مصباح عثمان
بلاشبہ قرآن مجیدفصاحت و بلاغت، قواعد و معانی اور علوم و معارف کا لازوال خزینہ ہے اور اس کے ایک ایک لفظ میں کئی کئی معانی و معارف پنہاں ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس عظیم تحفہ خداوندی کی طرف رجوع کرنے اور اس سے تمسک اختیار کرنے والوں کو علم و حکمت کے وہ نادر و نایاب گوہر عطا ہوئے جن سے زمانے مستفید و مستفیض ہوئے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بھی عظیم اسلاف کی اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے احیاء اسلام ، تجدیدِ دین کی جدوجہد اور ملتِ اسلامیہ کے زوال سے نجات کا نسخہ کیمیا قرآن مجید کو قرار دیا اور اپنی جد و جہد کو تحریکِ منہاج القرآن سے موسوم کیا، جس کا مطلب ہے: قرآن مجید کے راستے کی تحریک۔ تحریک کے عنوان کو عملی سانچے میں ڈھالنے کے لیے آپ نے اپنی تقاریر و تحاریر میں مصادرِ اصلیہ یعنی قرآن و سنت سے طریقہ استنباط و استخراج کو فروغ دیا اور اس حقیقت کو عیاں کیا کہ قدیم علوم ہوں یا جدید علوم، تمام علوم کا منبع و سرچشمہ صحیفہ رشد و ہدایت قرآن مجید ہے جس کی تشریح و تعبیر تعلیماتِ نبویa فراہم کرتی ہیں۔ گویا دنیائے عرب و عجم کے جتنے بھی قدیم و جدید علوم ہیں، ان کے سوتے اسی الہامی کتاب سے پھوٹتے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس راز سے بخوبی آگاہ ہونے کی بدولت عصرِ حاضر کے تمام مسائل کا ممکنہ حل نہ صرف قرآن مجید کی روشنی میں پیش کیا بلکہ عملی طور پر بھی اس کا نمونہ دنیا کو دیا۔
اس وقت عصرِ حاضر کے مسائل میں سے ایک سب سے بڑا مسئلہ انسدادِ انتہاپسندی و دہشت گردی اور قیامِ امن ہے جس نے عالمی سطح پر تمام انسانیت کو بالعموم اور امتِ مسلمہ کو بالخصوص اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ اس کے باعث ایک طرف انتہا پسندی و دہشت گردی نے پوری دنیا میں خوف و ہراس اور بد اعتمادی کی فضا قائم کی ہے اور عالمی سطح پر اقوام کے درمیان شکوک و شبہات کو جنم دیا تو دوسری طرف قیامِ امن کی آڑ میں عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا جو بذاتِ خود جنگ کی ہی ایک شکل ہے کیوں کہ اس اقدام سے جہاں دہشت گردوں کو قتل کیا گیا وہیں معصوم شہری بھی تشدد اور ظلم کا نشانہ بنے ہیں۔ عالمی معیشت بری طرح تباہ ہوئی اور عالمی برادری کی خطیر رقم جو انسانیت کی فلاح و بہبود اور غربت کے خاتمے کے لیے استعمال ہونی تھی وہ دہشت گردی کی روک تھام کی خاطر کیے جانے والی مسلح کارروائیوں میں استعمال ہوئی۔ بغیر کسی تفریق کے ان گنت لوگوں کی جانیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ضائع ہوئیں۔
عالمی سطح پر اس چیلنج نے اسلام کی تعلیمات کو ایک سوالیہ نشان بنا دیا اور اسلام دشمن عناصر کے اس اقدام نے اسلام جیسے پر امن دین پر انگشتِ تنقید اٹھانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اس عالمی تناظر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنا فرضِ منصبی ادا کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف مبسوط تاریخی فتویٰ اور نصابِ امن کی صورت میں متبادل بیانیہ امت کو پیش کیا تاکہ دہشت گردوں کے بیانیے کا مکمل رد ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر اسلام اور مسلمانوں پر لگے ہوئے الزامات کا ازالہ ممکن ہو سکے اور نوجوان نسل کے عقیدے اور ایمان کا تحفظ کرتے ہوئے انہیں گمراہ اور بد عقیدہ ہونے سے بچایا جا سکے۔
زیرِ نظر تحریر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی دہشت گردی کے خاتمے اور قیامِ امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کا آپ کی معرکہ آراء تصنیف قرآنی انسائیکلوپیڈیا کے تناظر میں جائزہ لیا جائے گا کہ آپ نے اس عالمی ناسور سے نبرد آزما ہونے اور اس کے خاتمے کے لیے جو بھی اقدامات کیے ہیں وہ تمام قرآن مجید کی آیات اور تعلیمات کی روشنی میں ہیں۔
یہ عظیم قرآنی انسائیکلو پیڈیا آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کی چوتھی جلد کا آغاز ہی امن و محبت اور عدمِ تشدد و ارہاب کے باب سے ہوتا ہے۔ اس عنوان کے تحت قرآن مجید کی ان آیات کو شامل کیا گیا ہے جو معاشرے میں قیامِ امن اور انتہا پسندی و دہشت گردی کے خاتمے کی راہ بتلاتی ہیں۔ شیخ الاسلام نے امن و محبت، اصلاحِ معاشرہ، انسانی زندگی کا تحفظ، فرقہ واریت کی مذمت، مسلمانوں میں اتحاد و یگانگت کی ضرورت و اہمیت، غیر مسلموں سے حسنِ سلوک، ان کے جان و مال اور عبادت گاہوں کا تحفظ، مذاہبِ عالم اور ان کے عقائد وغیرہ جیسے کئی موضوعات کو قرآنی آیات کی روشنی میں ترتیب دیا ہے۔ جن کا مطالعہ ایک اچھا مسلمان اور مفید شہری بننے میں ممدّ و معاون ہوسکتا ہے۔ اس باب میں معاشرے میں بگاڑ اور فساد کا سبب بننے والے عناصر مثلاََ مفسدین، باغی اور فتنہ پرور دہشت گردوں کے بارے میں قرآن مجید میں جو احکامات اور وعیدیں آئی ہیں، انہیں بالتفصیل شامل کیا گیا ہے۔ اس جلد میں زیرِ بحث آنے والے قرآنی موضوعات میں خاص طور پر انسانی زندگی کے تحفظ اور انسانی جان کی حرمت پر احکامات سے متعلق مضامین درج کیے گئے ہیں۔ چوتھی جلد کی اہمیت اس اعتبار سے بھی دوچند ہو جاتی ہے کہ اس میں بین المذاہب ہم آہنگی اور انسانی آزادیوں سے متعلق جملہ احکامات کا تفصیلی ذکر ہے۔
قرآن مجید میں مفسدین اور باغیوں کی علامات کا مختلف مقامات پر تذکرہ کیا گیا ہے جسے شیخ الاسلام نے قرآنی انسائیکلوپیڈیا میں ایک باب کے تحت مختلف عنوانات کے ساتھ جمع فرمایا ہے۔ بلاشبہ قرآن مجید کا علم قیامت تک کی انسانیت کے لیے سر چشمہ ہدایت ہے۔ اب یہ امتِ مسلمہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہر دور میں تعلیماتِ اسلامی کا اس انداز سے گہرائی اور گیرائی کے ساتھ مطالعہ کرے کہ تمام پیش آمدہ مسائل کا حل اسے مل جائے۔ اسی حقیقت کو جانتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے انتہائی باریک بینی اور محنتِ شاقہ سے قرآن مجید کی آیات اور احکامات کی روشنی میں فتنہ خوارج اور دہشت گردوں کی شناخت کرواتے ہوئے انسدادِ دہشت گردی کے اصول وضع کیے اور آج سے تقریباََ دس سال قبل سال مارچ 2009ء میں دہشت گردی کے خلاف جاری کیے گئے مبسوط تاریخی فتویٰ میں ان باغیوں اور مفسدین کی علامات کا نہ صرف بالصراحت تذکرہ کیا بلکہ ان کی بیخ کنی کے اقدامات بھی پیش کیے۔ ان تجاویز پر اگر سنجیدگی سے عمل کیا جائے تو اکیسویں صدی کے اس چیلنج سے نبٹنا ممکن ہو سکتا ہے۔ آپ کا یہ تاریخی فتویٰ اس وقت دنیا کی مختلف زبانوں اردو، عربی، انگریزی، ہندی، سندھی، فرانسیسی اور انڈونیشین زبانوں میں شائع ہو چکا ہے۔
قرآن مجید کی آیاتِ بینات کی روشنی میں یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اسلام جارحیت اور فتنہ و فساد کی قطعاََ اجازت نہیں دیتا۔ شیخ الاسلام نے اسی عنوان کے تحت قرآنی انسائیکلوپیڈیا میں نہ صرف ان آیات کو جمع کیا بلکہ اپنی جدوجہد کے ذریعے شرق تا غرب عملی صورت میں ان کا پرچاربھی کر رہے ہیں۔ آپ کی اندرونِ ملک و بیرونِ ممالک کانفرنسز اور اجتماعات کا بنیادی مقصد ہی اسلام کے پر امن چہرے کو عالمی سطح پر واضح کرنا ہے۔
فتنہ خوارج اور دہشت گردی کے خلاف تاریخی فتویٰ دینے کے بعد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی کاوشوں کو اسی ایک عمل تک محدود نہیں رکھا بلکہ آپ نے حالات کی ضرورت و اہمیت کو بھانپتے ہوئے اس عفریت سے نبٹنے کے اقدامات کو مزید تیز تر کر دیا۔ آپ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ معاشرے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ان انتہا پسندانہ نظریات و افکار کو ختم کیا جائے جو دہشت گردی کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر طبقہ فکر کو ذہنی اور فکری طور پر دہشت گردی کی فکر اور انتہا پسندانہ نظریات کے خلاف بین الاقوامی سطح پر تیار کیا جائے اور معاشرے سے انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ دہشت گردوں کی فکری و نظریاتی سر چشموں کا بھی ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے۔ مزید براں انتہا پسندانہ افکار و نظریات کے خلاف مدلل مواد ہر طبقہ زندگی کو اس کی ضروریات کے مطابق فراہم دیا جائے تاکہ معاشرے سے اس تنگ نظری اور انتہا پسندی کا خاتمہ ہو سکے جہاں سے اس دہشت گردی کو فکری غذا حاصل ہوتی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے آپ نے فروغِ امن اور انسدادِ دہشت گردی کا اسلامی نصاب ترتیب دیا۔
عصرِ حاضر میں دہشت گردی کے علاوہ دوسرا بڑا چیلنج جو پوری دنیا کو بالعموم اور امتِ مسلمہ کو بالخصوص درپیش ہے وہ امنِ عامہ کی بحالی ہے۔ ہر طرف انتہا پسندی اور دہشت گردی کے باعث فتنہ و فساد، ظلم و ستم، قتل و غارت گری اور خوں ریزی کا بازار گرم ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانیت کو امن آشنا کیا جائے۔ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جو دنیا کو امن کا گہوارہ بنا دیں۔ جہاں محبت و آشتی کے پھول کھلیں، کوئی آنکھ نم نہ ہو، کسی بے گناہ کا خون نہ بہے، قتل و غارت گری کے باعث کس کے گھر میں صفِ ماتم نہ بچھے۔
امنِ عامہ کی بحالی اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی روشنی میں ضروری نکات
امنِ عامہ کی بحالی اور د نیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی روشنی میں درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں:
- اخلاقِ حسنہ کی ترغیب و ترویج (الاحزاب، 33/21؛ القلم، 68/4)
- محبت و مودت اور رحم دلی کا فروغ (آل عمران، 3/134؛ التوبہ، 9/128؛ الانبیاء ، 21/107؛ البروج، 85/14؛)
- دین میں غلو یعنی حد سے تجاوز کرنے اور انتہا پسندی کی ممانعت (النساء ، 4/171)
- مسلمانوں میں باہم محبت و اخوت کو فروغ دینا (الانبیاء ، 21/92؛ الحجرات، 23/52)
- بین المسالک جھگڑوں اور فرقہ واریت کو ختم کرنا (آل عمران،3/103، 105)
- بین المذاہب رواداری کے ذریعے اسلام کی تعلیماتِ امن کو فروغ دینا (الانعام، 6/108)
- بین المذاہب مکالمہ کا حکم (النحل، 16/125، العنکبوت، 29/46)
فروغِ امن میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا کردار: قرآنی انسائیکلوپیڈیا کے تناظر میں
فروغِ امن کے حوالے سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کاوشیں بلاشبہ آبِ زر سے لکھی جانے کے قابل ہیں۔ امنِ عامہ کی بحالی کے لیے مذکورہ بالا نکات میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نہ کیا ہو۔ آپ نے ہر سطح پر امن کے فروغ کے لیے کاوشیں کیں اور تاحال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آپ کی کاوشوں کے چند گوشے ذیل میں پیشِ خدمت ہیں:
اتحاد بین المسلمین کی کاوشیں
فرقہ واریت اور تفرقہ پروری نے جسدِ امت کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ امت کو اتحاد و یگانگت کی لڑی میں پرونے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جو اقدام کیے وہ ناقابلِ فراموش ہیں۔ اگر ان قدامات پر عمل کیا جائے مثلاََ اتحادِ امت کے جو بارہ نکات آپ نے پیش کیے ان پر عمل درآمد کے ذریعے تما م مسالک کے مابین ایک عظیم الشان اتحاد پیدا ہو سکتا ہے۔ اسی طرح شیعہ سنی اتحاد کے لیے آپ کی جانب سے پیش کردہ اعلامیہ وحدت شیعہ سنی اتحاد کی نایاب کنجی ہے۔ اگر اس اعلامیہ کی قدر و منزلت کا اندازہ لگاتے ہوئے عملی طور پر اسے نافذ کیا جائے تو وطنِ عزیز سے تمام مسلکی و گروہی جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں اور تمام مسالک کے مابین اتحاد اور بھائی چارے کی فضا قائم ہوسکتی ہے۔ تمام مسالک کے مابین اتحاد کے ذریعے اسلام کا دفاع مضبوط بنیادوں پر ممکن بنایا جا سکتا ہے کیوں کہ جب سب مسلمان متحد ہو کر اسلام دشمن عناصر کا مقابلہ کریں گے تو کسی میں یہ جرات پیدا نہیں ہو گی کہ وہ اسلام کو کسی قسم کا کوئی گزند پہنچا سکے۔
اتحاد اور باہمی یگانگت کے فروغ سے امتِ مسلمہ ترقی کی منازل کی جانب رواں دواں ہو سکے گی۔ اسلام کی اقدار کو فروغ ملے گا۔ اسلام کی امن و محبت پر مبنی تصویر اغیار کے سامنے پیش ہو گی۔ فرقہ واریت، تنگ نظری، انتہا پسندی اور ایک دوسرے کو کافر و مشرک قرار دینے کی قبیح روش کا خاتمہ ممکن ہو گا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا قائم کردہ انٹرنیشنل تنظیمی نیٹ ورک اور فروغِ امن
ڈاکٹر طاہرالقادری نے منہاج القرآن انٹرنیشنل کو کسی ایک مخصوص مسلک کے لیے قائم نہیں کیا بلکہ اسے امتِ مسلمہ کی نمائندہ تحریک قرار دیتے ہوئے عالمی سطح پر دینِ اسلام کی سر بلندی کی تحریک ڈیکلئر کیا۔ یہی وجہ کے آپ کے اس اقدام کے باعث اس تحریک کے پلیٹ فارم پر ہمیں بیک وقت اسلام کے تمام مسالک نظر آتے ہیں۔ اسے کسی ایک خاص طبقہ فکر کے لیے مخصوص نہیں کیا گیا۔
آپ کے قائم کردہ تعلیمی ادارہ جات کا ایک وسیع نیٹ ورک ملکِ پاکستان میں پھیلا ہوا ہے جہاں دین و دنیا کی تعلیم بیک وقت طلباء کو دی جاتی ہے اور ان میں اعتدال پسندی کو فروغ دینے کے لیے اسلام دینِ امن و محبت کو بطور ایک اہم مضمون کے سمجھایا اور پڑھایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کے تعلیمی ادارہ جات سے فارغ التحصیل ہونے والے افرادِ معاشرہ کو اعتدال اور امن پسندی کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔
آپ کے قائم کردہ تعلیمی ادارے طلباء کی مثبت بنیادوں پر کردار سازی اور شخصیت سازی میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں اگر دیگر انسٹی ٹیوٹ میں بھی اسی طرز کے اقدام کیے جائیں تو نوجوان نسل کی مثبت بنیادوں پر کردار سازی کے عمل کے ذریعے معاشرے میں امن و آشتی اور اعتدال پسندی کو فروغ ملے گا اور انتہا پسندی، فرقہ واریت، تنگ نظری اور دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ آپ کی قائم کردہ تحریک منہاج القرآن کے دنیا کے سو ممالک میں مراکز ہیں، جو تارکین وطن کی نئی نسل کو اسلام پر کار بند رکھنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
تصنیفات و تالیفات اور خطبات کے ذریعے انسدادِ دہشت گردی اور فروغِ امن
ڈاکٹر طاہرالقادری کی امن و محبت پر مبنی تعلیمات کا نتیجہ ہے کہ ان سے اکتسابِ فیض کرنے والے معاشرے کے پر امن اور معتدل افراد ہیں۔ اس وقت تک آپ کے کئی ہزار خطبات ہیں جو الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں سنے جاتے ہیں ان خطبات میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جو انتہا پسندی یا تنگ نظری کو فروغ دیتا ہو بلکہ ہر لیکچر اپنی جگہ اسلام کی حقانیت کو اقوامِ عالم کے سامنے شاندار انداز میں پیش کرنے کی مثال آپ ہے۔
بین المذاہب مکالمہ اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
بین المذاہب رواداری کے فروغ کے تناظر میں آج اگر ہم اسلام اور عیسائیت کے مابین مکالمہ پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں دونوں اطراف میں شدت نظر آتی ہے۔ نتیجتاً اس طرز عمل سے انسانیت محبت و امن کے بجائے نفرت و تعصب کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ ایسے حالات میں آپ نے اقوامِ عالم کے سامنے اسلام کی بہترین انداز میں وکالت کی۔ اسلام کے حقیقی پیغام کو پھیلانے میں کوئی پہلو تشنہ نہ چھوڑا۔
نوجوانوں کی اخلاقی و اصلاحی تربیت
آپ کی تمام تر تگ و دو کا مقصود امتِ مسلمہ کے نوجوانوں کی اخلاقی و روحانی تربیت کرنا ہے تا کہ مسلمانوں کے شاندار ماضی کی روح پھر سے تازہ ہو اور عصرِ حاضر میں امتِ مسلمہ کے نوجوان اخلاقِ حسنہ سے مزین سائنس وٹیکنالوجی کے ہر میدان میں اپنے اسلاف کی طرح شاندار کارہائے نمایاں سر انجام دے سکیں۔ آپ نوجوانوں کی اس نہج پر تربیت کرنے کے خواہاں ہیں کہ ان میں انتہا پسندی اور شدت پسندی کی بجائے امن پسندی فروغ پائے اور ان کے ہاتھوں میں اسلحہ و بندوق کی بجائے قلم اور کردار و تقویٰ کی طاقت ہو۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے 2004ء سے عالمی سطح پر آپ کی زیرِ نگرانی الہدایہ کیمپس منعقد کیے جاتے ہیں جہاں نوجوانوں کے اخلاق و احوال اور کردار کو سنوارنے کا فریضہ سر انجام دیا جاتا ہے۔ سال 2017ء میں منعقدہ الہدایہ کیمپ اسی سلسلہ کی کڑی ہے جس میں آپ نے نہ صرف نسلِ نو کی اخلاقی و روحانی تربیت کو الہدایہ کیمپ کا لازمی حصہ بنایا بلکہ عالمی سطح پر نوجوانوں کو دہشت گردوں کے بیانیے کے خلاف اسلامی تعلیمات کی روشنی میں متبادل بیانیہ بھی دیا۔
شرکائے کیمپ کو درپیش مسائل مثلاً اسلام کا تصورِ جہاد، اسلام کا تصورِ خلافت و ریاست، اسلام کا تصورِ امن کو اسلام کی حقیقی تعلیمات کی روشنی میں واضح کیا۔ مزید برآں دارالحرب، دارالامن، دارالسلام جیسی اسلامی اصطلاحات کی غلط تعبیرو تشریح جو دہشت گردوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے کر رکھی ہیں ان کا درست فہم و ادراک نوجوانوں کو فراہم کیا۔ گزشتہ سال جولائی 2018ء میں شیخ الاسلام کا دورہ یورپ بھی انہی مقاصد کے حصول کی تگ و دو ہے۔ آپ کی زیرِ قیادت منعقد ہونے والے یہ کیمپس اور دورہ جات بلاشبہ بین الاقوامی سطح پر نسلِ نو میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔
جہاد کے بارے میں مغربی ابہامات کا ازالہ
دہشت گردوں اور اسلام دشمن عناصر نے بدقسمتی سے اسلام کے تصورِ جہاد کو اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال کر کے اسے بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر جہاد کا نام سنتے ہی قتل و غارت گری اور ظلم و بربریت کی تصویر سامنے آتی ہے۔ آپ نے اپنی انتھک محنت اور کاوشوں کے ذریعے اسلام کی درست تعلیماتِ جہاد کو پوری دنیا کے سامنے رکھا اور مدلل انداز میں کتاب اور لیکچرز کی صورت میں اسلام کے تصورِ جہاد کو اقوامِ عالم تک پہنچایا۔ جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ عالمِ مغرب کے جہاد سے متعلق ابہامات کا ازالہ ممکن ہوا۔ آپ نے بین الاقوامی سطح پر انسدادِ دہشت گردی اور فروغِ امن کا کانفرنسز میں شرکت کر کے جرات اور بہادری کے ساتھ اسلام کا دفاع کیا۔ اسلام کے نام کو سر بلند کیا۔
حاصلِ بحث
معزز قارئین! شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا قرآنی انسائیکلوپیڈیا آپ کے نصف صدی سے زائد مطالعہ قرآن کا نچوڑ ہے جو جدید عصری، سائنسی اور فکری موضوعات پر مشتمل ہیں۔ ہر وہ شخص جو قرآن مجید سے اپنا تعلق بحال کرنا چاہتا ہے اور اس کے علوم و معارف تک رسائی چاہتا ہے اس کے لیے یہ بہترین رہنما کا فریضہ سر انجام دے گا۔ اسی نادر ونایاب علمی خزینے کی روشنی میں یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی احیائے اسلام اور عصرِ حاضر کے مسائل بالخصوص دہشت گردی کے ناسور سے نبٹنے کے تمام اقدامات اور فروغِ امن کے لیے ساری کاوشیں قرآن مجید کی تعلیمات کی عکاس ہیں۔ الغرض قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی روشنی میں ایک عظیم تحفہ امتِ مسلمہ کو دے کر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے حصے کا کام اور فریضہ ادا کرکے امت کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اب امتِ مسلمہ کے وہ افراد اور نوجوانانِ ملت جو قرآن مجید سے اکتسابِ فیض کرنا چاہتے ہیں اور امت اور انسانیت کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان کے کیے گئے کام سے استفادہ کرتے ہوئے اس کام کو آگے بڑھائیں اور عملی طور پر اسے نافذ کرنے کے ایسے اقدام کریں جن کے ذریعے تمام معاشرہ امن و آشتی اور پیار و محبت کا گہوارہ بن جائے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، فروری 2019ء
تبصرہ