ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

تحریر: صائمہ نور

زندگی امتحان ہے اور دنیا دارالامتحان اور کامیابی کا انحصار ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنے پر منحصر ہے۔ اس امتحان کو ناکام بنانے میں شیطان ہر وقت انسان کی تاک میں رہتا ہے۔ شیطان نفس کا نمائندہ ہے تو روح اپنے مولا کی نمائندہ ہے۔ نفس اپنے تمام ہتھیاروں اور مکاریوں کے ساتھ انسان کو دنیا کی رنگینیوں میں غرق کردینا چاہتا ہے جبکہ روح مادیت پرستی کے اس پنجرے سے آزاد ہوکر مولا کی طرف پرواز کرنا چاہتی ہے۔ نفس و روح کی اس کشمکش سے نبرد آزما ہونے کے لیے اللہ رب العزت نے ہمارے لیے اپنے انبیاء کو مشعل راہ بنایا۔ ان مقدس ہستیوں کی تربیت الوہی نظام کے تحت ہوتی ہے اور ہماری تربیت کا سامان ان مقدس نفوس کے نقش قدم پر عمل پیرا ہونے سے ہے جو ہمیں تربیت کے مختلف مراحل سے گزار کر مولا کے مخلصین بندوں میں شامل ہونا سکھاتے ہیں۔

عبد کی عبدیت کا مقصود کمال یہ ہے کہ اس کا مولا اس سے راضی ہوجائے۔ بندے کی عبدیت اس وقت کمال کو پہنچتی ہے جب وہ اپنے مولا و آقا کی رضا میں اس طرح فنا ہوجائے جیسے مردہ غسال کے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ وہ چاہے تو سیدھا لٹادے تو چاہے تو دائیں کروٹ اور چاہے تو بائیں کروٹ لٹادے۔

جب بندے کا یہ حال ہوتا ہے تو پھر مالک کی رضا میں فنائیت ملتی ہے۔ ذیل میں اہل اللہ کے واقعات کو بیان کیا گیا ہے جو اپنی زندگی کو عبدیت کے سانچے میں ڈھال کر آنے والے لوگوں کے لیے صراطِ مستقیم پر گامزن کرتے ہیں اور جن کی عبدیت ہمارے لیے نمونہ ہے۔

امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام کی عبدیت کا یہ عالم تھا کہ شہادت کی خبر رکھتے ہوئے بھی خود چل کر مقتل کی طرف گئے پورا خانوادہ پیاسا رہا حالانکہ اگر آپ دریائے فرات کو حکم فرمادیتے تو وہ خود آکر قدموں میں بہنا شروع کردیتا آسمان کو حکم فرمادیتے تو وہ بارش برسادیتا۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند تھے وہ اگر ایڑھی ماریں تو چشمہ آب زم زم پھوٹ پڑے اور حضرت امام حسین علیہ السلام تو فرزند مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اگر آپ ایڑھی ماردیتے تو کروٹ چشمے پھوٹ پڑتے۔

آپ کو اور آپ کے خانوادے کو اس حال میں دیکھ کر جبرائیل علیہ السلام امین حاضر خدمت ہوئے اور مدد کے لیے اپنی خدمات پیش کرنا چاہیں مگر آپ نے انکار کردیا پھر جنوں کی ایک جماعت آپ علیہ السلام کے پاس آئی اور عرض گزار ہوئی اے امام حسین علیہ السلام آپ حکم فرما دیں تو یزید کی حکومت کو ملیا میٹ کردیں مگر آپ نے ان کی خدمت لینے سے بھی انکار کرکے یہ بتادیا کہ با اختیار ہوکر بےاختیار رہنا عبدیت ہے۔۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام بن ادھم سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو بندگی کس نے سکھائی تو انہوں نے جواب دیئے میرے ایک غلام نے فرماتے ہیں: میں ایک غلام خرید کر گھر لایا تو میں نے اس سے پوچھا کہ:

  1. آپ کا نام کیا ہے اس نے کہا جس نام سے مرضی بلالیں غلام کا بھی کوئی نام ہوتا ہے۔۔
  2. میں نے پوچھا آپ کھانا کیا کھانا پسند کریں گے تاکہ باورچی سے کہہ کر ویسا ہی کھانا بنوادیا کروں تو اس نے کہا کہ جو چاہیں کھلادیں۔ غلام کی کیا مرضی۔
  3. میں نے پوچھا کہ آپ لباس کون سا پسند کریں گے تو اس نے کہا آپ مالک ہیں جو چاہیں پہنادیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ سن کر گر پڑے چیخ ماری اور رو رو کر کہا کہ یہ میرا غلام ہوکر میری رضا پہ راضی ہے نہ جانے میں اپنے مولا کا ایسا بندہ کب بنوں گا۔ عبدیت کا معنی یہی ہے کہ بندہ اپنا اختیار ختم کردے۔ اپنی ’’میں‘‘ کو پائوں تلے روندھ ڈالے۔

ایک واقعہ حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت رابعہ بصری ایک ہاتھ میں پانی اور دوسرے ہاتھ میں آگے لے جارہی تھیں۔ کسی نے پوچھا بی بی رابعہ ہاتھ میں آگ اور پانی لیے کہاں جارہی ہیں تو آپ نے فرمایا:

پانی سے دوزخ کو بجھانے اور آگ سے جنت کو جلانے جارہی ہوں۔ پوچھنے والے نے کہا کیوں جنت کو جلانے اور دوزخ کو بجھانے جارہی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اسلیے کچھ لوگ عبادت جنت کے شوق سے کرتے ہیں اور کچھ جہنم سے بچنے کے لیے کرتے ہیں۔ جنت کو جلانا اور دوزخ کو بجھانا اس لیے چاہتی ہوں کہ عبادت جنت کے شوق اور جہنم کے خوف کے لیے نہ ہو۔

جو بھی عبادت کرے فقط مولا کی رضا حاصل کرنے کے لیے کرے۔ مولا کے مکھڑے کی طلب میں عبادت کریں۔ ہمیں بھی ایسا ہی بندہ بننا چاہئے۔ ان عظمت کے میناروں کے احوال سے چند کرنیں لے کر ہم بھی مولا کے بندوں کی فہرست میں شامل ہوسکتے ہیں۔

اگر ہم دنیا میں سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہماری زندگی کا مقصد اللہ کی رضا ہونا چاہئے۔ آج ہمارے معاشرے میں عدم اطمینان کی کیفیت اس لیے ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق عبدیت کمزور کرلیا ہے۔ ایک دوسرے سے حسد، بغض، کینہ، نفرت کے جذبات ہم پر ایسے حاوی ہوگئے ہیں کہ ہمیں بندگی کے تقاضے تک یاد نہیں رہے۔ لہذا ہمیں اپنے رب سے تعلق عبدیت مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا فرمایا کرتے کہ اے میرے اللہ اے دلوں کا رخ پھیرنے والے میرے دل کا رخ بھی اپنی طرف پھیر لے۔ اسی طرح جب ہم بھی عجز و انکساری اور احساس ندامت کے ساتھ مولا کی دہلیز پر جھکیں گے اور یہ کہیں گے کہ

اے میرے ہمدم مجھے اب تھام لے
زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں

تو مولا تو منتظر ہی اپنے بندے کی کیفیت کا ہوتا ہے وہ اپنے بندوں کے دلوں پر نگاہ ڈال کر انہیں بندگی و عبدیت کے رازوں سے آشنا کردیتا ہے۔

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے کوئی راہ روے منزل ہی نہیں

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، دسمبر 2018ء

تبصرہ