اقراء مبین
سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے طویل سورت ہے جو مدنی سورت ہے۔ علامہ واحدی نیشا پوری نے لکھا ہے جس کو عکرمہ نے بیان کیا ہے کہ مدینہ میں جو سورت سب سے پہلے نازل ہوئی وہ سورۃ بقرہ ہے۔ سورۃ بقرہ کی 286 آیات، چھ ہزار اسی کلمات اور پچیس ہزار پانچ سو حروف ہیں۔
(اسباب نزول، ص: 11)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ میں تشریف فرما ہوئے تو یہ سورۃ نازل ہوئی۔ یہاں کے لوگ اسلام کے مخالف تھے اور مکہ کے باشندوں سے مذہبی، ذہنی اور عمرانی اعتبار سے مختلف تھے۔
یثرب کے اصلی باشندے گو کہ انصار تھے لیکن قوت و اقتدار یہو دکے ہاتھ میں تھا اور انصار مذہبی اور ذہنی طور پر یہود سے بہت متاثر تھے۔ یہود کیونکہ اہل کتاب تھے اس لیے وحی، رسالت، قیامت، جنت، دوزخ وغیرہ پر ان کا ایمان تھا مگر بدقسمتی سے وہ اپنی قومی برتری کے نشہ میں اس حد تک مست تھے کہ وہ یہ تصور ہی نہیں کرسکتے تھے کہ ان کے علاوہ نبوت کسی اور کو بھی عطا کی جاسکتی ہے۔ عملی اعتبار سے ان کی پستی کی یہ حالت تھی کہ وہ دنیاوی فائدے کے لیے تورات کی واضح آیتوں کا انکار بلکہ ان میں تحریف کرنے میں ذرا جھجک محسو س نہ کرتے۔ ان حالات جب رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں تشریف لائے اور یہود و انصار کو اسلام کی دعوت دی۔
یہود تلملا اٹھے انہیں اپنی عظمت وجلال کے محلات مسمار ہوتے دکھائی دینے لگے۔ ایک نئے رسول کی دعوت کو یہود کیسے قبول کرسکتے تھے؟ ان کے سامنے تو رکاوٹوں کے کئی پہاڑ تھے۔ اب قرآن کا کام یہ تھاکہ ان رکاوٹوں کو دور کرے اور ان فلک بوس چوٹیوں کو پیوند خاک کرے اس لیے مدینہ طیبہ میں جو پہلی سورۃ نازل ہوئی اس کے کئی رکوع یہود کی اصلاح کے لیے وقف ہیں۔
امام نووی بیان کرتے ہیں۔ سورہ بقرہ کے فضائل میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں نواس بن سلیمان کلابی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن قرآن مجید اور اس پر عمل کرنے والوں کو لایا جائے گا، ان کے آگے سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران ہوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سورتوں کی تین مثالیں بیان فرمائیں جن کو میں آج تک نہیں بھولا، فرمایا وہ ایسی ہیں جیسے وہ بادل ہوں یا دو سیاہ سائبان ہوں جن کے درمیان نور ہو، یا صف باندھے ہوئے پرندوں کی دو قطاریں ہوں وہ سورتیں اپنے پڑھنے والوں کی وکالت اور حمایت کریں گی۔ یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایک مخلوق پیدا فرمائے گا جو بادل، سائبان یا پرندوں کی قطاروں کی طرح ہوں گی اور قرآن پڑھنے والوں اور قرآن پر عمل کرنے والوں پر سایہ کریں گی۔ (صحیح مسلم)
حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص رات کو سورۃ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھے گا وہ اس کو کافی ہوں گی۔
(صحیح مسلم، ج: 1، ص: 271)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورۃ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔ (سنن نسائی)
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اکتوبر 2018ء
تبصرہ