مرتبہ: ماریہ عروج
کتاب کا عنوان
زیر مطالعہ کتاب کا عنوان ذکر الہٰی ہے۔ تعلیمات تصوف و طریقت میں صفائے قلب و باطن کے لیے ذکر الہٰی پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ آج بھی باعمل خانوادوں کے ہاں حلقہ ہائے ذکر اسی طرح اہتمام سے قائم ہوتے ہیں کیونکہ دنیائے محبت کا یہ عام قاعدہ ہے کہ جس شے سے محبت ہو اسے اٹھتے بیٹھتے یاد کیا جاتا ہے۔ ذکر ایک اکسیر روحانی نسخہ ہے جو لوح دل کو صاف کرکے اس پر اسم جلالت کا طغرہ سجا سکتا ہے۔ اس کتاب میں ذکر الہٰی کی اہمیت بیان کرنے کے بعد ذکر کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ یہ کتاب اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں ذکر جیسی خوبصورت عبادت کی اصل حقیقت بیان کی گئی ہے۔ عمومی طور پر جب ذکر کا لفظ بولا جاتا ہے تو ذہن میں تسبیح اور اللہ کے ناموں کے ورد کا تاثر پیدا ہوتا ہے لیکن یہاں ذکر کی حقیقت کھول کر بیان کردی گئی ہے کہ صرف زبان سے اللہ کا نام جپنا ذکر نہیں بلکہ اس کے کچھ تقاضے ہیں جن کا ذکر آئندہ سطور میں کیا جائے گا۔
سبب تالیف
اس مشینی دور نے انسان کو کسی قدر جسمانی آرام تو دیا ہے لیکن قلب و روح کو بے چینی، اضطراب اور کشمکش سے ہمکنار کردیا ہے۔ ہر سمت نفسا نفسی کا عالم ہے۔ ہر فرد نفسانی خواہشات کا خوگر اور ہر طبقہ انسانیت کو مادہ پرستی کی دوڑ میں سبقت لے جانے کی فکر دامن گیر ہے۔ ذکر و فکر، آہ سحر گہی اور حلقہ ہائے ذکر کی گرمی سے ہمارے نام نہاد اسلامی معاشرے قطعاً ناآشنا ہیں آج مکتب و مسجد سے لے کر اکثر خانقاہوں تک کی فضائیں باہمی مناقشات اور مسلکی اختلافات کے مضرت رساں ماحول سے مکدر ہیں۔ جہاں سے ذکر الہٰی کی صدائیں بلند ہوا کرتی تھیں وہاں حسن و نغمگی اور محافل رقص و سرور کے نئے یورپی راگ مقبول ہوچکے ہیں۔ تہذیب نوی کی ان ستم ظریفیوں نے مسلمانوں کی انفرادی، قومی اور ملی زندگی کی جملہ جہات بدل کر رکھ دی ہیں۔
اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک افراد ملت اپنا تعلق بندگی اللہ تعالیٰ سے نہ جوڑ لیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ملت اسلامیہ کا اللہ سے تعلق مضبوط کرنے کے لیے کئی خطابات کئے اور ان کی یہ کتاب اسی کاوش کی ایک کڑی ہے۔
دائرہ کار/ اہم نقاط
- قرآن و حدیث میں ذکر الہٰی کی تلقین
- ذکر کی دو صورتیں ہیں: ذکر لسانی اور ذکر قلبی
- محبت الہٰی کی پہلی علامت ذکر الہٰی کی کثرت ہے۔
- ذاکر دل کبھی غفلت کا شکار نہیں ہوتے۔
- ذکر الہٰی سے اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے۔
- ذکر الہٰی کا ایک تقاضا تبتیل فی الذکر ہے۔
- مقام تبتیل میں کاملیت مشاہدہ کا ذریعہ بنتی ہے۔
- مقام مشاہدہ سے گزر کر مقام فنائیت نصیب ہوتا ہے۔
کتاب کا خلاصہ
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی اللہ تعالیٰ سے محبت کی ایک بنیادی شرط بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ.
’’اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اﷲ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘
(البقره، 2: 165)
اس آیت کریمہ کی روشنی میں اللہ کے ساتھ مومن کی بے پناہ محبت کا ہونا ضروری ہے اور محبت الہٰی کے تقاضوں میں پہلا تقاضا اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر ہے۔ قرآن مجید میں ذکر کی تلقین کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَ اذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًا.
’’اور آپ اپنے رب کے نام کا ذِکر کرتے رہیں اور (اپنے قلب و باطن میں) ہر ایک سے ٹوٹ کر اُسی کے ہو رہیں۔‘‘
(المزمل، 73: 8)
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی کثرت ذکر کی ترغیب دی گئی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایاـ:
’’بہترین عمل یہ ہے کہ (تو جب) دنیا کو (بوقت وصال) چھوڑے تو تیری زبان اللہ کے ذکر سے تر ہو۔‘‘
(مسند احمد بن حنبل)
ذکر الہٰی کے تقاضوں میں سے پہلا تقاضا ذکر کی کثرت ہے۔ بندے کا اپنے محبوب حقیقی سے محبت کا تعلق اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک وہ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، کھاتے پیتے اور سوتے جاگتے کروٹ کروٹ اور قدم قدم پر اللہ کا ذکر نہیں کرتا۔ صرف ہر وقت زبان سے اللہ اللہ کا ورد کرنا ہی ذکر میں شمار نہیں ہوتا بلکہ وہ سب معاملات جو اخلاص و تقویٰ پر مبنی ہوں اور درست ہوں ان کے متعلق بات کرنا بالواسطہ اللہ کا ذکر کرنا ہی ہے۔ گویا نیکی کی تلقین کرنا، جائز، حلال اور پاکیزہ کاموں کا حکم دینا، زہد و ورع اور تقویٰ و طہارت کی بات کرنا ذکر الہٰی ہے۔
جب اللہ کا بندہ زبان سے اپنے رب کا ذکر کرتا ہے تو اس کے اثرات براہ راست اس کے تمام جسمانی اعضاء پر ہوتے ہیں۔ بالخصوص قلب انسانی میں محبوب کی یاد گھر کرلیتی ہے۔ جس طرح زبان ہمہ وقت محبوب کا ذکر کرتی ہے اور اس کے ذکر سے غافل نہیں ہوتی اسی طرح قلب انسانی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ محبوب کی یاد میں ہمہ وقت محو رہے اور جب دل یاد الہٰی میں مشغول ہوتو وہ کسی حالت میں غفلت کا شکار نہیں ہوتا۔
جب اس بندے کی کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ اس کا دل کبھی غفلت کا شکار نہیں ہوتا تو اس سے اگلا مرحلہ یہ آتا ہے کہ اس کو محبوب کا نام جپنے سے بھی تسکین ملتی ہے اور اسکا ذکر سننے میں بھی راحت ملتی ہے۔ جب وہ پوری توجہ سے اپنے رب کو پکارتا ہے تو اسے یقینا کیف و سرور اور لذت و طمانیت کی دولت ملتی ہے۔ اس کی اگلی منزل تبتیل فی الذکر ہے۔ تبتیل سے مراد ہے دنیا کی ہر چیز سے کٹ کر صرف اللہ کی طرف متوجہ ہونا اور اسی کو پکارنا۔ ذاکر کو جب یہ مقام مل جاتا ہے تو وہ قربت کی تمام منازل بڑی آسانی سے طے کرلیتا ہے۔ انسان جب محبت میں اس قدر غرق ہوجاتا ہے کہ اس پر ہر وقت اللہ کی یاد غالب رہتی ہے تو اس کے نتیجے میں اسے اگلا مقام مشاہدے کا ملتا ہے۔ مشاہدے کے حوالے سے ذاکرین کی دو اقسام ہیں۔ اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو ذکر کرتے ہیں لیکن بوجوہ ان کی آنکھوں پر پردے پڑے رہتے ہیں، انہیں کچھ نظر نہیں آتا جبکہ اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی نگاہوں سے پردے اٹھادیئے جاتے ہیں اور انہیں حسنِ یار کے صفاتی جلوں کا نظارہ نصیب ہوتا ہے۔
آداب ذکر کا آخری مرحلہ نسیان ہے اس مرحلے کو مقام فنائیت بھی کہتے ہیں۔ مقام فنا ذکر کا اعلیٰ ترین مقام ہے۔ ذکر کرتے کرتے جب اللہ کے سوا ہر شے کا نسیان ہوجائے اور یہ نسیان بڑھتے بڑھتے مقام فنا تک پہنچ جائے تو ذاکر اپنی ہستی کو فنا کردیتا ہے پھر اس کو اپنا خیال بھی نہیں رہتا۔ یہ مقام صرف اہل اللہ اور اہل ذکرو محبت کے ساتھ خاص نہیں بلکہ جسے بھی محبوب کے ساتھ گہرا تعلق ہوگا۔ اسے یہ مقام نصیب ہوتا ہے۔
زیر نظر کتاب ذکر الہٰی اس لحاظ سے اپنے موضوع پر منفرد اور نادر کتاب ہے کہ اس میں ذکر کی فرضیت و اہمیت پر عمومی اور روایتی انداز سے گفتگو کی بجائے درجہ بدرجہ ان مراحل و کیفیات کا ذکر ہے جو ہر ذاکر کو منزل مقصود تک پانے میں پیش آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان تمام آداب ذکر سے روشناس کروائے اور اپنی محبت میں نسیان کامل عطا فرماکر دنیا و مافیہا کے تفکرات سے آزاد کرے کہ یہی اصل عبادت اور روح بندگی ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اکتوبر 2018ء
تبصرہ