موجودہ دور میں انسان اپنی آخرت کو فراموش کرکے فکر دنیا میں گم ہوکر رہ گیا ہے جس سے اس کے باطن کی دنیا ویران ہوچکی ہیں۔ ان حالات میں ایسے مجاہدہ نفس کی ضرورت ہے جو من کی آلائشوں کو ایسا دھوئے کہ بندہ کی دنیا و آخرت سنور جائے۔ اگر ہم اولیاء و صالحین کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو وہ دن مخلوق خد اکی خدمت میں گزارتے اور رات مصلیٰ پر اللہ کے حضور گریہ و زاری میں بسر کرتے تھے۔ عبادت کی کثرت کے باوجود اہل اللہ خشیت الہٰی سے کانپتے تھے لیکن آج امت مسلمہ نے ان کی تعلیمات کو دو ٹکڑے کردیا ہے اور نیکی کو رسم و رواج کا درجہ دے دیا ہے جس سے نیک و بد میں تمیز ختم ہوچکی ہے جس کے پاس دولت کا انبار ہے وہی متقی و پرہیزگار ہے اس تصور نے دین کی قدریں پامال کردیں ہیں۔ ان خرافات سے نجات حاصل کرنے کے لیے معمولات انبیاء علیہ السلام، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اولیاء عظام کو پھر سے روشناس کروانے کی ضرورت ہے تاکہ ان سیرت مقدسہ سے انوار کی کرنیں مستعار لے کر امت مسلمہ کی ڈوبتی ہوئی نائو کو سنبھالا دیا جاسکے۔ لہذا پھر سے اس تصور کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے جس میں انسان اگر مال و دولت کا مالک ہو تب بھی وہ حضرت عثمان غنی رضوان اللہ علیہ جیسا فقر و تقویٰ رکھتا ہو۔
اس سلسلے میں حضرت زین العابدین کی سیرت، خشیت الہٰی، تقویٰ و گریہ زاری کا نمونہ نظر آتی ہے۔ آپ رضوان اللہ علیہ حضرت امام حسین رضوان اللہ علیہ کے فرزند ہیں۔ آپ رضوان اللہ علیہ کا دل خشیت الہٰی سے ہر وقت لبریز رہتا تھا۔ آپ اکثر خوف الہٰی سے بے ہوش ہوجایا کرتے تھے، ابن عینیہ رضوان اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سیدنا زین العابدین رضوان اللہ علیہ حج کے احرام باندھنے کے بعد جب سواری پر بیٹھے تو خوف سے ان کا رنگ زرد ہوگیا، جسم پر کپکپی طاری ہوگئی۔ زبان سے لبیک نہ نکل سکا۔ لوگوں نے کہا آپ لبیک کیوں نہیں کہتے۔ فرمایا ڈر لگتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ میں لبیک کہوں اور ادھر سے جواب آئے لالبیک تیری حاضری قبول نہیں، لوگوں نے کہا مگر لبیک کہنا ضروری ہے۔ لوگوں کے اصرار پر کہا جیسے ہی زبان سے لبیک نکلا بے ہوش ہوکر گر پڑے۔
آپ ہر روز ایک ہزار رکعت نوافل ادا کرتے تھے۔ وفات تک اس میں فرق نہ آیا۔ اس عبادت کی وجہ سے زین العابدین رضوان اللہ علیہ کے لقب سے مشہور ہوگئے۔
خشیت الہٰی کا یہ عالم تھا کہ نماز کے وقت سارے بدن پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا۔ عبداللہ بن سلیمان رضوان اللہ علیہ کا بیان ہے کہ جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو سارے بدن پر لرزہ طاری ہوجاتا لوگوں نے پوچھا آپ کو نماز کے وقت کیا ہوجاتا ہے۔ آپ نے فرمایا لوگو! تم کیا جانو کس کے حضور میں کھڑا ہوتا ہوں اور کس سے سرگوشی کرتا ہوں۔
محویت کا یہ عالم تھا کہ نماز کی حالت میں کچھ بھی ہوجائے آپ کو خبر نہ ہوتی تھی، ایک مرتبہ آپ سجدہ میں تھے کہ کہیں پاس ہی آگ لگ گئی لوگوں نے آپ کو بھی پکارا، اے ابن رسول! آگ لگ گئی اے ابن رسول! آگ لگ گئی لیکن آپ نے سجدہ سے سر نہ اٹھایا، تاآنکہ آگ بجھ گئی، لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو آگ کی جانب اس قدر بے پرواہ کس چیز نے کردیا تھا فرمایا دوسری آگ نے جو آتش دوزخ ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ، فیاضی اور دریا دلی آپ کا خاص وصف تھا، آپ خدا کی راہ میں بے دریغ دولت لٹاتے تھے۔
عمر میں دو مرتبہ اپنا کل مال و متاع آدھا آدھا خدا کی راہ میں دے دیا۔ پچاس پچاس دینار کی قیمت کا لباس صرف ایک موسم میں پہن کر فروخت کرتے اور اس کی قیمت خیرات کردیتے تھے۔ کسی نے آپ رضوان اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ کون شخص دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ نیک بخت اور سعید ہے؟ تو آپ رضوان اللہ علیہ نے فرمایا وہ شخص کہ جب راضی ہو تو اس کی رضا اسے باطل پر آمادہ نہ کرے اور جب ناراض ہو تو اس کی ناراضگی اسے حق سے نہ نکالے۔ لیکن موجودہ دور میں امت مسلمہ مجموعی طور پر غفلت میں پڑی ہے۔ ظاہری زندگی کی چمک دمک میں گم ہوکر رہ گئی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ.
’’لوگوں کے لیے ان کے حساب کا وقت قریب آ پہنچا مگر وہ غفلت میں (پڑے طاعت سے) منہ پھیرے ہوئے ہیں‘‘۔
(الانبیاء، 21: 1)
اگر اس آیت پر ہمیں یقین آجاتا تو یہ ہمارے دل میں اتر جاتی ہے ہمارا حال یہ ہوتا جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگو جو میں دیکھتا ہوں اور تم بھی دیکھ لیتے اور جو کچھ میں سنتا ہوں تم بھی سن لیتے تو تم کم ہنستے اور ہر وقت روتے رہتے تمہارا یہ حال ہوتا کہ تم شہروں کو چھوڑ دیتے اور جنگلوں میں نکل جاتے۔
دراصل ہم دیکھتے اور سنتے تو ہیں لیکن سمجھتے نہیں اس لیے غافل ہیں۔ پوری کائنات کے لیے قیامت کا کون سا وقت ہے وہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن جس کو موت آگئی اس کی قیامت تو اسی شام شروع ہوگئی چونکہ موت کے بعد تو بدلنے کا موقع ہی نہیں رہے گا۔ اعمال کو درست کرنے کا وقت نہیں ملے گا۔ ہمیں معلوم نہیں کہ زندگی کا کتنا حصہ باقی بچا ہے۔ زندگی بدلنے اور اعمال کو سنوارنے کو موخر نہیں کرنا چاہئے۔ لہذا ہر شخص کو یہ سوچنا چاہئے کہ میرے اعمال اللہ کے حضور پیش ہونے کے قابل نہیں اور قیامت قریب ہے جب ہر شخص اس تصور کو آنکھوں کے سامنے رکھے گا تو بے پروائی ختم ہوجائے گی۔ اسی مقصد کے پیش نظر تحریک منہاج القرآن ملک بھر میں محافل ذکر و شب بیداریوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع کررہی ہے تاکہ گریہ و زاری، خشیت الہٰی ہمارے دلوں میں تقویٰ کو جاگزیں کردے اور معاشرے میں دن بدن پھیلتی معاشرتی برائیوں کو ذکر الہٰی سے ختم کیا جاسکے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے ہمیں آخرت کی فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، نومبر 2018ء
تبصرہ