خواتین کو وراثتی حق دیناحدود اللہ میں سے ہے، انکار کرنے والا گناہ گار ہے
وراثتی حق سے متعلق منعقدہ مذاکرہ میں منہاج القرآن ویمن لیگ کی رہنماؤں کا اظہار خیال
لاہور (19 دسمبر 2018) منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیراہتمام خواتین کے وراثتی حق کے حوالے سے خصوصی مذاکرہ ہوا جس کی صدارت ویمن لیگ کی مرکزی صدر فرح ناز نے کی، مذاکرہ میں خواتین کو وراثتی حق دلوانے کے حوالے سے پنجاب کمیشن برائے حقوق خواتین کے وراثتی حق بہم پہنچانے کی مہم پر انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا، فرح ناز نے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو ان کا وراثتی حق بہم پہنچانا حکم خداوندی ہے اور اس کا انتظام کرنا ریاست کی اسلامی ذمہ داری بھی ہے، آج کل وراثت میں تقسیم کے امور انتہائی متنازعہ شکل اختیار کیے ہوئے ہیں، کسی بھی صاحب اولاد اور صاحب جائیداد شخص کے انتقال کے بعد اس کی وراثت پر نہ ختم ہونے والے جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں اور عدالتوں میں لا تعداد مقدمات وراثت سے متعلق ہیں اور وراثت کے حق کو سلب کرنے کی روش عام ہو چکی ہے بالخصوص خواتین اور کمزوروں کا بدترین استحصال کیا جاتا ہے، اس ضمن میں خواتین کو وراثت کے حق سے محروم کرنے کے لیے حیلے، بہانے تراشے جاتے ہیں، آئیے اس امر کا نصوص قرآنیہ سے جائزہ لیتے ہیں کہ وراثتی تقسیم کے لیے اللہ کی پاک کتاب نے کیا رہنمائی مہیا کی ہے؟ سورہ البقرہ میں اللہ رب العزت کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت قریب آ پہنچے، اگر اس نے کچھ مال چھوڑا ہو تو اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں بھلے طریقے سے وصیت کرے، یہ پرہیز گاروں پر لازم ہے‘‘۔
مذاکرہ میں عائشہ مبشر، سدرہ کرامت، آمنہ بتول نے اظہار خیال کیا۔
فرح ناز نے کہا کہ قرآن مجید نے وراثت کے قضیے کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل کر دیا ہے اور صاحب اولاد اور صاحب جائیداد شخص پر یہ لازم کر دیا ہے کہ وہ وصیت تحریر کرے تاکہ اس کی موت کے بعد اس کے اثاثوں کی منصفانہ تقسیم عمل میں آسکے، ہمارے ہاں جب کوئی صاحب جائیداد سے منصفانہ تقسیم کے حوالے سے وصیت تحریر کرنے کی رائے دے تو اسے برا جانا جاتا ہے اور اس بات پر بے زاری دکھائی جاتی ہے کہ جیتے جی کس قسم کا مشورہ دیا جارہا ہے؟ تو قرآنی آیت مبارکہ کی روشنی میں ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ وصیت تحریر کرنے کا مشورہ دینا درحقیقت اللہ کے حکم پر عمل کرنے کی ترغیب دینا ہے اور یہ ہر گز ہرگز معیوب عمل نہیں ہے بلکہ اسے معیوب تصور کرنا گناہ اورلغزش ہے، یہ حکم خداوندی ہے اور وصیت تحریر کرنے والے کی ایک نشانی پرہیزگار بتائی گئی ہے، کوئی پرہیزگار وصیت تحریر کرنے کے حوالے سے لیت و لعل سے کام نہیں لے سکتا، سورہ المائدہ میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں ’’ اے ایمان والو! جب تم میں سے کسی کی موت آئے تو وصیت کرتے وقت تمہارے درمیان گواہی ( کے لیے) تم میں سے دو عادل شخص ہوں‘‘۔ اب وصیت کی Authenticity کو یقینی بنانے کے لیے ایک اور رہنمائی کی گئی کہ دو منصف مزاج اور عادل اشخاص کو گواہ بھی بنا لو اور صاحب وصیت کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جنہیں گواہ بنائیں ان سے اچھی طرح سوال و جواب کر لیں تاکہ وصیت کے مطابق حق، حق داروں تک پہنچ جائے، اب تیسرا مرحلہ گواہان کی طرف سے حق داروں تک منصفانہ طریقے سے حق پہنچانے کا آتاہے، اس پر بھی اللہ رب العزت نے صراحت کے ساتھ بتا دیا ہے سورہ البقرہ میں آتا ہے کہ ’’پھر جس شخص نے اس (وصیت) کو سننے کے بعد اسے بدل دیا تو اس کا گناہ انہی بدلنے والوں پر ہے، بے شک اللہ بڑا سننے والا اور خوب جاننے والا ہے‘‘اب چوتھا مرحلہ آتا ہے کہ اگر اس بات کا گمان گزرے کہ گواہان ’’ڈنڈی‘‘ مار رہے ہیں اور اس کے شواہد بھی منظر عام پر آجائیں تو منصفانہ حق کی تقسیم کیلئے حکم ربانی ہے کہ ’’پھر اگر اس (بات) کی اطلاع ہو جائے کہ وہ (دونوں) صحیح گواہی چھپانے کے باعث گناہ کے سزاوار ہو گئے ہیں تو ان کی جگہ دو اور (گواہ) ان لوگوں میں سے کھڑے ہو جائیں جن کا حق پہلے دو (گواہوں) نے دبایا ہے (وہ میت کے زیادہ قرابت دار ہوں) ‘‘۔ بدقسمتی سے پاکستانی سوسائٹی کے اندر ایسی سوچ موجود ہے جو لڑکیوں کا وراثتی حق سلب کرتی ہے اور اسے ہضم کرنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے اختیار کیے جاتے ہیں، یہ سراسر ظلم، گناہ اور غلط ہے، اللہ تعالیٰ نے نہ صرف خواتین کو ان کا وراثتی حق دینے کی تنبیہ کی بلکہ تقسیم کے طریقہ کار کو بھی صراحت سے بیان کر دیا، سورہ النساء میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں ’’مردوں کے لیے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے‘‘ اسی طرح تقسیم وراثت کے حوالے سے اللہ رب العزت سورہ النساء میں فرماتے ہیں ’’اور اگر تقسیم وراثت کے موقع پر (غیر وارث) رشتہ دار اور یتیم اور محتاج موجود ہوں تو اس میں سے کچھ انہیں بھی دے دو‘‘ لڑکیوں کے حوالے سے بطور خاص حکم دیا گیا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لیے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے، سورہ النساء کی مذکورہ آیت طویل اور ہر طرح کے ابہام سے پاک ہے اور اس میں وراثتی اصول و ضوابط بیان کیے گئے ہیں، وراثتی حق کو کھانے والوں کیلئے بھی قرآن مجید میں تنبیہ ہے، سورہ النساء میں آتا ہے ’’یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرے اسے وہ بہشتوں میں داخل فرمائے گا اور سورۃ النساء میں ہی ایک موقع پر فرمایا ’’ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرے اور اس کی حدود سے تجاوز کرے اسے وہ دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے ذلت انگیز عذاب ہے، سورہ البقرہ میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’اپنے والدین کے لیے بھی وصیت کرے اور رشتہ داروں کو بھی اپنے اثاثوں کی تقسیم کی وصیت میں شامل کرے‘‘۔
زیر نظر تحریر میں اس بات کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے کہ لڑکیوں، خواتین کو ان کا جائز حق دو، ان کا استحصال نہ کرو، اس کی مزید تفصیل اور تفہیم کیلئے علمائے کرام اور فقہی علماء سے رابطہ کیا جاسکتا ہے تاہم یہ بات براہ راست قرآن سے ثابت ہے کہ خواتین کو ان کا حق دیا جائے۔ اسی میں اللہ کی خوشنودی، سوسائٹی کا امن اور خوشحالی ہے، یہی وہ دین اسلام کے امتیازات اور خصائص ہیں جو انہیں دیگر مذاہب سے بلند تر کرتے ہیں، ہمیں اللہ سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں انصاف کرنے اور حق داروں تک حق پہنچانے کی توفیق عطاء کرے۔
تبصرہ