعی معائنہ کروانا اور شہادتیں اکٹھی کرنا۔
- متاثر خواتین کو فوری تحفظ فراہم کرنا۔
- شکایت کی موصولی اور حل کے لیے موثر نظام قائم کرنا۔
- فریقین کے درمیان مجوزہ ایکٹ کے تحت ثالثی کے ذریعے صلح کروانا۔
- خواتین کو حکومت سے متعلقہ تمام تحقیقات میں رہنمائی کے لیے (کمیونٹی سنٹر) کے طور پر عمل کرنا۔
پنجاب حکومت کا تحفظ نسواں ایکٹ 2016ء (The Punjab Protection of Women Against Violence Act 2016)
حکومت پنجاب نے تشدد کی صورت میں خواتین کے تحفظ کا ایکٹ 2016ء پنجاب اسمبلی میں پیش کیا ہے جسے 24 فروری 2016ء کو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ اس بل کا مقصد خواتین کو انصاف کی فراہمی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ اس بل کے ذریعے خواتین کو مندرجہ ذیل جرائم سے جامع تحفظ دیا گیا ہے:
- گھریلو تشدد
- جذبات اور نفسیاتی بدسلوکی
- معاشی عدم مساوات
- ہراساں کرنا
- سائبر کرائم
- فیملی کمیٹی تحفظ نسواں جو تحفط کے مراکز، دارالامان اور ٹال فری ہیلپ لائن کی نگرانی کرتی ہے اور ان کی خدمات کو بہتر بنانے کے لیے ضروری اقدامات کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔
خواتین کے تحفظ کے ایکٹ 2016ء کے تحت فریقین کے درمیان ثالثی کرکے جھگڑے نمٹانا۔ ضلع میں دوسرے محکموں اور اداروں سے رابطہ رکھنا تاکہ حفاظتی مراکز خواتین کے تحفظ کے مقصد کو اچھی طرح انجام دیں۔
یہ کچھ اقدامات جو حکومتی سطح پر کیے جارہے ہیں۔ انفرادی طور پر بھی اس چیز کی ضرورت ہے کہ خواتین خود قانونی لحاظ سے باشعور ہوں اور انہیں ہر ظلم و زیادتی اور لاقانونیت کا پتہ ہو تاکہ وہ کسی اور کہ محتاج ہونے کی بجائے اپنے لیے خود آواز بلند کریں اور معاشرے کا ایک مستحکم اور فعال رکن بن کر ملکی اور معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کریں۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، مارچ 2019ء
تبصرہ