نورالزماں نوری
حضور سیدنا غوث اعظم الشیخ عبدالقادر جیلانی حسنی و حسینی رحمۃ اللہ علیہ کا ولایت و روحانیت میں مرتبہ و مقام اس قدر بلند ہے کہ آپ مرکز دائرہ قطبیت اور محور مرتبہ غوثیت ہیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مظہر شان نبوت اور مصدر فیضان ولایت بنایا ہے۔ ہر سلسلہ تصوف کے مشائخ نے آپ سے روحانی فیض حاصل کیا اور آپ کے مقام و مرتبہ کی عظمت تسلیم کی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے قطبیت اور مجددیت دونوں میں نقطہ کمال پایا۔
تمام اولیاء کرام اور اہل کشف و وجدان کا اس امر پر اتفاق ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور آئمہ اہل بیت کے بعد آپ کا مقام و مرتبہ مسلمہ ہے۔ گویا امت کے اولیاء و عرفاء میں آپ کا وہی مقام و مرتبہ ہے جو سیدالمرسلین خاتم النبیین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انبیاء و رسل میں ہے۔
غوث اعظم درمیانِ اولیاء
چوں محمد درمیان انبیاء
یعنی
محمد کا رسولوں میں ہے جیسے مرتبہ اعلیٰ
ہے افضل اولیاء میں یونہی رتبہ غوث اعظم کا
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبیوں کے تاجدار اور آپ ولیوں کے تاجدار ہیں۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت بے مثال اور آپ کی ولایت باکمال۔ سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات بے شمار اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کرامات بے شمار۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتیوں کی تعداد سب سے زیادہ اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مریدوں کی تعداد سب سے زیادہ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کمال، خدا کا کمال اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کا کمال، مصطفی کا کمال، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر خدا یاد آتا ہے اور آپ کو دیکھ کر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یاد آتا ہے۔ بقول اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ
غوث اعظم امام التقی والنقی
جلوۂ شانِ قدرت پہ لاکھوں سلام
حضور سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ فیضان محمدیہ اور فیضان علویہ دونوں کے امین و قسیم ہیں۔ آپ کے منہ میں سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ دونوں کے لعاب دہن ڈالنے کا واقعہ معروف ہے جسے علامہ محمود آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں بھی رقم کیا ہے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس عالم روحانیت میں تشریف لائے اور فرمایا: بیٹا وعظ کیا کرو اور لوگوں کو رشد و ہدایت کا سامان مہیا کرو۔ میں نے عرض کی کہ آقا میں عجمی ہوں میری زبان میں وہ فصاحت و بلاغت نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمای: بیٹا منہ کھولو میں نے منہ کھولا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سات مرتبہ لعاب مبارک میرے دہن میں ڈالا۔ لعاب دہن سے میرا سینہ منور ہوگیا اور اسرار و رموز سے میرا سینہ گنجینہ بن گیا۔ بعد میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا! بیٹا منہ کھولو۔ میں نے منہ کھولا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے 6 مرتبہ لعاب دہن ڈالا۔ میں نے پوچھا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سات مرتبہ لعاب دہن ڈالا آپ نے 6 مرتبہ کم کیوں ڈالا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کی وجہ سے۔
اس طرح لعاب مصطفوی اور لعاب مرتضوی سے آپ کے لیے والدین و روحانیت کے سارے ابواب کھل گئے۔ اس فیض رسانی سے سینہ اقدس پر ولایت اور معرفت کے چشمے ابلنے لگے اور زبان اقدس سے معارف اللہ کے چشمے پھوٹنے لگے۔ آپ کے خطابات و مواعظ کی تاثیر کا یہ عالم تھا کہ آپ نے ایک ایک اجتماع اور وعظ میں ستر، ستر ہزار افراد شریک ہوتے۔ خطاب سے لوگوں کے دلوں کی کائنات بدلتی۔ گمراہ لوگ ہدایت کی راہ پر گامزن ہوتے۔ تاثیر کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات ایک ایک مجلس وعظ سے ستر، ستر جنازے اٹھتے۔ یہاں تک کہ امراء و خلفاء اگر غلط کام کرتے تو انہیں بھی برسر منبر درست ہونے کا ارشاد فرماتے اور انہیں انجام بد سے آگاہ کرتے۔ ایک دفعہ ایک حکمران کو ان الفاظ میں عوام پر ظلم سے روکا! اے اظلم الظالمین کل احکم الحاکمین کو کیا جواب دو گے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو بارگاہ الہ سے مقام محبوبیت نصیب تھا۔ آپ مستجاب الدعوات تھے۔ آپ کی دعا سے تقدیر مبرم بھی بدل جاتی تھی۔آپ سے کئی کرامات الہٰی ظہور ہوتیں جو صرف مقام محبوبیت سے متعلق ہیں جس کی چند مثالیں یہ ہیں:
شہر بغداد میں دوران خطاب بارش کو روک لیا۔ آپ کی مجلس میں محدث ابن جوزی پر وجد طاری ہونا۔ آپ کے قم باذنی کہنے سے مردوں کا زندہ ہوجانا۔ دوران درس مریدوں کے جہاز ڈوبنے پر ان کا المدد یا غوث اعظم المدد سے آپ کا جہاز کو گرداب سے نکالنا۔ آپکے ارشاد کے وسیلہ سے شیخ مجدد الف ثانی کی دعا کا قبول ہوکر شیخ طاہر لاہوری کی شفاوت کا سعادت میں بدلنا۔ ہزاروں اولیاء کا آپ کے ارشاد قدمی ھذہ علی رقبہ کل ولی اللہ سن کر اپنی گردنوں کا جھکا دینا۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے فیوضات کا عالم یہ ہے کہ تصوف کے جملہ سلاسل و طرق آپ سے برابر فیض پارہے ہیں۔ ہر سلسلہ و طریقہ کے بانیان واکابرین نے آپ سے فیوضات حاصل ہے۔ سلسلہ چشتیہ کے خواجہ خواجگان سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے بھی آپ سے براہ راست فیض پایا۔ جس وقت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے بغداد کی جامع مسجد میں اذن الہٰی سے یہ ارشاد فرمایا: قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ (میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے) تو اس وقت آپ خراسان کے پہاڑوں پر محو عبادت ہے۔ آپ نے ارشاد تسلیم کرنے میں مراقبہ کی حالت میں اپنا سر جھکایا اور کہا: قدماک علی عینی وراسی (آپ کے دونوں قدم میرے سر پر بھی اور آنکھوں پر بھی) حضور غوث پاک نے خواہ معین الدین چشتی کی اس تواضع پر انہیں فیض سے مالا مال کیا اور آپ کو سلطان الہند بنادیا۔ برصغیر پاک و ہند میں آپ کا سلسلہ کثرت سے پھیلا۔ لاکھوں سینوں کو ایمان کی دولت ملی۔
سلسلہ نقشبندیہ کے بانی غوث الزماں حضرت سیدنا خواجہ بہاؤالدین نقشبند شاہ بخاراس۔ ان کا زمانہ حضور غوث اعظم سے ڈیڑھ دو سو سال بعد کا ہے مگر جب آپ بیٹھتے تھے تو بغداد شریف کی طرف متوجہ ہوتے۔ آپ نے انہیں براہ راست روحانی فیض عطا کیا۔ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں حضور غوث پاک کے جملہ فیوضات کی نہریں رواں ہوگئیں۔ مقام غوث اعظم کے بعد شاہ نقشبند کا یہ معروف زمانہ شعر اس تعلق پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔
بادشاہِ ہر دو عالم شاہ عبدالقادر است
سرورِ اولاد آدم، شاہ عبدالقادر است
آفتاب و ماہتاب و عرش و کرسی و قلم
نور قلب از نور اعظم شاہ عبدالقادر است
سلسلہ سہروردیہ کے بانی و شیخ خواجہ شیخ شہاب الدین سہروردی نے بھی براہ راست فیضان غوث اعظم سے فیض پایا۔ آپ کے چچا شیخ نجیب سہروردی حضور غوث اعظم کی بارگاہ میں حاضری دیا کرتے تھے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی نے چھوٹی عمر میں تمام علوم و فنون، معقولات و منقولات اور دوسرے جملہ علوم پر عبور حاصل کرلیا تھا۔ ایک دفعہ آپ کے چچا آپ کو لے کر بارگاہ غوث اعظم میں لے کر حاضر ہوئے اور کہا میرے بیٹے کو علم منطق و فلسفہ اور کلام سے بڑا شغف ہے میں انہیں معارف و اسرار الہٰیہ کی طرف لانا چاہتا ہوں توجہ فرمائیں۔ حضور غوث اعظم نے ان سے منطق و فلسفہ اور کلام کے کچھ سوالات کئے۔ انہوں نے سبھی کے جواب دے دیئے پھر الشیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا دست مبارک ان کے سینے پر پھیرا پھر سوال کئے تو وہ فلسفہ و کلام بھول گئے سب کچھ مٹ گیا۔ پھر ہاتھ پھیرا اور توجہ کی تو ظاہری علوم و فنون اور معرفت الہٰیہ اور اسرار الہٰیہ کے سارے معارف ان کے سینے پر نقش کردیئے۔ اس طرح سلسلہ سہروردیہ میں فیضان غوثیہ کی نہریں جاری ہوئیں۔ پاک و ہند کے بہت بڑے شیخ غوث بہاؤالدین زکریا ملتانی اسی سلسلہ کے اکابرین میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی مشہور زمانہ منقبت مقام غوثیت کو منکشف کرتی ہے جس میں سے
سگ درگاہ میراں شوچوں خواب قرب ربانی
کہ بر شبراں شرف دارد سگ درگاہ جیلانی
امیرے دستگیرے غوث اعظم قطب ربانی
حبیب سید عالم زہے محبوب سبحانی
اسی طرح سلسلہ رفاعیہ اور دیگر سلاسل و طرق میں بالواسطہ یا بلاواسطہ آپ کے فیض رواں ہے۔ ہر دور میں آپ کی روحانیت سے فیض پانے والے اور زمانے کے احوال بدلنے والے نفوس قدسیہ موجود رہے۔ آپ کا فیض ابدالآباد تک رہے گا۔ اعلیٰ حضرت آپ کی عالمگیر ولایت اور ا س کے فیوضات کے متعلق یوں گویا ہیں:
راج کس شہر میں کرتے نہیں تیرے خدام
باج کس نہر سے لیتا نہیں دریا تیرا
مزرع حیثیت و بخارا و عراق و اجمیر
کون سی کشت یہ برسا نہیں جھالا نہر
تصوف پر آپ کی مشہور کتاب غنیۃ الطالبین میں آپ فرماتے ہیں:
توبہ چار نشانیوں سے پہچانی جاتی ہے:
- زبان غیبت و چغلی اور جھوٹ سے محفوظ ہو۔
- طرف سے دل میں حسد و عداوت نہ رہے برے لوگوں کی صحبت سے قطعی تعلق ہوجائے۔
- ایسی چیزوں پر ہمیشگی کی جائے جن سے توبہ کی طرف زیادہ سے زیادہ رغبت ہو۔
- چوتھی نشانی یہ ہے کہ انسان ہمہ وقت موت کے لیے تیار رہے گناہوں پر شرمسار رہے حق تعالیٰ سے مغفرت مانگتا رہے اور پروردگار عالم کی فرمانبرداری میں سرگرم عمل رہے۔
آج کے دور زوال و انحطاط میں تحریک منہاج القرآن بھی قدوۃ الاولیاء شہزادہ غوث الوریٰ حضرت پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی سرپرستی میں احیاء اسلام اور تجدید و احیاء ملت کی منزل کی طرف گامزن ہیں۔ تحریک منہاج القرآن کے ذریعے پوری دنیا میں فیوضات غوثیہ جاری و ساری ہیں۔ حضور قدوۃ الاولیاء اس تحریک کے روحانی سرپرست ہیں۔ آپ کی توجہات کی برکت ہی سے یہ مشن اور تحریک پوری دنیا میں اقامت دین اور احیاء اسلام کے سارے کام کررہی ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، دسمبر 2018ء
تبصرہ