شاعر اپنے قلم میں سیاہی کی بجائے آنسو بھرتاہے یعنی شاعر اپنے تصورات اور خیالات کو اپنے دکھوں اور غموں میں ڈبو کر اپنے قلم کی نوک سے کاغذ پر پرودیتاہے۔ کہا جاتا ہے کہ فن مصوری دراصل خاموش شاعری،اور شاعری ایک بولتی ہوئی مصوری ہے۔ شاعری دراصل ایک خداداد صلاحیت ہے۔ جس کی مدد سے شاعر اپنے تصورات کو ایک دلکش انداز میں پیش کرتاہے۔ شاعری ایک رویے کا نام ہے۔ ہر شعر کہنے والا شائد شاعر نہ ہواور بہت سے ایسے حساس اور دکھی انسانیت کا دل میں غم رکھنے والے لوگ شعر کہے بغیر بھی دراصل شاعر ہوتے ہیں۔
شاعر ی کی تاریخ گواہ ہے کہ گردشِ دوراں نے بڑے ہی خوبصورت اور نامور شعراء کو جنم دیا جن کو آج تک بھلا یا جاسکا اور نہ ہی رہتی دنیا تک بھلایا جائے گا اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا شمار بلا شبہ ان شعرا ئے سخن میں ہوتا ہے کہ شعر کہنا جن کی سرشت میں تھا،انہوں نے جب شعر کہے تو قارئین عش عش کر اُٹھے، جس مجمعے میں اپنے اشعار سنائے وہاں آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی اور آہ و واہ کا شور بپا ہو گیا۔ آپ کی شاعری کا سحر آج بھی اسی آب و تاب کے ساتھ قائم ہے اور اس کا توڑ کسی طور بھی ممکن نہیں۔
شاعر کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ مختصر الفاظ میں بہت بڑی بات کہہ دیتاہے۔ مثلاً علامہ اقبال کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہے آفاق
علامہ اقبال پچھلی صدی کے نہیں بلکہ انسانی تاریخ کے ایک بہت بڑے مفکر اور شاعر تھے۔ اُن کی عظمت کا اصل راز اس بات میں تھا کہ وہ عاشق رسول تھے۔ اُن کے کلام کی اصلی بنیاد قرآن کریم کی ہدایات اور نبی کریم کے فرمودات تھے۔ قول اور فعل کے تضادات کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ختم کرنے کے لیے علامہ اقبال فرماتے ہیں:
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
علامہ اقبال نے جوان نسل کے حوصلے بلند کرنے کے لیے فرمایا:
تو راہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
پھر انہوں نے مسلمانوں کو اپنی محنت سے اپنا جہاں پیدا کرنے کی تلقین فرمائی اور کہا کہ محنت اور دل لگی سے دنیا کی ہر چیز کوحاصل کی جاسکتاہے۔ جس کیلئے ہم اپنی دنیا کو اپنے ایمان، اعتقاد، تصورات اوراعمال سے خود پیدا کرتے ہیں۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
وہی جہاں ہے ترا جسے تو کرے پیدا
یہ سنگ دخشت نہیں جو تیری نگاہ میں ہیں
علامہ اقبال فرماتے تھے کہ انسان کی عظمت کا راز امارت یاتونگری میں پنہاں نہیں اور نہ ہی انسان کی افضلیت کے معیار کا اصلی پیمانہ اُس کے بڑے عہدے، عالی شان محل، بے پناہ جائیدادیں یا قیمتی پرائیویٹ جہاز اورکاریں ہیں۔ اصل بات تو فقیری اور قلندری ہے جو روحانیت کا درس دیتی ہے اور یہ رتبہ تقویٰ اورکردار کی بلندی سے حاصل ہوتاہے۔ علامہ فرماتے ہیں:
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنا تو ہر ایک انسان کا فرض ہے۔ لیکن غفوروالرحیم کایہ فرمان بھی ہے کہ ’’بندوں کے حقوق اللہ کے حقوق سے بھی زیادہ اہم ہیں‘‘اور اسی چیز کو علامہ اقبال نے بڑی خوبصورتی سے ان الفاظ میں ادا کیا ہے:
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں‘ بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو، خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
آج کے دور میں پاکستان جس بدترین لعنت کا شکار ہے وہ رشوت خوری کی قابل نفرت اور مہلک مرض ہے۔ کہیں بھی کوئی کام رشوت کے بغیر کروانا تقریباً نا ممکن نظر آتا ہے۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ یہ لعنت ایک پٹواری، پولیس کے سپاہی اور کسٹم کے سٹاف ممبرسے لیکر پاکستان کے سب سے بڑے عہدوں تک کینسر کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ رزق حلال ہی انسان کی دائمی زندگی میں اُس کی نجات کا باعث بنے گا۔ اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں کوزے کے اندر سمندر بند کر دیا ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
اے طائر لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال کو اپنے لیے مشعل راہ مانتے تھے۔ اُنہوں نے علامہ کے خواب کو تعبیر میں بدل دیا۔ ابھی ہمیں اپنے پاکستان کی حفاظت کرنی ہے جو ہم ان شاءاللہ ضرور کریں گے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ ہمیں علامہ اقبال کے کلام کو نہ صرف سمجھنا ہو گا بلکہ اُن کے افکار کو عمل جامہ پہنانا ہوگا۔ علامہ اقبال بغیر کسی شک کے ایک بہت بڑے مدبر، عظیم شاعر،بہترین سیاستدان، دور رس سوچ رکھنے والی شخصیت اورسب سے بڑھ کے ایک اعلیٰ ترین انسان تھے۔
علامہ اقبال نوجوانوں کو شاہین سے تشبیہ دیتے تھے۔ انہوں نے شاہین کی علامت کے ذریعے نوجوانوں میں مرد مومن اور مرد کامل کے اوصاف کو اجاگر کیا۔ شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں بلکہ اس پرندے میں اسلامی فکر کی کل خصوصیات پائی گئی ہیں اس پرندے کی خودداری، غیرت مندی، خلوت پسندی، بلند پروازی اور دوربینی کو وہ مسلمان نوجوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اقبال اس بات کے آرزومند تھے کہ جس طرح شاہین قناعت کا قائل نہیں بلکہ حرکت کو اپنی زندگی سمجھتا ہے اسی طرح نوجوانوں کو بھی حرکت میں برکت کو فوقیت دینی چاہئے اس لئے وہ لکھتے ہیں۔
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسمان اور بھی ہیں
مزید لکھتے ہیں
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پرُ دم ہے اگر توں تو نہیں خطرۂ اُفتاد
اگر ہمیں اپنے ملک و قوم کو ترقی کی راہ کی طرف گامزن کرنا ہے تو اقبال کے بتائے ہوئے نسخۂ کیمیا پر عمل پیرا ہونا ہوگااور یہ ہے کہ اقبال آنے والے کل کی بہتری اور کامیابی کیلئے آج محنت کو لازمی قرار دیتے ہیں:
وہ کل کے غم و عیش پہ کچھ حق نہیں رکھتا
جو آج خود افروز و جگر سوز نہیں ہے
وہ قوم نہیں لائق ہنگامۂ فردا
جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے
حکیم الامت علامہ محمد اقبال کاازسرنو مطالعہ کیا جانا چاہیئے کیونکہ آج کے تغیر پذیر معاشرے میں اقبال کی فکر کو نوجوان نسل میں متعارف کرانا ازبس ضروری ہوگیا ہے۔ مسلمانوں کے دلوں میں علامہ اقبال درخشاں ستارے کی طرح آج بھی زندہ ہیں۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
یہ وہ دیدہ ور تھا کہ جس کے پڑ ھائے ہوئے اسباق آج بھی اپنا وہی اثر رکھتے ہیں جو آج سے نصف صدی پہلے رکھتے تھے۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہوگا کہ ’’اقبال آج بھی زندہ تر، تابندہ تر اور پائندہ تر ہے‘‘۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، نومبر 2018ء
تبصرہ