ڈاکٹر فیض اللہ بغدادی
گر تومی خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بقرآن زیستن
تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمانانِ عالم نے آخری الہامی کتاب قران مجید کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا تو رفعت و بلندی اور عروج و تمکنت ان کا مقدر رہا۔ جوں جوں وہ قرآنی تعلیمات سے دور ہوتے گئے ذلت و رسوائی ان کا مقدر ٹھہری۔ یہ امر نہایت قابلِ افسوس ہے کہ وہ کتابِ ہدایت جس میں اللہ تعالیٰ نے ہر خشک و تر کا علم رکھ دیا ہے، ہم صرف گھروں، مجلسوں اور قبرستانوں میں خوش الحانی کے ساتھ اس کی تلاوت کرنے پر قانع ہوگئے ہیںیا حصول برکت و تقدس کے لیے قرآن مجید کو گھروں میں زینتِ طاقِ نسیاں بنا کر رکھا ہواہے۔ ہمیں اِس اَمر کا اِحساس ہی نہیں کہ قرآن مجید کی حقیقی منفعت اس میں فہم و تدبر اور اس کے بیان کردہ اوامر و نواہی اور آداب و اطوار سے کسب فیض کرنے میں مضمر ہے۔ جب کہ ہم نے اس میں غور و فکر اور تدبر و تفکر کو یکسر ترک کر دیا ہے۔ حالانکہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْکَ مُبٰـرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰـتِهٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِo
یہ کتاب برکت والی ہے۔ جسے ہم نے آپ کی طرف نازل فرمایا ہے تاکہ دانشمند لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور نصیحت حاصل کریں۔
(ص، 38/ 29)
پھر فرمایا:
اَفَـلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَاo
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں۔
(محمد، 47/ 24)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللهُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَo
اسی طرح اﷲ تمہارے لیے (اپنے) احکام کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۔
(البقرة، 2/ 219)
اِس طرح قرآن حکیم درجنوں مقامات پر اَفَـلَا تَتَفَکَّرُوْنَ (سو کیا تم غور نہیں کرتے؟)، اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا (کیا انہوں نے غور نہیں کیا) اور ان جیسے دیگر الفاظ کے ساتھ خود میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ لہٰذا قرآن میں غور و فکر محض تلاوت سے ممکن نہیں، اور یہ تلاوت اگر کوئی ایسا شخص کرے جو عربی زبان و ادب کی سرے سے علم نہ رکھتا ہو تو تدبر کا پہلو بالکل ہی معدوم ہوجاتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ آیاتِ قرآنیہ کی تلاوت کے ساتھ ساتھ ان کے معانی و مفاہیم اور مطالب و مضامین کو بھی سمجھا جائے کیونکہ ہدایت و رہنمائی اور دین و دنیا کی فلاح اس لا ریب کتاب کی آیات میں غور و فکر اور تفکر و تدبر کرنے اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے ہی میں مضمر ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے جب تحریک منہاج القرآن کا آغاز کیا تو اس کے بنیادی اہداف میں سے ایک تمسک بالقرآن اور رجوع الی القرآن رکھا، کیونکہ بانیِ تحریک کی تجدیدی فکر کا ایک بنیادی نقطہ یہ ہے کہ اُمت کے زوال کا بنیادی سبب قرآن سے دوری ہے۔ اپنی تحریک کا نام قرآن کے ساتھ منسلک کرنا بھی اِس فکر کی طرف واضح اشارہ ہے۔
شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے دور حاضر میں اُمت کے قرآن سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو پھر سے جوڑنے کے لیے مختلف محاذوں پر کام کیا اور تاحال کر رہے ہیں تاکہ قرآن کا آفاقی پیغام گھر گھر پہنچ جائے اور اُمت مسلمہ کا اس کتاب سے ٹوٹا ہوا تعلق پھر سے بحال ہوسکے۔ اس مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ خطابت تھا۔ آپ نے سب سے پہلے اپنی بے مثال خطابت کے ذریعے قرآن کے اُلوہی پیغام کو عوام الناس کے قلوب و اَذہان میں جاگزیں کرنے کا کام کیا۔ اس کے لیے آپ نے لاہور کے علاقہ شادمان میں درسِ قرآن اور چاروں صوبائی ہیڈ کوارٹرز پر ماہانہ دروسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان ٹیلی ویژن پر آپ کے ہفتہ وار پروگرام’ فہم قرآن‘ نے پورے ملک میں دھوم مچا دی اور لوگ ہفتہ بھر آپ کے اس پروگرام کا شدت سے انتظار کرتے اور پروگرام کے لیے تمام دنیاوی مشاغل ترک کرکے اپنے قلوب و اذہان کو منور کرتے۔
ان دروس قرآن کے علاوہ آپ کے ہزارہا آڈیو، ویڈیو لیکچرز کا بنیادی مرکز و محور بھی قرآنی آیات ہی ہوتی ہیں۔ قرآنی تعلیمات کو عام کرنے اور گھر گھر پہنچانے کے لیے آپ نے تحریک منہاج القرآن کے تمام فورمز بالخصوص نظامتِ دعوت و تربیت اور منہاج القرآن ویمن لیگ کو بھی ٹاسک دیا، جو بحمدہ تعالیٰ کامیابی سے اس مشن کو لے کر چل رہے ہیں۔ ضلع و تحصیل اور یونین کونسل کی سطح تک ماہانہ دروس قرآن، عرفان القرآن سنٹرز اور الہدایہ کیمپس کا انعقاد بھی اسی سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں۔
آپ کے ترجمہ قرآن یعنی ’عرفان القرآن‘ کو ہر سطح پر قبولِ عام حاصل ہوا ہے، دنیا کی متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے اور دنیا بھر میں پڑھا جا رہا ہے۔ تفسیر سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہیں، اور مستقبل قریب میں آپ نے پورے قرآن کی تفسیر کا بھی عندیہ دیا ہے جس کا لوگوں کو شدت سے انتظار ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ وہ بیک وقت قدیم و جدید علوم کی حامل ہے ۔ آپ قدیم و روایتی علوم سے بھرپور استفادہ کر کے انہیں جدید اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق عوام و خواص تک پہنچانے میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے تقریر و تحریر میں روایتی کلچر کو ختم کر کے انہیں عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا اور ان میں تحقیق کو فروغ دیا۔ آپ کی ساڑھے پانچ سو سے زائد مطبوعہ کتب اور چھ سات ہزار سے زائد خطابات اس کا بین ثبوت ہیں۔
اِس سلسلہ کا نقطۂ کمال آپ کا جو آٹھ جلدوں پر مشتمل الموسوعۃ القرآنیۃ (Quranic Encyclopedia) ہے۔ اس میں پانچ ہزار سے زائد موضوعات ہیں جن کا تعلق تقریباً علم کی ہر نوع سے ہے۔
قرآن مجید ہر علم کا منبع و مرقع ہے، جدید سائنس کے تمام موضوعات بھی اس میں موجود ہیں، شیخ الاسلام نے قرآن مجید میں بیان کردہ ان جدید علوم و معارف کی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: میں نے تمام علوم کو قرآن کے علم کے سامنے سجدہ ریز پایا۔ میں نے cosmology کو قرآن کے سامنے سجدہ کرتے دیکھا، میں نے astronomy، botany، biology، micro-biology، physics، astro-physics، chemisty، bio-chemistry، علم جمادات، علم حیوانات، علم معادن، انسان کی تخلیق کا علم، کائنات کا علم، فضا، خلا، سیاروں اور ستاروں کا علم، الغرض! جس علم اور سائنس کو دیکھا، میں نے ہر علم کو قرآنی علم کے سامنے سجدہ ریز پایا۔ یہ سجدہ ریز کس طرح پایا؟ اس طرح کہ خود اس علم کو حقائق کی معرفت آج ہوئی جس سے وہ developed scientific knowledge بنا مگر آج جو معرفتِ علم سائنس کو ہو رہی ہے، وہ 14 سو سال قبل قرآن مجید اور سنتِ رسولa میں بیان ہو چکی ہے۔
قرآنی انسائیکلو پیڈیا بھی ان تمام جدید موضوعات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ہم آئندہ سطور میں انہی موضوعات پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں گے۔
اِس عظیم علمی شاہکار قرآنی انسائیکلوپیڈیا میں ایمانیات و اعتقادیات اور حقوق و فرائض کے علاوہ جدید موضوعات جیسے: علم کی ضرورت و اہمیت اور سائنسی حقائق پر خصوصی مضامین قائم کیے گئے ہیں۔ انسانی جسم کا کیمیائی اِرتقائ، حیاتیاتی اِرتقائ، رحمِ مادر میں بچے کی تخلیق اور پرورش، اس کے تخلیقی اور تدریجی مراحل، رحمِ مادر میں جنس کا تعین، حواسِ خمسہ، انگلیوں کے نشانات (finger prints) کی تخلیق کی حکمت، کائنات کی تخلیق کے سائنسی پہلو، زمین و آسمان کی تخلیق کے سائنسی پہلو، علم الطبیعیات، علمِ فلکیات، موسمیات، نباتات، علم الحیوانات اور ماحولیات جیسے متنوع موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ موضوعات عام قاری کے ساتھ ساتھ سائنس دانوں، انجینئرز، ڈاکٹرز اور ہر طبقے کے لیے بہت اہم ہیں۔ نیز اس انسائیکلو پیڈیا میں اَمن و محبت، اِصلاحِ معاشرہ، انسانی زندگی کا تحفظ، فرقہ واریت کی مذمت، مسلمانوں میں اتحاد و یگانگت کی ضرورت و اہمیت، غیر مسلموں سے حسنِ سلوک، اُن کے جان و مال اور عبادت گاہوں کا تحفظ، مذاہب ِ عالم اور اُن کے عقائد جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔
انسانوں کے ایک دوسروں پر حقوق و فرائض اور مختلف طبقات کے ادب و احترام پر مشتمل موضوعات بھی اس عظیم کتاب کا حصہ ہیں۔ اخلاقِ حسنہ کی فضیلت کے ساتھ ساتھ اخلاقِ سیئہ کی مذمت بھی بیان کی گئی ہے؛ مثلاً جھوٹ، بہتان، فتنہ انگیزی، بے حیائی، تہمت، غیبت، کینہ، حسد، ریاکاری، خیانت اور فحاشی جیسے اخلاقِ رذیلہ کی مذمت پر مشتمل موضوعات کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے، جن کا مطالعہ ایک اچھا مسلمان اور مفید شہری بننے میں ممدّ اور معاون ہوگا۔ اس باب میں سوسائٹی میں بگاڑ اور فساد کا سبب بننے والے عناصر مثلاً مفسدین، باغی اور فتنہ پرور دہشت گردوں کے بارے میں قرآن مجید میں جو احکامات اور وعیدیں آئی ہیں، انہیں تفصیل کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔
اس عظیم انسائیکلو پیڈیا کے قرآنی موضوعات میں خاص طور پر انسانی زندگی کے تحفظ اور انسانی جان کی حرمت پر احکامات سے متعلق مضامین درج کئے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بین المذاہب ہم آہنگی اور انسانی آزادیوں سے متعلق جملہ اَحکامات کا تفصیلی ذکر بھی اس میں موجود ہے۔
اس کے علاوہ حکومتی و سیاسی نظام، نظامِ عدل، اقتصادیات، زندگی کے معاشرتی آداب کا ذکر بھی اس انسائیکلو پیڈیا کا خاصہ ہے۔ نیز اس میں حکومت اور سیاست کے ذیل میں اِسلامی اور دیگر طرز ہائے حکومت کا تقابل، ریاست کی ذمہ داریاں، نظامِ عدل اور اُس کے تقاضے جیسے مضامین شامل کئے گئے ہیں۔ اقتصادی و مالی معاملات میں اصولِ تجارت و صنعت، سُود کی حرمت و مذمت، اِسلامی معیشت میں محصولات (taxes) کا تصور، علم الاعداد و الحساب جیسے کئی مضامین ماہرینِ معاشیات کی توجہ کا مرکز ہیں۔
انسانی فطرت، اس کے حوال و کیفیات، اقوامِ عالم اور اُن کے احوال، قلبِ انسانی کے مختلف اَحوال و کیفیات، دنیوی زندگی کی بے ثباتی، سیر و سیاحت سے متعلقہ موضوعات بھی اس کا حصہ ہیں۔
مذکورہ بالا تمام وہ موضوعات ہیں جو آج کے جدید ذہن کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں، اور جن پر دنیا بھر میں تحقیق ہو رہی ہے، ان تمام علوم و فنون کو قرآن پاک نے آج سے چودہ سو سال پہلے بیان کردیا تھا اور ہمارے اسلاف نے اپنے اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق ان موضوعات سے بھرپور استفادہ کر کے ترقی وعروج کے زینے طے کیے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ان تمام جدید موضوعات کو قرآنی انسائیکلوپیڈیا میں جمع فرما کر جدید تعلیم یافتہ طبقات اور طلبہ و طالبات کے لیے قرآن مجید کے ہزاروں مضامین تک براہِ راست رسائی کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی تمام تر توجہ اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا کے درس ومطالعہ اور اس میں بیان کردہ قرآنی معلومات کے بحرِ معانی میں غوطہ زنی کرنے کی جانب مبذول کریں اور اس ضمن میں اپنی فطری و ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اس سے بیش از بیش استفادہ کریں۔ قرآنی علوم سے اپنے مَن کی دنیا کو روشن و منور کریں۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، فروری 2019ء
تبصرہ