دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے

راضیہ نوید

دین اسلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ دینی اور دنیوی تعلیمات کا مجموعہ ہے۔ اسلام جہاں ہمیں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر عبادات کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرتا ہے وہیں سیاست، معاشرت، معاشیات، اخلاقیات اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی بھرپور تعلیمات عطا کرتا ہے۔ بنیادی طور پر ہماری زندگی عبادات و معاملات کا مجموعہ ہے اور ان میں سے کسی ایک میں کمزوری ہمیں فوز و فلاح سے دور کردیتی ہے۔ پندرہ سو سال پر محیط اسلامی تاریخ میں وہی ہستیاں،جماعتیں، تحریکیں اور تنظیمیں کامیاب ٹھہریں جنہوں نے زندگی کے ان دونوں حصوں کو جوڑ کر رکھا کیونکہ

جدا ہو دیں سیاست سے
تو رہ جاتی ہے چنگیزی

زیر نظر مضمون میں تحریک منہاج القرآن کے اسی آفاقی، عالمگیر اور ابدی کردار اور ضرورت کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت سے قبل ادوارِ فتن ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن ادوار کا ذکر فرمایا ان میں چھوٹے فتنوں کا دور، بڑے فتنوں کا دور اور فتنوں کا آخری دور شامل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیان کردہ علامات کے مطابق فتنوں کے پہلے دور کا آغاز ہوچکا ہے جن میں دہشت گردوں کی صورت میں فتنہ خوارج کا ظہور، جھوٹ کا عام ہونا، شراب، بدکاری، کرپشن اور جہالت کا عام ہونا اور فلک بوس عمارتوں کی تعمیر وغیرہ شامل ہیں۔ صادق اور امین منہ چھپاتا پھرتا ہے جبکہ بددیانت، خائن اور بدعنوان لوگ فخر سے سر اونچا کرکے چلتے ہیں۔ مادیت اور دنیا پرستی نے لوگوں کے ذہنوں، سوچوں اور خواہشوں کو جکڑ رکھا ہے۔ حلال اور حرام میں تمیز ختم ہوچکی ہے اور انسان اپنی بے جاہ خواہشات کی تکمیل کے لیے مارا مارا پھر رہا ہے۔ آج ہم ایک ایسے پرفتن دور سے گزر رہے ہیں کہ ایمان کی حفاظت ناممکن نظر آتی ہے۔

ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے زمانے میں ایمان کیسے بچایا جاسکے گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایمان کے بچاؤ کی دو صورتیں بیان فرمائیں۔

  1. ان حملوں سے اسی کا ایمان بچے گا جو غاروں میں چلا جائے گا۔ اونٹ بکریاں پال کر دودھ سے اپنا پیٹ بھرے گا اور عبادت کرے گا یعنی حالات ایسے گھمبیر ہوجائیں گے کہ ایمان، نیکی اور تقویٰ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور سچائی کی راہ پر چلنے میں مددگار نہیں ہوں گے بلکہ سوسائٹی میں رہنا ہی ہمیں ایمان سے محروم کردے گا۔
  2. ان حملوں سے بچاؤ کی دوسری صورت یوں بیان فرمائی کہ میری امت کا ایک طبقہ قیامت تک ان تمام فتنوں کے دور میں حق پر قائم رہنے والوں کا ہوگا، یہ لوگ حق کی دعوت دیں گے، برائی سے لوگوں سے منع کریں گے، حق کے لیے لڑیں اور حق کے لیے مریں گے۔ یہ طبقہ ان لوگوں پر مشتمل ہوگا جو مجھ سے محبت کریں گے، میرے دیدار کی خواہش میں اپنی جان اور مال لٹادیں گے۔ یہ لوگ میرے بھائی ہوں گے وہ مجھ سے اور میں ان سے ملاقات کا طلبگار ہوں گا۔ وہ لوگ فتنوں کے دور میں بھی ایمان پر قائم رہیں گے، قرآن و سنت سے اپنا تعلق جوڑ کر رکھیں گے یہ نہ صرف اپنے ایمان کی حفاظت کریں گے بلکہ دوسروں کے ایمان کی حفاظت بھی کریں گے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایمان کی حفاظت اور فتنوں سے بچاؤ کی جو دوسری صورت بیان فرمائی ہے وہی تحریک منہاج القرآن کے قیام کی بنیاد بنی۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ آج کے دور میں ان فتنوں سے حفاظت اور ایمان کے بچاؤ کے لیے ہم نے 17 اکتوبر 1980ء کو تحریک منہاج القرآن کا آغاز کیا تاکہ لوگ اس مشن کے ساتھ وابستہ ہوکر بدعقیدگی، بداعمالی، بداخلاقی اور بے حیائی سے بچ سکیں۔

اس تحریک کے اہم مقاصد جو اس کے قیام کی وجہ بنے درج ذیل ہیں:

  1. دعوت و تبلیغ حق
  2. اصلاح احوال امت
  3. ترویج و اقامت اسلام
  4. تجدید احیاء دین

اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو امت وسط قرار دیا اور حکم فرمایا کہ تم میں سے ایک جماعت یا طبقہ ضرور ہونا چاہئے جو نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے۔ نیکی کے حکم اور برائی سے منع کرنے کا اطلاق زندگی کے ہر ہر پہلو پر ہے مگر تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی انسانیت نے اعتدال کی راہ ترک کی، دین اور دنیا میں تفریق پیدا کی، عبادات، معاملات اور سیاسیات کو الگ الگ پیمانوں میں تولنے کی کوشش کی تو وہ تباہی سے دوچار ہوئیں۔ عصر حاضر میں بالعموم امت مسلمہ اور بالخصوص پاکستانی قوم مذہبی، سیاسی اور سماجی سطح پر افراط و تفریط کی وجہ سے معاصر چیلنجوں کا سامنا اور مقابلہ کرنے کی استعداد اور صلاحیت سے محروم ہوچکی ہے اس کے ساتھ ساتھ مخاصمتوں، داخلی انتشار اور تنازعات کا بھی شکار ہے۔ سیاسی بالادستی کے بغیر معاشرے کے ہر ہر طبقے اور فرد کو فائدہ پہنچانا ناممکن ہے۔ لہذا دین و سیاست کی تفریق کو ختم کرکے دین اسلام سے رہنمائی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ کامل سے فیض یاب ہوکر امت کے مسائل کے حل کے لیے پاکستان عوامی تحریک کی بنیاد رکھی۔ گویا تحریک منہاج القرآن ایک سمندر ہے جس سے پاکستان عوامی تحریک، منہاج القرآن ویمن لیگ، منہاج القرآن یوتھ لیگ، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ، منہاج القرآن علماء کونسل، منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن، منہاج ایجوکیشن سوسائٹی و دیگر دریا نکل کر معاشرے کو نہ صرف دین کے حقیقی تصور سے آگاہ کررہے ہیں بلکہ فیضِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تقسیم کرنے میں کوشاں ہیں۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ قائد انقلاب کے وژن اور فکر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ تحریک منہاج القرآن کا 38 سالہ سفر بے پناہ کامیابیوں اور کامرانیوں سے مزین ہے۔ کامیابیوں کے یہ تمغے اپنے سینے پہ سجائے معاشرے میں اپنا سر فخر سے اونچا کئے اپنے سفر کو ہمت، حوصلے، یقین اور تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ ہم اپنی منزل مراد کہ اپنے قائد کی عظیم قیادت میں ضرور پہنچیں گے۔ تحریک منہاج القرآن کے تمام رفقاء، کارکنان، وابستگان کو یوم تاسیس مبارک ہو۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اکتوبر 2018ء

تبصرہ